وزارت داخلہ اور حکومت کے خلاف ایس ایم ایس مہم

راشد احمد

محفلین
up56.gif


حوالہ روزنامہ جنگ
 

طالوت

محفلین
کہیں ہو ہی نہ جائے ۔ جہاں القاعدہ کے ڈیرے ہوں وہاں کے لئے اتنی معمولی سے بات پر کون زحمت کرے گا ۔ اور یوں بھی کردار ہو تو ایسی نوبت ہی کیوں آئے ۔
وسلام
 

گرائیں

محفلین
پاکستان زندہ باد۔
زرداری زندہ باد۔
بھٹو زندہ باد۔

تم کتنے ایس ایم ایس مارو گے،
ہر فون سے ایس ایم ایس نکلے گا ۔۔
 
ہاں تو میری رپورٹ کا عنوان ہے ۔ ۔ “ایک دھماکہ اور سہی “

بیانات کا یہ زور سہی
ایک دھماکہ اور سہی
ہر دھشت گرد مخبر ہے اپنا
نیٹ ورک ذرا کمزور سہی
میڈیا کی باتیں ایسی ہی ہیں
بچہ ہے نا منہ زور سہی
شیریں فرہاد کی کیسے ہو گی
مجنوں اسکا ہے ہور سہی
 

گرائیں

محفلین
بی بی سی اردو پر وسعت اللہ خان کا یہ بلاگ مجھے پسند آیا :

یہ اسی ایس ایم ایس مہم کے بارے میں لکھا گیا ہے ،جس پر حکومت کسی کو بھی چودہ سال قید سزا سنا سکتی ہے، ذرا توجہ سے مطالعہ کیجئے گا، کیسی چوٹ کی ہے مصنف نے:

پاکستانی وزارتِ داخلہ نے اخباری اطلاعات کے مطابق اعلان کیا ہے کہ سویلین قیادت اور سکیورٹی فورسز کے خلاف غیر شائستہ ، اشتعال انگیز اور بدنیتی پر مبنی خبروں، ای میلز اور ایس ایم ایس بھیجنے پر سائبر کرائمز ایکٹ کے تحت چودہ برس قید اور جائیداد کی ضبطی کی سزا دی جائے گی۔

ایسی تنظیموں کے خلاف بھی کارروائی ہوگی جو انٹرنیٹ کے ذریعے سکیورٹی فورسز کے خلاف منفی پروپیگنڈے میں مصروف ہیں۔بیرونِ ملک اس طرح کی ویب سائٹس اور ای میل ایڈریسز کی شناخت کے لیے انٹرپول سے بھی مدد مانگی جا رہی ہے۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو اس حکم نامے پر عمل درآمد کروانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ایف آئی اے روزانہ کی بنیاد پر ہر انٹرنیٹ سروس پروائیڈرز ( آئی ایس پیز) کے دفتر میں جاکر ان کا ریکارڈ چیک کرے گی۔

پرویز مشرف کے زمانے کے جس مسودہ قانون کو قلعی کرکے وزارتِ داخلہ نے اب حکم کی شکل دی ہے اس میں تشویش سے زیادہ دلچسپی کے پہلو نظر آ رہے ہیں۔مثلاً یہی کہ بدنیتی ، غیر شائستگی اور اشتعال انگیزی کی تعریف اب ایف آئی اے کے انسپکٹر کی صوابدید پر ہوگی۔ مثلاً یہ کہ مذکورہ ای میلز اور ایس ایم ایس بھیجنے کی سزا کسی کو قتل کر دینے کی سزا کے مساوی ہوگی (لیکن اچھی بات یہ ہے کہ سم بلاک نہیں ہوگی) ۔

مثلاً یہ کہ بیرونِ ملک ایسا مواد شائع کرنے والی ویب سائٹس اور ای میل ایڈریسز کی شناخت کا ایف آئی اے کے پاس کوئی نظام نہیں ہے۔اس لیے انٹر پول سے مدد مانگی جائے گی۔ فرض کریں کہ بیرونِ ملک ایسی ویب سائٹس اور ای میل ایڈریس کی شناخت ہو بھی جاتی ہے تو انہیں کیسے پاکستانی سائبر قوانین کے دائرے میں عملاً لایا جائےگا۔وزارتِ داخلہ کا حکمنامہ اس بارے میں خاموش ہے۔

