سیما علی

لائبریرین
امتحد ہو کر جئیں ، تو ایک طاقت ہم بھی ہیں
گر سلامت یہ وطن ہے ، تو سلامت ہم بھی ہیں
صہبا اختر
 
اے نگارِ وطن تُو سلامت رہے
مانگ تیری ستاروں سے بھر دیں گے ہم

ہو سکی تیرے رخ پر نہ قرباں اگر
اور کس کام آئے گی یہ زندگی
اپنے خوں سے بڑھاتے رہیں گے سدا
تیرے گل رنگ چہرے کی تابندگی
جب تجھے روشنی کی ضرورت پڑی
اپنی محفل کے شمس و قمر دیں گے ہم

اے نگارِ وطن تو سلامت رہے
 

سیما علی

لائبریرین
اے وطن خاکِ وطن وہ بھی تجھے دے دیں گے
بچ گیا ہے جو لہو اب کے فسادات کے بعد
  • علی سردار جعفری
 

سیما علی

لائبریرین
ہر مومن کا رکھوالا ہمارا وطن
امت کا ہے سہارا پیارا وطن

نہ تھا امت کا ہمدرد کوئی
دے کے قوت رب نے ابھارا وطن

دریا دیئے، بحروبر دئیے، دئیے حسین گلشن
خدا نے نعمتوں سے ہے سنوارا وطن

ان کے آنگن میں بھی سدا بہار رہے
جان دے کے جنہوں نے نکھارا وطن

ہو گا اسلام کا غلبہ جہاں میں عامر
وسیلہ بن کے آئے گا تمھارا وطن
 

سیما علی

لائبریرین
میں اپنے خواب سے کٹ کر جیوں تو میرے خدا
اجاڑ دے مری مٹی کو در بدر کر دے
مری زمین میرا آ خری حوالہ ہے
سو میں رہوں نہ رہوں، اسکو بار ور کر دے

افتخار عارف
 

سیما علی

لائبریرین
جی جان سے اے ارض وطن مان گئے ہم
جب تو نے پکارا تیرے قربان گئے ہم
جو دوست ہوا اس پہ محبت کی نظر کی
دشمن پہ تیرے صورت طوفان گئے ہم
ہم ایسے وفادار و پرستار ہیں تیرے
جو تو نے کہا تیرا کہا مان گئے ہم
مرہم ہیں تیرے ہونٹ مسیحا ہے تیری زلف
ہم موجہء گل تھے کہ پریشان گئے ہم
افسوں کوئی چلنے نہ دیا حیلہ گروں کا
ہر شکل عدو کی تیرے پہچان گئے ہم
خاک شہداء نے تیرے پرچم کو دعا دی
لہرا کے جو پرچم نے کہا جان گئے ہم
عبید اللہ علیم
 

سیما علی

لائبریرین
کسی چمکتے ہوئے حرف کے حوالے سے
دیارِ فکر ترے دفترِ ہنر میں رہوں

خود آگہی کا جہنم بھی ہے قبول مجھے
مگر میں تیری تمنا ترے سفر میں رہوں

اے ارضِ لوح و قلم اے ادب گہِ شبنم
ترے لئے میں سدا فکرِ شعرِ تر میں رہوں

شبنم شکیل
 

سیما علی

لائبریرین
ہزاروں پھول سے چہرے جھلس کے راکھ ہوئے
بھری بہار میں اس طرح اپنا باغ جلا
ملا نہیں وطنِ پاک ہم کو تحفے میں
جو لاکھوں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جلا

محسن بھوپالی
 

سیما علی

لائبریرین
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اِس خا ک سے ہے

خواب میں بھی تجھے بھو لو ں تو روا رکھ مجھ سے
وہ روّیہ جو ہوا کا خس و خاشا ک سے ہے

