وحی اور نبوت ( شہید ڈاکٹر مرتضی مھطری )

صرف علی

محفلین
معانی قرآن
معانی و مطالب کے لحاظ سے قرآن کا اعجاز تفصیلی بحث کا متقاضی ہے اور کم از کم ایک الگ کتاب کا محتاج ہے۔ البتہ مختصراً قرآن کے اس پہلو پر بھی روشنی ڈالی جا سکتی ہے‘ تمہید کے طور پر یہ جان لینا چاہئے کہ قرآن کس نوعیت کی کتاب ہے؟ کیا فلسفہ کی کتاب ہے؟ کیا یہ کتاب سائنسی‘ ادبی یا تاریخ کی کتاب ہے؟ یا یہ کہ صرف فن و ہنر کا ایک شاہکار ہے؟ جواب یہ ہے کہ قرآن ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں ہے جیسا کہ پیغمبر اکرم بلکہ تمام انبیاء بالکل ایک جداگانہ حیثیت کے حامل ہیں‘ نہ تو فلسفی ہیں‘ نہ منطقی اور نہ ادیب اور مورخ ہیں اور نہ ہی ہنرمند اور صنعت گر ہیں‘ لیکن اس کے باوجود کہ ان میں سے کچھ بھی نہیں ہیں‘ پھر بھی ان تمام خصوصیات کے علاوہ بعض زائد خصوصیات کے حامل ہیں۔ اسی طرح قرآن بھی جو آسمانی کتاب ہے‘ نہ فلسفہ ہے نہ منطق‘ نہ تاریخ ہے نہ ادب ہے اور نہ کسی فن و ہنر کا شاہکار‘ لیکن سب کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی ان سب خصوصیات کے علاوہ مزید خصوصیات کا حامل بھی ہے۔ قرآن انسانوں کی رہنمائی کی کتاب ہے اور حقیقت میں وہ ”انسان“ کی کتاب ہے‘ لیکن انسان بھی کون سا؟ ایسا انسان جس کو انسان کے خدا نے پیدا کیا ہے اور انبیائے الٰہی کے آنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ انسان کو اس کی حقیقت سے آگاہ کریں اور اس کی سعادت و نیک بختی کا راستہ اس کے لئے کھول دیں اور قرآن چونکہ انسان کی کتاب ہے‘ پس اللہ کی کتاب بھی ہے‘ کیوں کہ انسان ہی وہ موجود ہے‘ جس کی خلقت اس دنیا سے قبل ہوئی ہے اور جس کا وجود اس دنیا کے بعد باقی رہے گا‘ یعنی انسان بنظر قرآن روح الٰہی کا ایک نسخہ ہے اور بہرحال اسے اپنے رب کی طرف پلٹ کر جانا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ اللہ کی معرفت اور انسان کی خود شناسی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہے۔
انسان جب تک اپنے کو نہیں پہچانے گا‘ اپنے اللہ کو بھی صحیح طریقے سے نہیں پہچان سکتا‘ دوسری طرف انسان صرف خدا شناسی کے ذریعے ہی اپنی حقیقت کو پہچان سکتا ہے۔ پیغمبروں کے مکتب فکر میں کہ قرآن جس کا مکمل ترین نمونہ ہے‘ انسان‘ اس انسان کے مقابلے میں جس کو بشر علم و منطق کے ذریعے پہچانتا ہے‘ بہت مختلف ہے یعنی وہ پہلا انسان بہت وسیع معنی رکھتا ہے‘ جب کہ علوم کے ذریعے سے پہچانا جانے والا انسان پیدائش اور موت کے درمیان قائم ہے‘ ان حدود سے قبل اور بعد بالکل تاریکی چھائی ہوئی ہے اور بشری علوم کے لئے یہ چیزیں بالکل نامعلوم ہیں۔
لیکن قرآن کا انسان ان دو حدوں کے درمیان محدود نہیں ہے بلکہ وہ دوسری دنیا سے آیا ہے اور اسے اپنے آپ کو دنیا کے مدرسے میں مکمل کرنا ہو گا اور اس کا مستقبل اس دنیا میں الٰہی امر سے وابستہ ہے کہ اس دنیا کے مدرسے میں اس نے کس قسم کی کارکردگی‘ تلاش و کشش یا کاہلی و سستی کا ثبوت دیا ہے۔ اس کے علاوہ پیدائش اور موت کے درمیان انسان جس کو بشر پہچانتا ہے‘ بہت سطحی اور معمولی ہے بہ نسبت اس انسان کے جسے پیغمبروں نے پہچنوایا ہے۔ قرآن کے انسان کو چاہئے کہ ان باتوں کا علم حاصل کرے کہ وہ کہاں سے آیا ہے‘ کہاں جائے گا‘ کہاں پر ہے اور اسے کیا ہونا چاہئے اور کیا کرنا چاہئے؟
اگر قرآن کا انسان ان پانچ سوالوں کا ٹھیک ٹھیک جواب دے لے گا‘ تو اس دنیا میں جس میں وہ ہے اور اس دنیا میں جہاں وہ جائے گا اس کی سعادت و خوش بختی کی ضمانت فراہم ہو جائے گی‘ اس انسان کو یہ جاننے کے لئے کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کس سرچشمے سے اس کا آغاز ہوا ہے‘ چاہئے کہ اپنے اللہ کو پہچانے اور اپنے اللہ کو پہچاننے کی غرض سے دنیا اور انسانوں کے بارے میں آفاقی اور نفسی نشانیوں کی حیثیت سے مطالعہ اور غور و فکر کرے اور وجود و ہستی کی گہرائیوں کا بنظر غائر مطالعہ کرے اور ان چیزوں کے بارے میں جنہیں قرآن خدا کی طرف واپسی کہتا ہے‘ یعنی قیامت‘ حشر و نشر‘ قیامت کے خطرات ہمیشہ قائم رہنے والی نعمتیں اور سخت عذاب اور اس کا کچھ لوگوں کے لئے ابدی ہونا مختصر یہ کہ بعدازموت جو جو مراحل پیش آنے والے ہیں‘ ان پر تامل و فکر کرے اور ان سے آگاہی حاصل کرے اور سب پر عقیدہ رکھے اور ان پر ایمان لائے اور خدا کو جس طرح اول اور موجودات کا نکتہ آغاز جانتا ہے‘ اسی طرح آخر اور تمام موجودات کی بازگشت و واپسی کا نکتہ آغاز بھی جانے اور یہ جاننے کے لئے کہ وہ کہاں ہے؟ دنیا کے نظاموں اور طور طریقوں کو پہچاننے اور تمام موجودات کے درمیان انسان کے مقام و منزلت کو سمجھنے کی کوشش کرے اور موجودات کے درمیان اپنی حقیقت کو پھر سے پا لے اور یہ جاننے کے لئے کہ اسے کیسا ہونا چاہئے؟ انسانی خصلتوں اور عادتوں کو پہچانے اور اپنے آپ کو انہیں اخلاق و خصائل کی بنیاد پر استوار کرے اور انہی کے مطابق خود کو ڈھالنے کی کوشش کرے یہ جاننے کے لئے کہ اسے کیا کرنا چاہئے انفرادی و اجتماعی مقررہ امور و احکام کی پیروی کرے۔ ان مذکورہ تمام باتوں کے علاوہ قرآن کے انسان کو چاہئے کہ غیر محسوس اور دکھائی نہ دینے والے موجودات اور خود قرآن کے الفاظ میں ”غیب“ پر ان کے ارادہ الٰہی کے مظہر اور واسطہ ہونے کی حیثیت سے ایمان لائے اور نیز یہ جاننا چاہئے کہ خداوند متعال نے کسی زمانے اور کسی وقت میں بھی بشر کو جو آسمانی ہدایت کا ہمیشہ محتاج رہا ہے‘ مہمل اور بغیر ہادی کے نہیں چھوڑا ہے اور ہمیشہ اللہ کے برگزیدہ اقرار‘ جو اللہ کے پیغمبر اور خلق خدا کے رہنما رہے ہیں‘ خداوند عالم کی طرف سے مبعوث ہوتے اور الٰہی پیغام کو بندوں تک پہنچاتے رہے ہیں۔
قرآن کا انسان کائنات پر ایک آیت و نشانی کی حیثیت سے اور دنیا کی تاریخ پر ایک تجربہ گاہ کے عنوان سے جو پیغمبروں کی تعلیمات کے صحیح ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے‘ نگاہ ڈالتا ہے! ہاں قرآن کا انسان ایسا ہی ہے اور قرآن میں انسان کے واسطے جو مسائل پیش کئے گئے ہیں‘ وہ دوسرے چند مسائل کے علاوہ ہیں۔
قرآنی موضوعات
قرآن کریم میں جو موضوعات پیش کئے گئے ہیں‘ وہ بہت زیادہ ہیں اور انہیں الگ الگ شمار نہیں کیا جا سکتا‘ پھربھی مندرجہ ذیل مسائل پر اجمالاً نظر ڈالی جا رہی ہے:
۱۔ اللہ اور اس کی ذات‘ صفات اور یکتائی اور وہ چیزیں جن سے ہمیں اللہ کو منزہ سمجھنا چاہئے اور وہ چیزیں جن سے ہمیں خدا کو متصف سمجھنا چاہئے۔(صفات سلبیہ اور صفات ثبوتیہ)
۲۔ قیامت‘ محشر‘ تمام اموات کو زندہ کر کے اٹھانا اور موت سے لے کر قیامت تک کے مراحل۔ (برزخ)
۳۔ ملائکہ: فیض رسانی کے ذرائع‘ وہ غیر مرئی قوتیں جو خود آگاہ بھی ہیں اور خدا آگاہ بھی اور خدا کے احکام جاری کرنے والے ہیں۔
۴۔ انبیاء و مرسلین یا وہ انسان جو وحی الٰہی کو اپنے ضمیر میں دریافت کرتے ہیں اور اسے دوسرے انسانوں تک پہنچاتے ہیں۔
۵۔ اللہ پر ایمان لانے اور قیامت‘ ملائکہ‘ پیغمبروں اور آسمانی کتابوں پر ایمان لانے کے لئے رغبت اور شوق دلانا۔
۶۔ آسمانی‘ زمینوں‘ پہاڑوں‘ سمندروں‘ درختوں‘ حیوانات‘ بادل‘ ہوا‘ بارش‘ برف اور اولے اور ٹوٹنے والے ستاروں وغیرہ کی خلقت (اور ان پر غور و فکر)۔
۷۔ خدائے واحد و یکتا کی عبادت اور اس میں خلوص نیت پیدا کرنے‘ کسی شخص یا کسی چیز کو عبادت میں خدا کا شریک قرار نہ دینے کی طرف دعوت اور غیر خدا چاہے وہ کوئی انسان ہو یا فرشتہ‘ سورج ہو یا ستارہ‘ درخت ہو یا بت‘ کی عبادت و پرستش کی سخت ممانعت۔
۸۔ اس دنیا میں خداوند عالم کی نعمتوں کو یاد دلانا۔
۹۔ نیک کاروں اور اعمال صالحہ بجا لانے والوں کے لئے اس دنیا کی ہمیشہ باقی رہنے والی نعمتیں اور بدکاروں اور سرکشوں کے لئے اس دنیا کا سخت عذاب اور کچھ لوگوں کے لئے ابدی عذاب۔
۱۰۔ اللہ کے وجود اور وحدانیت اور قیامت اور پیغمبروں کے بارے میں دلیلوں اور حجتوں کا بیان اور ان بیانات کے ضمن میں کچھ غیبی خبروں کا ذکر۔
۱۱۔ ایک انسانی تجربہ گاہ اور لیبارٹری کے عنوان سے تاریخ اور قصے جو پیغمبروں کی دعوت کی حقانیت کو روشن کرتے ہیں اور انبیاء کی سیرت پر عمل کرنے والوں کا انجام بخیر ہونا اور انبیاء کی تکذیب کرنے والوں کا برا انجام۔
۱۲۔ تقویٰ و پرہیزگاری اور تزکیہ نفس۔
۱۳۔ نفس امارہ اور نفسانی خواہشات اور شیطانی وسوسوں کے خطرات کی طرف متوجہ رہنا۔
۱۴۔ اچھے انفرادی اخلاقیات‘ جیسے شجاعت‘ استقلال و پائیداری‘ صبر‘ عدالت‘ احسان‘ محبت‘ ذکر خدا‘ خدا سے محبت‘ شکر خدا‘ خدا سے ڈرتے رہنا‘ خدا پر بھروسہ‘ خدا کی خوشی پر راضی رہنا اور فرمان خدا کے سامنے سر جھکا دینا‘ عقل سے کام لینا‘ سوچنا اور غور و فکر کرنا‘ علم و معرفت کا حصول اور تقویٰ‘ سچائی اور امانت کے ذریعے دل میں نورانیت پیدا کرنا۔
۱۵۔ اجتماعی اخلاق جیسے اتحاد و یکجہتی اور ہم آہنگی‘ آپس میں ایک دوسرے کو حق و صبر کی وصیت کرتے رہنا‘ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا‘ بغض و حسد کو دل سے نکال پھینکنا‘ اچھے کاموں کا حکم دینا اور برائیوں سے منع کرنا‘ راہ خدا میں جان و مال کے ذریعے جہاد کرنا وغیرہ۔
۱۶۔ احکام جیسے نماز‘ روزہ‘ زکٰوة‘ خمس‘ حج‘ جہاد‘ نذر‘ قسم‘ تجارت‘ رہن‘ اجارہ‘ ہبہ‘ بیوی و شوہر کے حقوق‘ والدین اور اولاد کے حقوق‘ طلاق‘ لعان‘ ظہار‘ وصیت‘ میراث‘ قصاص‘ حدود و تعزیرات‘ قرض‘ قضا‘ گواہی‘ حلف (قسم)‘ ثروت‘ مالکیت حکومت‘ شوریٰ‘ فقراء کا حق‘ معاشرے کا حق وغیرہ وغیرہ۔
۱۷۔ رسول اکرم کے ۲۳ سالہ دور بعثت کے حادثات و واقعات۔
۱۸۔ رسول اکرم کے احوال و خصوصیات‘ آپ کی صفات حمیدہ اور جن مصائب سے آپ دوچار ہوئے۔
۱۹۔ ہر زمانے کے تین گروہوں‘ مومنوں‘ کافروں اور منافقوں کی عام صفات کا بیان۔
۲۰۔ دور بعثت کے مومنین‘ کافرین اور منافقین کے اوصاف کا ذکر۔
۲۱۔ فرشتوں کے علاوہ دوسری دکھائی نہ دینے والی مخلوقات‘ جنات اور شیطان وغیرہ۔
۲۲۔ تمام موجودات عالم کا حمد و تسبیح کرنا اور تمام موجودات کے اندر اپنے خالق و پروردگار کے بارے میں ایک قسم کی آگاہی کا ہونا۔
۲۳۔ خود قرآن کی توصیف (تقریباً پچاس اوصاف کا ذکر)۔
۲۴۔ دنیا اور دنیا کی سنتیں‘ دنیوی زندگی کی ناپائیداری اور اس کا اس قابل نہ ہونا کہ انسان کا آئیڈیل اور اس کی کامل آرزو قرار پائے اور یہ کہ خدا اور آخرت یعنی ہمیشہ باقی رہنے والی دنیا ہی اس قابل ہے کہ انسان کا انتہائی مقصود و مطلوب قرار پائے۔
۲۵۔ انبیائے کرام کے معجزات اور غیر معمولی افعال۔
۲۶۔ گذشتہ آسمانی کتابوں کی تائید و تصدیق خصوصاً تورات و انجیل کی اور ان دونوں کتابوں میں کی جانے والی تحریفوں اور غلطیوں کی تصحیح۔
معانی قرآن کی وسعت
اوپر جو باتیں بیان کی گئی ہیں‘ وہ قرآن مجید میں بیان شدہ موضوعات کی ایک اجمالی فہرست ہے‘ پھر بھی یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ اختصار کے لحاظ سے بھی یہ کافی ہے‘ اگر انسان‘ خدا اور دنیا کے بارے میں انہی مختلف موضوعات کو نظر میں رکھیں اور ان کا انسان کے بارے میں لکھی گئی کسی بھی کتاب سے موازنہ کریں‘ تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ کوئی کتاب بھی قرآن سے موازنے کی منزل پر نہیں آ سکتی‘ بالخصوص اس نکتے کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ قرآن ایک ایسے شخص کے ذریعے سے نازل ہوا ہے‘ جو اُمّی اور ان پڑھ تھے اور کسی عالم و دانش کے افکار سے واقف و آشنا نہیں تھے اور مزید برآں بطور خاص اگر ہم اس امر پر غور کریں کہ ایسے شخص کا ظہور ایسے ماحول میں ہوا تھا‘ جو ہمارے بشری ماحول سے زیادہ جاہل ماحول تھا اور اس ماحول کے لوگ عموماً علم و تمدن سے بیگانہ محض تھے‘ قرآن نے ان سے بہت وسیع معانی و مطالب بیان کئے ہیں اور انہیں اس طرح پیش کیا ہے کہ بعد میں خود قرآن ہر قسم کے استفادے کا منبع و سرچشمہ بن گیا‘ فلاسفہ کے لئے بھی اور علمائے فقہ و اخلاق و تاریخ وغیرہ کے لئے بھی۔ یہ امر ناممکن بلکہ محال ہے کہ کوئی فرد بشر خواہ وہ کتنا ہی بڑا فلسفی و دانش ور ہو‘ اپنی طرف سے ان سب معانی و مطالب کو ایسی معیاری سطح پر بیان کر سکے‘ جو دنیا کے بڑے بڑے علماء اور دانش وروں کے افکار کو اپنی طرف کھینچ لے۔ یہ تو اس صورت میں ہے‘ جب ہم قرآنی مطالب کو علماء کے بیان کردہ مطالب کی سطح کے برابر فرض کریں‘ لیکن اہم اور لطیف بات یہ ہے کہ قرآن کریم نے ان اکثر مسائل میں نئے نئے افق پیدا کر دیئے ہیں۔
 

