وہ ایک اور دنیا تھی !

ناعمہ عزیز

لائبریرین
یہ کون سی جگہ ہے ! یہ کون سا مقام ہے ! میں کون ہوں اور یہ میں کس جگہ ہوں ، اور میں کیوں ہوں یہاں !
ارے ارے یہ عمارت سی کیسی ہے ؟ یہ کون سی مخلوق ہے ؟ اور یہ گڑ گڑا کیوں رہی ہے ، یہ تو کچھ میرے جیسی مخلوق ہی محسوس ہوتی ہے ! پر یہ اور میں ہم سب کون ہیں ۔
ذہن میں یہ سب سوچیں تھیں ، کہ اچانک ایک میرے ہی جیسی مخلوق میرے سامنے آکھڑی ہوئی ! اتنی لمبی سفید داڑھی ! اپنے اردوگرد اتنا لمبا سا کپڑا باندھے وہ مجھے گھور کر دیکھنے لگے، اور میں ان کی نظروں کی تاب نہ لا سکی اور اپنا سر جھکا لیا۔
وہ بزرگ صفت آدمی : ہاں ہاں اب دیکھو ؟ کیا دیکھتی ہو؟
معلوم نہیں جس مقام پر تم کھڑی ہو یہاں تو بڑے بڑوں کی نظریں جھک گئی ؟ تم کیوں سر تان کر اتنا اکڑ کر کھڑی تھی ؟ اور اب کیوں نظریں جھکا لیں ؟
میں : آہ ! یہ کیا ماجرا ہے ! یہ کون ہیں ۔ اور یہ مجھے کیا ہونے لگا ۔ میری ٹانگیں کیوں کانپنے لگیں ۔ اور یہ سب کچھ اتنا تیز کیوں گھوم رہا ہے ؟
ایک زور دار چنخ!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
آہ بچاؤ مجھے ! یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟
اور سب منظر آنکھوں سے اوجھل ہو گئے !

جاری ہے۔
 

تبسم

محفلین
اب مجھے اس کے آگے کے بارے میں جلدی سے لیکھ ئیں ناعمہ میں بہر ہی بےصبر بندی ہوں اب میں کیا کرؤ
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
پھر جو ہوش آیا تو ان ہی بزرگ کو اپنے قریب پایا۔
میں چارپائی پر لیٹی تھی ، وہ فرش پر بیٹھے نجانے کیا کیا پڑھے جارہے تھے۔
اور میری طرف دیکھ کر بولے
بولے ۔ ہاں اٹھ گئی بختاں والیے !
نہیں نہیں ! مجھے بختاں والی نا کہیں ، میں بختاں والی نہیں ہوں ۔
بزرگ: تو پھر ؟ کون ہو تم ؟
میں : یہ تو مجھے بھی نہیں پتا !
بزرگ : ہاں تمھیں کیسے پتا ہو گا ؟ آؤ میں تمھیں بتاتا ہوں !
میں پاس جا کر بیٹھ گئی ۔
بزرگ : تم انسان ہو !
میں : انسان ! کیوں میں انسان کیوں ہوں ؟ کس لئے ہوں ؟ کس نے بنایا مجھے ؟
بزرگ : ہاں یہ سوال ہے کہ تم انسان کیوں ہو اور تمکو انسان کس نے بنایا۔
وہ بڑی بلند ذات ہے ، جس نے تمکو بنایا ،فرشتے اس کی عبادت کو کافی تھے پر اس نے ایک پتلا بنایا ، اس میں روح بھونک ڈالی ! اسے جنت میں رکھا ، جہاں وہ کھائے پئے عیش کرے ، موج کرے ، اس کے نخرے اٹھائے ، پر وہ انسان نافرمانی کر گیا ، اپنے مالک کے حکم کی خلاف ورزی کر دی اس نے ! مالک کو بڑا غصہ آیا ، پر مالک نے اپنے بندے کو معاف کیا ، لیکن اسے جنت سے نکال دیا ! اس کے لئے دنیا بنائی ! اس کے لئے کئی سہولتیں پیدا کیں ، اس کو اپنے نائب کا رتبہ بھی دیا ۔ اور تم بھی اسی کی ایک تخلیق ہو، اسی تخلیق کا ایک سرا ہو۔

