وسعت اللہ خان کے کالم

سیما علی

لائبریرین
وسعت اللہ خان کا کالم بات سے بات: عید ہوندی سی ساڈہے ویہلے ۔۔۔
وسعت اللہ خان
تجزیہ کار
24 مئ 2020

بی بی سی اردو

ہم اور ہمارے بڑے تو ہر برس کی طرح اس سال بھی بس باتیں ہی بکھانتے رہ گئے کہ عید سادگی سے منانا چاہیے اور آس پاس کے لوگوں کو نہیں بھولنا چاہیے۔

پر اچھا یہ ہوا کہ اس بار کورونا بھی سادگی کے عملی معنی دیکھ کر سٹپٹا گیا۔ باقی دنیا میں بھلے جو بھی تماشا ہو رہا ہو۔ ہمارے ہاں کورونا آگے آگے اور لوگ پیچھے پیچھے ہیں۔
آصف زرداری نے صدر بننے کے بعد گڑھی خدا بخش میں جب یہ الفاظ کہے تھے تو کورونا پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ ’ارے موت ہمیں کیا ڈرائے گی۔ہم تو وہ لوگ ہیں جو موت کا تعاقب کرتے ہیں۔‘
پورا برس عید کے سیزن کا انتظار کرنے والے دکانداروں اور خریداروں نے کورونا کو جھکائی دے کر شاپنگیانہ ہاتھ پاؤں مارنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔

وائرس کو بھی اس سیان پتی کا اندازہ نہ تھا لہٰذا اس نے اس ملک کو اٹلی اور سپین جیسے بزدل سماج فرض کر کے عملاً کلائی پکڑ کے روکنے کی اپنی سی کوشش ضرور کی کہ جن کا ایمان ہے کہ چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے۔ یا جن کا عقیدہ ہے کہ عید کی خریداری کا ایک دن چین سے گھر بیٹھنے والی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔

پاکستانی مڈل اور لوئر کلاس نے جو کچھ رمضان کے آخری ہفتے میں سماجی فاصلے کے ساتھ کیا ویسا تو سکندر نے پورس کے ساتھ بھی نہیں کیا۔ نام نہاد ضوابط کی دکاندار اور خریدار نے جیسے دھجیاں اڑائیں۔ یہ مناظر دیکھ کر مجھے پہلی بار ان دو مصرعوں کا اصل مفہوم سمجھ میں آیا۔

جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں

ادھر ڈوبے ادھر نکلے، ادھر ڈوبے اِدھر پاکستان
یہ پہلی بار میں نے بیشتر لوگوں کو عید کے موقع پر مہنگائی سستائی کی بحث میں بہت زیادہ الجھتے نہیں دیکھا
اگرچہ کورونا نے رمضان کے آغاز میں ہی عید کی دھمکیانہ تہنیتی وارننگ بھی دے ڈالی تھی۔
اور جس جس نے اسے ایک عالمی فراڈ یا یہود و نصاریٰ و ملحدین کی سازش جانا اور پھر یہ گمان کیا کہ ارے ہم تو اوپر والے کے لاڈلے ہیں کورونا کیا بگاڑ لے گا۔انھیں کورونا نے اپنے تئیں پچھلے دو ماہ میں شایانِ شان جواب بھی دیا۔ مگر کورونا غریب کو کیا معلوم تھا کہ جو قوم خدا سے بھی نہ ڈرے، کورونا اس کے آگے کیا بیچتا ہے۔

گویا کورونا میرے کالج کے دور کے این سی سی ڈرل ماسٹر صوبیدار گشتاسپ علی کے روپ میں سامنے آیا ہے جو بچوں کے سارے کس بل اور بہانے بازیاں تیر کی طرح سیدھا کر کے لیفٹ رائٹ کروانے کے لئے قصبے میں دور دور تک مشہور تھا۔

ابھی تو بقرعید آ رہی ہے۔ شاید مزید پیسے بچیں گے۔ کورونا کے ہوتے سڑکوں اور گلیوں میں کھلے عام ہجوم کے درمیان انفرادی و اجتماعی قربانی اس بار ممکن ہو سکے کہ نہیں؟ دنیا سنورنے سنوارنے میں کیا کیا عمر لگ جاتی ہے اور جب حیات بدلتی اور بگڑتی ہے تو دن ہفتے کا، ہفتہ سال کا اور سال صدی کا ہو جاتا ہے۔