صرف علی

محفلین
اللہ اور قرآن
یہاں ہم مذکورہ بالا موضوعات میں سے صرف ایک موضوع کی طرف اشارہ کریں گے اور وہ موضوع خدا اور جہان اور انسان سے اس کا رابطہ اور تعلق ہے‘ ہم اگر اسی ایک موضوع کے بیان کرنے پر اکتفا کریں اور اس کا موازنہ انسانی افکار و نظریات سے کریں‘ تو قرآن کا غیر معمولی نوعیت کا ہونا اور معجزہ ہونا ثابت ہو جائے گا۔
قرآن نے خدا کی صفات بیان کی ہیں اور اس توصیف میں ایک طرف تو اسے پاک اور منزہ قرار دیا ہے اور اس کی ایسی صفات کی نفی کی ہے‘ جو اس کے شایان شان نہیں ہیں اور اس کو ان صفات سے پاک و منزہ جانا ہے اور دوسری طرف صفات کمال اور اسماء حسنیٰ کو ذات خدا کے لئے ثابت کیا ہے۔ تقریباً ۱۵ آیتیں خداوند عالم کی تنزیہہ میں نازل ہوئی ہیں اور تقریباً پچاس (۵۰) آیتوں سے زیادہ ایسی ہیں‘ جو صفات کمال اور اسمائے حسنیٰ سے خداوند عالم کے متصف ہونے کے بارے میں ہیں‘ قرآن مجید اپنی ان توصیفات میں ایسا باریک بین نظر آتا ہے‘ جس نے زیادہ سے زیادہ عمیق فکر و نظر رکھنے والے علماء الٰہی کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور یہ خود ایک اُمّی اور ان پڑھ شخص کا روشن ترین معجزہ ہے۔ قرآن نے معرفت اور خداشناسی کی راہیں دکھانے کے لئے تمام موجود راہوں سے فائدہ اٹھایا ہے۔ آفاقی اور نفسی نشانیوں کے مطالعہ کا راستہ‘ نفس کے تزکیہ اور اس کی صفائی کا راستہ‘ بطور کلی وجود ہستی کے بارے میں گہرائی کے ساتھ غور و فکر کا راستہ قابل ترین مسلمان فلاسفہ نے اپنی محکم اور مضبوط ترین دلیلوں کو اپنے اقرار اور اعتراف کے مطابق قرآن مجید ہی سے اخذ کیا ہے۔
قرآن نے دنیا اور مخلوقات کے ساتھ خدا کے رابطے کو توحید محض پر قرار دیا ہے‘ یعنی خداوند متعال اپنی فعالیت اور اپنے ارادہ و مشیت کو نافذ کرنے میں اپنا کوئی مدمقابل اور رقیب نہیں رکھتا‘ اس کے تمام افعال اور ارادے اور سارے اختیارات اسی کے حکم اور اسی کی قضا و قدر کے تحت ظہور پذیر ہوتے ہیں۔
انسان کا خدا سے رشتہ و تعلق
قرآن کریم نے خدا کے ساتھ انسان کے رشتہ اور تعلق کو دلکش ترین انداز میں بیان کیا ہے‘ قرآن کا خدا‘ فلسفیوں کے خدا کے برخلاف ایک خشک و بے روح اور بشر سے یکسر بیگانہ وجود نہیں ہے۔ قرآن کا خدا انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس سے نزدیک ہے‘ انسان کے ساتھ لین دین رکھتا ہے اور اس کے مقابل میں انسان کو اپنی رضا و خوشنودی عطا کرتا ہے‘ اس کو اپنی طرف جذب کرتا ہے اور اس کے دل کے آرام و سکون اور اطمینان کا سرمایہ ہے:
الابذکر اللّٰہ تطمئن القلوب
( سورہ رعد‘ آیت ۲۸)
انسان خدا سے انسیت اور الفت رکھتا ہے‘ بلکہ تمام موجودات اس کو چاہتے ہیں اور اسی کو پکارتے ہیں۔ تمام موجودات عالم اپنے اپنے وجود کی گہرائی سے اس کے ساتھ رازدارانہ رابطہ اور تعلق رکھتے ہیں‘ اس کی حمد بجا لاتے ہیں اور اس کی تسبیح کرتے ہیں:
ان من شئی الا یسبح بحمدہ و لکن لا تفقہون تسبیحھم( سورہ اسراء‘ آیت ۴۴)
فلسفیوں کا خدا جس کو وہ لوگ صرف محرک اول اور واجب الوجود کے نام سے پہچانتے ہیں اور بس ایک ایسا موجود ہے‘ جو بشر سے بالکل بیگانہ ہے‘ جس نے انسان کو صرف پیدا کر دیا ہے اور اسے دنیا میں بھیج دیا ہے‘ لیکن قرآن کا خدا ایک ”مطلوب“ ہے‘ انسان کی دلبستگی کا سرمایہ ہے‘ وہ انسان کو پرجوش بناتا اور ایثار و قربانی پر آمادہ کرتا ہے‘ کبھی کبھی تو اس کی رات کی نیند اور دن کے سکون کو بھی چھین لیتا ہے کیوں کہ وہ ایک غیر معمولی مقدس خیال و تصور کی صورت میں مجسم ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔
مسلمان فلاسفہ نے قرآن سے آشنا ہونے اور قرآنی مفاہیم و مطالب کو پیش کرنے کے نتیجے میں الٰہیات کی بحث کو اس عروج پر پہنچا دیا ہے۔ کیا یہ بات ممکن ہے کہ ایک اُمّی اور ناخواندہ شخص جس نے نہ تو کسی استاد کے پاس تعلیم حاصل کی اور نہ کسی مکتب میں گیا ہو‘ اس حد تک الٰہیات میں ترقی کر جائے کہ افلاطون اور ارسطو جیسے فلاسفہ سے ہزاروں سال آگے بڑھ جائے؟
قرآن‘ تورات اور انجیل
قرآن نے تورات و انجیل کی تصدیق کی ہے‘ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ ان کتابوں میں تحریف کی گئی ہے اور خائنوں کے ہاتھ ان کتابوں کی تحریف میں ملوث ہیں‘ قرآن نے الٰہیات‘ پیغمبروں کے واقعات اور چند دوسرے قواعد و ضوابط اور معینہ امور کے بارے میں ان دونوں کتابوں کی غلطیوں کی اصلاح اور تصحیح کی ہے‘ جس کا ایک نمونہ تو وہی تھا کہ جس کا تذکرہ شجرہ ممنوعہ اور خطائے آدم کے بارے میں ہم پہلے کر چکے ہیں۔ قرآن نے خدا کو ایسی چیزوں سے جیسے کشتی لڑنا اور پیغمبروں کو نامناسب باتوں کی طرف منسوب ہونے سے جو گذشتہ کتابوں میں ذکر کی گئی ہیں‘ پاک و منزہ قرار دیا ہے اور یہ خود اس کتاب کی حقانیت کی ایک دلیل ہے۔
تاریخی واقعات اور قصے
قرآن مجید نے ایسے تاریخی واقعات اور قصے بیان کئے ہیں کہ اس زمانے کے لوگ ان کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے تھے‘ خود پیغمبر بھی ان سے لاعلم تھے:
ماکنت تعلمھا انت ولاقومک
( سورہ ہود‘ آیت ۴۹)
”انہیں نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم ہی جانتی تھی۔“
اور عرب کے تمام لوگوں میں سے کوئی ایک شخص بھی اس کا مدعی نہیں ہوا کہ ہم ان قصوں کو جانتے ہیں۔
قرآن نے ان قصوں کو بیان کرنے میں توریت و انجیل کی پیروی نہیں کی ہے‘ البتہ ان کی اصلاح ضرور کر دی ہے‘ قوم سبا‘ قوم ثمود وغیرہ کے بارے میں عصر جدید کے مورخین کی تحقیقات بھی قرآنی نظریے کی تائید کرتی ہیں۔
قرآن اور اس کی پیشین گوئیاں
قرآن مجید نے جس وقت ۶۱۵ میں ایران نے روم کو شکست دی اور یہ امر قریش کی مسرت و خوشی کا باعث ہوا‘ تو پورے یقین و اعتماد کے ساتھ کہا کہ دس سال کے نہایت قلیل عرصے میں روم ایران کو شکست دے دے گا‘ اس واقعہ کے بارے میں بعض مسلمانوں اور بعض کافروں کے درمیان مشروط بندی ہو گئی۔ بعد میں ویسا ہی ہوا جیسا کہ قرآن نے خبر دی تھی‘ اسی طرح قرآن نے پورے قطع و یقین کے ساتھ خبر دی کہ جو شخص پیغمبر اکرم کو ابتر (مقطوع النسل) کہتا ہے‘ وہ خود ہی مقطوع النسل ہے۔ اس وقت وہ شخص جس کے کئی بیٹے تھے‘ صرف دو تین نسلوں کے اندر تدریجاً بالکل ختم ہو گئے۔ یہ ساری باتیں اس کتاب میں معجزہ ہونے کا پتہ دیتی ہیں‘ قرآن میں اور بھی علمی و معنوی معجزات موجود ہیں‘ جو فلسفی‘ طبیعی اور تاریخی علوم سے مربوط ہیں۔
 

صرف علی

محفلین
اسلام کی امتیازی خصوصیات
اسلام دین خدا کا نام ہے جو یکتا ہے تمام پیغمبر اسی کی تبلیغ کے لئے بھیجے گئے ہیں اور سب نے اسی دین کی طرف دعوت دی ہے اس دین خدا کی جامع و کامل صورت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے لوگوں کے سامنے پیش کی گئی اور نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا اور آج یہ دین اسی نام (اسلام) سے دنیا میں پہچانا جاتا ہے۔
اسلامی تعلیمات جن کی تبلیغ پیغمبر اسلام کے ذریعے سے ہوئی دین خدا کی کامل و جامع صورت ہونے ہمیشہ کے لئے انسان کی رہنما ہونے کی وجہ سے خاص امتیازی خصوصیات کی حامل ہیں دورہ خاتمیت سے مناسبت رکھتی ہیں۔ یہ تمام کی تمام خصوصیات اپنی مجموعی حیثیت میں گذشتہ ادوار میں جوبشر کے بچپنے کے دور تھے وجود میں نہیں آ سکتی تھیں اور ان مشخصات و خصوصیات میں سے ہر ایک اسلامی تعلیمات کو پرکھنے کا معیار ہے اور ان میں سے ہر خصوصیت کے ذریعے کہ جو خود اسلامی تعلیمات کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے۔ اگرچہ مبہم ہی سہی لیکن بہرحال اسلام کے مجموعی خدوخال سے آشنائی حاصل کی جا سکتی ہے نیز ان معیارات کے پیش نظر یہ بھی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ فلاں تعلیم اسلامی ہے یا نہیں اگرچہ ہم اس بات کا دعویٰ تو نہیں کرتے کہ یہاں پر ان تمام معیارات کو جمع کر سکتے ہیں لیکن ہم یہ کوشش ضرور کریں گے کہ حتی الامکان ان سب کی ایک جامع صورت پیش کریں ہم جانتے ہیں کہ ہر مکتب ہر مسلک اور ہر نظریہ بشر کی نجات اور کمال سعادت کے لئے ایک قسم کے احکام و معیار پیش کرتا ہے جو ”یہ کرنا چاہئے“، ”یہ نہیں کرنا چاہئے“، ”یہ نہیں ہونا چاہئے“، ”یہ ہونا چاہئے“، جیسے جامع عناوین کے تحت فرد اور معاشرے کے لئے ہوتے ہیں فلاں راستے کو انتخاب کرنا چاہئے یا فلاں تک پہنچنا چاہئے مثلاً آزادی کے ساتھ زندگی گزارنی چاہئے شجاع اور دلیر ہونا چاہئے مستقل اور مسلسل اپنے مقصد کی طرف گامزن رہنا چاہئے خود کو کامل کرنا چاہئے معاشرے کو عدل و انصاف کی بنیاد پر قائم ہونا چاہئے ایسے راستے پر چلنا چاہئے جس سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہو۔
لیکن یہ تمام عناوین ایک خاص فلسفہ رکھتے ہیں جو ان کی توجیہ کرتا ہے یعنی اگر کوئی مکتب ایک قسم کے احکامات و قوانین پیش کرتا ہے تو اس کے لئے لازم و ضروری ہے کہ بہرحال ہستی کائنات معاشرے اور انسان کے بارے میں ایک طرح کے فلسفے اور تصور کائنات پر انحصار کرے اور اس کا سہارا لے مثلاً چونکہ ہستی ایسی ہے اور انسان یا اس کا معاشرہ اسی طرح کا ہے لہٰذا ایسا ہونا چاہئے اور ویسا نہیں ہونا چاہئے۔
تصور کائنات یعنی دنیا انسان اور معاشرے کے بارے میں بہت سے افکار اور تفسیروں اور تجزیوں کا مجموعہ کہ دنیا اس طرح کی ہے یا ایسا قاعدہ رکھتی ہے اسی طرح ترقی کرتی ہے فلاں مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے یا نہیں کرتی اس کا کوئی مبداء ہے یا نہیں ہے اس کی کوئی انتہا ہے یا نہیں ہے مثلاً انسان ایسی فطرت اور طبیعت رکھتا ہے کسی خاص فطرت کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے یا نہیں مختار اور آزاد ہے یا مجبور ہے؟ طبیعت میں ایک منتخب واقعیت موجود ہے جس کو قرآن کے الفاظ میں ”اصطفٰی کیا ہوا“ کہتے ہیں یا ایک اتفاقی واقعہ ہے یا تاریخ اور معاشرہ پر جن قوانین کی حکومت ہے وہ کون سے قوانین ہیں؟ آئیڈیالوجی تصور کائنات پر قائم ہیں اور یہ کہ کیوں اس طرح یا اس طرح ہونا چاہئے یا کیوں اس طرح جینا یا جانا یا ہونا یا بنانا چاہئے؟ اس عقیدہ کے تحت ہے کہ دنیا یا سماج یا انسان کے بارے میں اس کا عقیدہ اور نظریہ ایسا ہے۔ ہر مسلک اور ہر آئیڈیالوجی (عقیدے) کی علت اس کے تصور کائنات کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے اور دوسرے الفاظ میں آئیڈیالوجی ”حکمت عملی“ کا نام ہے اور تصور کائنات ”حکمت نظری“ کی قسم سے ہے حکمت عملی کی خاص نوع حکمت نظری کی خاص نوع پر مبنی ہے مثلاً سقراط کی حکمت عملی اس خاص نظریہ کی بنیاد پر ہے جو سقراط دنیا کے بارے میں رکھتا ہے اور یہی خاص نظریہ سقراط کی حکمت نظری ہے اسی طرح ایپکور (Epicure) (مشہور یونانی فلسفی) کی حکمت عملی کا رابطہ ہی اس کی حکمت نظری سے ہے اور اسی طرح دوسروں کا بھی پس آئیڈیالوجیز (نظریات) کیوں آپس میں مختلف ہیں؟ کیونکہ تصورات کائنات مختلف ہیں یعنی آئیڈیالوجی تصور کائنات کے تابع ہوتی ہے۔
دوسری طرف جہان بینی جسے جہان شناسی بھی کہا جا سکتا ہے کیوں مختلف ہوتی ہے؟ کیوں ایک مکتب دنیا کو اس طرح دیکھتا ہے اور دوسرا دوسری طرح؟ اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیں ہے بہت سے مفکرین جب اس منزل تک پہنچتے ہیں تو فوراً منزل اجتماعی اور طبقاتی حالت کا شاخصانہ درمیان میں لاکھڑا کرتے ہیں اور اس امر کا دعویٰ کرنے لگتے ہیں کہ طبقاتی موقع و محل اور صورت حال کے لحاظ سے ہر شخص کا علیحدہ علیحدہ ایک خاص زاویہ نگاہ ہوتا ہے اور وہی طبقاتی نظام ہر شخص کو ایک خاص قسم کی عینک کائنات کے مطالعہ کے لئے پہنا دیتا ہے۔ انسان کا اپنے معاشرہ سے رابطہ ان چیزوں سے رابطہ جو معاشرے میں پیداوار اور تقسیم ہوتی ہیں ان کی پیدائش اور تقسیم کی کیفیت سے رابطہ اور اس کے نتیجے میں خود اس انسان کی محرومی و نامحرومی سے اس کے اعصاب اور اس کی روح و رواں میں عکس العمل پیدا ہو جاتا ہے اور اس کی اندرونی حالت ایک خاص شکل اختیار کر لیتی ہے اور اس کی اندرونی اور ذہنی خاص حالت اس کی فکر و نظر نتیجہ گیری اور چیزوں کے بارے میں اس کی قوت فیصلہ کو متاثر کرتی ہے۔
مولانا رومی کے بقول:
چون تو برگردی و برگردد سرت
خانہ را گردندہ بیند منظرت
”اگر تو پلٹ آئے اور تیرا رخ مڑ جائے تو تیری آنکھیں دیکھیں گی کہ گھر کا نظام تو چل رہا ہے۔“ ور تو درکشتی روی بریم روان
ساحل یم را چو خود بینی دوان
”اگر تو بحری جہاز میں سوار سمندر میں رواں ہو تو تجھے یوں لگے گا جیسے ساحل بھی تیرے ساتھ چل رہا ہے۔“
گر تو باشی تنگ دل از ملحمہ
تنگ بینی چو دنیا را ہمہ
”اگر سخت جنگوں کے باعث تو پریشان ہو گیا ہو تو تجھے پوری دنیا پریشان دکھائی دے گی۔“
ور تو خوش باشی بہ کام دوستان
این جہان بنمایدت چون بوستان
”اگر دوستوں کی محبتوں کے باعث تو خوش ہو تو یہ دنیا تجھے گلشن نظر آئے گی۔“
چون تو عالمی پس ای مھین
کل آن را ہمچو خود بینی یقین
”چونکہ تو اسی عالم کا ایک حصہ ہے پس اے مہین یقیناً تو تمام دنیا کو اپنی طرح دیکھتا ہے۔“
ہر کہ را افعال دام و دو بود
بر کریمانش گمان بد بود
”جو بھی شخص حیوانوں اور درندوں کی سی عادتیں رکھتا ہو وہ کریم انسانوں کو بھی اپنے جیسا سمجھے گا۔“
اس نقطہ نظر سے کوئی بھی شخص اپنے نظریے کو صحیح اور دوسروں کے نظریے کو غلط نہیں کہہ سکتا کیونکہ نظریہ ایک نسبی امر ہے اور ہر شخص کا نظریہ اس کے قدرتی اور اجتماعی ماحول کا نتیجہ ہوتا ہے اور ہر شخص کے لئے وہی صحیح ہوتا ہے جسے وہ دیکھتا ہے لیکن بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ انسان کی فکر و نظر کافی حد تک اس کے ماحول کے زیراثر ہوتی ہے اس میں کوئی کلام نہیں لیکن اس چیز سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انسان کے لئے ایسا آزاد فکری مرکز موجود ہے جس کے ذریعے وہ اپنے آپ کو ہر طرح کی اثرپذیری سے آزاد اور محفوظ رکھ سکتا ہے (اور جسے اسلام کی نظر میں ”فطرت“ کہا جاتا ہے)۔ البتہ کسی اور جگہ اس کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی جائے گی۔
بالفرض اگر ہم انسان کی اصالت اور اس کے استقلال کو یعنی اس کی حقیقت پسند نگاہ کو اس سے سلب کرنا چاہیں تو بھی جہان بینی اور جہان شناسی کے مرحلے میں انسان کی سرزنش کرنا قبل از وقت ہو گا۔ ان فلاسفہ اور دانش وروں کے نزدیک جو ان مسئلوں کا نزدیک سے مطالعہ کرتے ہیں آج یہ بات مسلم ہے کہ جہان بینی اور علم کائنات یا جہان شناسی سے متعلق نظریات کے رنگا رنگ ہونے کی اصل اور جڑ کو علم معرفت میں یعنی آج کل جسے نظریہ معرفت یا نظریہ شناخت کہا جاتا ہے اس میں تلاش کرنا چاہئے۔(۱)
اکثر فلاسفہ ”علم معرفت“ کی طرف متوجہ ہوئے ہیں یہاں تک کہ ان میں سے بعض نے تو یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ”فلسفہ“ علم کائنات کا نام نہیں ہے بلکہ علم معرفت کا نام فلسفہ ہے۔ یہ جو ہر ایک کا علم کائنات یا تصور کائنات مختلف ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تحصیل معرفت و شناخت سے متعلق نظریات مختلف ہیں۔ ایک کہتا ہے کہ دنیا کو عقل کے ذریعے پہچاننا چاہئے تو دوسرا کہتا ہے کہ دنیا کو حواس خمسہ کے ذریعے پہچاننا چاہئے تیسرا کہتا ہے کہ نفس کی صفائی و پاکیزگی نورانیت قلب اور الہام کے ذریعے دنیا کو پہچاننا چاہئے کسی کی نظر میں معرفت اور پہچان کے مرحلے ایک طرح کے ہیں تو دوسرے کی نظر میں دوسری طرح کے عقل کا استعمال بعض کی نظر میں محدود ہے اور بعض کی نظر میں لامحدود معرفت کے سرچشمے کیا ہیں؟ اس کا کیا معیار ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔
 

