وعدہ

فہیم

لائبریرین
وعدہ

تپتا ہوا ریگستان تھا۔ ایسے میں ایک مسافر اونٹ پر سوار تیزی سے سفر کررہا تھا۔ اسے کسی نخلستان کی تلاش تھی۔ جہاں وہ کچھ دیر آرام کرسکتا۔
پھر اسے دور کجھوروں کے جھنڈ دکھائی دینے لگے اس نے اونٹ کی رفتار بڑھادی۔
جلد ہی وہ نخلستان میں موجود تھا۔ اس نے وہاں موجود چشمے کے ٹھنڈے پانی سے ہاتھ منہ دھویا پانی پیا اور درختوں کی چھاؤں میں سستانے کےلیے لیٹ گیا۔
اونٹ کو اس نے بٹھا کر گھٹنہ باندھ دیا۔
درختوں کی چھاؤں کا کچھ ایسا اثر ہوا کہ اس کی آنکھ لگ گئی اور وہ کچھ ہی دیر میں گہری نیند سوگیا۔
کچھ دیر بعد اونٹ نے اٹھنے کی کوشش کی تو اس کا گھٹنہ کھل گیا۔ اور وہ درختوں کے پتے کھانے لگا۔
اس نخلستان کا مالک ایک بوڑھا آدمی تھا جب اس نے اونٹ کو پتے کھانے دیکھا تو اس نے اس کے مالک کو دور سے ہی آوازیں دیں۔ لیکن مسافر جو کہ گہری نیند سوچکا تھا اس کی آنکھ نہیں کھلی۔
بوڑھے نے اونٹ کو اس کے ارادے سے باز رکھنے کے لیے دور سے ہی ایک پتھر اٹھا کر اونٹ کے دے مارا جو کے اونٹ کے سر پر لگا اوریہ ضرب ایسی کاری ثابت ہوئی کہ اونٹ وہیں ڈھیر ہوگیا۔
جب مسافر کی آنکھ کھلی اور اس نے اپنے اونٹ کو مرے ہوئےپایا تو وہ آگ بگولا ہوگیا۔
اس کو وہ بڑھا نخلستان کو مالک دکھائی دیا۔
اس نے اس سے غصے میں پوچھا کہ میرے اونٹ کو کس نے مارا ہے۔ بوڑھے کے منہ سے ابھی صرف یہی الفاظ نکلے تھے کہ اتفاق سے یہ حرکت میرے سے سرزد ہوئی ہے کہ مسافر نے بڑھ کر اس کا گلا پکڑ لیا اور تب تک نہ چھوڑا جب تک روح نے بوڑھے کا جسم نہیں چھوڑدیا۔
جب مسافر کو یہ احساس ہوا کہ بوڑھا مر چکا ہے تو وہ بوکھلا گیا۔ اور سوچنے لگا کہ یہ میں نے کیا کردیا ایک آدمی کی جان لے لی۔ ابھی وہ اسی طرح پریشانی کے عالم میں کھڑا تھا کہ بوڑھے کے دو نوجوان ادھر آگئے یہ دونوں بوڑھے کے بیٹے تھے۔
جب انھوں نے انے باپ کو مردہ پایا اور قریب ہی ایک شخص کو کھڑے دیکھا تو انھوں نے اسے پکڑلیا اور اپنے باپ کے مرنے کی وجہ پوچھی۔
مسافر نے سارا قصہ حرف بہ حرف سچ کہہ دیا۔
بوڑھے کے بیٹے اسے پکڑ کر قاضی کے سامنے لے آئے۔
قاضی نے سارا معاملہ سنا اور قانون کے مطابق خون کا بدلہ خون کے حساب سے مسافر کو سزائے موت سنادی۔
جب مسافر سے اس کی آخری خواہش پوچھی گئی۔ تو اس نے کہا کہ میرے اوپر ایک یہودی کا قرض ہے میں چاہتا ہوں کہ میں مرنے سے پہلے وہ قرض چکا دوں تاکہ مرنے کے بعد مجھے اطمینان رہ سکے۔
اس پر قاضی نے کہا کہ اگر کوئی شخص تمہاری ضمانت دیتا ہے کہ تم مقررہ وقت پر واپس آجاؤ گے تو تمہیں جانے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔
مسافر نے پرامید نظروں سے مجمع کی طرف دیکھا۔ لیکن کوئی بھی ایسا نہ دکھائی دیا جو ایک انجان آدمی کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اس کی ضمانت لیتا۔
اچانک مجمعے میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا(ان کا نام مجھے یاد نہیں رہا)اور اس نے کہا کہ میں اس شخص کی ضمانت لیتا ہوں۔
لوگوں نے اس سے کہا کہ کیا پاگل ہوئے ہو جو ایک انجان آدمی کے خاطر اپنی جان خطرے میں ڈال رہے ہو۔ اس پر اس آدمی نے کہا۔ بھلے یہ شخص واپس نہ آئے لیکن مجھے یہ منظور نہیں کہ ایک مسلمان اس طرح مرجائے کہ اس کو اس کی آخری خواہش بھی پوری نہ کرنے کا موقع دیا جائے۔
چناچہ اس شخص نے مسافر کی ضمانت لے لی۔ اور ایک وقت مقرر ہوگیا جس پر مسافر کو واپس آنا تھا۔ اگر وہ مقررہ وقت پر واپس نہ آتا تو اس کی جگہ ضمانت لینے والے کو موت کی سزا دے دی جاتی۔
مسافر اس شخص کا شکریہ ادا کرکے روانہ ہوگیا۔ گھر پہنچ کر اس نے اپنا قرضہ ادا کیا اور بیوی سےکہا اچھا اب مجھے جانا ہے۔
اس پر بیوی نے کہا کہ کیا پاگل ہوئے ہو اب بھلا وہاں سے تمہیں کون یہاں پکڑنے آئے گا۔ اس پر مسافر نے اپنی بیوی سے کہا تو کیا چاہتی ہے کہ میں بروزِ قیامت اس شخص کے جو کہ میرا محسن ہے سامنے رسوا ہوں۔ تو چاہے کچھ بھی کہیے میں واپس ضرور جاؤں گا۔ بیوی نے بہت جاہا کہ وہ واپس نہ جائےلیکن اس نے ایک نہ سنی اور ایک تیز رفتار سانڈنی لے کر واپس چل پڑا۔

