وہ خواب تھا بکھر گیا ، خیال تھا مِلا نہیں
مگر اس دل کو کیا ہوا ، کیوں بجھ گیا پتا نہیں
ہر ایک دن اُداس دن ، تمام شب اُداسیاں
کیا بچھڑ گیا کہ جیسے اب کچھ بچا نہیں
وہ ساتھ تھا تو منزلیں نظر نظر چراغ تھیں
قدم قدم اب سفر میں کوئی لبِ دُعا نہیں
ہم اپنے اس مزاج میں کہیں گھر نہ کر سکے
کسی سے ہم ملے نہیں ، کسی سے دل مِلا نہیں