وزیراعظم عمران خان کی بہن علیمہ خانم نے دبئی جائیداد پر بھاری جرمانہ اور ٹیکس ادا کردیا

جاسم محمد

محفلین
وزیراعظم کی ہمشیرہ علیمہ خان کا مثالی اقدام، اپنی نصف جائیداد ایف بی آر کے حوالے کردی
علیمہ خانم نے بیرون ملک جائیداد کا 25 فیصد بطور ٹیکس اور 25 فیصد بطور جرمانہ ادا کر دیا
pic_1fc66_1541077778.jpg._3

لاہور (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 15 نومبر 2018ء) وزیراعظم کی ہمشیرہ علیمہ خان کا مثالی اقدام، اپنی نصف جائیداد ایف بی آر کے حوالے کردی، علیمہ خانم نے بیرون ملک جائیداد کا 25 فیصد بطور ٹیکس اور 25 فیصد بطور جرمانہ ادا کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان مثال بنتے ہوئے اپنی آدھی جائیداد ایف بی آر کے حوالے کردی ہے۔علیمہ خان نے بیرون ملک موجود جائیداد ایف بی آر کے حوالے کی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے اپنی بیرون ملک جائیداد کا 25 فیصد بطور ٹیکس اور 25 فیصد بطور جرمانہ ایف بی آر کو جمع کروایا ہے۔ علیمہ خان کبھی بھی کسی سرکاری یا حکومتی عہدے پر براجمان نہیں رہیں، تاہم اس کے باجود کسی بھی پاکستانی کو بیرون ملک بنائی گئی جائیداد لازماً ڈکلئیر کرنا ہوتی ہے۔علیمہ خان نے دبئی میں بنائی گئی جائیداد ڈکلئیر نہیں کی تھی اسی باعث ایف بی آر کی جانب سے انہیں نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ وزیراعظم کی ہمشیرہ علیمہ خان نے دبئی میں پراپرٹی کے معاملے میں ایف آئی اے لاہور کو جواب جمع کروا دیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان کی بہن علیمہ خانم نے ایف آئی اے کو دئیے گئے تحریری جواب میں اپنی دبئی کی پراپرٹی خریدنے کے ذرائع بتائے تھے۔علیمہ خانم نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ انہوں نے دبئی کی پراپرٹی " بیرون ملک بزنس ڈیلنگ" سے خریدی تھی تاہم انہوں نے جواب میں بزنس ڈیلنگ کی وضاحت نہیں کی تھی۔ ذرائع کے مطابق علیمہ خانم نے اپنے جواب میں بتایا کہ انہوں نے پراپرٹی نمبر 1406 دبئی کے پوش علاقے لوفٹ اسٹ ڈاؤن ٹاؤن میں خریدی تھی۔اور دبئی میں اپنے نام خریدی جائیداد فروخت کر دی ہے۔جب کہ ایف بی آر کو بھی اپنی دبئی کی پراپرٹی کی خرید و فروخت کی تفصیلات بتائی ہیں۔یاد رہے کہ گذشتہ ماہ ایف آئی اے نے سیاسی تعلقات رکھنے والے 44 افراد کی فہرست سپریم کورٹ میں جمع کروائی جن کی متحدہ عرب امارات میں جائیدادیں ہیں۔ ایف آئی اے کی فہرست منی لانڈرنگ کیس کے حوالے سے تفتیش کا حصہ ہے جو چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کے پاس جمع کروائی گئی۔ایف آئی اے نے عدالت میں بتایا کہ اس فہرست وزیراعظم کی ہمشیرہ علیمہ خان بھی دبئی میں بے نامی جائیداد کی مالک ہیں جبکہ سابق وزیر مرحوم مخدوم امین فہیم کی اہلیہ رضوانہ امین کے نام 4 ، پی ٹی آئی رہنما ممتاز احمد مسلم کے نام 18 اور عدنان سمیع خان کی والدہ نورین سمیع خان کے نام 3، سمیت مشرف کے سابق سیکرٹری طارق عزیز کی بیٹیاں بھی دبئی میں جائیداد کی مالک ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