صرف علی

محفلین
پس معلوم ہوا کہ ہر مکتب کا نظریہ اس کے تصور کائنات پر مبنی ہے اور اس کا تصور کائنات معرفت و پہچان کے بارے میں اس کے نظریے پر مبنی ہے ہر آئیڈیالوجی کا ترقی پانا اس کے تصور کائنات کے ترقی پانے سے وابستہ ہے اور اس کے تصور کائنات کا ترقی پانا اس کے علم و معرفت کے ترقی پانے پر منحصر ہے۔ درحقیقت ہر مکتب کی حکمت عملی اس کی حکمت نظری سے وابستہ ہے اور اس کی حکمت نظری اس کی منطق سے وابستہ ہے پس ہر مکتب کو چاہئے کہ پہلے مرحلے میں اپنی منطق کو معین و مشخص کرے اسلام اگرچہ ایک فلسفی مکتب نہیں ہے اور اس نے فلسفے اور فلاسفہ کی زبان و اصطلاح میں لوگوں سے گفتگو نہیں کی ہے بلکہ اسلام اپنی ایک مخصوص زبان رکھتا ہے جس سے عام طور سے تمام طبقے اپنے فہم و ادراک صلاحیت و استعداد کے مطابق بہرہ مند ہوتے ہیں لیکن اس نے اپنے مطالب کی گہرائیوں میں ان تمام مسائل کے بارے میں اپنا مدعا پیش کیا ہے (اور یہ بڑی حیرت میں ڈالنے والی بات ہے)۔ اس طرح سے کہ اس کو فکر عملی کے ”پلانٹ“ کی صورت میں اور اس کی جہان بینی کو حکمت نظری کی شکل میں اور اس کے نظریات کو علم معرفت کے باب میں ایک منطقی اصول کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
ظاہر ہے کہ ہمیں اس مقام پر ایک اشارہ پر اکتفا کر کے آگے بڑھنا چاہئے (کیونکہ) اسلامی آئیڈیالوجی جہان بینی اور علم معرفت کی تدوین کے لئے خصوصاً اس بارے میں علماء اسلام خواہ وہ فقہا ہوں یا حکماء و عرفا اور دوسرے تمام صاحبان نظر کے گراں قدر اور گراں بہا نظریات کے مدنظر کئی بڑی بڑی جلدوں کی ضرورت ہو گی یہاں ہم فقط ایک فہرست (اگرچہ ناقص ہی سہی) پیش کرتے ہیں ممکن ہے آئندہ کسی موقع پر اس کی تکمیل ہو جائے۔ اس مقام پر جب کہ ہم اسلام کے مشخصات کے زیرعنوان اسلامی نظریات کے اصل خدوخال نمایاں کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں انہیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں معرفت شناسی کے مشخصات جہان بینی اور جہا ن شناسی کے مشخصات اور آئیڈیالوجی سے متعلق مشخصات:
(الف) معرفت اور شناخت کا مسئلہ۱۔
کیا شناخت ممکن ہے؟ اس مسئلے سے متعلق یہ پہلا سوال ہے جو ہمیشہ درپیش رہا ہے اور رہے گا بہت سے دانش ور حقیقی معرفت و شناخت کو ناممکن سمجھتے ہیں اور انسان کو ان چیزوں کی واقفیت و حقیقت پہچاننے سے جو دنیا میں ہیں اور دنیا میں رونما ہوتی رہتی ہیں قاصر سمجھتے ہیں اور یقین (یعنی قطعی و ناقابل تردید اور واقع کے مطابق علم) کو ایک اور محال شمار کرتے ہیں لیکن قرآن اس بناء پر کہ اس نے خدا دنیا انسان اور تاریخ کو پہچاننے کی دعوت دی ہے اور اس بناء پر کہ اس نے آدم۱کے قصے میں جو ایک انسان کا قصہ ہے اور اس کو تمام اسمائے الٰہی (کائنات کے حقائق) کی تعلیم کے لائق جانا ہے اور اس بناء پر کہ اس نے بعض موقعوں پر علم پروردگار (جو عین حقیقت ہے) کے کسی جزوی حصے پر محیط اور حاوی ہونے کی نوع سے سمجھا ہے۔
ولا یحیطون بشئیی من علمہ الا بماشاء( سورہ بقرہ آیت ۵۵)
”یعنی معرفت و شناخت کو ممکن جانتا ہے۔“
۲۔ معرفت کے سرچشمے کیا ہیں؟ قرآن کریم کی نظر میں معرفت و شناخت کے سرچشموں سے مراد طبیعت یا آفاقی نشانیاں انسان یا نفسی نشانیاں تاریخ یا مختلف قوموں کے واقعات عقل و فطرت کے بنیادی اصول قلب یعنی دل صفائی و پاکیزگی کے لحاظ سے گذرے ہوئے لوگوں کے علمی اور تاریخی آثار ہیں۔ قرآن نے اپنی بہت سے آیتوں میں زمین و آسمان کی ماہیت و طبیعت کے بارے میں غور و فکر کی دعوت دی ہے۔
قل انظروا ماذا فی السموات والارض( سورہ یونس آیت ۱۰۱)
”(اے حبیب) کہہ دو! تم لوگ دیکھو اور غور و فکر کرو کہ آسمانوں اور زمین میں کیا چیزیں ہیں اسی طرح گذشتہ قوموں کی تاریخ میں تعقل و تدبر کی طرف سبق حاصل کرنے کے لئے دعوت دی ہے۔“
افلم یسیرو افی الارض فتکون لھم قلوب یعقلون بھا او آذان یسمعون بھا( سورہ حج آیت ۴۶)
”کیا وہ لوگ زمین میں سفر نہیں کرتے (زمین پر گذرے ہوئے لوگوں کے آثار نہیں دیکھتے) تاکہ ان کے دل ایسے ہو جائیں۔ جن سے وہ سمجھنے لگیں اور کان ایسے ہو جائیں جن سے وہ سننے لگیں۔“
اسی طرح قرآن عقل اور عقل کی فطری بنیادوں کو بھی معتبر جانتا ہے اور اپنے استدلالوں میں ان پر اعتماد کرتا ہے۔
قل لو کان فیھما الھة الا اللّٰہ لفسدتا( سورہ انبیاء آیت ۲۲)
”کہہ دو کہ اگر ان دونوں (آسمانوں و زمین تمام موجودات) میں ایک خدا کے سوا کئی خدا ہوتے تو یہ دونوں تباہ ہو جاتے۔“
اور ان کا نظام درہم برہم ہو جاتا (برہان تمانع) یا پھر ارشاد ہوتا ہے:
ما اتخذ اللہ من ولد وما کان معہ من الہ اذا الذہب کل الہ بما خلق ولعلی بعضھم علی بعض سبحان اللہ عما یصفون( سورہ مومنون آیت ۹۱)
”خدا نے کوئی بیٹا اختیار نہیں کیا ہے اور نہ اس کے ساتھ کوئی دوسرے خدا ہیں (کیونکہ اگر ایسا ہوتا) تو ہر خدا اپنی اپنی مخلوقات کو اپنے ساتھ مختلف سمتوں میں لے جاتا اور ان خداؤں میں سے بعض پر اپنی برتری جتاتا۔ خدا پاک و منزہ ہے ان چیزوں سے جن سے لوگ اس کو متصف کرتے ہیں۔“
(نظام کائنات میں ہم آہنگی اور جہت و سمت کی وحدت پر مبنی برہان) اور اسی طرح قرآن قلب اور دل کو بعض الٰہی الہامات اور القائات کا مرکز سمجھتا ہے۔ جو شخص جس قدر بھی اسے پاک و صاف کرنے اور پاکیزہ رکھنے اور خدا کی طرف متوجہ اور اخلاص و عبودیت میں خاص توجہ کے ذریعے اس کو معنوی و روحانی غذا پہنچانے کی کوشش کرتا رہے گا اتنا ہی الہامات و القائات کے ایک سلسلے سے بہرہ مند ہوتا رہے گا۔ انبیاء۱کی وحی اسی طرح کی معرفت کا اعلیٰ مرتبہ ہے۔
جس طرح سے قرآن نے قلم و کتاب اور تحریر کی قدر و قیمت کی طرف بار بار اشارہ کیا ہے اور کئی موقعوں پر ان چیزوں کی قسم کھائی ہے۔
والقلم وما یسطرون( سورہ قلم آیت ۲)
۳۔ شناخت و معرفت کے وسائل کیا ہیں؟ معرفت و شناخت کے وسائل سے مراد قوت تفکر و استدلال نفس کی پاکیزگی اور دوسرے لوگوں کے علمی آثار ہیں۔ سورہ مبارکہ نحل میں ارشاد خداوندی ہے:
واللہ اخرجکم من بطون امھاتکم لاتعلمون شیئاً و جعل لکم السمع والابصار و الافئدة لعلکم تشکرون( سورہ نحل آیت ۷۸)
”خدا نے تمہیں تمہاری ماؤں کے شکموں سے باہر نکالا اس حالت میں کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے اور تمہیں کان آنکھ و دل عطا کئے تاکہ تم ان نعمتوں کا شکر ادا کرو اور ان سے کماحقہ نفع حاصل کرو۔“
اس آیہ کریمہ میں صاف طور پر بیان ہوا ہے کہ انسان افلاطون کے نظریے کے برعکس(۱) اپنے پیدا ہونے کے وقت ہر قسم کے علم و معرفت سے بے گانہ ہوتا ہے اور خدا نے انسان کو حواس عطا کئے ہیں تاکہ وہ ان کے ذریعے سے دنیا کا مطالعہ کرے اور اس کو ضمیر اور تجزیہ و تحلیل کی قوت عنایت فرمائی ہے تاکہ جن چیزوں کو وہ حواس کے ذریعے حاصل کرتا ہے اب دوسرے مرحلے میں ان پر غور و فکر کرے ان کی گہرائیوں میں جھانک کر دیکھے اور ان کی حقیقت کو اور ان قوانین کو جو ان اشیاء پر حاکم ہیں معلوم کرے۔ اس آیت میں صاف صاف لفظوں میں حواس کو (جن میں کان اور آنکھ کا سب سے زیادہ اہم ہونے کی وجہ سے بطور نمونہ تذکرہ کیا گیا ہے) معرفت و شناخت کے وسائل (یعنی سطحی شناخت اور شناخت کا پہلا مرحلہ) اسی طرح ضمیر (دل) کو بھی معرفت و شناخت اور علم پیدا کرنے کے وسائل (یعنی منطقی اور عمیق معرفت کا مرحلہ) کے عنوان سے متعارف کروایا گیا ہے۔ اس آیت میں ضمناً شناخت کے بارے میں ایک دوسرے مسئلے کی طرف بھی اشارہ ہے اور وہ مراحل شناخت کا مسئلہ ہے۔
 