کہتے ہیں کہ اس ملک میں موبائیل فونز کی تعداد چھ کروڑ سے زائد اور قانونی و غیر قانونی موبائیل سمز کی تعداد دس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ روزانہ اوسطاً چالیس کروڑ سے زائد ایس ایم ایس بھیجے جاتے ہیں۔جبکہ ای میل اکاؤنٹ ہولڈرز کی تعداد کم ازکم ایک کروڑ ہے۔اور روزانہ اوسطاً دس کروڑ ای میلز جنریٹ ہوتی ہیں۔جبکہ ایف آئی اے کے عملے کی تعداد تین ہزار کے لگ بھگ ہے اور اس کے سائبر کرائم ونگ میں کام کرنے والے پانچ سو سے بھی کم ہیں ۔

ایف آئی اے کو خودکش بمباروں اور مبینہ دہشت گردوں کا بھی ریکارڈ رکھنا ہے۔ وائٹ کالر کرائم اور فراڈز پر بھی نظر رکھنی ہے۔ امیگریشن کا کام بھی کرنا ہے اور اب سویلین قیادت اور سکیورٹی فورسز کے خلاف بھیجے اور وصول کیے جانے والے لاکھوں ای میلوں اور ایس ایم ایسز کی طرف بھی دھیان دینا ہے۔جن میں سے اکثر سنجیدہ پیغامات کی بجائے لطائف کی شکل میں گردش کرتے ہیں اور سرکاری اہلکاروں سمیت جسے بھی موصول ہوتے ہیں وہ انہیں کم ازکم اگلے دس دوستوں کو فارورڈ کرنا ثوابِ جاریہ سمجھتا ہے۔

اس ماحول میں بچاری ایف آئی اے کیا کرے گی۔وزارتِ داخلہ کے جس ’ویلے‘ سیکشن افسر نے ایف آئی اے کے لیے یہ حکمنامہ جاری کیا ہے کیا اسے یہ محاورہ یاد نہ آیا ہوگا کہ ننگی کیا نہائے گی کیا نچوڑے گی۔یاد رہے کہ یہ اردو کا معروف اور پرانا محاورہ ہے۔( یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ کہیں اس محاورے پر بھی سائبر کرائم ایکٹ لاگو نہ کردیا جائے)۔

اس حکم نامے کے اجرا سے اس فراغت کا بھی اندازہ ہوسکتا ہے جس سے وزارتِ داخلہ ایک ایسے دور میں لطف اندوز ہو رہی ہے جب بارودی جیکٹیں دندناتی گھوم رہی ہیں اور وزیرِ داخلہ رحمان ملک کو کچھ نہیں معلوم کہ جیکٹ پوش ان کے دفتر کے باہر پھٹے گا ، ایف آئی اے کے گیٹ پر گرے گا یا بازار میں کسی حساس ادارے کی بس سے ٹکرا جائےگا۔لیکن وزیرِ داخلہ کو اتنا ضرور یقین ہے کہ ایک طنز آمیز ایس ایم ایس خود کش ٹرک سے زیادہ خطرناک ہے۔ثبوت اس کا یہ سوال ہے کہ کیا آج تک کسی مبینہ خودکش بمبار کو چودہ سال قید اور جائیداد کی ضبطی کی سزا ہوئی ہے؟؟؟؟