میری تو عادت ہے موقع بے موقع بات بے بات الٹی سیدھی ہانکتے رہنا۔ آپ لوگ اپنی عید کیوں کھوٹی کرتے ہو۔ اب جیسی کیسی بھی سہی منا تو لی۔ اہلِ وطن اور نااہلِ وطن، سب ہی کو عید مبارک۔۔۔۔۔
جو جو معرکہ خرید و فروخت میں ک کی مراد نہ پا سکے اب وہ سب خود سے جھینپتے ہوئے اپنے آپ کو ہی زیرِ لب سمجھا رہے ہیں کہ بھئی ان حالات میں جب روزمرہ زندگی کو ہی موئے کورونا نے یرغمال بنا کے رکھا ہوا ہے، کیسی عید کہاں کا تہوار۔ خوشی تو خوشی سے ہوتی ہے۔
میں کپڑے پہن کر جاؤں کہاں ، میں بال بناؤں کس کے لیے
پہلی بار میں نے بیشتر لوگوں کو عید کے موقع پر مہنگائی سستائی کی بحث میں بہت زیادہ الجھتے نہیں دیکھا۔ پہلی بار چند لوگوں کو سر کھجاتے دیکھا کہ بچوں کے بہانے کپڑوں، جوتوں کی خریداری کے لیے جو بجٹ جوڑ جوڑ کر مختص کیا گیا اب اس کا کیا کریں۔
بچے بھی پہلی بار نہیں پوچھ رہے کہ عید اور گرمیوں کی چھٹیوں میں گھومنے گھمانے کا کیا پلان ہے۔ پہاڑی علاقوں میں چھوٹے سے چھوٹا کاروباری بھی جو اس موسم میں نگاہ اٹھانے کی فرصت بھی نہ پاتا تھا اب اس کی منتظر آنکھیں خالی ہیں۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
وسعت اللہ خان کا کالم: کرونا بمقابلہ شکم
وسعت اللہ خان
تجزیہ کار
10 مئ 2020

بی بی سی اردو

’بھوک سے ایک انسان مرے تو المیہ ہے۔ دس لاکھ مر جائیں تو محض اعداد ہیں‘ ( جوزف اسٹالن)۔
انفرادی موت زخم اور اجتماعی موت مرہم۔ یعنی درد کا حد سے گذر جانا دوا ہو جانا۔
میں نے پارٹیشن دیکھی نہیں بس کہانیاں سنی ہیں کہ بیس لاکھ انسان قتل اور لگ بھگ ایک کروڑ بے گھر ہوئے۔ جن پر گزری وہ واقعات سناتے ہوئے ذرا بھی افسردہ نہیں ہوتے۔ ان کی گفتگو میں بس یہ خلش جھلکتی ہے کہ جو ہوا اچھا نہیں ہوا۔ البتہ سننے والوں کی آنکھیں آج بھی کہیں نہ کہیں اشک بار ہو جاتی ہیں۔
ایسا کیوں ہے؟ اس کا عملی جواب مجھے آٹھ اکتوبر 2005 کو ملا جب 40 سیکنڈ کے زلزلے نے زمین الٹ دی۔

اسلام آباد کے مارگلہ ٹاورز سے خیبر پختونخوا کے ہزارہ ڈویژن اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر تک گری ہوئی عمارتیں، ملبے میں پھنسی ان گنت لاشیں، کراہتے ہوئے بے شمار زخمی، بھانت بھانت کی سینکڑوں ریسکیو ٹیمیں، راشن اور کمبل لینے والوں کی قطاریں، 24 گھنٹے آپریشن میں مصروف خیمہ ہسپتالوں کے سرجن، ڈاکٹر، رضاکار۔
بربادی و بے بسی کی حکمرانی مگر سوگ کو سناٹا نگل گیا تھا اور آنسو سہم کر آنکھوں کے اندر ہی کہیں دبک گئے تھے۔
کون کس سے کس کی تعزیت کرے؟ کسی کے دو، کسی کے پانچ کسی کے دس گزر گئے۔ کس کی چھت سلامت رہی کہ دوسرے کی بے گھری پر ترس کھائے۔