صرف علی

محفلین
قرآن جس طرح حواس اور قوت فکر کو معرفت کے وسائل سمجھتا ہے اسی طرح تزکیہ نفس اور تقویٰ و پرہیزگاری کو بھی معرفت کا ایک وسیلہ سمجھتا ہے۔ بہت سی آیتوں میں انہی مطالب کی طرف اشارہ یا تصریح کی گئی ہے۔
ان تتقواللہ یجعل لکم فرقانا
( سورہ انفال آیت ۲۹)
”اگر تم اپنے آپ کو ان باتوں سے جو خدا کو پسند نہیں ہیں بچاؤ گے تو اپنے دل کو پاک و صاف اور محفوظ رکھو گے تو خداوند عالم تمہارے واسطے حق و باطل کے درمیان فرق پیدا کرنے کا ایک ذریعہ معین فرمائے گا۔“
ونفس وما سوا ھا فالھمھا فجورھا و تقوا ھا قد افلح من زکیھا و قد خاب من دسیھا( سورہ شمس آیت ۷۔۱۰)
”قسم ہے انسان کی جان کی اور اس کی آراستگی اور اعتدال کی کہ خدا نے اسے اس کی ناپاکی اور پاکی کے بارے میں الہام کیا ہے اور اس کو سمجھا یاہے جس شخص نے اس کا تزکیہ کیا اس نے فلاح پائی اور جس نے اس کو آلودہ کیا وہ ناکام ہوا۔“
علم حاصل کرنا یاد کرنا کتاب کو پڑھنا بھی ان وسیلوں میں سے ہے کہ اسلامی تعلیمات نے اس کی طرف توجہ کی ہے اور اس کو باقاعدہ طور پر ایک خاص اہمیت دی ہے اس کی اہمیت کے لئے یہی کافی ہے کہ پیغمبر پر وحی کا آغاز لفظ ”اقراء“ یعنی پڑھو سے ہوتا ہے۔ قرات یعنی (کتاب سے) کسی عبارت کا پڑھنا ہے۔
اقراء باسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقرا و ربک الاکرام الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم( سورہ علق آیت ۱۔۵)
”اے رسول پڑھو اپنے پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا جس نے انسان کو بستہ خون سے پیدا کیا (یا اس حیوان سے جو جونک سے مشابہ ہوتا ہے) پڑھو اور تمہارا سب سے زیادہ کریم (و بزرگ) پروردگار ہے جس نے انسان کو قلم کے ذریعے علم سکھایا انسان کو وہ باتیں پڑھا دیں جنہیں وہ نہیں جانتا تھا۔“
۴۔ شناخت کے موضوعات:
کون سی چیزیں پہچاننے کے لائق ہیں جنہیں پہچاننا چاہئے؟ یہ سب وہ چیزیں ہیں جو قابل معرفت ہیں اور ان کی معرفت حاصل کرنا چاہئے۔
(ب) تصور کائنات کے لحاظ سے
یہ کتاب جو اسلامی و الٰہی تصور کائنات کا ایک مقدمہ ہے اس کا اصل مقصد اسی مطلب کی توضیح کرنا ہے اور اس کتاب کے مطالب کے ضمن میں ان نکات کو بھی سمجھا جا سکتا ہے لیکن اس لحاظ سے کہ مضمون کا سلسلہ منقطع نہ ہونے پائے۔ ان مشخصات کو بہت مختصر اور خلاصہ کے طور پر ہم یہاں بیان کرتے ہیں:
۱۔ کائنات ”اسی کی طرف سے“ ہونے کی اہمیت رکھتی ہے یعنی دنیا کی حقیقت و موجودگی اسی کی طرف سے دی گئی حقیقت و موجودگی ہے کسی چیز کے کسی چیز سے ہونے میں اس لحاظ سے کہ اس کا تمام وجود اسی کی طرف سے عطا کردہ حقیقت اور واقعیت نہیں ہے فرق ہے جیسے فرزند کا وجود ماں باپ کی نسبت کہ فرزند کا وجود ان کے وجود سے ہے لیکن اس کی وجودی حقیقت ماں باپ کی طرف نسبت اور اضافی حقیقت سے اختلاف رکھتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی تمام حقیقت خدا سے منسوب ہے۔ اس کی حقیقت اور اللہ سے اس کی اضافت و نسبت سب ایک ہے مخلوق ہونے کے یہی معنی ہیں اگر اس معنی کے علاوہ ہو گا تو وہ تولید ہو گی نہ کہ تخلیق اور اس کی ذات ”لم یلد ولم یولد“ہے اور اس صورت میں دنیا زمانی آغاز و انجام رکھتی ہو یا نہ رکھتی ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر دنیا زمانی آغاز رکھتی ہو تو ”اس سے ہونے“ کی حقیقت محدود ہے اور اگر نہیں رکھتی تو ”اس سے ہونے“ کی حقیقت لامحدود ہے۔ زمانی طور پر محدود ہونا اور لامحدود ہونا کسی مخلوق کی واقعیت و موجودگی اور اس کی تخلیق میں کسی طرح بھی اثرانداز نہیں ہوتا۔
۲۔ دنیا جس کی واقعیت و حقیقت ”اس سے ہے“ سے عبارت ہے اور اصطلاح میں حادث ذاتی کہلاتی ہے۔ ایک حدوث زمانی بھی رکھتی ہے یعنی ایک بدلتی رہنے والی اور متحرک واقعیت بلکہ عین حرکت ہے اور جب دنیا عین حرکت اور خود حرکت ہے تو ایک حدوث مسلسل ہے یعنی دنیا ہمیشہ اور دائمی طور پر خلق ہونے اور حدوث و فنا کی حالت میں ہے۔ ایک لمحہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں دنیا پیدا اور فنا نہ ہوتی رہتی ہو۔
۳۔ اس دنیا کے حقائق دوسری دنیا جسے عالم ڈیب کہا جاتا ہے کہ واقعیات کی تنزل یافتہ صورت ہے اور دوسرے درجہ اور مرتبے کی واقعیات ہیں جو چیزیں اس دنیا میں خاص تعداد میں اور محدود ہیں وہ پہلے سے موجود عالم (غیب) میں خاص تعداد کے بغیر اور غیر محدود شکل میں ہیں اور قرآن کے الفاظ میں خزائن کی شکل میں موجود ہیں۔(ملاحظہ فرمائیں تفسیرالمیزان میں آیہ کریمہ: ”وعندہ مفاتح الغیب لا یعلمھا الاھو“ کی تفسیر انعام ۶۰)
وان من شئی الا عندنا خزائنہ وماننزلہ الا بقدر معلوم( سورہ الحجر آیت ۲)
”کوئی چیز نہیں مگر یہ کہ اس کے خزانے اور معاون ہمارے پاس موجود ہیں اور ہم ان کو نازل نہیں کرتے مگر بقدر معین۔“
۴۔ یہ دنیا ”بہ سوئے اوئی“ یعنی اسی کی طرف لوٹ کر جانے کی ماہیت رکھتی ہے یعنی جس طرح ”اس سے ہے“ اسی طرح ”اسی کی طرف“ بھی ہے پس پوری دنیا اپنے تمام موجودات کے ہمراہ ایک (اسی کی طرف سے) نزولی سفر طے کر چکی ہے اور اب ”اسی کی طرف“ صعودی سفر طے کرنے کی حالت میں ہے۔ سب کے سب خدا کی طرف سے آئے ہیں اور سب کو اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔
اناللہ وانا الیہ راجعون( سورہ بقرہ آیت ۱۵۶)
الا الی اللہ تصیرالامور( سورہ شوریٰ آیت ۵۳)
”آگاہ ہو جاؤ کہ تمام امور کی بازگشت اللہ ہی کی طرف ہو گی۔“
وان الی ربک منتہاھا( سورہ النازعات آیت ۴۴)
”بے شک ان چیزوں کی انتہا تمہارے پروردگار کی طرف ہو گی۔“
۵۔ دنیا ایک علت و معلول اور سبب و مسبب کے نظام میں بندھی ہوئی ہے اور ہر موجود پر الٰہی فیض اور اس کی قضا و قدر صرف اسی کے خاص علل و اسباب کی راہ سے جاری ہوتی ہے۔“(ملاحظہ فرمائیں مولف کی کتاب ”عدل الٰہی انسان اور سرنوشت“)
۶۔ علت و معلول اسباب و مسببات کا یہ نظام مادی و جسمانی اسباب و مسببات پر منحصر نہیں ہے۔ دنیا میں علل و اسباب کا نظام اپنی مادی جہت کے اعتبار سے ماورا حیثیت کا حامل ہے اپنی ملکوتی و معنوی جہت سے غیر مادی علل و اسباب کا نظام رکھتی ہے اور ان دونوں نظاموں کے درمیان کوئی اختلاف اور تضاد نہیں ہے۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنا وجودی مرتبہ اور درجہ حاصل کر لیا ہے۔ فرشتے لوح لوح و قلم آسمانی و ملکوتی کتابیں ایسے واسطے اور وسیلے ہیں جن کے ذریعے باذن پروردگار الٰہی فیض جاری ہوتا ہے۔
۷۔ دنیا پر ایسے مستقل اور ناقابل تبدیل قوانین کی حکمرانی ہے جو دنیا کے سببی و مسببی نظام کا لازمہ ہے۔
۸۔ دنیا ایک ہدایت یافتہ حقیقت ہے۔ دنیا کی ترقی اور تکامل ہدایت یافتہ تکامل ہے۔ دنیا کے تمام ذرات جس درجہ و مرتبہ کے بھی ہیں نور ہدایت سے فیض یاب ہیں جبلت (فطری شعور) حس عقل الہام اور وحی یہ سب دنیا کے ہدایت عامہ کے مراتب و مدارج ہیں۔
قال ربنا الذی اعطی کل شئی خلقہ ثم ھدی( سورہ طہ آیت ۵۰)
”(موسیٰ اور ہارون۱) نے فرعون سے کہا کہ ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کے لائق خلقت عطا کی ہے پھر اس کی ہدایت بھی کی۔ “
دنیا میں خیر میں خیر بھی ہے اور شر بھی مطابقت و ہم آہنگی بھی ہے اور مخالفت بھی جو دوسخا بھی ہے اور بخل و کنجوسی بھی نور بھی ہے اور تاریکی بھی دنیا حرکت و ترقی کی حالت میں بھی ہے اور سکون و جمود کی حالت میں بھی لیکن جو چیز حقیقی معنی میں وجود رکھتی ہے وہ خیر ہے مطابقت و موافقت ہے جو دوسخا ہے نور ہے حرکت ہے۔
۹۔ شر تضاد بدی تاریکی اور جمود طفیلی موجودات ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ طفیلی امور عموماً نیکیوں کا دروازہ کھولنے کامیابیوں بخششوں روشنیوں حرکتوں اور ترقیوں میں ایک بنیادی کردار کے حامل بھی ہیں۔
۱۰۔ کائنات چونکہ ایک زندہ اکائی ہے یعنی ذی شعور قوتیں دنیا کی تدبیر کرتی ہیں۔
 

صرف علی

محفلین
فالمد برات امرا( سورہ النازعات آیت ۵)”اپنے اور انسان کے درمیان رابطے اور تعلق کے لحاظ سے عمل اور ردعمل کی دنیا ہے یعنی انسان کے نیک و بد ہونے کے بارے میں لاپرواہ نہیں ہے۔ آخرت میں جزا و سزا کے علاوہ دنیا میں بھی جزا و سزا مداوا و مکافاة کا نظام جاری ہے۔ شکر و کفر دونوں یکساں نہیں ہیں۔“
لئن شکر تم لا زید نکم ولئن کفر تم ان عذابی لشدید( سورہ ابراہیم آیت ۷)
”اگر تم لوگ الٰہی نعمتوں کی قدردانی اور حق شناسی کرو گے اور مطلوبہ طریقے سے ان سے فائدہ اٹھاؤ گے تو ہم ان نعمتوں کو تم پر اور زیادہ کر دیں گے اور ناشکری کرو گے اور ان نعمتوں کو بے ہودہ طریقے سے اور مخالف راہ میں صرف کرو گے تو میرا عذاب بے شک بہت سخت ہے۔“
حضرت علی۱فرماتے ہیں:
لا یزھد نک فی المعروف من لایشکرک علیہ فقد یشکرک من لا یستتمع بشئی منہ و قد تدرک من شکر الشاکر اکثر مما اضاع الکافر واللہ یحب المحسنین
(نہج البلاغہ حکمت نمبر ۲۰۴)
”اگر تم نے کسی کے ساتھ بھلائی کی اور اس نے تمہاری حق شناسی نہ کی تو کہیں اس کی یہ حرکت تمہیں بھلائی کرنے سے بددل نہ کر دے کیونکہ اس کی بجائے تمہاری حق شناسی وہ کرے گا جو تمہاری بھلائی سے قطعاً کبھی بہر مند نہیں ہوتا اور تم اس غیر شکرگزار کی طرف سے اس مقدار سے کہیں زیادہ پا جاؤ گے جتنا اس کفران نعمت کرنے والے نے تمہارے حق نعمت کو ضائع کیا ہے اور اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے یعنی دنیا اپنی مجموعی حیثیت میں ایک باہم وابستہ کارخانہ اور ایک عضویاتی رابطے کی حامل ہے تم اس انتظار میں نہ رہو اور یہ امید نہ رکھو کہ تم نے جس جگہ بھلائی کی ہے وہیں سے تم کو نیکی کا بدلہ بھی ملے گا کبھی کبھی بلکہ زیادہ تر تم جس جگہ پر نیکی کرتے ہو اس کا بدلہ کسی دوسری جگہ سے ملتا ہے جہاں سے تمہیں کوئی امید نہیں ہوتی کیوں؟ کیونکہ اس دنیا کا ایک خدا ہے اور خدا نیک کاروں کو دوست رکھتا ہے۔“
تو نیکی بکن و در دجلہ انداز
کہ ایزد در بیابانت دھد باز
”تم نیکی کرتے رہو اور ان سب کو دجلہ میں ڈال دو تاکہ خداوند عالم تمہیں صحرا میں اس کا بدلہ دے۔“
۱۱۔ اس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا ہے جو ابدی اور جزا و سزا کی دنیا ہے۔
۱۲۔ انسان کی روح ایک جاودانی حقیقت ہے۔ انسان قیامت میں صرف ایک زندہ صورت میں ہی محشور نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیاوی موت اور قیامت کے درمیان بھی ایک منزل کا فاصلہ ہے جس میں انسان ایک قسم کی زندگی سے جس کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے اور جو دنیوی زندگی سے زیادہ قوی اور زیادہ کامل ہے بہرہ مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً ۲۰ آیتیں انسان کی موت اور قیامت کے درمیان کی مدت اور جسم انسانی کے بوسیدہ ہو کر خاک ہو جانے کی حالت میں بھی انسان کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں۔
۱۳۔ زندگی اور اس کے بنیادی اصول یعنی انسانیت اور اخلاق کے اصول ابدی اور ناقابل تغیر اصول ہیں اور جو قواعد متغیر اور نسبی ہیں وہ فروعی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انسانیت کسی زمانے میں کوئی چیز ہو اور دوسرے زمانے میں کوئی دوسری چیز بن جائے جو پہلے کی نسبت بالکل مختلف ہو مثلاً کسی زمانے میں انسانیت ابوذر ہونے میں ہو اور کسی زمانے میں انسانیت معاویہ بن جانے میں ہو بلکہ جن اصولوں کی بناء پر ابوذر ابوذر ہیں اور معاویہ معاویہ موسیٰ موسیٰ ہیں اور فرعون فرعون ہے وہ ہمیشہ رہنے والے اور غیر متغیر اصول ہیں۔
۱۴۔ حقیقت بھی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک علمی حقیقت اگر پورے طور پر حقیقت ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور اگر وہ حقیقت بطور کلی خطا ہے تو ہمیشہ کے لئے خطا ہے اگر کسی کا ایک جزو حقیقت ہے اور دوسرا جزو خطا ہے تو جو جزو حقیقت ہے وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور جو جزو خطا ہے وہ ہمیشہ کے لئے خطا ہے اور ہو گا اور جو چیز متغیر و متبدل ہوتی ہے وہ واقعیت ہے اور وہ مادی واقعیت ہے لیکن حقیقت یعنی انسان کے فکری تصورات اور ذہنی افکار واقعیت سے منطبق ہونے اور منطبق نہ ہونے کے لحاظ سے ایک ثابت و قائم اور یکساں حالت رکھتے ہیں۔
۱۵۔ دنیا اور زمین و آسمان حق و عدالت کے ساتھ قائم ہیں۔
ما خلقنا السموات والارض وما بینھما الا بالحق( سورہ احقاف آیت ۳)
”ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان چیزوں کو جو ان دونوں کے درمیان ہیں نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ۔“
۱۶۔ اس دنیا میں الٰہی منت باطل کے خلاف حق کی آخری فتح و کامیابی پر منحصر ہے حق اور اہل حق غالب اور ظفرمند ہیں۔
ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انھم لھم المنصورون وان جندنا لھم الغالبون
( سورہ الصافات آیت ۱۷۳)
”ہماری قضا اور ہمارا فیصلہ اس امر پر ہو چکا ہے کہ ہمارے پیغمبر بے شک منصور و ظفرمند ہیں اور بے شک ہماری فوج (لشکر حق) غالب و فاتح ہے۔“
۱۷۔ تمام انسان خلقت کے اعتبار سے برابر پیدا کئے گئے ہیں۔ کوئی انسان پیدائش کے اعتبار سے دوسرے انسان پر فوقیت نہیں رکھتا۔ بزرگی اور فضیلت تین چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے:
قلم: ”ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون( سورہ زمر آیت ۹)
راہ خدا میں جہاد: ”فضل اللہ المجاہدین علی القاعدین اجرا عظیما( سورہ النساء آیت ۹۵)
تقویٰ و پاکیزگی: ”ان اکر مکم عنداللہ اتقٰکم
( سورہ حجرات آیت ۱۳۰)
۱۸۔ اصل خلقت کے اعتبار سے انسان بہت سی فطری صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے ان میں دینی اور اخلاقی فطرت بھی ہے انسان کے ضمیر و وجدان کا اصلی سرمایہ اس کی خداداد فطرت ہے نہ کہ طبقاتی محل و مقام یا اجتماعی زندگی یا طبیعت کے ساتھ زورآزمائی کیونکہ یہ سب انسان کے اکتسابی وجدان (ضمیر) میں موثر ہوتے ہیں انسان اپنی انسانی فطرت کے لحاظ سے منفرد ثقافت اور آئیڈیالوجی کا مالک بن سکتا ہے اس کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ قدرتی ماحول اجتماعی ماحول تاریخی اسباب و عوامل اور اپنے وراثتی عوامل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہو اور اپنے کو ان سب کی قید سے آزاد کر لے۔
۱۹۔ چونکہ ہر فرد بشر فطری طور پر انسان پیدا ہوتا ہے ہر انسان میں (اگرچہ وہ بدترین انسان ہی کیوں نہ ہو) توبہ اور راہ راست کی طرف اس کی واپسی اور نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اسی لئے انبیائے الٰہی اس بات پر مامور ہیں کہ حتیٰ بدترین افراد اور اپنے دشمنوں میں سے سخت ترین دشمن کو بھی ابتدائی مرحلے میں وعظ و نصیحت کریں اور اس کی انسانی فطرت کو بیدار کریں پس اگر یہ چیز فائدہ مند نہ ہو تو پھر ان سے مقابلہ و جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔
حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس پہلی مرتبہ جاتے وقت یہ وصیت کی گئی کہ
فقل ھل لک الی ان تزکی و اھد یک الی ربک فتخشیٰ( سورہ النازعات آیت ۱۹)
”کہہ دو کہ کیا تو اپنے کو نجاست کفر سے پاک کرنے پر آمادہ ہے؟ اور کیا میں تجھے تیرے پروردگار کی راہ بتا دوں تاکہ تو اس سے ڈرے؟“
۲۰۔ انسان ایک حقیقی مرکب اور حقیقی اکائی ہونے کے باوجود قدرتی جمادی اور نباتاتی مرکبات کے برخلاف (کہ ترکیب کی حالت میں) جس کے ترکیب دینے والے عناصر جو اپنی ہویت اور مستقل حیثیت کھو دیتے ہیں اور ان کا باہمی تضاد اور ٹکراؤ مکمل طور پر ملائمت اور ہم آہنگی میں تبدیل ہو جاتا ہے انسان کی خلقت میں جو متضاد عناصر استعمال ہوئے ہیں اپنی ہویت کو اور ذاتی حیثیت کو مکمل طور پر نہیں کھو دیتے اور ہمیشہ ایک اندرونی کشمکش انہیں ایک طرف سے دوسری طرف لے جاتی ہے یہ اندرونی تضاد وہی ہے جسے دین کی زبان میں عقل و جہل یا عقل و نفس یا روح و بدن کا تضاد کہا جاتا ہے۔
۲۱۔ چونکہ انسان مستقل روحانی جوہر کا مالک ہے اور اس کا ارادہ اس کی روحانی حقیقت کے سرچشمے سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا مختار و آزاد ہے کوئی جبر یا کوئی ذاتی احتیاج اس کی آزادی اور اس کے اختیار کو اس سے چھین نہیں سکتی اس لئے وہ اپنا بھی جواب دہ ہے اور اپنے معاشرے کا بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔
۲۲۔ انسانی معاشرہ بھی فرد بشر ہی کی طرح ایک حقیقی مرکب ہے اور اپنے قوانین روایات اور نظام رکھتا ہے اور اپنی مجموعی حیثیت میں پوری تاریخ میں کبھی کسی خاص انسان کے ارادے کا تابع نہیں رہا ہے اور اپنے وجود میں (فکری نوعی سیاسی اور اقتصادی گروہوں پر مشتمل متضاد عناصر کے باوجود مکمل طور پر اپنی ہویت کو نہیں کھویا ہے) سیاسی اقتصادی فکری اور اعتقادی جنگ کی صورت میں مقابلہ آرائی اور بالآخر رشد و ہدایت پانے والے انسانی کمال پر پہنچنے والے انسانوں کی بلند و برتر خواہشات اور میلانات اور حیوان صفت انسانوں کی پست خواہشات کے درمیان جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک معاشرہ انسانیت کے بام و عروج تک نہیں پہنچ جاتا۔
۲۳۔ خداوند عالم کسی انسان یا کسی قوم کی سرنوشت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ آدمی یا وہ قوم خود اپنے حالات کو نہ بدلے۔
ان اللہ لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما با نفسھم( سورہ رعد آیت ۱۱)
۲۴۔ خداوند عالم جو انسان اور سارے جہان کا پیدا کرنے والا ہے غنی بالذات ہے تمام جہات سے بسیط ہے کامل مطلق ہے کسی چیز کا منتظر نہیں ہے اس میں حرکت و ارتقاء محال ہے اس کی صفات اس کی عین ذات ہیں ساری دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے۔ ساری سطح زمین اسی کے ارادے و مشیت کی مظہر ہے اس کے ارادے کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ ہر ارادہ اور مشیت اس کے ارادے کے تابع ہے اس کے برابر نہیں ہے۔
۲۵۔ چونکہ دنیا کا صدور ایک مبداء سے ہوا ہے اور اسے ایک متناسب اور ہم آہنگ رفتار میں اسی کی طرف واپس جانا ہو گا اور چونکہ مدبر اور باشعور قوت کی تدبیر کے تحت اپنی حرکت اور رفتار کو جاری رکھے ہوئے ہے لہٰذا ایک قسم کی وحدت کی حامل ہے ایسی وحدت جو زندہ موجود کی عضوی وحدت سے مشابہ ہے۔
 