ایک ایسے ملک میں جہاں عام آدمی کو یہ تک معلوم نہ ہو کہ جب وہ صبح اٹھے گا تو مٹی کے تیل کی قیمت میں کتنا اضافہ ہوچکا ہوگا یا آج جو بجلی گئی ہے تو اب کتنے دن بعد آئے گی یا اسکی تین سالہ بچی باہر کھلینے گئی ہے تو کہیں گٹر سے اس کی لاش تو نہیں ملے گی۔یا اس پر فردِ جرم اس کی زندگی میں عائد ہوگی یا پھر پولیس لاک اپ میں تشدد سے مرنے کے بعد اسے مجرم ثابت کیا جائے گا۔اس ماحول میں کیا حکومت یہ توقع رکھتی ہے کہ عام آدمی اس طرح کے ایس ایم ایس بھیجے کہ جناب یوسف رضا گیلانی کی جے۔رحمان ملک زندہ باد۔۔۔جب تک سورج چاند رہے گا آصف تیرا نام رہے گا۔۔۔۔۔۔پاک پولیس پائندہ باد۔۔۔۔

کچھ عرصے پہلے جب ایس ایم ایس بھیجنے پر بیس پیسے ٹیکس لگایا گیا تو لاکھوں کی تعداد میں یہ ایس ایم ایس جنریٹ ہوا کہ پہلے آپ حکومت کو مفت برا بھلا کہہ سکتے تھے اب فی گالی بیس پیسے ادا کرنے ہوں گے۔

یہ تو آزادی اظہار کی علمبردار حکومت ہے جس نے سیاسی قیادت کے خلاف غیر شائستہ ایس ایم ایس اور ای میلز کی وجوہات پر توجہ دیے بغیر صرف چودہ برس قید کی سزا رکھی ہے۔اگر موبائیل ٹیکنالوجی کہیں ضیا الحق کے دور میں عام ہوجاتی اور اس دور میں رحمان ملک ایک عام سرکاری ملازم ہونے کے بجائے وزیرِ داخلہ ہوتے تو ہر دوسرے ایس ایم ایس پر چودہ برس قید کے ساتھ ساتھ دس کوڑوں کی سزا مفت ہوتی۔۔۔

اسی لیے کہتے ہیں کہ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہے۔

ربط برئے حوالہ
 
عوامی حلقوں کی طرف سے وزارت داخلہ کی ہدایت پر شروع کی جانے والی اس مہم کی شدید مخالفت کی گئی ہے ان کا کہنا ہے کہ اس مہم سے صرف ذاتی مخالفین کو نشانہ بنایاجائے گا حکومت نے بڑے مسائل اور چیلنجز کو نظر انداز کرکے ایک نئی مہم شروع کر دی ہے جس کی وجہ سے سکیورٹی ادارے عوام کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے دوسرے کاموں میں مصروف ہو جائیں گے۔کہا جاتا ہے کہ حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے اس کی پالیسی کے خلاف جو ای میلز چلتی ہیں ان کی وجہ سے حکومت کے بہت سے راز اور خفیہ اقدامات بھی بے نقاب ہو جاتے ہیں، جنہیں حکومت اپنی ناکامی اور بدنامی تصور کرتی ہے۔ متعدد بیرونی ممالک سے بھی لوگ ای میلز کرتے ہیں اس طرح مختلف اداروں اور افراد کے درمیان جدید سائنسی بنیادوں پر قائم ہونے والے روابط کو اپنے خلاف پروپیگنڈہ مہم کا نام دے کر یہ کارروائی دراصل اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی ایک ایسی کوشش ہے جسے نہ صرف ملک کے عوامی حلقوں میں بلکہ عالمی سطح پر بھی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جائے گا اور اس تاثر کو تقویت ملے گی کہ حکومت عوامی حلقوں اور مختلف اداروں کے درمیان ان روابط کو اپنے خلاف پروپیگنڈہ مہم کا نام دے کر کارروائی کرنا چاہتی ہے۔
 

dxbgraphics

محفلین
بی بی سی اردو پر وسعت اللہ خان کا یہ بلاگ مجھے پسند آیا :

یہ اسی ایس ایم ایس مہم کے بارے میں لکھا گیا ہے ،جس پر حکومت کسی کو بھی چودہ سال قید سزا سنا سکتی ہے، ذرا توجہ سے مطالعہ کیجئے گا، کیسی چوٹ کی ہے مصنف نے:

