وفا کے جس میں سو پہلو ہوں کی اُس نے جفا ایسی - مولوی سید محمد کاظم حبیب موسوی لکھنوی

حسان خان

لائبریرین
وفا کے جس میں سو پہلو ہوں کی اُس نے جفا ایسی
مری اِس نارسائی پر بھی ہے قسمت رسا ایسی

ہجومِ ناامیدی میں امیدیں ہو گئیں پیدا
خدا کے فضل سے پیش آئیں شکلیں بارہا ایسی

جوابِ صاف سن کر پھر کہوں کچھ غیر ممکن ہے
کسی سے آج تک میں نے نہیں کی التجا ایسی

جوانی اور شبِ فرقت کی بے تابی نہ بھولے گی
کرے پھر دل کی وہ حالت نہیں کوئی بلا ایسی

ملا اب تک ہمیں گاہک نہ کوئی جنسِ معنی کا
رسا گو ہے طبیعت پر ہے قسمت نارسا ایسی

اِسے پہنے ہوئے دیکھا ہے اکثر ہم نے زاہد کو
بھلا لایا کہاں سے محترم ساقی عبا ایسی

ہمیشہ بھولتے رہتے ہیں وہ روز آنے والوں کو
نہیں دیکھی طبیعت آج تک دیر آشنا ایسی

ثمر ہے اُن کی ہر بے اعتنائی میری الفت کا
عموماً ملنے چلنے میں نہیں ہرگز ادا ایسی

نہیں واقف وہ دلداری سے ہم دل دے کے بیٹھے ہیں
ہے اُن کی ابتدا ایسی ہماری انتہا ایسی

ہیں ارماں آتے جاتے رات دن ہے کشمکش دل میں
زمانے میں نہیں دیکھی کوئی مہماں سرا ایسی

مریں یا جاں بری ہو جائے فرقت کی کشاکش سے
بتا دے کوئی صورت ہم کو بھی اے پُرجفا ایسی

نشانہ بن گئے آفاق میں تیرِ ملامت کا
بھلا کہیے تو کچھ ہم سے ہوئی تھی کیا خطا ایسی

گلِ خنداں چلے نم دیدہ ہو کر بچ گئے کانٹے
زمانے کی یکایک دیکھیے پلٹی ہوا ایسی

الم کی طرح عشرت بھی تعجب خیز ہوتی ہے
کہاں تھیں غم کی شکلیں اے دلِ صبر آزما ایسی

حبیب اک روز تم دیکھو گے انجام اپنی محنت کا
گماں جس کا نہیں ہے ہو گی تائیدِ خدا ایسی

(مولوی سید محمد کاظم حبیب موسوی لکھنوی)
 
Top