نفسا نفسی و اجتماعیت، انسانیت و سفاکی، ہمدردی و بے حسی سب گڈمڈ اور موت اعداد کے سانچے میں ڈھل رہی تھی۔ اجل کے میٹر سے ہندسے گر رہے تھے۔
آج پندرہ برس بعد بھی آپ بالاکوٹ، گڑھی حبیب اللہ یا مظفر آباد جائیں تو کوئی خود سے پندرہ برس پہلے گذر جانے والے المیے پر بات نہیں چھیڑتا۔ بہت ہی کریدیں تو زیادہ سے زیادہ یہ شکوہ ہوتا ہے کہ سرکار نے بحالی کے جو وعدے کئے وہ پورے نہیں ہوئے۔ لوگ اپنے پیاروں کے تفصیلی ذکر سے بچتے ہیں۔ کہیں پندرہ برس میں جمنے والا کھرنڈ رسنے نہ لگے۔
آج کا کراچی دیکھ کے کسی اجنبی کو گمان تک نہیں گذرتا کہ اس شہر نے کم ازکم بیس برس تک روزانہ کتنی لاشیں اٹھائیں ہوں گی۔ جب 1985 میں ایک طالبہ بشری زیدی کی ایک وین تلے کچلے جانے کی خبر آئی تو پورا شہر غم و غصسے بھر گیا۔ اخبارات حکومت کے پیچھے پڑ گئے۔
مگر اس کے بعد کے برسوں میں 35 ہزار مرے کہ 40۔ ان کی موت نے اعداد کی چادر اوڑھ لی۔ جس دن خبر آتی کہ آج صرف دس لوگ قتل ہوئے اس روز کو لوگ ایک پرامن دن سمجھتے۔ 20 سے زائد کی خبر ہی دو کالمی اور 50 سے زائد کی خبر ہی شہہ سرخی بننے کی مستحق قرار پاتی۔
یہی کچھ موجودہ وبا میں بھی ہو رہا ہے۔ فروری کے آخری ہفتے میں جب پاکستان میں کورونا کے پہلے مریض کا پتہ چلا ہے تو پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر دن بھر یہ مریض موضوع بنا رہا اور حکومت کو بھی صرف ایک مریض سامنے آنے پر سائیکلو اسٹائیل تسلی دینا پڑی کہ حالات قابو میں ہیں گھبرانا نہیں ہے۔
آج جب خبر آتی ہے کہ پچھلے چوبیس گھنٹے میں ملک میں کورونا کے تقریباً دو ہزار نئے مریض سامنے آئے ہیں۔
اچھی بات یہ ہے کہ کل کی چالیس اموات کے برعکس آج صرف چوبیس ہوئی ہیں تو یہ سب جسم میں کوئی سنسنی یا اطمینان پیدا نہیں کرتا۔
جوں جوں وقت گزر رہا ہے ہر مریض اور ہر موت اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کا ایک اور نامعلوم صفر بن رہی ہے۔