پاکستانی وزارتِ داخلہ نے اخباری اطلاعات کے مطابق اعلان کیا ہے کہ سویلین قیادت اور سکیورٹی فورسز کے خلاف غیر شائستہ ، اشتعال انگیز اور بدنیتی پر مبنی خبروں، ای میلز اور ایس ایم ایس بھیجنے پر سائبر کرائمز ایکٹ کے تحت چودہ برس قید اور جائیداد کی ضبطی کی سزا دی جائے گی۔

ایسی تنظیموں کے خلاف بھی کارروائی ہوگی جو انٹرنیٹ کے ذریعے سکیورٹی فورسز کے خلاف منفی پروپیگنڈے میں مصروف ہیں۔بیرونِ ملک اس طرح کی ویب سائٹس اور ای میل ایڈریسز کی شناخت کے لیے انٹرپول سے بھی مدد مانگی جا رہی ہے۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو اس حکم نامے پر عمل درآمد کروانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ایف آئی اے روزانہ کی بنیاد پر ہر انٹرنیٹ سروس پروائیڈرز ( آئی ایس پیز) کے دفتر میں جاکر ان کا ریکارڈ چیک کرے گی۔

پرویز مشرف کے زمانے کے جس مسودہ قانون کو قلعی کرکے وزارتِ داخلہ نے اب حکم کی شکل دی ہے اس میں تشویش سے زیادہ دلچسپی کے پہلو نظر آ رہے ہیں۔مثلاً یہی کہ بدنیتی ، غیر شائستگی اور اشتعال انگیزی کی تعریف اب ایف آئی اے کے انسپکٹر کی صوابدید پر ہوگی۔ مثلاً یہ کہ مذکورہ ای میلز اور ایس ایم ایس بھیجنے کی سزا کسی کو قتل کر دینے کی سزا کے مساوی ہوگی (لیکن اچھی بات یہ ہے کہ سم بلاک نہیں ہوگی) ۔

مثلاً یہ کہ بیرونِ ملک ایسا مواد شائع کرنے والی ویب سائٹس اور ای میل ایڈریسز کی شناخت کا ایف آئی اے کے پاس کوئی نظام نہیں ہے۔اس لیے انٹر پول سے مدد مانگی جائے گی۔ فرض کریں کہ بیرونِ ملک ایسی ویب سائٹس اور ای میل ایڈریس کی شناخت ہو بھی جاتی ہے تو انہیں کیسے پاکستانی سائبر قوانین کے دائرے میں عملاً لایا جائےگا۔وزارتِ داخلہ کا حکمنامہ اس بارے میں خاموش ہے۔

کہتے ہیں کہ اس ملک میں موبائیل فونز کی تعداد چھ کروڑ سے زائد اور قانونی و غیر قانونی موبائیل سمز کی تعداد دس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ روزانہ اوسطاً چالیس کروڑ سے زائد ایس ایم ایس بھیجے جاتے ہیں۔جبکہ ای میل اکاؤنٹ ہولڈرز کی تعداد کم ازکم ایک کروڑ ہے۔اور روزانہ اوسطاً دس کروڑ ای میلز جنریٹ ہوتی ہیں۔جبکہ ایف آئی اے کے عملے کی تعداد تین ہزار کے لگ بھگ ہے اور اس کے سائبر کرائم ونگ میں کام کرنے والے پانچ سو سے بھی کم ہیں ۔

ایف آئی اے کو خودکش بمباروں اور مبینہ دہشت گردوں کا بھی ریکارڈ رکھنا ہے۔ وائٹ کالر کرائم اور فراڈز پر بھی نظر رکھنی ہے۔ امیگریشن کا کام بھی کرنا ہے اور اب سویلین قیادت اور سکیورٹی فورسز کے خلاف بھیجے اور وصول کیے جانے والے لاکھوں ای میلوں اور ایس ایم ایسز کی طرف بھی دھیان دینا ہے۔جن میں سے اکثر سنجیدہ پیغامات کی بجائے لطائف کی شکل میں گردش کرتے ہیں اور سرکاری اہلکاروں سمیت جسے بھی موصول ہوتے ہیں وہ انہیں کم ازکم اگلے دس دوستوں کو فارورڈ کرنا ثوابِ جاریہ سمجھتا ہے۔