پوری میدان لوگوں سے پر تھا۔ ایک طرف قاضی صاحب بیھٹے تھے۔ آج مسافر کو دی ہوئی مہلت کا آخری دن تھا۔ اور وعدے کے مطابق آج مسافر کو مقررہ وقت پر واپس آنا تھا۔ ورنہ اس شخص کو جس نے مسافر کی ضمانت دی تھی موت کی سزا دے دی جاتی۔
وقت تیزی سے گزرتا جارہا تھا اور ہر کسی کو یقین تھا کہ مسافرواپس نہیں آئے گا اور اس کی جگہ ضمانت لینے والے شخص کا سر قلم کردیا جائے گا۔
آکر کار مقررہ وقت آن پہنچا لیکن مسافر کا کوئی پتہ نہیں تھا۔ قاضی نے ضمانت لینے والے شخص کی طرف دیکھا اس کی چہرے پر سکون نہ خوف و ڈر کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ اس نے کہا میں تیار ہوں یہ کہہ کر وہ اس نے اپنا سر جلاد کے سامنے رکھ دیا۔
جلاد نے اپنا کلہاڑا اٹھایا ہی تھا کہ اچانک لوگوں میں شور بلند ہوا کہ رکو وہ دیکھو وہ دھول اڑ رہی ہے۔
لگتا ہے کوئی آرہا ہے۔
قاضی نے ہاتھ کے اشارے سے جلاد کو منع کردیا۔
اچانک دھول میں لوگوں کو ایک سانڈنی دکھائی دی جس پر کوئی سوار تھا قریب آنے پر پتہ چلا کہ وہ وہی مسافر تھا۔
لوگوں حیرت سے اس کو دیکھ رہے تھے۔ کے کتنا نڈر اور سچا انسان ہے جس نےاپنا وعدہ پورا کیا۔
اس نے ایک نظر مجمعے پر ڈالی اور پھر قاضی سے مخاطب ہوا۔
اس نے کہا کہ دراصل راستے میں ایک مسئلہ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے مجھے دیر ہوگئی اب میں مرنے کے لیے تیار ہوں۔
پھر اس نے اپنی ضمانت لینے والے شخص کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے ایک انجان آدمی کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا۔
پھر اس آگے بڑھ کر اپنی گردن جلاد کے کلہاڑے کے نیچے رکھ دی۔
مجعے پر ایک سناٹا طاری تھا۔ ہر کوئی یہی چاہتا تھا کہ وہ سچا مسلمان بچ جائے۔
جلاد کلہاڑا اٹھانے ہی والا تھا کہ مجمعے سے اس بوڑھے کے دونوں بیٹے نکل آئے اور انھوں نے کہا کہ ہم اس شخص پر اپنے باپ کا خون معاف کرتے ہیں۔
کیوں کے ہم نہیں چاہتے کہ ایک سچا مسلمان مارا جائے۔
سارے مجمعے میں خوشی کی ایک لہر ڈوڑ گئی۔
جب وہ دونوں اعلان کرچکے تو قاضی نے کھڑےہوکر کہا۔
خدا کی قسم میں بھی یہی چاہتا تھا کہ اس شخص کی جان بچ جائے۔
 

فہیم

لائبریرین
سیدہ شگفتہ آپی
کئا اس کہانی کے اسکین پیجزز مل سکتے ہیں
اس کے بارے میں fahim بتا سکیں گے ۔

افسوس کے اس کے کوئی اسکین پیجز نہیں۔
یہ میں نے شاید بچپن میں پڑھی تھی کہیں۔
اور جب لکھا تو بس اپنی یاداشت کے سہارے ہی لکھ دیا تھا سب :)
 
Top