صرف علی

محفلین
(ج) آئیڈیالوجی کے لحاظ سے اسلام کی خصوصیات
اسلام کی امتیازی خصوصیات کا بیان آئیڈیالوجی کے لحاظ سے خاص کر آئیڈیالوجی کی وسعت کے لحاظ سے خواہ کلی مشخصات کے اعتبار سے ہو یا آئیڈیالوجی کی ہر شاخ کی خصوصیات کے لحاظ سے بہت مشکل ہے پھر بھی ہم اس اصول کی بناء پر کہ اگر کسی چیز کو مکمل طور پر حاصل نہ کیا جا سکے تو جتنا حاصل کیا جا سکے اسی کو لے لینا چاہئے جو کچھ اس موقع پر فی الحال ہمارے لئے ممکن ہے اس کی ایک فہرست پر نظر ڈال رہے ہیں:
۱۔ ہمہ گیر حیثیت اور کمال و ارتقاء دوسرے ادیان کے مقابلے میں اسلام کے من جملہ امتیازات میں سے ہے اور زیادہ بہتر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ دین خدا کی ابتدائی صورتوں کی نسبت اس کی مکمل اور جامع صورت کی خصوصیات میں سے اس کی ایک جامعیت اور ہمہ گیر حیثیت ہے۔ اسلام کے چار مآخذ یعنی قرآن سنت اجماع اور عقل اس امر کے لئے کافی ہیں کہ علمائے امت ہر موضوع کے بارے میں اسلامی نظریہ معلوم کر سکیں۔ علمائے اسلام کسی موضوع کو بلا حکم نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک اسلام میں ہر چیز کے لئے ایک حکم موجود ہے۔
۲۔ اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت:
اسلامی کلیات کو اس طرح سے منظم کیا گیا ہے کہ ان میں اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ اجتہاد یعنی کلی و ثابت اصول کو جزوی اور بدلتے رہنے والے مسائل و امور پر منطبق کرنا اسلامی کلیات کو اس طرح منظم شکل دینے کے علاوہ کہ جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد کو قبول کرنے کی خاصیت پیدا ہو گئی ہے اسلامی سرچشمہ اور مآخذوں کی فہرست میں عقل کی موجودگی نے حقیقی اجتہاد کے کام کو آسان کر دیا ہے۔
۳۔ سہولت اور آسانی:
رسول اکرم کے الفاظ میں اسلام ”شریعت سمحہ سہلہ“(۱) ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ دینے والی مشقت میں ڈالنے والی بے حد پریشان کرنے والی تکالیف شرعیہ عائد نہیں کی گئی ہیں۔
ماجعل علیکم فی الدین من حرج
( سورہ حج آیت ۸۷)
”خدا نے تمہارے لئے دین میں تنگی اور دشواری قرار نہیں دی ہے۔“
اور اس بناء پر کہ ”سمحہ“ (درگذر کے ہمراہ ہے) جہاں بھی اس حکم شرع کا انجام دینا تنگی و دشواری اور شدید زحمت کا باعث ہو وہاں وہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔
۴۔ زندگی کی طرف میلان و رغبت:
اسلام زندگی کی طرف مائل اور راغب کرنے والا دین ہے نہ کہ زندگی سے دور کرنے کا باعث اور اسی لئے اس نے رہبانیت یعنی ترک دنیا سے سختی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں:
لا رہبانیۃ فی الاسلام
”اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔“
پرانے معاشرے میں دو چیزوں میں سے ایک چیز ہمیشہ موجود رہی ہے یا صرف آخرت کی طرف رغبت اور دنیا سے فرار یا صرف دنیا کی طرف رغبت اور آخرت سے گریز (تمدن اور ترقی و توسیع) اسلام نے انسان میں زندگی کی طرف رغبت کے ساتھ ساتھ آخرت کا شوق بھی رکھا ہے۔ اسلام کی نظر میں آخرت کا راستہ زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔
۵۔ اجتماعی ہونا:
اسلامی قوانین اور احکام اجتماعی ماہیت کے حامل ہیں یہاں تک کہ وہ احکام جو زیادہ سے زیادہ انفرادی ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ اس میں بھی ایک اجتماعی اور سماجی حسن پیدا کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے بہت سے اجتماعی سیاسی اقتصادی اور عدالتی قوانین و احکام اسی خاصیت کے حامل ہیں جیسا کہ جہاد اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا تعلق اسلام اور اجتماعی ذمہ داری سے ہے۔
۶۔ انفرادی حقوق اور آزادی:
اسلام جہاں ایک اجتماعی دین ہے اور پورے معاشرے پر اس کی نظر رہتی ہے اور فرد کو معاشرہ کا ذمہ دار سمجھتا ہے وہاں فرد کی آزادی اور اس کے حقوق سے چشم پوشی بھی نہیں کرتا اور فرد کو فرعی حیثیت نہیں دیتا بلکہ اسلام نے فرد کے لئے سیاسی اقتصادی قانونی اور اجتماعی حقوق رکھے ہیں۔
سیاسی لحاظ سے مشورے اور انتخاب کا حق فرد کو حاصل ہے اقتصادی لحاظ سے اپنے کام کے ماحاصل اور حق محنت پر مالکیت کا حق معاوضہ اور مبادلہ صدقہ وقف ہبہ اجارہ مزارعہ اور مضاربہ وغیرہ کا حق اپنی جائز ملکیت میں رکھتا ہے قانونی لحاظ سے اسے دعویٰ دائر کرنے اپنا حق ثابت کرنے اور گواہی دینے کے حقوق دیئے گئے ہیں اور اجتماعی لحاظ سے اسے کام اور جائے سکونت کے انتخاب کا حق تحصیل علم میں مضمون کے انتخاب وغیرہ کا حق اور گھریلو زندگی میں اپنی شریک حیات کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔
۷۔ معاشرتی اور اجتماعی حق کی انفرادی حق پر فوقیت:
جس جگہ اجتماعی اور انفرادی حق کے درمیان تزاحم اور تضاد پیدا ہوتا ہے وہاں اجتماعی اور معاشرے کا حق انفرادی حق پر مقدم ہوتا ہے اسی طرح عام حق خاص حق پر فوقیت رکھتا ہے۔ البتہ ان موارد کی تشخیص خود حاکم شرع کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
۸۔ شوریٰ کا حصول:
اجتماعی نظام میں اسلامی نقطہ نظر سے شوریٰ کی حقیقت اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ جن مقامات پر اسلام کی طرف سے کوئی صریح حکم نہیں آیا ہے وہاں مسلمانوں کو چاہئے کہ اجتماعی غور و فکر اور باہمی مشورے سے عمل کریں۔
۹۔ مضر حکم کا نہ ہونا:
اسلامی قوانین اور احکام جو مطلق اور عام ہیں اس حد تک ان پر عمل جائز ہے جہاں تک کسی ضرر و نقصان کا باعث نہ ہو قاعدہ ضرر ایک کلی قاعدہ ہے جو ہر اس قانون کے اجراء کے موقع پر ”ویٹو“ یعنی ”تنسیخ“ کا حق رکھتا ہے جب وہ ضرر و نقصان کا باعث ہو۔
۱۰۔ مفید نتیجے اور فائدے کی امتیازی حیثیت:
اسلام کی نظر میں ہر کام خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی سب سے پہلے اس کے فائدے اور مفید نتیجے کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ جس کام سے کوئی فائدہ برآمد نہ ہو اسلام کی نظر میں اسے بے ہودہ فضول اور ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ والذین ھم عن اللغو معرضون( سورہ مومنون آیت ۳)
 