اس ماحول میں بچاری ایف آئی اے کیا کرے گی۔وزارتِ داخلہ کے جس ’ویلے‘ سیکشن افسر نے ایف آئی اے کے لیے یہ حکمنامہ جاری کیا ہے کیا اسے یہ محاورہ یاد نہ آیا ہوگا کہ ننگی کیا نہائے گی کیا نچوڑے گی۔یاد رہے کہ یہ اردو کا معروف اور پرانا محاورہ ہے۔( یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ کہیں اس محاورے پر بھی سائبر کرائم ایکٹ لاگو نہ کردیا جائے)۔

اس حکم نامے کے اجرا سے اس فراغت کا بھی اندازہ ہوسکتا ہے جس سے وزارتِ داخلہ ایک ایسے دور میں لطف اندوز ہو رہی ہے جب بارودی جیکٹیں دندناتی گھوم رہی ہیں اور وزیرِ داخلہ رحمان ملک کو کچھ نہیں معلوم کہ جیکٹ پوش ان کے دفتر کے باہر پھٹے گا ، ایف آئی اے کے گیٹ پر گرے گا یا بازار میں کسی حساس ادارے کی بس سے ٹکرا جائےگا۔لیکن وزیرِ داخلہ کو اتنا ضرور یقین ہے کہ ایک طنز آمیز ایس ایم ایس خود کش ٹرک سے زیادہ خطرناک ہے۔ثبوت اس کا یہ سوال ہے کہ کیا آج تک کسی مبینہ خودکش بمبار کو چودہ سال قید اور جائیداد کی ضبطی کی سزا ہوئی ہے؟؟؟؟

ایک ایسے ملک میں جہاں عام آدمی کو یہ تک معلوم نہ ہو کہ جب وہ صبح اٹھے گا تو مٹی کے تیل کی قیمت میں کتنا اضافہ ہوچکا ہوگا یا آج جو بجلی گئی ہے تو اب کتنے دن بعد آئے گی یا اسکی تین سالہ بچی باہر کھلینے گئی ہے تو کہیں گٹر سے اس کی لاش تو نہیں ملے گی۔یا اس پر فردِ جرم اس کی زندگی میں عائد ہوگی یا پھر پولیس لاک اپ میں تشدد سے مرنے کے بعد اسے مجرم ثابت کیا جائے گا۔اس ماحول میں کیا حکومت یہ توقع رکھتی ہے کہ عام آدمی اس طرح کے ایس ایم ایس بھیجے کہ جناب یوسف رضا گیلانی کی جے۔رحمان ملک زندہ باد۔۔۔جب تک سورج چاند رہے گا آصف تیرا نام رہے گا۔۔۔۔۔۔پاک پولیس پائندہ باد۔۔۔۔

کچھ عرصے پہلے جب ایس ایم ایس بھیجنے پر بیس پیسے ٹیکس لگایا گیا تو لاکھوں کی تعداد میں یہ ایس ایم ایس جنریٹ ہوا کہ پہلے آپ حکومت کو مفت برا بھلا کہہ سکتے تھے اب فی گالی بیس پیسے ادا کرنے ہوں گے۔

یہ تو آزادی اظہار کی علمبردار حکومت ہے جس نے سیاسی قیادت کے خلاف غیر شائستہ ایس ایم ایس اور ای میلز کی وجوہات پر توجہ دیے بغیر صرف چودہ برس قید کی سزا رکھی ہے۔اگر موبائیل ٹیکنالوجی کہیں ضیا الحق کے دور میں عام ہوجاتی اور اس دور میں رحمان ملک ایک عام سرکاری ملازم ہونے کے بجائے وزیرِ داخلہ ہوتے تو ہر دوسرے ایس ایم ایس پر چودہ برس قید کے ساتھ ساتھ دس کوڑوں کی سزا مفت ہوتی۔۔۔

اسی لیے کہتے ہیں کہ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہے۔

ربط برئے حوالہ

شاید آپ کا سچ چند ایک کو ہضم نہ آئے
 
Top