چلیں اچھا ہوا جیل جانے سے بچ گئیں۔
علیمہ خان کی طرزپر لیگیوں اور جیالوں کی قیادت بھی عمل کرتی تو عدالتی کاروائی اور متوقع سزاؤں سے بچ سکتی تھی۔ لیکن ان کے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ وہ لوٹے ہوئے مال کو ذاتی مال سمجھتے ہیں۔اسلئے ان کو سیاسی شہادت کی مد میں جیل تو قبول ہے مگر مال کی واپسی نہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
علیمہ خان کی طرزپر لیگیوں اور جیالوں کی قیادت بھی عمل کرتی تو عدالتی کاروائی اور متوقع سزاؤں سے بچ سکتی تھی۔ لیکن ان کے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ وہ لوٹے ہوئے مال کو ذاتی مال سمجھتے ہیں۔اسلئے ان کو سیاسی شہادت کی مد میں جیل تو قبول ہے مگر مال کی واپسی نہیں۔
جی ہاں! علیمہ خان نے اچھی طرح سے معاملے کو ہینڈل کیا ہے اور لوٹے ہوئے مال کو واپس دے کر اپنی گردن بچا لی۔ شاید یہی بہتر حکمت عملی ہو۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ بھی لوٹا ہوا مال ہی تھا؟
نہیں جناب، اسے آپ زیادہ سے زیادہ 'بے ضابطگی' کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہاں معاملہ اک ذرا مختلف ہے۔
علیمہ خانم شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے بورڈ آف گورنرز کی فعال ترین رُکن ہیں۔ اندرون و بیرون ممالک سے ٹرسٹ کیلئے پیسا موصوفہ ہی اکٹھا کرتی ہیں۔
لیگی سیاست دان اس حوالہ سے ماضی میں شوشے چھوڑتے رہے ہیں کہ عمران خان اپنی فلاحی تنظیم کا پیسا بیرون ممالک میں سرمایہ کاری کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ مگر 5 سالہ دورہ اقتدار کے باوجود وہ ان کے خلاف کوئی قانونی کاروائی نہ کر سکے۔
علیمہ خانم کا چونکہ اپنا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے۔یوں اس خبر سےیہی تاثر ملتا ہے کہ انہوں نے ٹرسٹ کے پیسے سے دبئی میں جائیداد خریدی اورٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہیں کی۔ جس کی وجہ سے اب انہیں سزا کے طور پر بھاری جرمانہ اور واجب الادا ٹیکس دینا پڑا ہے۔
اس ہوش ربا سکینڈل کے بعد شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے بورڈ آف گورنرز کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ علیمہ خانم کو مالی خرد برد کی مد میں بورڈ سے فارغ کر دیں۔ اور اگر ضرورت محسوس ہو تو ان کے خلاف عدالت سے رُجوع کریں۔
اس غیرسرکاری فلاحی تنظیم (این جی او) میں مبینہ مالی بے ضابطگی کو لیگی و جیالے مبصرین (ٹرولز) اپنے کرپٹ ترین لیڈران کی کرپشن بچانے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ یعنی بقول ان کے اگر ہمارا لیڈر چور ہے تو عمران خان بھی چور ہے کیونکہ ان کی بہن اس سکینڈل میں پکڑی گئی ہیں۔
ان تعصب زدہ لوگوں کو کوئی سمجھائے کہ عمران خان نے بیشک سیاست میں آنے سے قبل اس ٹرسٹ کی بنیاد رکھی تھی۔ اور اس کی مدد سے کینسر ہسپتال بنایاتھا۔ مگر سیاست میں پوری طرح مگن ہونے کے بعد وہ اسے نہیں چلاتے۔ بلکہ ٹرسٹ کیلئے صرف پیسا اکٹھے کرنے کی مہم میں کبھی کبھار بطور مہمان خصوصی چلے جاتے ہیں۔