میں : ہاں آپ کے بتانے مجھے یاد پڑتا ہے میں کسی ایسی دنیا میں رہتی تھی ! پر جناب عالی ! وہ خود کہاں ہے دکھتا کیوں نہیں ہے مجھے ؟
بزرگ : یہ پوچھو کہ وہ کہاں نہیں ہے ؟ وہ ہر جگہ ہے ، ہر چیز میں ہے ، ہر ذات میں اس کا رنگ چھلکتا ہے ، ہر پھول میں اس کی خوشبو آتی ہے ، ہر پتہ اس کے وجود کا احساس دلاتا ہے ، ہر گزرتا ہوا کا جھونکا یہ بتاتا ہے کہ ہاں وہ یہاں ہے ، وہ وہاں ہے ، وہ ہر جگہ ہے !
میں : پر جناب ! اس نے بندہ بنایا ہی کیوں؟ اس کو لوڑ ہی کیا تھی کہ وہ بندہ بناتا !
سارا منظر غائب !
جاری ہے ۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
بزرگ : بچہ یہ تو پورا ایک نظام ہے ، یہ کائنات اس کی مخلوقات کو اس نے درد دل کے واسطے پیدا کیا ، خیر و شر کو بنایا، خوشی اور غم کو بنایا ، صحیح اور غلط کو بنایا ، اپنے بندے کو اس کے ہر موڑ پر دو راستے دکھائے ، اُسے عقل دی کہ وہ ان دونوں میں انتخاب کر سکے ، پہچان سکے ، پھر اس سے وعدہ کیا کہ جو جو ٹھیک راست پر چلا تو اس کا انعام وہی ہے ، وہی انعام کہ جہاں سے آدم کو نکالا گیا!
میں: بزرگو یہ تو مجھے کوئی بڑی رحیم ہستی لگتی ہے!
بزرگ: ہاں پر جو غلط راستے پر چلا تو بیشک اس وہ برباد بھی ہوا ، تباہ ہوا، رُل گیا، اپنی دنیا اور آخرت کوخراب کیا ۔ اپنے تخلیق کرنے والے کی نظروں میں گرا ، پر اگر وہ پھر بھی سنبھل جائے اور توبہ کرئے تو اس کے سب ایسا ہی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو۔
میں : بزرگو یہ توبہ کیا ہوتی ہے ؟ کیسے کرتے ہیں ؟
بزرگ: دیکھ بچے توبہ مطلب ہے کہ میں آئندہ وہ کام نا کروں جو میں نے پہلے غلط کیا ، جس نے میرے رب کو ناراض کیا ، جس سے میں تباہ و برباد ہوا ،
اور جن تم جان لو کہ تم غلط تھے ، اور تمھیں احساس ہو جائے ، تو اپنے رب کے بارگاہ میں حاضر ہو ، اور عاجزی کے ساتھ اس سے درخواست کرو، مولا مجھ سے غلطی ہو گئی ، بڑی بھول ہوگئی ، میرے گناہوں کو معاف کر دے ، میں آئندہ ان تمام گناہوں سے توبہ کرتا ہوں ، مجھے صراط مستقم کا پر چلنے کی توفیق دے اور یہ توفیق عطا کر کہ تیرے بتائے ہوئے راستے پر مقدم رہ سکوں۔ اور تجھے مایوس نا کروں ، اور تیرے پسندیدہ بندوں میں شامل ہو جاؤں۔
میں: بزرگو میرے ذہن میں ایک سوال بڑی کلبلی مار رہا ہے ۔ زندگی کا مقصد کیا ہے ؟
بزرگ : بچے زندگی کے مقصد نہیں تلاش کرتے ، بس زندہ رہتے ہیں ، دینے والی ذات زندگی کا مقصد خودبخود واضح کر دیتی ہے ۔

جاری ہے ۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
میں : پر ہمیں کیسے پتا لگے کہ ہم پر زندگی کا مقصد واضح ہو گیا ہے ؟
بزرگ : بچہ بس اس کو راضی رکھو ، اس سے محبت کرو، اس کے مخلوق کو آسانیاں دو، اس کی خدمت کرو، جب تم اس کی بنائی مخلوق کی خدمت میں لگ جاتے ہو، تو وہ ذات تمھاری خدمت میں لگ جاتی ہے ، جب تم اس کی مخلوق کی فکر کرنے لگتے ہو تو وہ ذات تمھاری فکر میں لگ جاتی ہے ، وہ فرماتا ہے کہ پس اگر اپنا لیا تو نے اس کو جو میری چاہت ہے ۔ تو میں پوری کر دوں گا وہ بھی جو تیری چاہت ہے ، تو اس کی چاہت کی فکرکرنی چاہئے ، پھر اپنی چاہت سے بندہ خود ہی بے فکرہ ہو جاتا ہے ۔