بز مِ انجم میں قبا خاک کی پہنی میں نے
اور مری سا ری فضیلت اِسی پو شا ک سے ہے۔

پروین شا کر
 

سیما علی

لائبریرین
——————————
زلزلوں کی نہ دسترس ہو کبھی
اے وطن تیری استقامت تک
ہم پہ گزریں قیامتیں لیکن
تو سلامت رہے قیامت تک (آمین)
(صہبا اختر )
 

سیما علی

لائبریرین
کیا خوفٍ تشنگی ہے کہ صہبا ہے میرا نام
میخانہء وطن سے ملے ہیں مجھے وہ جام
ہوجائیں گر نگارشٍ فن سے ورق تمام
نغمے نشاط کے سرٍ دشت و دمن لکھوں
کیا کیا میں تیرے نام نگارٍ وطن لکھوں
( صہبا اختر )
 

سیما علی

لائبریرین
اک خدا ہے ، اک نبی ہے ، ایک ہی قرآن ہے
ایک ہی کعبہ ہے ہمارا ، ایک ہی ایمان ہے
ایک ملت ہے ہماری ، ایک پاکستان ہے

اس وطن کے دشت ودر کی سب فضائیں ایک ہیں
سارے بھائی ، ساری بہنیں، ساری مائیں‌ ایک ہیں

پیار کی کرنوں سے کردیں، چاک نفرت کے غلاف
آو ہم اک دوسرے کی ہرخطا کردیں معاف
آو پاکستان کی خاطر ، بھول جائیں اختلاف

نفرتوں کی آگ پہ چاہت کے آنسو ڈال دیں
آو ہم اس تیرگی کو روشنی میں ڈھال دیں

کیوں خزاں کی نذر کرتے ہو َ محبت کا چمن
مہرِ آزادی کو آخر، کیوں لگا تے ہو گہن
ہاں ابھی بھی وقت ہے ، یہ سوچ لو اہلِ وطن

جھیلنا ہوگی تمہیں، خود اپنی بربادی کے بعد
جانے کس کس کی غلامی ، ایک آزادی کے بعد

ہم کو یہ شعلے نہیں َ چاہت کی شبنم چاہئے
ہم کو یہ خنجر نہیں ، زخموں کا مرہم چاہئے
مستقل نفرت کے بدلے ، عشقِ پیہم چاہئے

متحد ہوکر جئیں ، تو ایک طاقت ہم بھی ہیں
گر سلامت یہ وطن ہے ، تو سلامت ہم بھی ہیں
صہبا اختر
 

سیما علی

لائبریرین
ہم وطن یہ گلستان تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
اس کا ہر سود و زیاں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
قائد اعظم کی کہتے ہیں امانت ہم جسے
ورثہ یہ اے مہرباں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
وقت کا ہے یہ تقاضا متحد ہو جائیں ہم
کب سے دشمن آسماں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
سوچ تو گلشن کی بربادی کا کیا ہو وے گا حال
شاخٍ گل پر آشیاں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
آبٍ راوی ہو کہ آبٍ سندھ ہے سب کے لئے
دامنٍ موجٍ رواں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
ہیں محبت کے نقیب اقبال و خوشحال و لطیف
ان کا فیضٍ بیکراں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
( راغب مراد آبادی)
 

سیما علی

لائبریرین
پاکستان کےسیاست داں
گرانی کی زنجیر پاوں میں ہے
وطن کا مقدر گھٹاوں میں ہے

اطاعت پہ ہے جبر کی پہرہ داری
قیادت کے ملبوس میں ہے شکاری

سیاست کے پھندے لگایے ہوئے ہیں
یہ روٹی کے دھندے جمائے ہوئے ہیں

یہ ہنس کر لہو قوم کا چوستے ہیں
خد ا کی جگہ خواہشیں پوجتے ہیں

یہ ڈالر میں آئین کو تولتے ہیں
یہ لہجہ میں سرمائے کے بولتے ہیں

ہے غارت گری اہلِ‌ایماں کا شیوہ
بھلایا شیا طیں نے قرآں کا شیوہ

اٹھو نوجوانو وطن کو بچاو
شراروں سے حدِّ چمن کو بچاو

ساغر صدیقی
 
Top