وہ ابھی آزمائے جاتے ہیں از روحانی بابا

جام خود چل کے آئے جاتے ہیں
مجھ کو واعظ پلائے جاتے ہیں
اُس نے دیکھا جو حال تو میرا
وہ یونہی مسکرائے جاتے ہیں
کیا خبر تھی تمہارے آنے کی!
دیپ یونہی جلائے جاتے ہیں
وہ کسی خاص دھن میں گاتے ہیں
آگ سی اک لگائے جاتے ہیں
کوئی تو بات ہے اُن آنکھوں میں
کہ وہ دل میں سمائے جاتے ہیں
ہم کو بھی لوٹنا ہے بالآخر
دن ڈھلے گا تو سائے جاتے ہیں
پیار سے جو بنائے جاتے ہیں
وہ محل بھی گرائے جاتے ہیں
اُس نے دیکھا تھا مست نظروں سے
جام جیسے چڑھائے جاتے ہیں
آج کل تشنگی کا عالم ہے
جیسے صحرا میں پائے جاتے ہیں
ایسے ہاتھوں کو چومنا چاہوں
جن سے بت بنائے جاتے ہیں
میں تو خود ہار بھی گیا بابا
وہ ابھی آزمائے جاتے ہیں
 
Top