صرف علی

محفلین
۱۱۔ لین دین میں خیر و صلاح کا لحاظ:
مال و دولت کی گردش اس کے نقل و انتقال کو ہر قسم کی بے ہودگی اور بدعنوانی سے پاک و صاف ہونا چاہئے۔ ہر نقل و انتقال کے مقابل میں کوئی مادی یا معنوی خیر و بھلائی ملحوظ خاطر ہونی چاہئے ورنہ مال کی یہ گردش باطل اور ممنوع ہو گی۔
ولاتا کلوا اموالکم بینکم بالباطل( سورہ بقرہ آیت ۱۸۸)
”جوئے وغیرہ کے ذریعے مال کا نقل و انتقال باطل طریقے سے مال کمانے کا مصداق ہے اور حرام ہے۔“
۱۲۔ سرمایہ جونہی گردش یا نقصان یا تباہی کی صورت سے خارج ہو کر ضمانت و غرض کی صورت اختیار کر لیتا ہے تو عقیم (فائدے سے خالی) اور بے سود ہو جاتا ہے اور اسلامی نقطہ نظر سے اس کا کوئی جائز فائدہ نہیں رہتا اور جو اضافی مقدار بھی اصل سرمائے پر لی جائے گی وہ سود اور حرام کے زمرے میں آئے گی۔
۱۳۔ ہر مالی تبادلہ اور سرمائے کی گردش طرفین کی پوری واقفیت و آگاہی ہی سے ہونی چاہئے اور ضروری سمجھا جائے گا۔
نھی النبی عن الغرر(صحیح مسلم ج ۳ ص ۱۱۵۳)
”اپنے کو معرض ہلاکت میں ڈالنا خدعہ دھوکہ و فریب ہے۔“
۱۴۔ خلاف عقل امور سے مقابلہ:
اسلام عقل کو قابل احترام چیز اور خدا کا باطنی رسول سمجھتا ہے اصول دین عقلی و منطقی دلیل کے بغیر قابل قبول نہیں ہیں۔ فروع دین میں بھی عقل اجتہاد کے سرچشموں میں سے ایک ہے۔ اسلام عقل کو ایک قسم کی طہارت اور عقل کے زائل ہونے کو ایک طرح کا محدث ہونا سمجھتا ہے لہٰذا جنون یا مستی کا طاری ہونا بھی پیشاب کرنے یا سو جانے کی مانند وضو کو باطل کر دیتا ہے۔ اسلام ہر طرح کی مستی اور نشے کا مخالف ہے اور مطلقاً تمام نشہ آور چیزوں کے استعمال کو حرام قرار دیتا ہے کیوں کہ وہ ہر اس چیز کا مخالف ہے جو عقل کی مخالف ہو اور یہ مخالفت دین کا جزولاینفک ہے۔(جو چیز نہی نبوی کی عبارت میں ہے وہ ”بیع غرری“ ہے لیکن اجتہادی معیارات مطلقہ طور پر غرر و فریب کو ممنوع قرار دیتے ہیں۔مولف)
۱۵۔ خلاف ارادہ امور سے مقابلہ:
جس طرح عقل قابل احترام اور اسلامی تعلیمات میں بہت سے احکام عقل کی حفاظت و نگہبانی کے لئے ہیں اسی طرح ارادہ بھی جو عقل کی قوت مجریہ ہے قابل احترام ہے اس لحاظ سے ارادے (خیر) سے روکنے والی چیزیں جو زبان اسلام میں لہو و لعب کہلاتی ہیں بھی حرام و ممنوع ہیں۔
۱۶۔ کام اور مشغلہ:
اسلام بیکاری اور کاہلی کا دشمن ہے اس لحاظ سے کہ انسان معاشرے سے استفادہ کرتا ہے کام فرد اور معاشرے دونوں کی اصلاح کا بہترین عامل اور سبب ہے اور بیکاری تباہی و فساد کا سب سے بڑا عامل ہے۔ اس لئے انسان کو مفید کام انجام دینے چاہیں۔ اسلام طفیلی ہونے اور معاشرے پر بوجھ بننے کی سخت مذمت کرتا ہے اور معاشرے پر بوجھ بننے والے پر لعنت کرتا ہے:
ملعون من القی کلہ علی الناس
”وہ شخص جو اپنا بوجھ لوگوں پر ڈالتا ہے۔“(وسائل ج ۱۲ ص ۱۸)
۱۷۔ پیشے اور فن و ہنر کا مقدس ہونا:
پیشہ اور فن و ہنر جہاں ایک خدائی حکم ہے وہاں ایک مقدس اور پاکیزہ عمل اور اللہ کا محبوب و پسندیدہ امر بھی ہے اور جہاد کی مانند ہے۔
ان اللہ یحب المومن المحترف
(وسائل ج ۱۲ ص ۱۳ ان الفاظ کے ساتھ: ان اللہ یحب المحترف الامین)
”خداوند عالم اس مومن کو دوست رکھتا ہے جو صاحب فن و حرفت ہو۔“
الکاد لعیالہ کالمجاہد فی سبیل اللہ(وسائل ج ۱۲ ص ۴۳ وہاں پر لعیالہ کی جگہ علی عیالہ آیا ہے)
”جو شخص اپنے عیال کے لئے اپنے کو رنج و تکلیف میں ڈالتا ہے وہ اس شخص کی مانند ہے جو راہ خدا میں جہاد کرتا ہے۔“
۱۸۔ استحصال کی ممانعت:
اسلام استحصال و استثمار یعنی دوسروں کے کام سے بلاعوض یا غیر مناسب معاوضہ حاصل کرنے کو خواہ وہ کسی شکل اور کسی تدبیر سے ہونا جائز اور ممنوع قرار دیتا ہے۔ کسی کام کے ناجائز ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ یہ ثابت ہو جائے کہ وہ استحصالی ماہیت رکھتا ہے۔
۱۹۔ اسراف و فضول خرچی:
لوگ اپنے اموال کے مالک ہیں اور ان پر اپنا پورا تسلط رکھتے ہیں(الناس مسلطون علی اموالھم) لیکن یہ تسلط اس معنی میں ہے کہ اسلام نے جو حدود معین کی ہیں وہ ان کے دائرے میں ہو نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ۔ مال کا ضائع کرنا ہر شکل میں اور ہر صورت سے خواہ وہ پھینک دینے کی صورت میں ہو یا تباہ کن تجملات اور زیب و زینت کی چیزوں پر تصرف کی شکل میں ہو اور جسے اسلام کی زبان میں ”اسراف و تبذیر“ سے تعبیر کیا گیا ہے ممنوع اور حرام ہے۔
۲۰۔ زندگی میں ترقی و توسیع:
اہل و عیال کے آرام و آسائش کے لئے ضروریات زندگی کی چیزوں میں اضافہ کرنا اگر کسی کی حق تلفی یا اسراف اور فضول خرچی کی حد میں داخل نہ ہو جائے نہ صرف جائز بلکہ قابل تعریف فعل ہے اور اس کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔
۲۱۔ رشوت:
اسلام میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں کی سخت مذمت کی گئی ہے اور دونوں کو آتش جہنم کا مستحق قرار دیا گیا ہے اور جو پیسے اس طرح سے حاصل ہوتے ہیں وہ ناجائز اور حرام ہیں۔
۲۲۔ ذخیرہ اندوزی:
اگر عام طور پر اشیائے ضرورت (خاص کر اشیائے خوردنی) کو ذخیرہ کر لیا جائے تاکہ ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے تو یہ عمل ان اشیاء کا مہنگا بیچنا حرام اور ممنوع ہے حاکم شرعی مالک کی خواہش اور مرضی کے خلاف ان جمع شدہ اشیاء کو بازار میں لائے گا اور انہیں عادلانہ نرخ پر فروخت کرائے گا۔
۲۳۔ آمدنی کا مصلحت کی بنیاد پر ہونا نہ کہ طلب و تقاضے کی بنیاد پر:
عام طور پر چیزوں کی قدر و قیمت اور مالیت کا تعین صارفین کی طلب اور مانگ سے ہوتا ہے اور کسی کام کے جائز ہونے کے لئے اس کام کے عوام کی خواہشات کے مطابق ہونے کو کافی سمجھا جاتا ہے لیکن اسلام کسی چیز کی مالی قدر و قیمت کے تعین اور لوگوں کے کام کو جائز قرار دینے کے لئے لوگوں کی طلب اور مانگ کو کافی نہیں سمجھتا بلکہ کام کے معاشرے کی مصلحت کے مطابق ہونے کو عرف شریعت میں مالیت کے تعین اور کام کے جائز ہونے کے لئے لازمی شرط قرار دیتا ہے یعنی اسلام صرف لوگوں کی خواہشوں اور رغبتوں کو جائز آمدنی کا منبع نہیں سمجھتا بلکہ خواہشات اور رغبتوں کے علاوہ معاشرے کی مصلحت کے ساتھ آمدنی کو بھی شرط قرار دیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسلام لوگوں کی طلب کو رسد کے جواز کے لئے کافی نہیں جانتا اس لئے اسلام میں بعض کاموں اور کسب کے طریقوں کو ”مکاسب محرمہ“ کہا گیا ہے۔ مکاسب محرمہ (کمانے کے حرام طریقے) چند قسم کے ہیں:
(الف) چیزوں کا ایسا لین دین جو جہالت میں ڈالنے کا موجب ہو۔ ایسی چیزیں جو لوگوں کو عملاً جہالت اور فکری و اعتقادی روگردانی کی طرف راغب کرنے اور شوق دلانے کا سبب ہوتی ہیں حرام ہیں اگرچہ ان کی مانگ کافی مقدار میں ہو اس لحاظ سے بت فروشی صلیب کا بیچنا تدلیس ماشطہ (عورت کی آرائش کرنا اور اس آرائش کے ذریعے عورت کے عیوب کو چھپانا تاکہ اس کا رشتہ لینے کے لئے آنے والے فریب کھا جائیں) کسی ایسے شخص کی مدح کرنا جو اس مدح کا مستحق نہ ہو کہانت اور غیب گوئی یہ سب امور حرام ہیں اور ان طریقوں سے مال وصول کرنا بھی ممنوع اور حرام ہے۔
(ب) ان چیزوں کا باہمی تبادلہ جو گمراہ کرنے اور غفلت میں مبتلا کرنے کا باعث ہیں- گمراہ کن کتابوں اور فلموں کی خرید و فروخت اور ہر وہ کام جو کسی طرح سے بھی معاشرے کی گمراہی کا موجب ہو ناجائز اور حرام ہے۔
(ج) وہ کام جو دشمن کی تقویت کا موجب ہو کسی بھی ایسے طریقے سے روپیہ پیسہ کمانا حرام ہے جو دشمن کی بنیاد مضبوط کرنے کا باعث ہو خواہ وہ فوجی اعتبار سے ہو یا اقتصادی ثقافتی یا جاسوسی کے اعتبار سے اسلامی محاذ کو کمزور بناتا ہو چاہئے اسلحہ فروشی کی صورت میں ہو یا ایسی دوسری چیزوں کی فروخت کی شکل میں جن کی احتیاج ہو اور جو عملاً مذکورہ امور کا سبب ہوں اور نایاب قلمی نسخوں کا بیچنا بھی انہی چیزوں میں شامل ہے۔
(د) ایسے امور کے ذریعے مال حاصل کرنا جو فرد یا معاشرے کے لئے تباہ کن اور نقصان پہنچانے والے ہوں مثلاً شراب فروشی آلات قمار کا بیچنا اسی طرح نجس العین چیزوں کا بیچنا اور ناقص اور ملاوٹ کی ہوئی چیزیں بھی اسی زمرے میں شامل ہیں (ان سب طریقوں سے) مال حاصل کرنا جوا کھیلنا امر حرام کی طرف دوسروں کو مائل کرنا اور لے جانا کسی مومن کی ہجو ظالموں کی مدد کرنا اور ان کی نوکری اور ملازمت وغیرہ (ممنوع اور حرام ہے) البتہ کسب حرام کی دوسری قسم بھی ہے جو کام کے خلاف مصلحت ہونے کی بناء پر نہیں بلکہ اس کے لین دین سے بالاتر ہونے کی وجہ سے حرام ہے بہت سے کام بزرگی و پاکیزگی کی ایسی حد میں ہیں کہ ان کے عوض قرار دینا ان کی حیثیت و عظمت و حرمت کے خلاف ہے جیسے فتویٰ دینے شرعی فیصلہ کرنے اصول و فروع دین کی تعلیم دینے وعظ و نصیحت کرنے اور اس جیسی دوسری چیزیں اور ممکن ہے طبابت بھی اسی میں شامل ہو۔
مذکورہ کام اور پیشے اپنے مقدس ہونے کی بناء پر لین دین اور مبادلہ سے بالاتر ہیں اور اس چیز سے کہیں بلند ہیں کہ آمدنی اور دولت کی جمع آوری کا ذریعہ بنیں یہ سب کام واجبات کا ایک سلسلہ ہیں جنہیں بلاعوض انجام پانا چاہئے البتہ مسلمانوں کا بیت المال ان مقدس کاموں کے انجام دینے والوں کی ضروریات زندگی کے اخراجات کا ذمہ دار ہو گا۔
 

صرف علی

محفلین
۲۴۔ حقوق کا دفاع کرنا (خواہ انفرادی ہوں یا اجتماعی) اور زیادی و زبردستی کرنے والے کے خلاف جہاد کرنا واجب اور مقدس کام ہے۔
لا یحب اللہ الجھر باالسوء من القول الا من ظلم( سورہ نساء آیت ۱۴۸)
”خداوند عالم اعلانیہ طور پر بدگوئی کو پسند نہیں کرتا سوائے اس کے جس پر ظلم کیا گیا ہو۔“
رسول اکرم کا ارشاد گرامی ہے:
افضل الجہاد کلمة عدل عند امام جائر(کافی ج ۵ ص ۶۰)
”بہترین جہاد ظالم و جابر پیشوا کے سامنے عدل و انصاف کی بات کہنا ہے۔“
حضرت علی حضرت رسول خدا سے نقل فرماتے ہیں:
لن تقدس امۃ حتی یوخذ للضعیف حقہ من القوی غیر متمتع
(نہج البلاغہ عہد نامہ مالک اشتر)
”کوئی قوم و ملت بزرگی و پاکیزگی (تعریف و تمجید کی قابلیت) حاصل نہیں کرتی یہاں تک کہ اس مرحلے پر پہنچ جائے کہ کمزور اپنا حق بلاخوف اور بلاجھجک طاقتور سے لے لے۔“
۲۵۔ اصلاح کی کوشش اور فساد و خرابی کے مقابلے میں مسلسل جدوجہد اسلام میں اچھائیوں کا حکم دینا اور اس طرف متوجہ رکھنا اور برائیوں سے روکنا وہ فریضہ ہے جو امام باقر کے مبارک الفاظ میں تمام اسلامی فرائض کا پایہ اور ستون ہے۔ یہ اصول مسلمان کو دائمی اور فکری انقلاب کے ذریعے اصلاح معاشرے کے لئے مسلسل کوشش اور تمام برائیوں اور تباہ کاریوں سے جنگ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر( سورہ آل عمران آیت ۱۱۰)
”تم بہترین گروہ ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کئے گئے ہو تم نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے منع کرتے ہو۔“
جناب رسالت مآب فرماتے ہیں:
لتا مرون بالمعروف و تنھون عن المنکر او یسلطن اللہ (علیکم) شرار کم فید عو اخیار کم فلا یستجاب لھم(کافی ج ۵ ص ۵۶ کچھ کمی بیشی کے ساتھ)
”تم لوگوں کو امربالمعروف کرنا چاہئے برائیوں سے روکنا چاہئے ورنہ خداوند عالم تمہارے بروں کو تم پر مسلط کر دے گا پھر تمہارے نیک لوگ دعا کریں گے تو مستجاب نہیں ہو گی۔“
۲۶۔ توحید:
اسلام ہر چیز سے زیادہ دین توحید ہے توحید کے بارے میں کسی خدشے کو چاہے وہ توحید نظری میں ہو یا توحید عملی میں قبول نہیں کرتا اسلامی افکار رفتار اور کردار سب خدا سے شروع ہوتے ہیں اور خدا ہی پر ختم ہوتے ہیں اس لحاظ سے اسلام ہر قسم کی ثنویت تثلیت یا کسی بھی قسم کی زیادتی کو جو اس اصول کو مخدوش کرتی ہو سختی کے ساتھ مسترد کرتا ہے جیسے (معاذ اللہ) خدا اور شیطان کی ثنویت یا خدا اور انسان کی دوئیت یا خدا اور مخلوق خدا کی دوئیت۔
ہر کام کو اللہ کے نام سے خدائی فکر کے ساتھ اور اللہ سے تقرب و نزدیکی حاصل کرنے کے لئے شروع ہونا چاہئے اور انجام کو پہنچنا چاہئے اور جو کام اس کے علاوہ ہو گا وہ اسلامی کام نہیں ہے اسلام میں تمام راہیں توحید پر ختم ہوتی ہیں۔ اخلاق اسلامی کا سرچشمہ توحید ہے اور یہ توحید ہی پر ختم ہوتا ہے۔ اسلامی تربیت بھی اسی طرح ہے سیاست اسلامی اقتصاد اسلامی اور اجتماع اسلامی سب اسی طرح اسلام سے وابستہ ہیں۔ اسلام میں ہر کام خدا کے نام سے اور اسی کی استعانت سے شروع ہوتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
”اور خدا کے نام اور اس کی حمد پر ختم ہوتا ہے۔“
الحمدللہ رب العالمین
”اور خدا کے نام سے اور اسی پر اعتماد سے ہر کام جاری ہوتا ہے۔“
توکلت علی اللہ وعلی اللہ فلیتو کل المومنون
( سورہ ہود آیت ۵۶ اور سورہ آل عمران آیت ۱۲۲)
ایک حقیقی مسلمان کی توحید ایک خیال اور خشک عقیدہ نہیں ہے جس طرح ذات خدا پنی مخلوقات سے جدا نہیں ہے بلکہ سب کے ساتھ ہے اور سب پر محیط ہے۔ ساری چیزیں اسی سے شروع ہوتی ہیں اور اسی پر ختم ہوتی ہیں۔
اسی طرح توحید کا تصور بھی ایک حقیقی موحد کے پورے وجود پر محیط ہوتا ہے اس کے تمام افکار و خیالات اس کی تمام قوتوں اور اس کے طور طریقوں پر سایہ فگن ہو جاتا ہے اور ان سب کی ایک خاص سمت کی طرف رہنمائی کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک حقیقی مسلمان کے کام کی ابتداء انتہا اور وسط اللہ کی ذات ہوتی ہے اور وہ کسی چیز کو اللہ کا شریک قرار نہیں دیتا۔
۲۷۔ واسطوں کی نفی:
اسلام اگرچہ نزول فیض میں واسطوں اور ذریعوں کو قبول کرتا ہے اور علت و معلول کے نظام کو خواہ وہ امور مادی ہوں اور خواہ امور معنوی میں حقیقی اور واقعی شمار کرتا ہے مگر پرستش اور عبادت کی منزل میں تمام وسائل اور ذرائع کو مسترد کر دیتا ہے جیسا کہ ہم سب اس چیز سے بخوبی آگاہ ہیں کہ تحریف شدہ مذاہب میں فرد (یعنی انسان انفرادی حیثیت سے) خدا سے براہ راست رابطہ اور تعلق کی قدر و قیمت اپنے ہاتھ سے کھو چکا ہے خدا اور بندے کے درمیان جدائی فرض کر لی گئی ہے صرف کاہن یا روحانی پیشوا براہ راست خدا کے ساتھ راز و نیاز کر سکتا ہے اور پس اسی کو حق ہے کہ دوسرے تمام لوگوں کے پیغامات کو خدا تک پہنچائے۔ اسلام میں یہ کام ایک طرح کا شرک گنا جاتا ہے قرآن کریم صراحت کے ساتھ کہتا ہے:
”(اے حبیب) اگر میرے بندے میرے بارے میں تم سے سوال کریں تو کہہ دو! میں نزدیک ہوں میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں۔“
۲۸۔ اہل توحید کے ساتھ باہمی زندگی کا امکان:
اسلام کی نظر میں تمام مسلمان اپنے ملک میں دوسرے ادیان کے ماننے والوں اور پیروکاروں کے ساتھ جو اصول توحید کو قبول کرتے ہیں جیسے یہودی عیسائی اور مجوسی اگرچہ فی الحال وہ توحید سے منحرف ہی ہوں پھر بھی چند مخصوص شرائط کے ساتھ ان کے ہمراہ زندگی گزار سکتے ہیں۔
لیکن اسلامی ملک کے اندر مشرک کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتے مسلمان اسلام کی اعلیٰ مصلحتوں کی بنیاد پر مشرکین کے ساتھ صلح و صفائی اور امن کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے معاہدہ کر سکتے ہیں یا کسی خاص مسئلے پر بھی معاہدہ کر سکتے ہیں۔
۲۹۔ مساوات:
اسلامی آئیڈیالوجی کے اصول و ارکان مساوات اور غیر امتیازی سلوک ہے۔ اسلام کی نظر میں سب انسان اپنی ذات کے لحاظ سے برابر ہیں اور لوگ اس اعتبار سے دو یا کئی قسموں میں پیدا نہیں کئے گئے ہیں رنگ خون نسل و قومیت بلندی و برتری کے معیار نہیں ہیں۔ سید قریشی اور سیاہ حبشی دونوں برابر ہیں۔ اسلام میں آزادی جمہوریت اور عدل و انصاف انسانوں کی برابری اور مساوات کا نتیجہ اور ثمرہ ہے۔
اسلامی نظریے کے مطابق صرف چند محدود و معین حالات میں افراد کے بعض حقوق خود انہی افراد اور معاشرے کی چند مصلحتوں کے پیش نظر وقتی طور پر سلب ہوتے ہیں لیکن یہ چیز افراد کے جوہر ذات خون نسل اور مقام سے کوئی تعلق نہیں رکھتی غلاموں کی غلامی کا وقتی اور عارضی دور جو اسلام کی نظر میں ثقافتی تعلیمی اور تربیتی پہلو رکھتا تھا نہ کہ اقتصادی اور حصول نفع کا پہلو اور وہ دور اسلامی تربیت کے لئے ایک پرورش گاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔
۳۰۔ اسلام میں حقوق شرعی ذمہ داریاں اور سزائیں دو جنسوں کے لحاظ سے ہیں یعنی جس طرح انسانیت میں مرد و زن مشترک ہیں اور نوعی مشترکات رکھتے ہیں لیکن ان کی جنسیت (یا صنفیت) ان کو خاص فرعی امتیاز عطا کر دیتی ہے اسی طرح حقوق شرعی ذمہ داریاں اور سزائیں بھی جہاں تک دو جنسوں کی مشترکات کے ساتھ مربوط ہیں مشترک اور مساوی ہیں مثلاً تحصیل علم کا حق عبادت و پرستش کا حق شریک حیات کے انتخاب کا حق ملکیت کا حق اپنی مملوکہ چیزوں میں تصرف کا حق وغیرہ اور جہاں تک یہ فرعی مختصات اور جنسیت سے مربوط ہیں تو وہاں بھی برابر اور مساوی حالت تو ہوتی ہے لیکن ایک دوسرے سے مشابہت اور یکسانیت کی صورت نہیں ہوتی اور دو جنسیت ہوتی ہے۔(ملاحظہ فرمائیں مولف کی کتاب ”اسلام میں خواتین کے حقوق“)
 