جب پہلے ایک سو لوگ کورونا پازیٹو نکلے تو لاک ڈاؤن ہو گیا اور شہروں میں سناٹا چھا گیا۔ اب تعداد تیس ہزار سے اوپر نکل رہی ہے تو حکومت بے خوف ہو کر لاک ڈاؤن اٹھا رہی ہے اور لوگ بازار بھر رہے ہیں۔
شروع شروع کے دنوں میں سوشل آئسولیشن کی کسی حد تک حکمرانی تھی۔ آج سوشل آئسولیشن ہی آئسولیٹ ہو گئی ہے۔
ابتدائی دنوں میں مقابلہ موت اور زندگی کا بتایا جا رہا تھا۔ آج کہا جا رہا ہے کہ دنگل زندگی اور بھوک کے درمیان ہے۔ آپ وائرس سے مرنا پسند کریں گے یا بھوک سے؟ یعنی انسان نے کتنی تیزی سے نیا نارمل قبول کر لیا۔
جیسے زلزلے کے بعد متاثرہ لوگوں نے اپنی اداسیوں کو تالا لگا کر ایک ڈیڑھ ماہ بعد کاروبارِ حیات کھول لیا کیونکہ زندہ رہنے والوں کو تو بہرحال زندہ رہنا ہے۔
مگر کسی اور قدرتی و انسانی آفت اور موجودہ آفت میں ایک بنیادی فرق ہے۔ زلزلہ ایک بار آیا اور تھم گیا، جتنے مرنے تھے مر گئے۔ کراچی میں ایک خونی دور آیا مگر اسے جاری رکھنا اور روک دینا انسان کے بس میں تھا۔
سو جنھوں نے سوئچ آن کیا تھا انھوں نے ہی سوئچ آف کر دیا۔ تاہم کورونا ایک مسلسل غیر محسوس زلزلہ ہے اور بجلی کا سوئچ کہاں ہے؟ دنیا اب تک ٹامک ٹوئیاں ہی مار رہی ہے۔
لیکن پیٹ تو اندھا ہے اور ہم سب اس اندھے کی گھومتی
لاٹھیاں۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
جھوٹ اس سے میں کس طرح بولوں:: وہ مرا اعتبار کرتا ہے
پیر 25 فروری 2019
اُم آدم۔الخبر

