وصال یار

وصالِ یار
کوٹ مٹھن شریف میں ایک مجذوب تھا جو ہر آتے جاتے سے ایک ہی سوال پوچھتا رہتا کہ " عید کداں " ( عید کب ہو گی ) کچھ لوگ اس مجذوب کی بات اَن سُنی کر دیتے اور کچھ سُن کر مذاق اُڑاتے گُزر جاتے ایک دن حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ اس جگہ سے گزرنے تو اُس مجذوب نے اپنا وہی سوال دہرایا عید کداں ( عید کب ھو گی ) آپ صاحبِ حال بزرگ تھے اُس کا سوال سُن کر مسکرائے اور کہا یار ملے جداں ( جب محبوب ملے وھی دن عید کا دن ھو گا ) یہ الفاظ سُنتے ھی مجذوب کی آنکھُوں سے مُوتیُوں کی طرح آنسُوں جاری ھو گے وہ مزید ترستی آنکھوں سے گُویا ھوا سرکار " یار ملے کداں "( محبوب کس طرح ملے گا ) خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا "میں مرِے جداں " ( جب" میں " مرے گی ) بس یہ فرمانا تھا کہ مجذوب نے کپکپاتے اور تھرتھراتے ھوئے عرض کیا حضور " میں مرےِ کداں " ( میں کب مرے گی ) سرکار رحمتہ اللہ علیہ مسکرائے اُسے پیار سے تھپکی دیتے یہ کہتے چل دیے "یار تکے جداں " ( جب محبوب دیکھے گا ) واصف علی واصف صاحب فرماتے ہیں " عاشق کی عید محبوب کا دیدار ہے اور یہ دیدار اُسے دُنیا میں دو مرتبہ ملتا ہے پہلی بار جب اُس کی " میں " مرتی ہے اور دوسری بار جب وہ خود مرتا ہے اسی لیے اولیاء اللہ کی برسی نہیں " عرس" منایا جاتا ہے یعنی خوشی کا دن کیونکہ ان کی موت محبوب سے ملاقات ہوتی ہے۔
 
Top