محسن نقوی وہ بظاہر جو زمانے سے خفا لگتا ہے

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
وہ بظاہر جو زمانے سے خفا لگتا ہے
ہنس کے بولے بھی تو دنیا سے جدا لگتا ہے

اور کچھ دیر نہ بجھنے دے اسے ربِّ سحر!
ڈوبتا چاند مرا دستِ دعا لگتا ہے

جس سے منہ پھیر کے رستے کی ہوا گزری ہے
کسی اجڑے ہوئے آنگن کا دیا لگتا ہے

اب کے ساون میں بھی زردی نہ گئی چہروں کی
ایسے موسم میں تو جنگل بھی ہرا لگتا ہے !!!!

شہر کی بھیڑ میں کھلتے ہیں کہاں اس کے نقوش
آؤ تنہائی میں سوچیں کہ وہ کیا لگتا ہے ؟

منہ چھپائے ہوئے گزرا ہے جو احباب سے آج
اس کی آنکھوں میں کوئی زخم نیا لگتا ہے

اب تو محسن کے تصور میں اتر ربِّ جلیل
اس اداسی میں تو پتھر بھی خدا لگتا ہے
 
Top