وہ انقلاب ؟ --- ڈاکٹر صفدر محمود

الف نظامی

لائبریرین
وہ انقلاب ؟
از ڈاکٹر صفدر محمود
23/ مارچ 1940ء کے دن اسی شہر لاہور میں مسلمانان ہند نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم اور قائداعظم کی سربراہی میں اس مصمم ارادے کا اظہار کیا تھا کہ وہ بہرحال پاکستان لے کر رہیں گے چاہے اس کے لئے کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں۔ برطانوی راج اپنی تمام تر طاقت کے باوجود عوامی سیلاب کا راستہ روک نہ سکا اور جاتے جاتے 14/ اگست 1947ء کو یہ پیغام دے گیا کہ جب عوام کسی بھی اعلیٰ مقصد کے لئے نتائج کے خوف سے آزاد ہو کرگھروں سے نکل آئیں تو پھر ان کے کوہ عزم کو توڑنا ممکن نہیں ہوتا۔ استبدادی اور جمہوری قوتوں میں صرف یہی فرق ہوتا ہے کہ استبدادی قوتیں عوام کے سامنے ہتھیار ڈال کر شکست خوردگی کے احساس میں جلتی رہتی ہیں جبکہ جمہوری قوتیں عوامی مطالبے کے سامنے جھک کر عزت پاتی اور مضبوط ہوتی ہیں۔ اسی شہر لاہور میں جہاں مسلمانان ہند نے 23/ مارچ 1940ء کو قرار داد پاکستان منظور کر کے اپنی منزل کا تعین کیا تھا، اسی شہر لاہور سے جب 69 برس بعد 23/ مارچ سے صرف ایک ہفتہ قبل جب قانون و آئین کی حکمرانی اور غیر فعال ججوں کی بحالی کے لئے میاں نواز شریف کی قیادت میں ماڈل ٹاؤن سے یہ کاروان عزم نکلا تو کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس کا انجام کیا ہو گا کیونکہ حکومت نے سڑکوں، گلیوں اور راہوں کو سیل کر رکھا تھا اور ہر طرف رائفل بردار پولیس عوامی عزم کی راہ روکنے کے لئے کھڑی تھی۔ کارواں چلا تو ہزاروں کا تھا لیکن جوں جوں یہ کارواں آگے بڑھا اور رکاوٹوں کو قوت بازو سے ہٹاتا چلتا گیا تو لوگ گلیوں محلوں اور گھروں سے نکل کر اس میں شامل ہوتے گئے۔ دو تین میل کا فاصلہ گھنٹوں میں طے کرنے کے بعد نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ چاروں طرف انسانی سیلاب تھا جو امڈا چلا آ رہا تھا، اس انسانی سیلاب میں بوڑھے، بچے، نوجوان اور خواتن سبھی شامل تھے اور وہ پولیس فورس جو اس کا راستہ روکنے کے لئے تعینات کی گئی تھی قومی درد اور جذبے سے متاثر ہو کر اس میں شامل ہو چکی تھی۔ میں لوگوں کا جوش و جذبہ، خلوص، ایثار اور عزم دیکھ کر تحریک پاکستان کے جوش و جذبے کو یاد کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اگر برطانوی راج اپنی تمام تر قوت کے باوجود کارواں آزادی کا راستہ نہیں روک سکا تھا تو موجودہ سیاسی حکومت اس کا راستہ کیسے روکے گی؟ اسی یقین کے ساتھ میں انہی کالموں میں بار بار لکھتا رہا کہ وکلاء تحریک کا عظیم کارنامہ عوام میں آزاد عدلیہ اور قانون و آئین کی حکمرانی کا شعور اور امنگ پیدا کرنا ہے، نظریہ ضرورت کو دفن کرنے کا عزم پروان چڑھانا ہے اور اب جبکہ عوام میں اس شعور کی لہر پیدا ہو چکی ہے تو اس کا راستہ روکنا ممکن نہیں ہو گا۔ میں بار بار لکھتا رہا کہ افتخار چودھری اور ان کے ساتھی ضرور بحال ہوں گے اور یہ قانون کی حکمرانی کی منزل کی جانب پہلا قدم ہو گا اس لئے یاد رکھئے کہ ابھی ہم نے صرف منزل کی جانب قدم بڑھایا ہے جبکہ منزل ابھی دور ہے اور منزل ہے موجودہ پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان بنانا … قائداعظم کا تصور پاکستان کیا تھا؟ ایسا پاکستان جس کے نظام کی بنیاد اسلامی، جمہوری اور ماڈرن اصولوں پر استوار کی جائے، جہاں انسانی برابری اور معاشی عدل ہو، جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور قانون کی نظر میں امیر، غریب، طاقتور، کمزور، با اثر اور بے اثر سب برابر ہوں، جہاں سب کو بنیادی حقوق حاصل ہوں، جہاں عدلیہ آزاد اور حکمران عوام کے سامنے جوابدہ ہوں، جہاں سفارش، رشوت، اقرباء پروری، سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی نہ ہو اور جہاں جاگیرداری اور فیوڈل ازم کا خاتمہ کر دیا جائے۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ ہمارا سفر طویل ہے اور منزل دور ہے لیکن اگر ہم اسی عزم اور مستقل مزاجی سے بڑھتے رہیں تو انشاء اللہ ایک دن منزل پر پہنچ جائیں گے اور عالمی برادری میں باوقار مقام حاصل کر لیں گے۔ یقین رکھئے کہ قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی مکمل آزادی اور احساب کا پختہ نظام وضع کئے بغیر نہ ہم اندرونی طور پر مضبوط و متحد ہو سکتے ہیں اور نہ ہی عالمی سطح پر عزت و وقار کما سکتے ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل تحریک آزادی کی روز افزوں مقبولیت کو دیکھ کر قائداعظم کہا کرتے تھے کہ اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ میں نے وہ بات کہہ دی جو مسلمانوں کے دل میں تھی چنانچہ مجھے ان کی حمائت حاصل ہو گئی۔ نواز شریف نے بھی اس تحریک کی کامیابی کے لئے آخری ضرب اسی اصول کے تحت لگائی اور وہ عوامی آرزوؤں کے اس پرچم کو بلند کر کے گھر سے نکل پڑے جو آرزوئیں عوام کے دلوں میں تڑپ رہی تھیں۔ میرے نزدیک اس میں نہ کسی سیاستدان کی فتح ہوئی اور نہ کسی حکمران کی شکست کیونکہ جمہوری سیاست میں فتح و شکست جاگیردارانہ سوچ کا حصہ ہوتی ہیں جس کا مظاہرہ صدر زرداری صاحب کر رہے تھے جبکہ جمہوریت میں عوامی مطالبے کے سامنے سر جھکانا اور وسیع ظرف کا مظاہرہ کرنا شکست نہیں بلکہ فتح کی علامتیں ہوتی ہیں اور یہ علامتیں ہی نظام کو تقویت دیتی ہیں۔
خوشی کے اس موقع پر بھی بہت سے خدشات ذہن کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ اس بحران کے دوران فوج اور امریکہ کا عمل دخل بہت بڑھ گیا ہے لیکن حوصلہ افزاء پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی سول سوسائٹی بیدار ہو چکی ہے اور اس میں جدوجہد کا جذبہ ٹھاٹھیں مار رہا ہے جو ان دونوں کے راستے میں رکاوٹ بنا رہے گا۔ دیکھنا ابھی یہ بھی ہے کہ کیا حکومتی اعلان سے عدلیہ صحیح معنوں میں آزاد ہوتی ہے؟ سیاسی وفاداری کی بنیاد پر بنائے گئے ججوں کا کیا ہوتا ہے اور آئندہ میرٹ پر ججوں کی تعیناتی کے لئے کیا فول پروف انتظام وضع کیا جاتا ہے؟ شریف برادران کی نا اہلی اور پنجاب میں گورنر راج کا خاتمہ تو انشاء اللہ جلد ہی ہو جائے گا لیکن آئندہ مرکز اور صوبوں میں شراکت اقتدار اور سیاسی ہم آہنگی کے لئے کیا اقدامات کئے جاتے ہیں؟ سترہویں، آئینی ترمیم کب ختم ہوتی ہے اور صوبائیت کے انگاروں کو کیسے بجھایا جاتا ہے اور پھر حکومت اپنی تمام توانائیوں کو مرکوز کر کے کس طرح بدامنی، لاقانونیت، محاذ آرائی اور دہشت گردی پر قابو پاتی ہے؟ کیونکہ ملک میں امن بحال کئے بغیر نہ ترقی کا عمل جاری رہ سکتا ہے اور نہ ہی غربت کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ ذاتی طور پر میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ مسائل اتنے گھمبیر ہیں کہ ان کے حل کے لئے قومی سوچ کو تشکیل دینا ضروری ہے اور قومی سوچ پیدا کرنے کے لئے قومی طرز حکومت ضروری ہے جس میں ساری جماعتیں مل کر حکمت عملی بنائیں اور ملک کو موجودہ دلدل سے نکالیں۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی میں قومی مشاورت پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ میری دعا ہے کہ وہ اس صلاحیت کا فائدہ اٹھا کر قومی ہم آہنگی، باہمی مشاورت اور مشترکہ حکمت عملی وضع کریں اور ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر آگے بڑھائیں۔ بات دور نکل گئی مجھے ابھی اس موضوع پر بہت کچھ کہنا ہے لیکن فی الحال اس فتح و مسرت کے موقع پر وکلاء تحریک کی جزوی کامیابی پر میں وکلاء، میڈیا، سیاستدانوں، سیاسی کارکنوں، سول سوسائٹی، بنیادی حقوق کی این جی اوز اور جذبے سے سرشار عوام کو مبارکباد دیتا ہوں جن کی جدوجہد نئی صبح کے طلوع کا باعث بنی۔ ہمارے ملک میں ہماری آنکھوں کے سامنے بہت سی تحریکیں چلیں جو اپنے مقاصد حاصل نہ کر سکیں۔ یہ تحریک اس لحاظ سے خوش قسمت تھی کہ اسے وکلاء کا ایثار، اعتزاز احسن، علی احمد کرد اور دوسرے وکلاء لیڈران کی مخلصانہ مستقل مزاجی، میاں نواز شریف کا تدبر و قائدانہ بصیرت اور یوسف رضا گیلانی کی فراست ملی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسے افتخار چودھری اور ان کے ساتھی ججوں کا عزم ملا جس کے بغیر ہمیں 16/ مارچ 2009ء کی صبح دیکھنی نصیب نہ ہوتی۔ دوستو! اپنے خواب اور جذبے زندہ و سلامت رکھو کہ خواب ہی حقیقت بنا کرتے ہیں اور اگر یہ جذبے سلامت رہے تو انشاء اللہ ہم اپنی منزل ضرور پا لیں گے اور وہ انقلاب آ کر رہے گا جس کا ہمیں نصف صدی سے انتظار ہے۔ باقی پھر انشاء اللہ
 

arifkarim

معطل
جدید دور میں 4 طاقتیں ایک جمہوری ملک کو چلاتی ہیں:
1۔ گورنمنٹ2۔ پارلیمنٹ3۔ عدلیہ4۔میڈیا
جبکہ ہمارے ملک میں جب چاہے افواج پاکستان اپنا لُچ تلتی ہیں تو کبھی گورنمنٹ پارلیمنٹ پر ہلہ بول دیتی ہے۔ میڈیا اور عدلیہ کو طاقت کے زور پر معزول کرنا اور کئے رکھنا تو ہمنے آمریت اور جمہوری دونوں ادوار میں دیکھ لیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمارا آئین انتہائی ناقص اور نامکمل ہے۔ نیز ہمارے قومی سرکاری ادارے بھی اپنی غداریوں میں بہت بڑھے ہوئے ہیں۔ کرپشن اور بد عنوانی کی روک تھام کیلئے پورے نظام کی تبدیلی ضروری ہے!
 
Top