جہاں تک عمران خان کی اپنی جائیداد بنی گالہ کا تعلق ہے تو اس سے متعلق منی ٹریل ان کی سابقہ اہلیہ جمائما خان دے چکی ہیں۔ جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے خان صاحب کو'صادق و امین' کا لقب دے کر پچھلے سال با عزت بری کیا تھا۔ جبکہ دوسری جانب لیگیوں اور جیالوں کی قیادت یہی منی ٹریل اپنے یا اپنے بچوں کے اثاثہ جات کے حوالہ سے دینے سے قاصر ہے۔ اور اس کی بجائے سیاسی انتقام کا رونا رو رہی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
علیمہ خانم شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے بورڈ آف گورنرز کی فعال ترین رُکن ہیں۔ اندرون و بیرون ممالک سے ٹرسٹ کیلئے پیسا موصوفہ ہی اکٹھا کرتی ہیں۔
لیگی سیاست دان اس حوالہ سے ماضی میں شوشے چھوڑتے رہے ہیں کہ عمران خان اپنی فلاحی تنظیم کا پیسا بیرون ممالک میں سرمایہ کاری کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ مگر 5 سالہ دورہ اقتدار کے باوجود وہ ان کے خلاف کوئی قانونی کاروائی نہ کر سکے۔
علیمہ خانم کا چونکہ اپنا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے۔یوں اس خبر سےیہی تاثر ملتا ہے کہ انہوں نے ٹرسٹ کے پیسے سے دبئی میں جائیداد خریدی اورٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہیں کی۔ جس کی وجہ سے اب انہیں سزا کے طور پر بھاری جرمانہ اور واجب الادا ٹیکس دینا پڑا ہے۔
اس ہوش ربا سکینڈل کے بعد شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے بورڈ آف گورنرز کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ علیمہ خانم کو مالی خرد برد کی مد میں بورڈ سے فارغ کر دیں۔ اور اگر ضرورت محسوس ہو تو ان کے خلاف عدالت سے رُجوع کریں۔
اس غیرسرکاری فلاحی تنظیم (این جی او) میں مبینہ مالی بے ضابطگی کو لیگی و جیالے مبصرین (ٹرولز) اپنے کرپٹ ترین لیڈران کی کرپشن بچانے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ یعنی بقول ان کے اگر ہمارا لیڈر چور ہے تو عمران خان بھی چور ہے کیونکہ ان کی بہن اس سکینڈل میں پکڑی گئی ہیں۔
ان تعصب زدہ لوگوں کو کوئی سمجھائے کہ عمران خان نے بیشک سیاست میں آنے سے قبل اس ٹرسٹ کی بنیاد رکھی تھی۔ اور اس کی مدد سے کینسر ہسپتال بنایاتھا۔ مگر سیاست میں پوری طرح مگن ہونے کے بعد وہ اسے نہیں چلاتے۔ بلکہ ٹرسٹ کیلئے صرف پیسا اکٹھے کرنے کی مہم میں کبھی کبھار بطور مہمان خصوصی چلے جاتے ہیں۔
جہاں تک عمران خان کی اپنی جائیداد بنی گالہ کا تعلق ہے تو اس سے متعلق منی ٹریل ان کی سابقہ اہلیہ جمائما خان دے چکی ہیں۔ جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے خان صاحب کو'صادق و امین' کا لقب دے کر پچھلے سال با عزت بری کیا تھا۔ جبکہ دوسری جانب لیگیوں اور جیالوں کی قیادت یہی منی ٹریل اپنے یا اپنے بچوں کے اثاثہ جات کے حوالہ سے دینے سے قاصر ہے۔ اور اس کی بجائے سیاسی انتقام کا رونا رو رہی ہے۔
آپ کیوں ٹینشن لے رہے ہیں۔ ۔۔؟ یہاں کسی نے خان صاحب پر مالی کرپشن کا الزام عائد نہیں کیا ہے۔
 