میں: بزرگو محبت کیسے کریں یہ ہوتی کیا ہے ؟
بزرگ: بچے محبت حسن ہے ، یہ ساری کائنات محبت ہی تو ہے ۔ دیکھ نا پگلی اس نے اپنے محبوب کی واسطے پوری کائنات بنا ڈالی ، محبت بندے کے اندر خود بخود حسن پیدا کر دیتی ہے ، پھر بندہ چاروں طرف حسن ہی حسن دیکھتا ہے ، جاننے اور سمجھنے والوں کے لئے یہ ایک سمندر ہے ، ایک قطرہ ہے جو اپنے اندر قلزم رکھتا ہے ، محبت آسمان کی وسعتوں کو ایک ہی جست میں طے کر سکتی ہے ، جب دل محبت کے جذبے سے دھڑکنے لگتے ہیں تو کائنات کی دھڑکنیں ہم آہنگ ہو جاتی ہیں ۔ محبوب جدا ہو جائے تو بینائی چلی جاتی ہے ، محبوب کی قمیض کی خوشبو سے بینائی لوٹ آتی ہے ، محبت عرش کی سیر کراتی ہے۔ بچہ میں ساری کائنات کی چیزوں کو بھی انسانوں ، پیغمبروں ، ولیوں کی مثالوں بھی سامنے رکھوں تو میں محبت کی تشریح کو شمار نہیں کر سکتا، میری کیا اوقات کے میں اس جذبے کی تعریف میں کچھ کہہ سکوں جو کائنات کی بنیاد بنا۔
جاری ہے ۔
 

نایاب

لائبریرین
"" زندگی کے مقصد نہیں تلاش کرتے ، بس زندہ رہتے ہیں ،زندگی دینے والی ذات زندگی کا مقصد خودبخود واضح کر دیتی ہے ۔""
بلا شبہ بہت اچھی تحریر ہے ۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ آمین
 

یوسف-2

محفلین
@ بچے زندگی کے مقصد نہیں تلاش کرتے ، بس زندہ رہتے ہیں
ناعمہ سسٹر! یہ ایک سیکولراور غیر اسلامی نظریہ حیات ہے۔ دنیا و کائنات کی ہر شئے کا کوئی نہ کوئی بنیادی مقصد ضرور ہے۔ بلا مقصد کوئی شئے تخلیق نہیں کی گئی۔ انسانی زندگی تو اس کائنات کی اہم ترین شئے ہے۔ اس کا بھی کوئی نہ کوئی مقصد تو ہوگا، جسے تلاش کرکے زندگی گزارنا چاہئے۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب یہ زندگی ختم ہوجائے تب ہمیں پتہ چلے کہ جس مقصد کے لئے ہمیں تخلیق کیا گیا تھا، وہ مقصد تو ہم نے ادا نہیں کیا۔ لیکن تب تک دیر ہوچکی ہوگی اور ہم اللہ نہ کرے جہنم کے آگ کا ایندھن بن چکے ہوں گے۔ ہمارے خالق نے ہمارے ”خلق“ کا یہ مقصد بتلایا ہے کہ۔۔۔ وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون ۔۔۔ اور ہم نے جنوں اور انسانوں کو اپنی ”عبادت“ کے سوا کسی اور کام کے لئے پیدا نہیں کیا۔