اردو نیوز

اردو ایک ایسی زبان ہے جو ہندوستان و پاکستان کی سرحد سے اپنی مٹھاس سے اب تک کئی ممالک کو متاثر کر چکی ہے۔ آپ نے کئی مانوس و غیر مانوس اور غیر زبانوں کے افراد کی وڈیوز ضرور دیکھی ہوں گی جو اردو زبان و شعر و ادب سے متاثر ہو کر اس کی جانب راغب ہوئے اور آج نہ صرف وہ اچھی اردو بول سکتے ہیں بلکہ اپنے ملکوں میں اردو زبان کے سفیر بنے ہوئے ہیں۔بات جب اردو زبان کی ہو تو اردو ادب ایک گھنے تراشیدہ وسیع ترین باغ کی صورت ہمارے سامنے موجود ہے۔ پاکستان و ہندوستان سے بسلسلہ روزگار دنیا کے ہر ملک میں مقیم افراد اپنی زبان ، تہذیب وثقافت کی شمع جلائے اردو کی آبیاری کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں اور شعر و سخن کے معروف و مروج طریقوں کے ذریعے عوام الناس و نوجوانوں کی توجہ گاہے بگاہے مرکوز رکھنے میں اپنا کردار کما حقہ ادا کر رہے ہیں۔
مملکت بحرین میں سال نو کا پہلا بین الخلیجی مشاعرہ ،پاکستان اردو سوسائٹی'''حلقہ ادب '' اور سوشل ویلفیئر ایسوسی ایشن ،بحرین کے زیر انصرام منعقد کیا گیا۔سفیر اسلامی جمہوریہ پاکستان، افضال محمود نے مشاعرے میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کر کے بزم کی رونق میں اضافہ کیا۔ سفیر پاکستان افضل محمود اپنی خوش اخلاقی ، وقت کی انتہائی پابندی اور اپنے اعلیٰ ادبی ذوق اور ملنساری کی بنا پر ہر دل عزیز و مقبول شخصیت ہیں۔
ناظمِ محفل ، مملکت بحرین میں شائستہ لب و لہجے کے ادب نواز و ادب دوست خرم عباسی تھے جنہوں نے نہایت عمدگی و اعلیٰ ادبی پیرائے میں سفیر پاکستان،معزز مہمان شعرائے کرام اور حاضرینِ محفل کو خوش آمدید کہا۔محفل مشاعرہ کا باقاعدہ آغاز کلامِ پاک کی تلاوتِ مبارکہ سے ہوا جس کی سعادت چیئرمین پاکستان اسکول، قاری سمیع الرحمٰن نے حاصل کی۔ معروف نعت خواں محمد سجاد حسین نے نعت طیبہ پیش کی۔منتظم اعلیٰ اور منفرد اسلوب کے شاعر ریاض شاہد نے سپاس نامہ پیش کیا۔ اردو سوسائٹی حلقہ ادب، بحرین کی تاریخ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 1997 سے یہ مصروف عمل ہے اور نجی محافل سے ترقی کرتی ہوئی کئی بین الخلیجی و بین الاقوامی مشاعرے منعقد کر چکی ہے جسے اب سفارت خانہ پاکستان کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ انہوں نے سفیر اسلامی جمہوریہ پاکستان ، سعودی عرب کے مختلف شہروں سے تشریف لائے ہوئے مہمان شعرائے کرام اور حاضرین محفل کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور مہمانِ خصوصی سفیر پاکستان کو اسٹیج پر خطاب کے لئے مدعو کیا۔اپنے خطاب میں انہوں نے حاضرینِ محفل اور بالخصوص مہمان شعرائے کرام کی وقت پر آمد پر اطمینان و خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ تاخیر سے کسی محفل میں پہنچنے پر انسان کے احترام میں کمی واقع ہوتی ہے جس سے شعوری طور پر احتراز کرنا چاہئے تا کہ اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع ہونے سے بچایاجائے ۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم کسی محفل میں وقت پر پہنچ کر نہ صرف تعلیم یافتہ اور مہذب کردار کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں بلکہ اپنے میزبان کو سہولت و آسانی فراہم کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ سب کوآسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے والا بنائے ، اپنے ادبی ذوق کا اظہار انہوں نے مبارک صدیقی کی مشہور غزل سنا کر کیا :
