وہی گردشیں وہی پیچ و خم ترے بعد بھی

Qaisar Aziz

محفلین
وہی گردشیں وہی پیچ و خم ترے بعد بھی
وہی حوصلے مرے دم بدم ترے بعد بھی

ترے ساتھ تھی تری ہر جفا مجھے معتبر
تیرے سارے غم مجھے محترم ترے بعد بھی

ترے غم سے ہے مری ہر خوشی میں وقار سا
مرے حال پر ہیں ترے کرم ترے بعد بھی

بڑے مضطرب مرے راستے ترے بعد، پر
بڑے پُرسکوں ہیں مرے قدم ترے بعد بھی

میرے ساتھ ہے میری ہر خوشی تیری منتظر
تیری منتظر مری چشمِ نم ترے بعد بھی

ترے ساتھ تھی مری دسترس میں جو روشنی
فقط ایک پل کبھی صبح دم ترے بعد بھی

تجھے جانِ غم جو کہا کبھی تو غلط کہا
مری زندگی کے جواں ہیں غم ترے بعد بھی

تجھے پاسِ عہدِ وفا رہا مرے پاس کب
مجھے جاں سے بڑھ کے ترا بھرم ترے بعد بھی

مرے بعد کتنے ہی رُوپ تُو نے بدل لیے
میں وہی ہوں اب بھی تری قسم ترے بعد بھی
تُو کسی اور کے قالبِ آرزو میں تو ڈھل گیا
میں نہ ہو سکا کبھی خود میں ضم ترے بعد بھی

یہی عشق تھا مری زندگی ترے پیشتر
یہی عاشقی، مری زندگی! ترے بعد بھی

تری آہٹوں کا گداز تھا مرا ہم سفر
یہی اِک گماں مرا ہم قدم ترے بعد بھی

تُو چلا گیا سبھی قہقہوں کو سمیٹ کر
مرے پاس ہے مرا ظرفِ غم ترے بعد بھی

سید مبارک شاہ
 
Top