آورکزئی

محفلین
کہاں پہ ادا کی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟ جرمانہ ادا ۔۔۔ بات ختم۔۔۔۔۔۔۔نہ جرم نہ مجرم واہ رے سیاست تیرے کتنے رنگ
 

جاسم محمد

محفلین
کہاں پہ ادا کی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟ جرمانہ ادا ۔۔۔ بات ختم
ایف بی آر کو۔ چونکہ مقدمہ اور سزا سے بچنے کیلئے پلی بارگین تھی اس لئے مکمل تفصیلات شاید وہ نہ بتائیں۔ بہرحال دبئی جائیداد کا 25 فیصد ٹیکس اور 25 فیصد جرمانہ ادا کر دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب جائیداد مبینہ طور پر فروخت کر دی گئی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
علیمہ خانم نے ایف بی آر کی جانب سے قانونی کاروائی کے خوف سے اپنا 'جرم' خود ہی تسلیم کر لیا۔ بیرون ملک جائیداد پر واجب الادا ٹیکس اور جائیداد چھپانے کے جرم میں جرمانہ بھی ادا کر دیا ہے۔ باقی کا احتساب کرنا شوکت خانم کے بورڈ آف گورنرز کا کام ہے کیونکہ علیمہ خانم کی اپنی کوئی ذاتی آمدن نہیں جو دبئی کے وسط میں سرمایہ کر سکیں۔
اس سکینڈل سے شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کی ساخت کو نقصان پہنچا ہے۔ جو آئندہ عطیات کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اس لئے ادارے کو اپنا نام کلیئر کروانا لازمی ہے۔ باقی علیمہ خانم کو قانونی سزا مل ایف بی آر سے پلی بارگن کی صورت میں مل چکی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
علیمہ خانم نے ایف بی آر کی جانب سے قانونی کاروائی کے خوف سے اپنا 'جرم' خود ہی تسلیم کر لیا۔ بیرون ملک جائیداد پر واجب الادا ٹیکس اور جائیداد چھپانے کے جرم میں جرمانہ بھی ادا کر دیا ہے۔ باقی کا احتساب کرنا شوکت خانم کے بورڈ آف گورنرز کا کام ہے کیونکہ علیمہ خانم کی اپنی کوئی ذاتی آمدن نہیں جو دبئی کے وسط میں سرمایہ کر سکیں۔
اس سکینڈل سے شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کی ساخت کو نقصان پہنچا ہے۔ جو آئندہ عطیات کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اس لئے ادارے کو اپنا نام کلیئر کروانا لازمی ہے۔ باقی علیمہ خانم کو قانونی سزا مل ایف بی آر سے پلی بارگن کی صورت میں مل چکی ہے۔
ناطقہ سر بہ گریباں ہے ۔۔۔!
 

جاسم محمد

محفلین
چلیں اچھا ہوا جیل جانے سے بچ گئیں۔
جی جیل سے بھی اسی لیے بچ گئیں کہ ایف بی آر حکام سے بروقت سمجھوتہ کر لیا گیا۔ یہ کہ اگر اپنی دبئی جائیداد تسلیم کر کے اس پر جرمانہ اور ٹیکس ادا کر دیں تو وہ مزید کاروائی نہیں کرے گا۔ بصورت دیگر کیس عدالت میں چلتا۔ جیل ہوتی۔ بدنامی الگ ہوتی۔ اب جائیداد بیچ کر پیسا واپس پاکستانی خزانہ میں آ گیا ہے۔ سب خوش ہیں سوائے مخالفین کے۔

یاد رہے کہ قانون میں پلی بارگین کا حق ہر ملزم و مجرم وکو ملتا ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
علیمہ خان کی دبئی پراپرٹی کے حوالے سے کئی مرتبہ پہلے بھی پوسٹ کرچکا ہوں کہ یہ ایک فلیٹ تھا جو کہ " دی لافٹس ایسٹ " نامی ٹاور میں واقع تھا۔ بہت سےسیاسی مخالفین نے اس فلیٹ کو " اربوں " کی جائیداد بنا کر پیش کیا اور تاثر دیا کہ جیسے سارے پاکستان کی دولت سے یہ ایک فلیٹ خریدا گیا۔

کچھ حقائق پیش خدمت ہیں:

1۔ علیمہ خان کا یہ فلیٹ دی لافٹس ٹاور نامی بلڈنگ میں تھا

2۔ پراپرٹی فائنڈر ڈاٹ اے ای دبئی رئیل اسٹیٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ ہے، اس پر اگر آپ دی لافٹس ایسٹ ٹاور کی قیمتیں چیک کریں تو ڈیڑھ ملین درھم سے لے کر ڈھائی ملین درہم کی رینج ملتی ہے، خاص کر ان فلیٹس کی جن کا ایریا چودہ سو سکوائر فٹ کی رینج میں ہو۔

3۔ پاکستانی کرنسی میں یہ رقم ساڑھے پانچ کروڑ سے لے کر نو کروڑ کی رینج میں بنتی ہے۔ اس رقم میں لاہور ڈیفینس میں ایک کنال کا گھر مشکل سے ملتا ہے ۔ ۔ ۔

4۔ علیمہ خان نے 1989 میں لمز سے ایم بی اے کی ڈگری لی تھی، اور یہ غالباً لمز کا پہلا بیچ بھی تھا۔ علیمہ خان اس کے بعد ٹیکسٹائل بزنس میں آئی اور ایکسپورٹس کے شعبے میں کامیاب بزنس شروع کیا۔ اگر آپ علیمہ خان کے بزنس کو گھٹیا ظاہر کیلئے اسے ٹیکسٹائل کی بجائے سلائی مشین کا کام کہتے ہیں تو پھر سارا پاکستان ہی سلائی مشین کی کمائی کھارہا ہے کیونکہ پاکستان کی سب سے بڑی ایکسپورٹ ٹیکسٹائل کے شعبے سے ہی وابستہ ہے۔