خزاں کی رت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا،کمال یہ ہے
ہوا کی زد پہ دیا جلانا ، جلا کے رکھنا ، کمال یہ ہے
ذرا سی لغزش پہ توڑ دیتے ہیں سب تعلق زمانے والے
سو ایسے ویسوں سے بھی تعلق بنا کے رکھنا،کمال یہ ہے
کسی کو دینا یہ مشورہ کہ وہ دکھ بچھڑنے کا بھول جائے
اور ایسے لمحے میں اپنے آنسو چھپا کے رکھنا،کمال یہ ہے
خیال اپنا ، مزاج اپنا ، پسند اپنی ، کمال کیا ہے ؟
جو یار چاہے وہ حال اپنا بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے
کسی کی راہ سے خدا کی خاطر، اٹھا کے کانٹے،ہٹا کے پتھر
پھر اس کے آگے نگاہ اپنی جھکا کے رکھنا،کمال یہ ہے
وہ جس کو دیکھے تو دکھ کا لشکر بھی لڑکھڑائے،شکست کھائے
لبوں پہ اپنے وہ مسکراہٹ سجا کے رکھنا،کمال یہ ہے
ہزارطاقت ہو،سو دلیلیں ہوں پھر بھی لہجے میں عاجزی سے
ادب کی لذت، دعا کی خوشبو بسا کے رکھنا ،کمال یہ ہے
مملکت بحرین کے کہنہ مشق شاعر طارق اقبال طارق کے چوتھے مجموعہ کلام '''چند خواب'''کی رسمِ رونمائی بدست سفیر پاکستان عمل میں آئی۔ناظم مشاعرہ جناب خرم عباسی نے شہ نشین پر صدرِ محفل ، شہرریاض کے معروف مزاحیہ شاعر شوکت جمال کو مدعو کیا۔کہنہ مشق شعراء رخسار ناظم آبادی اور جناب عادل احمد ، ( بحرین ) قدسیہ ندیم لالی ( الخبر ) حکیم اسلم قمر ( الحساء ) ، محمد صابر ( ریاض )، اقبال اسلم بدر ( الجبیل)، اسد اقبال ( بحرین ) سعد سعدی ( بحرین ) مسند نشین ہوئے۔اسد اقبال نے اپنے کلام سے حاضرینِ محفل کی مکمل توجہ حاصل کی اور یکے بعد دیگرے غزلیں پیش کیں :
**اسد اقبال:
ہم یہ اچھی طرح سمجھتے ہیں
خون اپنا اثر دِکھاتا ہے
***
جس کا توڑا نہ ہو کسی نے دل
آئے ہم سے وہ دل لگی کر لے
***
رات کا ڈر نہیں اسد اس کو
اپنے اندر جو روشنی کر لے
مملکت البحرین کے سعد سعدی نے اپنا تازہ کلام پیش کیا :
**سعد سعدی:
یہ ہرگز نہیں کہ محبت نہیں ہے
غمِ زندگی سے ہی فرصت نہیں ہے
***
ترے وہ عہد و پیماں اور پھر ان سے مکر جانا
سبھی لفاظیاں تھیں ہم نے پھر بھی معتبر جانا
سلیقہ ہم نے سیکھا ایک پروانے سے جینے کا
اجل کی لو پہ رقصِ زیست کرنا اور مر جانا
مشاعرے کے منتظم اعلیٰ ریاض شاہد نے اپنے تازہ کلام سے ابتداء کی اور حاضرینِ محفل کی فرمائش پر دوبارہ مدعوکئے گئے۔
**ریاض شاہد:
زمین دل پہ بیٹھا عشق کے منظر بناتا ہوں
کہیں مجنوں بناتا ہوں ،کہیں پتھر بناتا ہوں
محبت اٹھ چکی دنیا سے بے گھر ہو گئی ہر سو
فلک کو دیکھتا ہوں اور خلا میں گھر بناتا ہوں
مجھے کب جنگ کرنی ہے فقط دشمن ڈرانے ہیں
''میں کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتا ہوں ''
***
چہرہ ہے صادقین کے شہکار کی طرح
ازبر ہے مجھ کو میر کے اشعار کی طرح
بولے تو جلترنگ بجے حرف حرف میں
لہجہ ہے میرے یار کا ملہار کی طرح
تحریر اس کے ماتھے پہ ہے وقت کا حساب
چہرہ ہے اس کا سرخئیِ اخبار کی طرح
رنج و الم یہ ہجر و رفاقت کے سلسلے
بحرِ حیات میں ہیں یہ پتوار کی طرح
با کمال شاعر طارق اقبال طارق نے ، جذبات و احساسات سے مزین کلام پیش کیا :
**طارق اقبال طارق:
سمندروں کاسفر ہیں محبتیں طارق
کسی کسی کو کنارہ نصیب ہوتا ہے
***
ترے فراق میں رونا بہت ضروری تھا
ہم اپنی آنکھ میں پانی تلاش کرتے رہے
***
مجھے وطن سے محبت توہے بہت لیکن
دیارِ غیر میں بچوں کی بھوک لے آئی
***
تمام رات ہی آنکھوں میں کٹ گئی طارق
میں اپنی ماں کی دعاکاغذوں پہ لکھتارہا
***
یہی ازل سے ہے معیار میری بستی کا
زباں پہ سچ ہو تو شانوں پہ سر نہیں ہوتا
***
ہم تو لاشیں ہیں سانس لیتی ہوئی
زندگی اورچیز ہوتی ہے
***
آج پھر دیکھ کر بہت رویا