@وہ فرماتا ہے کہ پس اگر اپنا لیا تو نے اس کو جو میری چاہت ہے ۔ تو میں پوری کر دوں گا وہ بھی جو تیری چاہت ہے
انشائیوں اور علامتی کہانیوں میں بھی اللہ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ کی نسبت ایسی کوئی بات ”منسوب“ نہیں کرنی چاہئے جو مصدقہ نہ ہو۔ یہ جملہ ایک مبینہ ”حدیث قدسی“ سے لیا گیا ہے جو گذشتہ ڈیڑھ عشرے سے نیٹ ورلڈ اور اس سے باہر ”پھیلایا“ گیا ہے۔ جبکہ حقیقت میں یہ کوئی حدیث ہی نہیں ہے۔ اور اسے ”پھیلانے والے“ بھی بوجوہ اس حدیث کے ساتھ اس کا کوئی حوالہ درج نہیں کرتے۔ ایک تحقیق کے مطابق یہ ”حدیث قدسی“ ایک کتاب ”فضائل اعمال“ کے مختلف جگہوں سے مختلف فقروں کو ”جمع“ کرکے ”تشکیل “ دیا گیا ہے۔ لہٰذا ہمیں غیر مستند اور بلا حوالہ نیٹ اور ایس ایم ایس کے ذریعہ موصولہ ”احادیث“ کو کبھی بھی آگے بڑھانے کا دانستہ و غیر دانستہ فریضہ انجام نہیں دینا چاہئے۔

ناعمہ عزیز سسٹر ”دخل در معقولات“ کی معذرت، آپ اپنی تحریر کو جاری رکھئے اور کوشش کیجئے کہ اس خوبصورت تحریر میں کوئی غیر اسلامی فکر در نہ آنے پائے۔ اللہ آپ کا اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
@ بچے زندگی کے مقصد نہیں تلاش کرتے ، بس زندہ رہتے ہیں
ناعمہ سسٹر! یہ ایک سیکولراور غیر اسلامی نظریہ حیات ہے۔ دنیا و کائنات کی ہر شئے کا کوئی نہ کوئی بنیادی مقصد ضرور ہے۔ بلا مقصد کوئی شئے تخلیق نہیں کی گئی۔ انسانی زندگی تو اس کائنات کی اہم ترین شئے ہے۔ اس کا بھی کوئی نہ کوئی مقصد تو ہوگا، جسے تلاش کرکے زندگی گزارنا چاہئے۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب یہ زندگی ختم ہوجائے تب ہمیں پتہ چلے کہ جس مقصد کے لئے ہمیں تخلیق کیا گیا تھا، وہ مقصد تو ہم نے ادا نہیں کیا۔ لیکن تب تک دیر ہوچکی ہوگی اور ہم اللہ نہ کرے جہنم کے آگ کا ایندھن بن چکے ہوں گے۔ ہمارے خالق نے ہمارے ”خلق“ کا یہ مقصد بتلایا ہے کہ۔۔۔ وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون ۔۔۔ اور ہم نے جنوں اور انسانوں کو اپنی ”عبادت“ کے سوا کسی اور کام کے لئے پیدا نہیں کیا۔

@وہ فرماتا ہے کہ پس اگر اپنا لیا تو نے اس کو جو میری چاہت ہے ۔ تو میں پوری کر دوں گا وہ بھی جو تیری چاہت ہے
انشائیوں اور علامتی کہانیوں میں بھی اللہ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ کی نسبت ایسی کوئی بات ”منسوب“ نہیں کرنی چاہئے جو مصدقہ نہ ہو۔ یہ جملہ ایک مبینہ ”حدیث قدسی“ سے لیا گیا ہے جو گذشتہ ڈیڑھ عشرے سے نیٹ ورلڈ اور اس سے باہر ”پھیلایا“ گیا ہے۔ جبکہ حقیقت میں یہ کوئی حدیث ہی نہیں ہے۔ اور اسے ”پھیلانے والے“ بھی بوجوہ اس حدیث کے ساتھ اس کا کوئی حوالہ درج نہیں کرتے۔ ایک تحقیق کے مطابق یہ ”حدیث قدسی“ ایک کتاب ”فضائل اعمال“ کے مختلف جگہوں سے مختلف فقروں کو ”جمع“ کرکے ”تشکیل “ دیا گیا ہے۔ لہٰذا ہمیں غیر مستند اور بلا حوالہ نیٹ اور ایس ایم ایس کے ذریعہ موصولہ ”احادیث“ کو کبھی بھی آگے بڑھانے کا دانستہ و غیر دانستہ فریضہ انجام نہیں دینا چاہئے۔

ناعمہ عزیز سسٹر ”دخل در معقولات“ کی معذرت، آپ اپنی تحریر کو جاری رکھئے اور کوشش کیجئے کہ اس خوبصورت تحریر میں کوئی غیر اسلامی فکر در نہ آنے پائے۔ اللہ آپ کا اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

thank you lala :)
 
Top