5۔ علیمہ خان بہت سی ملٹی نیشنل گارمنٹس فرمز کے پاکستان میں آرڈرز مینیج کرتی رہی ہے اور جو لوگ اس شعبے سے وابستہ ہیں، وہ بخوبی جانتے ہوں گے کہ اس شعبے کا کمیشن مارجن کتنا ہے۔ خود میرے جاننے والے لوگ چند برسوں میں کروڑ پتی ہوگئے۔ ایکسپورٹ کا کام ہی ایسا ہے۔

6۔ اب اگر اس شعبے کی ایک کامیاب بزنس وومن نے سات، آٹھ کروڑ کی ایک پراپرٹی دبئی میں بنا لی تو اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں۔ اعظم مارکیٹ لاہور کا کوئی بھی دکاندار اتنی رقم ہر سال خرچ کر سکتا ہے۔

اب آجائیں ٹیکس کے معاملات کی طرف۔

علیمہ خان نہ تو سیاسی عہدہ رکھتی تھی اور نہ ہی سیاست میں کبھی آئی۔ اس پر یہ کبھی بھی لازم نہیں رہا کہ وہ اپنے تمام اثاثہ جات ڈیکلئیر کرتی، کیونکہ یہ ریکوائرمنٹ ان پر ہوتی ہے جو الیکشن لڑتے ہیں اور عوامی عہدے رکھتے ہیں۔

چند سال قبل ایک قانون سازی کے نتیجے میں پاکستانی بزنس مین پر یہ لازم کردیا گیا کہ وہ اپنی غیرملکی جائیدادوں کو بھی گوشواروں میں ظاہر کرے اور یہ وہی سال تھا جب علیمہ خان کے پاس دبئی کی یہ پراپرٹی تھی۔ علیمہ خان سے غلطی بس اتنی ہوئی کہ اس سے اس سال گوشواروں کا اندراج نہ ہوا۔

لیکن اس غلطی کا خمیازہ اسے اس طرح بھگتنا پڑا کہ وزیراعظم کی بہن ہونے کی وجہ سے تنقید کی زد میں آگئی۔ ریوینیو ڈپارٹمنٹ کے قواعد کے مطابق ایسی غلطی کو آپ جرمانے کی ادائیگی سے سدھار سکتے ہیں۔ اس جرمانے کا تعین متعلقہ ٹیکس افسر کرتا ہے اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ اس نے جرمانے کی رقم زیادہ کردی تو آپ اس کے خلاف اپیل دائر کرسکتے ہیں۔ ایک اچھا ٹیکس کا وکیل یہ اپیل اگر کرتا ہے تو جرمانے کی رقم بآسانی اسی فیصد تک کم کروا سکتا ہے۔

علیمہ خان کی بدقسمتی کہ وہ عمران خان کی بہن تھی، چنانچہ ریوینیو ڈیپارٹمنٹ نے اس پر فلیٹ کی رقم یعنی ساڑھے سات کروڑ کا پچیس فیصد ٹیکس اور پچیس فیصد جرمانہ کردیا۔ علیمہ خان نے اپنے بھائی کو تنازعات سے بچانے کیلئے پونے چار کروڑ روپے کی رقم ادا کردی، حالانکہ اگر وہ چاہتی تو ایک وکیل کو پانچ لاکھ دے کر یہ جرمانہ بیس لاکھ کروا سکتی تھی۔

ایک طرف عمران خان کے رشتے دار ہیں جو قانون میں دی گئی رعایات بھی استعمال نہیں کرتے اور کروڑوں کے اضافی ٹیکس ادا کررہے ہیں، دوسری طرف شریف برادران اور زرداری ہیں کہ جنہوں نے قوم کے کھربوں روپے لوٹے، لیکن جب ان کے خلاف کاروائی ہوئی تو انہوں نے لیٹرینوں کے گندا ہونے اور قبر کے ٹرائل کرنے کا شور مچا دیا۔

لیڈرشپ کا فرق آپ کے سامنے ہے، اب یہ آپ کے ظرف، عقل اور شعور پر منحصر ہے کہ آپ کس لیڈرشپ کا ساتھ دیتے ہیں!!! بقلم خود باباکوڈا

