مصطفیٰ زیدی وفا کیسی؟ ۔ مصطفیٰ زیدی

فرخ منظور

لائبریرین
وفا کیسی ؟

آج وہ آخری تصویر جلا دی ہم نے

جِس سے اُس شہر کے پُھولوں کی مہک آتی تھی
جس سے بےنور خیالوں پہ چمک آتی تھی

کعبۂ رحمتِ اصنام تھا جو مدت سے
آج اُس قصر کی زنجیر ہِلا دی ہم نے

آگ ،کاغذ کے چمکتے ہوئے سینے پہ بڑھی
خواب کی لہر میں بہتے ہوئے آئے ساحل
مُسکراتے ہوئے ہونٹوں کا سُلگتا ہؤا کرب
سرسراتے ہوئے لمحوں کے دھڑکتے ہوئے دِل
جگمگاتے ہوئے آویزوں کی مبہم فریاد
دشت ِ غربت میں کسی حجلہ نشیں کا محمل

ایک دِن رُوح کا ہر تار صدا دیتا تھا
کاش ہم بِک کے بھی اس جنسِ گراں کو پالیں
خود بھی کھوجائیں پر اُس رمزِ نِہاں کو پالیں
عقل اس حور کے چہرے کی لکیروں کو اگر
آمٹاتی تھی تو دل اور بنا دیتا تھا

اور اب یاد کہ اُس آخری پَیکر کا طِلِسْم
قِصّۂ رفتہ بنا زیست کی ماتوں سے ہوا
دور اک کھیت پہ بادل کا ذرا سا ٹکڑا
دھوپ کا ڈھیر ہوا دھوپ کے ہاتھوں سے ہوا
اُس کا پیار اُس کا بدن اُس کا مہکتا ہوا رُوپ
آگ کی نذر ہوا اور اِنہی باتوں سے ہُوا

(مصطفیٰ زیدی از مَوج مِری صدف صدف )
 
Top