صرف علی

محفلین
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی ابن عبداللہ جن پر نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ۵۷۰ء میں آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ چالیس سال کی عمر مبارک میں آپ نے اعلان رسالت فرمایا۔ آپ نے تیرہ سال تک مکہ میں لوگوں کو اسلام کی دعوت دی اور طرح طرح کی زحمتیں تکلیفیں اور مصیبتیں برداشت کیں اور اس عرصے میں ایک خالص اسلامی گروہ کی تربیت فرمائی۔ اس کے بعد آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور اسی کو اسلام کی تبلیغ کا مرکز قرار دیا۔ دس سال تک مدینہ میں آزادانہ دعوت تبلیغ دین فرمائی اور عرب سرکشوں سے مقابلہ کیا اور سب کو مغلوب کر دیا۔ ان دس برسوں میں تمام جزیرة العرب مسلمان ہو چکا تھا۔
قرآن مجید کی آیات کریمہ تقریباً ۲۳ سال کے عرصے میں آنحضرت پر نازل ہوئیں۔ تمام مسلمان قرآن مجید اور حضرت رسول خدا کی مقدس شخصیت کے بارے میں تعجب خیز اور حیرت انگیز عشق و محبت و الفت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ رسول اکرم نے گیارہویں صدی ہجری میں یعنی مکہ سے مدینہ ہجرت فرمانے کے گیارہویں سال میں جب کہ آپ کی تبلیغ رسالت کا تئیسواں اور آپ کی عمر مبارک کا تریسٹھواں (۶۳) سال تھا دنیا سے رحلت فرمائی۔ اس حالت میں کہ ایک نوبنیاد اور روحانی نشاط سے سرشار معاشرے اور ایک تعمیری نظریہ کائنات پر ایمان رکھنے والے معاشرے کی جو دنیا بھر میں اپنی ذمہ داری کا احساس رکھتا تھا مستحکم و مضبوط بنیاد قائم کر دی تھی اور اسے قائم و دائم چھوڑ گئے تھے۔
جس چیز نے اس نوبنیاد معاشرے کو روحانیت اتحاد اور نشاط عطا کیا تھا وہ دو چیزیں تھیں ایک قرآن کریم جس کی ہمیشہ تلاوت ہوتی تھی اور دوسروں کو فیض پہنچاتا تھا دوسری چیز رسول اکرم کی عظیم اور ہر دل عزیز شخصیت تھی جو دلوں کو اپنی طرف کھینچتی اور نگاہوں کو شوق دیدار عطا کرتی تھی۔ یہاں پر ہم حضور اکرم کی مقدس و باعظمت شخصیت کا مختصراً جائزہ لیتے ہیں:
حضور اکرم کے بچپن کا دور
ابھی رسول اکرم رحم مادر میں ہی تھے کہ آپ کے پدر بزرگوار کا شام کے ایک تجارتی سفر کے دوران مدینہ کے قریب انتقال ہو گیا۔ آپ کے دادا جناب عبدالمطلب نے آپ کی تربیت و کفالت کی ذمہ داری لی۔ بچپن ہی سے بزرگ اور عام لوگوں سے بلند و بالاتر ہونے کے آثار آپ کے چہرہ مبارک اور رفتار و گفتار سے ظاہر ہوتے تھے۔ جناب عبدالمطلب نے اپنی فراست سے اس بات کو سمجھ لیا تھا کہ آپ کا یہ پوتا ایک روشن و تابندہ مستقبل کا حامل ہے۔
آپ ابھی آٹھ سال کے تھے کہ آپ کے دادا کا بھی انتقال ہو گیا اور ان کی وصیت کے مطابق آپ کے محترم چچا جناب ابوطالب نے آپ ۱کی کفالت کی ذمہ داری قبول کی۔ جناب ابوطالب بھی اس بچے کے عجیب چال چلن جو عام بچوں سے بالکل مشابہت نہیں رکھتا سے تعجب و حیرت میں رہتے تھے۔ کبھی یہ نہیں دیکھا گیا کہ آپ نے اپنے ہم سن اور ہم عمر بچوں کی طرح غذا کے سلسلے میں حرص سے کام لیا ہو۔ آپ ۱تھوڑے سے کھانے پر اکتفا فرماتے اور زیادہ روی سے پرہیز کرتے(رسول اکرم ۱کی سیرت خلق اور خصلت کا جو خلاصہ ہم ذیل میں پیش کر رہے ہیں وہ خاص کر علامہ بزرگ معاصر آقائے حاج سید ابوالفضل مجتہد زنجانی کے مقالہ ”محمد خاتم پیغمبران“ جلد اول سے استفادہ کیا گیا ہے۔مولف) اپنے ہم عمر بچوں کے برخلاف اور اس زمانے کی عادت و تربیت کے برخلاف آپ اپنے بالوں کو درست اور اپنے سر اور چہرہ مبارک کو صاف و شفاف رکھتے تھے۔ جناب ابوطالب سے ایک روز حضرت نے خواہش کی کہ آپ ان کے سامنے اپنا لباس اتار کر بستر پر (آرام کرنے کے لئے) جائیں تو آپ ۱کو یہ خواہش ناگوار گزری لیکن چونکہ آپ اپنے چچا کے حکم سے سرتابی نہیں کرنا چاہتے تھے لہٰذا اپنے چچا سے کہا کہ آپ اپنا منہ پھیر لیں تاکہ میں اپنا لباس اتار سکوں۔ ابوطالب بچے کی اس بات سے بہت حیرت زدہ ہوئے کیوں کہ عرب میں اس وقت بچے تو بچے بڑی عمر والے مرد بھی اپنے جسم کو (لوگوں کے سامنے) برہنہ کرنے سے پرہیز نہیں کرتے تھے۔ جناب ابوطالب کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے کبھی جھوٹ نہیں سنا بے ہودہ کام کرتے اور بے جا ہنستے ہوئے کبھی نہیں دیکھا بچوں کے کھیل کود کی طرف کبھی رغبت نہیں فرماتے تھے۔ خلوت نشینی اور تنہائی کو پسند فرماتے تھے اور ہر حالت میں منکسرالمزاج اور متواضع رہتے تھے۔
کاہلی اور بے کاری سے نفرت
آنحضرت ۱کاہلی اور بے کاری سے سخت نفرت کرتے تھے اور فرماتے تھے:
”خدایا سستی کاہلی بے کاری عاجزی اور بدحالی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔“(الجامع الصغیر ج ۱ ص ۵۸)
مسلمانوں کو کام کرنے کا شوق دلاتے تھے اور فرماتے تھے:
”عبادت کے ستر (۷۰) حصے ہیں اور اس کا بہترین حصہ حلال روزی کمانا ہے۔“(کافی ج ۵ ص ۷۸)
امانت
بعثت سے پہلے جناب خدیجہ کی طرف سے جو بعد میں آپ کی زوجیت میں آئیں شام کے ایک تجارتی سفر پر گئے۔ اس سفر میں آپ کی لیاقت و صلاحیت اور ایمان داری کھل کر ظاہر ہوئی۔ آپ نے اپنی دیانت و ایمان داری میں اس قدر زیادہ شہرت حاصل کر لی تھی کہ لوگوں نے آپ کا لقب ہی ”محمد امین“ قرار دے دیا تھا اور اپنی امانتیں حضرت کے سپرد کیا کرتے تھے یہاں تک کہ بعثت کے بعد بھی قریش کے لوگ آپ سے عداوت و دشمنی رکھنے کے باوجود اپنی امانتیں آپ کے سپرد کر دیا کرتے تھے اسی وجہ سے مدینہ سے ہجرت کرتے وقت حضرت علی کو اپنے بعد چند روز کے لئے مکہ میں چھوڑا تھا تاکہ ساری امانتوں کو ان کے اصل مالکوں کے حوالے کر دیں۔
ظلم سے مقابلہ
زمانہ جاہلیت میں ایک ایسے گروہ کے ساتھ جو خود بھی طاقتور ظالموں کے ظلم و ستم کا شکار تھا مظلوموں اور کمزوروں کی حمایت اور ظالموں سے مقابلہ کا معاہدہ فرمایا تھا۔ یہ معاہدہ مکہ کی ایک اہم شخصیت عبداللہ بن جرعان کے گھر منعقد ہوا تھا اور ”حلف فضول“ کے نام سے مشہور ہے۔ آپ اپنے دور رسالت میں بھی اس معاہدے کو یاد فرمایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں اس معاہدے کے ٹوٹنے پر راضی نہیں ہوں اور میں اب بھی ایسے معاہدوں میں شریک ہونے کے لئے تیار ہوں۔
گھریلو اخلاق
آپ ۱گھر میں بہت مہربان تھے۔ اپنی ازدواج کے ساتھ کسی قسم کی سختی نہیں کرتے تھے اور یہ بات مکہ والوں کے اخلاق و عادات کے خلاف تھی۔ اپنی بعض ازدواج کی بدزبانی کو برداشت کرتے تھے یہاں تکہ کہ دوسرے آپ کے اس تحمل و برداشت سے رنجیدہ ہوتے تھے۔ آپ لوگوں کو عورتوں کے ساتھ اچھی معاشرت کی تاکید فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ تمام لوگ اچھی و بری عادات کے حامل ہوتے ہیں لہٰذا مرد کو یہ نہیں چاہئے کہ اپنی بیوی کے صرف ناپسندیدہ پہلوؤں پر ہی نظر رکھے اور اپنی بیوی کو چھوڑ دے کیوں کہ اگر اس کی ایک خصلت سے اسے رنج پہنچتا ہے تو اس کی دوسری خصلت مرد کی خوشنودی کا باعث بھی ہوتی ہے اور ان دونوں خصلتوں کو ساتھ ساتھ نظر میں رکھنا چاہئے۔ آپ اپنے فرزندوں اور نواسوں پر حد سے زیادہ شفیق اور مہربان تھے ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے اپنی آغوش میں انہیں بٹھاتے تھے انہیں اپنے کاندھوں پر سوار کرتے تھے ان کا بوسہ لیتے تھے۔ یہ سب باتیں اس زمانے کی رائج عادات و خصوصیات کے برخلاف تھیں ایک روز مدینہ کے شرفاء میں سے ایک شخص کی موجودگی میں آپ اپنے ایک نواسے (حضرت امام حسن ) کا بوسہ لے رہے تھے اس شخص نے کہا میرے دو بیٹے ہیں میں نے آج تک ان میں سے کسی ایک کا بھی بوسہ نہیں لیا ہے۔ آپ نے فرمایا:
من لا یرحم و لا یرحم(الفقیہ ج ۴ ص ۲۷۴)
”جو شخص مہربانی نہیں کرتا خدا کی رحمت و مہربانی اس کے شامل حال نہیں ہوتی۔“
مسلمانوں کے بچوں کے ساتھ بھی آپ مہربانی فرماتے تھے۔ ان کو اپنے زانو مبارک پر بٹھا کر ان کے سروں پر دست شفقت پھیرتے تھے کبھی کبھی مائیں اپنے چھوٹے بچوں کو حضرت کو دیتی تھیں کہ آنحضرت ان کے واسطے دعا فرمائیں۔ کبھی ایسا بھی اتفاق ہو جاتا تھا کہ وہ بچے آپ کے لباس پر پیشاب کر دیتے تھے اور اس وجہ سے مائیں پریشان اور شرمندہ ہو جایا کرتی تھیں کہ بچے کے پیشاب جاری رہنے کو روک دیں تو آنحضرت انہیں اس کام سے سختی کے ساتھ منع فرماتے کہ بچے کے پیشاب کو مت روکو اور جہاں تک میرے کپڑوں کے نجس ہونے کا تعلق ہے تو میں انہیں پاک کر لوں گا۔
 