46422828_2017233685011243_417829532544794624_n.png

46512340_2017234681677810_5667873125677662208_n.png
 

فرحت کیانی

لائبریرین
جی ہاں! علیمہ خان نے اچھی طرح سے معاملے کو ہینڈل کیا ہے اور لوٹے ہوئے مال کو واپس دے کر اپنی گردن بچا لی۔ شاید یہی بہتر حکمت عملی ہو۔
سوال یہ ہے کہ انھوں نے مال لوٹا ہی کیوں؟ سر پر تلوار لٹکنے پر جو کام کیا اگر وہ خود سے کیا ہوتا تو شاید وہ ان لوگوں سے مختلف سمجھی جاتیں جن کی کرپشن کی کہانیاں ان کے بھائی نے سنا سنا کر کان پکا دئیے ہیں۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
علیمہ خان کی دبئی پراپرٹی کے حوالے سے کئی مرتبہ پہلے بھی پوسٹ کرچکا ہوں کہ یہ ایک فلیٹ تھا جو کہ " دی لافٹس ایسٹ " نامی ٹاور میں واقع تھا۔ بہت سےسیاسی مخالفین نے اس فلیٹ کو " اربوں " کی جائیداد بنا کر پیش کیا اور تاثر دیا کہ جیسے سارے پاکستان کی دولت سے یہ ایک فلیٹ خریدا گیا۔

کچھ حقائق پیش خدمت ہیں:

1۔ علیمہ خان کا یہ فلیٹ دی لافٹس ٹاور نامی بلڈنگ میں تھا

2۔ پراپرٹی فائنڈر ڈاٹ اے ای دبئی رئیل اسٹیٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ ہے، اس پر اگر آپ دی لافٹس ایسٹ ٹاور کی قیمتیں چیک کریں تو ڈیڑھ ملین درھم سے لے کر ڈھائی ملین درہم کی رینج ملتی ہے، خاص کر ان فلیٹس کی جن کا ایریا چودہ سو سکوائر فٹ کی رینج میں ہو۔

3۔ پاکستانی کرنسی میں یہ رقم ساڑھے پانچ کروڑ سے لے کر نو کروڑ کی رینج میں بنتی ہے۔ اس رقم میں لاہور ڈیفینس میں ایک کنال کا گھر مشکل سے ملتا ہے ۔ ۔ ۔

4۔ علیمہ خان نے 1989 میں لمز سے ایم بی اے کی ڈگری لی تھی، اور یہ غالباً لمز کا پہلا بیچ بھی تھا۔ علیمہ خان اس کے بعد ٹیکسٹائل بزنس میں آئی اور ایکسپورٹس کے شعبے میں کامیاب بزنس شروع کیا۔ اگر آپ علیمہ خان کے بزنس کو گھٹیا ظاہر کیلئے اسے ٹیکسٹائل کی بجائے سلائی مشین کا کام کہتے ہیں تو پھر سارا پاکستان ہی سلائی مشین کی کمائی کھارہا ہے کیونکہ پاکستان کی سب سے بڑی ایکسپورٹ ٹیکسٹائل کے شعبے سے ہی وابستہ ہے۔

5۔ علیمہ خان بہت سی ملٹی نیشنل گارمنٹس فرمز کے پاکستان میں آرڈرز مینیج کرتی رہی ہے اور جو لوگ اس شعبے سے وابستہ ہیں، وہ بخوبی جانتے ہوں گے کہ اس شعبے کا کمیشن مارجن کتنا ہے۔ خود میرے جاننے والے لوگ چند برسوں میں کروڑ پتی ہوگئے۔ ایکسپورٹ کا کام ہی ایسا ہے۔

6۔ اب اگر اس شعبے کی ایک کامیاب بزنس وومن نے سات، آٹھ کروڑ کی ایک پراپرٹی دبئی میں بنا لی تو اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں۔ اعظم مارکیٹ لاہور کا کوئی بھی دکاندار اتنی رقم ہر سال خرچ کر سکتا ہے۔

اب آجائیں ٹیکس کے معاملات کی طرف۔

علیمہ خان نہ تو سیاسی عہدہ رکھتی تھی اور نہ ہی سیاست میں کبھی آئی۔ اس پر یہ کبھی بھی لازم نہیں رہا کہ وہ اپنے تمام اثاثہ جات ڈیکلئیر کرتی، کیونکہ یہ ریکوائرمنٹ ان پر ہوتی ہے جو الیکشن لڑتے ہیں اور عوامی عہدے رکھتے ہیں۔