ایک تصویر میں ہنسی اپنی
***
جانے کب کون کس گھڑی بچھڑے
اور پھر یاد بھی نہ آئے ہمیں
***
دل کاپتھر تراش کر ہم نے
اس پہ کتبہ لکھا ہے خوداپنا
***
تھکن سے چور پرندے نے وقتِ مرگ کہا
کسے بتاؤں کہ دکھ کس قدر اڑان کاہے
سعودی عرب کے مشرق سے ابھرنے والا ایک نام اقبال اسلم بدر، ایسے شاعر جنہوں نے اپنے کلام سے ثابت کیا کہ ان کا اسلوب و لہجہ اپنا ہے:
**اقبال اسلم بدر:
افق پر طلوع سحر دیکھتے ہیں
بس اک خواب ہے رات بھر دیکھتے ہیں
زباں اور ہی کچھ بیاں کر رہی ہے
ہم اہل نظر ہیں، نظر دیکھتے ہیں
ہیں اقبال کچھ ایسے منظر بھی جن کو
نہیں دیکھنا تھا مگر دیکھتے ہیں
ریاض کے معروف پنجابی شاعر محمد صابرجو اردو میں بھی اپنا ایک بہترین مقام بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں اپنا کلام پیش کرنے سے پہلے حاضرین محفل کو شدید موسم کے باوجود شرکت پر داد دیتے ہوئے کہتے ہیں :
**محمدصابر:
یہ ریگ زار کی وحشت سے چھیڑ خانی ہے
قیام کر کے بہاروں نے مار کھانی ہے
جدا ہوئے تو ترے خواب کیسے دیکھوں گا
ترے بغیر مری نیند ٹوٹ جانی ہے
قفس مرا ہے تو دستور بھی مرا ہوگا
میں طے کروں گا کہ کھڑکی کہاں لگانی ہے
***
جو بھی لگتا ہوں کسی کو ٹھیک لگتا ہوں میاں
میں کسی بھی روپ میں ہوں یار کی منشا سے ہوں
خوب پہچانا مجھے پھر جھنگ والوآپ نے
میں زمینِ عشق سے ہوں ،ہاں میں سرگودھا سے ہوں
الخبر کی معروف سماجی شخصیت شاعرہ ،ادیبہ، نسائی ادب کا منفرد نام ، قدسیہ ندیم لالی نے اپنے مختصر خطاب میں حلقہ ادب و منتظمین و حاضرین محفل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مملکت بحرین میں شعرائے کرام کی جس طور عزت افزائی و تکریم کی جاتی ہے وہ قابلِ صد تحسین و قابلِ تقلید ہے۔ ہمیں منتظمِ بزم، عزت سے دعوت دیتے ہیں اور ہم سب مشاعرہ گاہ میں پہنچ کر ان کی عزت افزائی کرتے ہیں۔ اعلیٰ ذوق کے حاضرین کی کثیر تعداد اس بات کا بہترین ثبوت ہے کہ شعر و ادب کے احاطے کی محافل میں عوام اپنے ادبی ذوق کی تسکین کے لئے کھینچے چلے آتے ہیں،بعد ازاں انہوں نے مرصع کلام پیش کیا :
**قدسیہ ندیم لالی:
وہ اونچا جس قدر بھی ہو مگر اچھا نہیں لگتا
شجر بے سایہ ہو یا بے ثمر اچھا نہیں لگتا
یہی تو ہنستی بستی زندگانی کی علامت ہے
جہاں بچے نہ روتے ہوں وہ گھر اچھا نہیں لگتا
جودکھ اس نے دیا ہے وہ فقط اس کی امانت ہے
کسی پر کھول دے یہ چشمِ تر اچھا نہیں لگتا
مملکت بحرین کے کہنہ مشق و نرم خو شاعر عادل احمد نے اپنا کلام پیش کیا اور حاضرین سے خوب داد وصول کی۔ نمونہ کلام حاضر :
** عادل احمد:
مصروف رہ گزر پہ چلا جا رہا تھا میں
حیرت یہ تھی کہ سب سے جدا جا رہا تھا میں
میں گرد راہ تھا مگر اعجاز دیکھئے
ہر کارواں کے ساتھ اڑا جا رہا تھا میں
رکنے میں ڈر یہ تھا کہ توازن بگڑ نہ جائے
عادل اسی گماں میں چلا جارہا تھا میں
بحرین کے ایک اور کہنہ مشق و ہر دل عزیز شاعر رخسار ناظم آبادی نے اپنا تازہ کلام پیش کیا :
**رخسار ناظم آبادی:
تحریر کردہ دکھ بھرا کردار ہے جسے
ہنس کر نبھا رہے ہیں اداکار کی طرح
***
جھوٹ اس سے میں کس طرح بولوں
وہ مرا اعتبار کرتا ہے
***
وہ جس کو چاہے اسے اقتدار دیتا ہے
غلط چلے تو پھر اس کو اتار دیتا ہے
***
طفل نے کچھ بھی نہیں سوچا ملا کر لکھ دیا
زندگی اور موت کو بالکل برابر لکھ دیا
***
الحساء سے ایک اور خوش الحان شاعر حکیم اسلم قمر نے اپنے مترنم لہجے میں کئی غزلیات پیش کیں:
** حکیم اسلم قمر:
حوصلہ ہارنے والوں میں نہیں میرا شمار
جتنے ہیں زخم پرانے مجھے واپس کر دو
 
Top