چند سال قبل ایک قانون سازی کے نتیجے میں پاکستانی بزنس مین پر یہ لازم کردیا گیا کہ وہ اپنی غیرملکی جائیدادوں کو بھی گوشواروں میں ظاہر کرے اور یہ وہی سال تھا جب علیمہ خان کے پاس دبئی کی یہ پراپرٹی تھی۔ علیمہ خان سے غلطی بس اتنی ہوئی کہ اس سے اس سال گوشواروں کا اندراج نہ ہوا۔

لیکن اس غلطی کا خمیازہ اسے اس طرح بھگتنا پڑا کہ وزیراعظم کی بہن ہونے کی وجہ سے تنقید کی زد میں آگئی۔ ریوینیو ڈپارٹمنٹ کے قواعد کے مطابق ایسی غلطی کو آپ جرمانے کی ادائیگی سے سدھار سکتے ہیں۔ اس جرمانے کا تعین متعلقہ ٹیکس افسر کرتا ہے اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ اس نے جرمانے کی رقم زیادہ کردی تو آپ اس کے خلاف اپیل دائر کرسکتے ہیں۔ ایک اچھا ٹیکس کا وکیل یہ اپیل اگر کرتا ہے تو جرمانے کی رقم بآسانی اسی فیصد تک کم کروا سکتا ہے۔

علیمہ خان کی بدقسمتی کہ وہ عمران خان کی بہن تھی، چنانچہ ریوینیو ڈیپارٹمنٹ نے اس پر فلیٹ کی رقم یعنی ساڑھے سات کروڑ کا پچیس فیصد ٹیکس اور پچیس فیصد جرمانہ کردیا۔ علیمہ خان نے اپنے بھائی کو تنازعات سے بچانے کیلئے پونے چار کروڑ روپے کی رقم ادا کردی، حالانکہ اگر وہ چاہتی تو ایک وکیل کو پانچ لاکھ دے کر یہ جرمانہ بیس لاکھ کروا سکتی تھی۔

ایک طرف عمران خان کے رشتے دار ہیں جو قانون میں دی گئی رعایات بھی استعمال نہیں کرتے اور کروڑوں کے اضافی ٹیکس ادا کررہے ہیں، دوسری طرف شریف برادران اور زرداری ہیں کہ جنہوں نے قوم کے کھربوں روپے لوٹے، لیکن جب ان کے خلاف کاروائی ہوئی تو انہوں نے لیٹرینوں کے گندا ہونے اور قبر کے ٹرائل کرنے کا شور مچا دیا۔

لیڈرشپ کا فرق آپ کے سامنے ہے، اب یہ آپ کے ظرف، عقل اور شعور پر منحصر ہے کہ آپ کس لیڈرشپ کا ساتھ دیتے ہیں!!! بقلم خود باباکوڈا

46422828_2017233685011243_417829532544794624_n.png

46512340_2017234681677810_5667873125677662208_n.png
ہاہاہاہا مزاحیہ ترین
 

جاسم محمد

محفلین
پلی بارگین میں سنا ہے کہ لوگ بہت کم میں چھوٹ جاتے ہیں ان کو تو آدھی جائیداد دینی پڑ گئی؟
پلی بارگین کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ اقرار جرم کر لیں تو قانونی کاروائی میں وقت و سائل کے زیاں اور وہاں سے ملنے والی متوقع سزاؤں سے بچ سکتے ہیں۔ اسلام میں قتل تک کے لئے پلی بارگین (دیت کا قانون) موجود ہے۔ البتہ سیکولر قانون میں قتل جیسے سنگین جرم پر عموما پلی بارگین نہیں ملتا۔ البتہ مالی خُرد بُرد میں اکثر مل جاتا ہے۔
ویسے بھی ریاست کو آپ کو جسمانی سزا دے کر کیا ملے گا؟ ہاں اگر واجب الادا ٹیکس و جرمانہ قومی خزانے کو واپس مل جائے تو اسی کا فائدہ ہے۔ اس کے بدلہ میں مجرم جیل کی سزا سے بچ جاتا ہے۔ شریفوں اور زرداریوں کے لئےمشورہ خاص :)
 
Top