صرف علی

محفلین
غلاموں کے ساتھ آپ کا سلوک
آنحضرت غلاموں پر حد سے زیادہ مہربان تھے۔ آپ لوگوں سے فرماتے تھے کہ یہ سب تمہارے بھائی ہیں۔ جو غذا تم کھاتے ہو وہی غذا انہیں بھی کھلاؤ اور جو کپڑا تم پہنتے ہو وہی کپڑا انہیں بھی پہناؤ طاقت فرسا اور مشکل کام کا بوجھ ان پر مت ڈالو۔ خود تم بھی کاموں میں ان کی مدد کیا کرو۔ حضرت فرماتے تھے ان کو غلام اور کنیز کہہ کر نہ پکارا کرو کیوں کہ ہم سب خدا کے مملوک اور بندے ہیں اور مالک حقیقی خدا ہے بلکہ انہیں لفظ فتیٰ (جوان مرد) یافتاہ (جوان عورت) کے لفظ سے پکارا کرو۔ اسلامی شریعت میں غلاموں اور کنیزوں کی آزادی کے لئے وہ تمام ممکنہ سہولتیں فراہم کی گئی ہیں جن کے نتیجے میں انہیں مکمل آزادی نصیب ہو آپ بردہ فروشی کو تمام پیشوں سے برا ترین پیشہ سمجھتے تھے اور فرماتے تھے کہ ”خدا کے نزدیک بدترین انسان آدمیوں کو بیچنے والے ہیں۔“(وسائل ج ۱۲ ص ۹۷)
صفائی پاکیزگی اور خوشبو
صفائی اور خوشبو سے آنحضرت کو بہت شغف تھا خود حضرت ہمیشہ اس کا لحاظ فرماتے تھے اور دوسروں کو بھی حکم دیتے تھے اور تاکید فرماتے تھے کہ وہ اپنے جسموں اور گھروں کو پاک و صاف اور خوشبودار رکھیں خصوصاً جمعہ کے دنوں میں انہیں غسل کرنے اور اپنے کو معطر و خوشبودار رکھنے کی ترغیب دیتے تھے تاکہ ان سے بدبو محسوس نہ ہو اور اس کے بعد لوگ نماز جمعہ کے لئے مسجد میں حاضر ہوں۔
ملاقات اور معاشرت
رسول اکرم لوگوں کے ساتھ معاشرت رکھنے اور ملنے جلنے میں بہت مہربان تھے۔ سلام کرنے میں سب پر یہاں تک کہ بچوں پر بھی سبقت فرماتے تھے۔ کسی کے سامنے اپنے پاؤں نہیں پھیلاتے تھے اور کسی کی موجودگی میں ٹیک لگا کر نہیں بیٹھتے تھے۔ زیادہ تر دو زانو بیٹھتے تھے۔ مجلسوں میں دائروں کی شکل میں نشست رکھتے تھے تاکہ مجلس میں بلند و پست جگہ کا وجود ہی نہ ہو اور تمام جگہوں کا درجہ برابر ہو اپنے احباب کے بارے میں دریافت فرماتے رہتے۔ اگر اپنے اصحاب میں سے کسی شخص کو تین روز تک نہ دیکھتے تو اس کے متعلق خاص طور سے معلومات حاصل فرماتے۔ اگر وہ مریض ہوتا تو اس کی عبادت کے لئے تشریف لے جاتے اور اگر وہ کسی پریشانی میں مبتلا ہوتا تو آپ اس کی مدد فرماتے مجالس و محافل میں صرف ایک شخص کی طرف نہیں دیکھتے تھے اور خاص طور سے کسی ایک شخص کو خطاب نہیں فرماتے تھے بلکہ اپنی مقدس نگاہوں کو پورے مجمع پر رکھتے تھے اور اس امر سے آپ۱ کو سخت نفرت تھی کہ خود آپ بیٹھے رہیں اور دوسرے خدمت کریں (جب کبھی ایسا موقع آتا تو) آپ اپنی جگہ سے فوراً اٹھتے اور دوسروں کے ساتھ کاموں میں شریک ہو جاتے۔ آپ فرماتے تھے کہ
”خداوند عالم کو یہ بات ناپسند ہے کہ وہ بندہ کو اس حالت میں پائے کہ وہ دوسروں کی نسبت اپنے لئے کسی امتیاز کا قائل ہو جائے۔“
(کحل البصر ص ۶۸)
مزاج میں نرمی بھی سختی بھی
آپ اپنے انفرادی اور شخصی مسائل میں اور ان امور میں جو خاص آپ۱ کی ذات اقدس سے مربوط و متعلق ہوتے تھے بے حد نرم مزاج ملائم اور درگذر کرنے والے تھے اور آپ کی اپنے مشن میں اتنی جلد کامیابی اور ترقی کے اسباب میں سے ایک یہی عظیم اور تاریخی (رحم دلی و نرم مزاجی کا) برتاؤ ہے۔
لیکن اصولی اور اجتماعی امور میں جہاں قانون کی حد شروع ہو جاتی وہاں آپ سختی سے پیش آتے اور پھر اس موقع پر درگذر کی کوئی گنجائش نہیں رہتی تھی۔ فتح مکہ اور قریش پر کامیابی حاصل ہو جانے کے بعد آپ نے قریش کی تمام عداوتوں اور ان کی تمام بدسلوکیوں کو جو انہوں نے پورے بیس سال کے عرصے میں حضرت کے خلاف روا رکھی تھیں ان سب سے آپ نے چشم پوشی فرمائی اور سب کو ایک ساتھ معاف کر دیا۔ اپنے پیارے چچا حضرت حمزہ کے قاتل کی توبہ قبول کر لی لیکن اسی فتح مکہ کے موقع پر چوری کے جرم میں ایک عورت پکڑی گئی اور اس کا جرم بھی ثابت ہو گیا اس عورت کا خاندان قریش کے شرفاء میں سے تھا اور وہ لوگ حد جاری ہونے کو اپنے لئے توہین سمجھے تھے چنانچہ ان لوگوں نے رسول خدا کی خدمت میں بہت دوڑ دھوپ کی اور بہت کوششیں کیں کہ اس عورت پر حد نہ جاری کی جائے اور حضرت اس سے صرف نظر اور درگذر فرمائیں۔ بعض بزرگ صحابہ کو بھی سفارش کے لئے لائے اور ان لوگوں نے سفارش بھی کی لیکن رسول خدا کا رنگ غصے کی وجہ سے سرخ ہو گیا اور آپ نے فرمایا:
”کیا یہ سفارش کا موقع ہے؟ کیا چند افراد کی خاطر خدائی قانون کو معطل کیا جا سکتا ہے؟“
اسی روز آپ نے عصر کے وقت اصحاب کے مجمع میں خطبہ ارشاد فرمایا جس میں کہا:
”پہلی قومیں اور ملتیں اس وجہ سے تباہ ہو گئیں کہ انہوں نے خدا کے قوانین نافذ کرنے میں امتیازی سلوک سے کام لیا تھا۔ جب کبھی طاقت وروں اور مال داروں میں سے کوئی شخص جرم کا مرتکب ہوتا تو اسے معاف کر دیتے تھے اور اگر کوئی ضعیف الحال اور کمزور طبقے کا شخص مرتکب جرم ہوتا تو اسے سزا دیتے تھے۔ اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے عدل و انصاف کے نافذ کرنے میں کسی کے بارے میں سستی و کاہلی اور کوتاہی نہیں کروں گا خواہ شخص خود میرے نزدیک ترین رشتہ داروں میں سے کیوں نہ ہو۔“
(صحیح مسلم ج ۵ ص ۱۱۴)
عبادت
رات کے کچھ حصہ میں کبھی نصف شب کبھی ایک تہائی اور کبھی دو تہائی رات آپ عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ اگرچہ آپ کا پورا دن خصوصاً مدینہ میں قیام کے زمانے میں تبلیغی جدوجہد اور دوسرے دینی کاموں میں گزر جاتا تھا پھر بھی آپ کے عبادت کے وقت میں کوئی کمی نہیں ہوتی تھی آپ اپنا کامل آرام و سکون عبادت الٰہی اور اپنے پروردگار کے ساتھ راز و نیاز میں پاتے تھے۔ آپ کی عبادت بہشت کے طمع یا جہنم کے خوف کی بناء پر نہیں ہوتی تھی بلکہ آپ کی عبادت عاشقانہ اور شکر گذاروں جیسی ہوتی تھی۔ ایک روز آپ کی ازدواج میں سے کسی ایک نے کہا کہ آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں۔ آپ تو بخشے ہوئے ہیں آپ نے جواب دیا کہ ”کیا میں ایک شکرگذار بندہ نہیں ہوں؟“، آپ روزے بھی بہت رکھتے تھے ماہ شعبان اور رمضان کے علاوہ ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھتے تھے اور ماہ رمضان کے آخری عشرہ میں بالکل آرام چھوڑ دیتے اور مسجد میں اعتکاف کے لئے بیٹھ جاتے اور عبادت میں مشغول رہتے تھے لیکن دوسروں سے فرماتے تھے کہ تمہارے لئے یہی کافی ہے کہ تم ہر مہینے میں تین دن روزے رکھ لیا کرو فرماتے تھے: اپنی قوت و طاقت کے مطابق عبادت کیا کرو۔ اپنی استعداد سے زیادہ بوجھ اپنے اوپر مت لا دو ورنہ اس کا نتیجہ برعکس ہو گا آپ رہبانیت گوشہ نشینی اور خلوت میں بیٹھ جانے اور اہل و عیال کو ترک کر دینے کے مخالف تھے۔ اصحاب میں بعض نے اسی کام کا مصمم ارادہ کر لیا تھا تو وہ ملامت و سرزنش کے مستحق قرار پائے۔ آپ فرماتے تھے تمہارا بدن تمہارا اہل و عیال تمہارے دوست و احباب سب کے حقوق تمہارے اوپر واجب ہیں تمہیں ان حقوق کا لحاظ رکھنا چاہئے۔
تنہائی کی حالت میں عبادت کو طول دیتے تھے کبھی کبھی تہجد کی حالت میں گھنٹوں مشغول رہتے تھے لیکن جماعت میں اختصار کی کوشش فرماتے مامومین میں سے کمزور شخص کا لحاظ ضروری سمجھتے تھے اور اس کی وصیت فرماتے تھے۔
زہد اور سادہ زندگی
زہد اور سادہ زندگی آپ کا اصول تھا سادہ غذا نوش فرماتے سادہ لباس زیب تن فرماتے سادہ روش رکھتے آپ کا فرش اکثر چٹائی ہوتی زمین پر بیٹھ جاتے آپ بذات خود بکری کا دودھ دوہ لیا کرتے زین و پالان کے بغیر بھی سواری پر سوار ہوتے تھے اور اس امر سے سختی کے ساتھ منع فرماتے کہ کوئی آپ کی سواری کے ساتھ پیادہ چلے۔ آپ کی غذا اکثر جو کی روٹی اور خرما ہوا کرتی۔ آپ اپنے لباس اور نعلین پر خود ہی اپنے ہاتھ سے پیوند لگا لیتے تھے اس سادگی کے باوجود فلسفہ فقر (محتاجگی) کے طرف دار نہیں تھے مال و دولت کو معاشرے کی ترقی اور جائز کاموں میں خرچ کرنے کو لازم سمجھتے تھے آپ فرماتے تھے:
نعم المال الصالح للرجل الصالح(حجتہ البیضا ج ۶ ص ۴۴)
”کتنی اچھی ہے وہ دولت جو جائز طریقوں سے حاصل ہو اس آدمی کے لئے جو اس دولت کو رکھنے کے لائق ہو اور یہ جانتا ہو کہ اسے کیسے خرچ کرے۔“
نیز حضرت فرماتے تھے:
نعم العون علی تقوی اللہ الغنیٰ(وسائل ج ۱۲ ص ۱۶)
”مال و دولت تقویٰ کے لئے اچھی مدد ہے۔“
ارادہ اور پامردی
آپ ۱کا ارادہ عزم مصمم اور آپ ۱کی استقامت و پامردی بے نظیر تھی اور یہ چیز آپ کے اصحاب میں بھی سرایت کر گئی تھی آپ۱ کا ۲۳ سالہ دور بعثت و رسالت مکمل عزم و استقامت کا درس ہے آپ اپنی مقدس حیات کی تاریخ میں بارہا ایسے سخت حالات سے دوچار ہوئے کہ تمام امیدیں ہر طرف سے منقطع ہو چکی تھیں لیکن آپ نے ایک لحظہ کے لئے بھی ہمت ہارنے کا تصور بھی ذہن میں نہیں آنے دیا۔ آپ۱ کا ایمان کامل و محکم ایک لمحہ کے لئے بھی نصرت و توفیق الٰہی کی نااُمیدی سے متزلزل نہیں ہوا۔
قیادت
اگرچہ آپ ۱کا حکم اصحاب کے درمیان فوری طور پر نافذالعمل ہوتا تھا اور وہ لوگ بار بار کہتے تھے کہ جب ہم آپ پر پختہ اور یقینی ایمان رکھتے ہیں تو اگر آپ۱ ہمیں حکم دیں کہ ہم سمندر میں ڈوب جائیں یا اپنے آپ ۱کو آگ میں جلا دیں تو ہم ایسا ہی کریں گے پھر بھی آپ کا طریقہ کار اور آپ کی روش حاکمانہ نہیں تھی۔ جن کاموں میں خدا کی طرف سے کوئی حکم نہیں پہنچا تھا ان کے بارے میں اپنے اصحاب سے مشورہ کرتے تھے اور ان کے خیالات و افکار کا لحاظ فرماتے تھے اور اس طریقے سے ان کی شخصیتوں کو ابھارتے تھے۔ جنگ بدر کے موقع پر جنگ کے لئے اقدام کا مسئلہ اسی طرح لشکرگاہ کے تعین کا مسئلہ جنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک و برتاؤ کا مسئلہ۔ ان سب مسائل کو آپ نے باہمی مشاورت پر چھوڑ دیا۔ احد میں بھی اس مسئلے کے متعلق کہ لشکرگاہ شہر مدینہ ہی کو بنایا جائے یا اس کے لئے شہر سے باہر کوئی جگہ منتخب کی جائے یہ مسئلہ بھی مشاورت سے ہی طے ہوا جنگ احزاب اور جنگ تبوک میں بھی اصحاب سے مشورہ کیا۔
پیغمبر اکرم کی نرمی و مہربانی عفو و درگذر اپنے اصحاب کے واسطے طلب و مغفرت اور امت کے گناہوں کی بخشش کے لئے آپ۱ کی بے چینی و بے تابی اسی طرح اپنے اصحاب کو سمجھنا اور انہیں وقعت و اہمیت دینا ان کو شیر قرار دینا اور شخصیت عطا فرمانا یہ سب چیزیں اپنے اصحاب کے درمیان آپ ۱کی عظیم و بے نظیر تاثیر کے اسباب میں سے تھیں۔ قرآن کریم ایک مقام پر اس مطلب کی طرف اشارہ کرتا ہے:
فبما رحمة من اللہ لنت لھم ولو کنت فظا غلیظ القلب لانفضو امن حولک فاعف عنھم و استغفرلھم و شاورھم فی الامر واذاعزمت فتوکل علی اللہ
(سورئہ آل عمران آیت ۱۵۹)
”اے حبیب! اس شفقت کی وجہ سے جو خدا نے آپ کے دل میں پیدا کی ہے آپ اپنے اصحاب کے ساتھ نرمی کا برتاؤ رکھتے ہیں اگر آپ سخت مزاج اور تندخو ہوتے تو یہ لوگ آپ سے دور ہی رہتے اور منتشر ہو جاتے پس آپ ان کے ساتھ عفو و درگذر ہی سے کام لیں اور ان کے لئے طلب مغفرت کرتے رہیں اور اپنے کاموں میں ان سے مشورہ کر لیا کریں اور جب کسی کام کا پختہ عزم و ارادہ کر لیں تو پھر بس خدا پر بھروسہ کریں۔“
نظم و ضبط
نظم و ضبط اور باقاعدگی آپ کے تمام کاموں پر حاوی اور حاکم تھی آپ اپنے اوقات کو کاموں کے لحاظ سے تقسیم فرما دیا کرتے تھے ہر کام کے لئے ایک معین وقت اور ہر وقت کے لئے ایک کام اور اسی عمل کی لوگوں کو وصیت بھی فرمایا کرتے۔ آپ کے اصحاب بھی آپ سے متاثر ہو کر نظم وضبط کا خاص خیال رکھتے تھے بہت سے منصوبوں کو جنہیں ضروری و اہم سمجھتے تھے کہ وہ ظاہر نہ ہوں تو انہیں ہرگز ظاہر نہیں فرماتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن اس سے آگاہ ہو جائے۔ آپ کے اصحاب آپ کے منصوبوں پر بے چون و چرا عمل کرتے تھے مثلاً آپ حکم دیتے کہ تیار ہو جاؤ کل ہم چلیں گے تو سب کے سب جس طرف آپ جانے کا حکم دیتے روانہ ہو جاتے تھے اور یہ معلوم نہیں کرتے تھے کہ کہاں جانا ہے اور کس غرض سے جانا ہے؟ سفر کے آخری لمحات اور منزلوں میں انہیں معلوم ہوتا کہ آخری منزل کون سی ہے اور مقصد کیا ہے؟ کبھی چند افراد کو کوچ کا حکم دیتے اور اس گروہ کے سردار کو ایک مہربند خط عنایت فرماتے اور حکم دیتے کہ جب تم اتنے دن کے بعد فلاں منزل و مقام پر پہنچنا تو خط کو کھولنا اور اس کے مطابق حکم کو نافذ کرنا۔
وہ لوگ ایسا ہی کرتے تھے اور اس معینہ منزل و مقام پر پہنچنے سے پہلے انہیں کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ان کی آخری منزل کہاں ہے اور وہ کس ذمہ داری کی انجام دہی کے لئے جا رہے ہیں اس حکمت عملی سے دشمن کے جاسوس آخری وقت تک بے خبری میں رہتے اور کبھی کبھی غفلت کی حالت میں انہیں گرفتار کر لیا جاتا تھا۔
تنقید سننے کی طاقت اور مداحی و چاپلوسی سے نفرت
کبھی کبھی رسول اکرم اپنے بعض اصحاب کے اعتراضات کا بھی سامنا کرتے تھے لیکن آپ اظہار ناراضگی اور برہمی کے بغیر ان کی رائے کو اپنے منصوبے کے ساتھ ملا کر انہیں اپنا ہم خیال بنا لیا کرتے تھے آپ خوشامد تعریف اور چاپلوسی سے بے راز تھے اور فرماتے تھے:
”خوشامدی اور چاپلوسوں کے منہ پر خاک ڈالو۔“
(بحارالانوار ج ۷۳ ص ۲۹۴)
ہر کام میں احتیاط کرنے اور کاموں میں استحکام و پائیداری کا خیال رکھنے کو پسند فرماتے تھے آپ کی خواہش ہوتی تھی کہ جو کام بھی انجام پائے وہ محکم و مضبوط ہو یہاں تک کہ جب آپ کے مخلص صحابی سعد بن معاذ۱ کا انتقال ہوا اور لوگوں نے ان کو قبر میں رکھا تو آپ نے اپنے دست مبارک سے قبر کی اینٹوں اور پتھروں کو مضبوطی سے لگایا اور اس وقت فرمایا:
”میں جانتا ہوں کہ زیادہ زمانہ نہیں گزرے گا کہ یہ خراب اور بوسیدہ ہو جائیں گی لیکن خداوند عالم اس بات کو دوست رکھتا اور پسند کرتا ہے کہ بندہ جو کام بھی انجام دے اسے مضبوطی کے ساتھ انجام دے۔“(بحارالانوار ج ۲۲ ص ۱۰۷)
لوگوں کی کمزوری و ناواقفیت سے غلط فائدہ نہ اٹھانا
آپ لوگوں کے ضعف و کمزوری کے موقعوں اور ان کی نادانیوں سے ہرگز کوئی استفادہ نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے برعکس ان کے خلاف آواز اٹھاتے تھے اور لوگوں کو ان کی لاعلمی اور ناواقفیت سے آگاہ کرتے تھے۔ جس روز آپ کے ۱۵ مہینے کے فرزند جناب ابراہیم کا انتقال ہوا اسی دن اتفاق سے سورج کو گرہن لگا لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ اس گروہ کا سبب وہ مصیبت ہے جو رسول اکرم پر پڑی ہے۔ لوگوں کے اس جاہلانہ خیال کے ردعمل میں آپ خاموش نہیں رہے بلکہ آپ منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا:
ایھا الناس
”اے لوگو! چاند اور سورج خدا کی نشآنیوں میں سے دو نشانیاں ہیں یہ کسی کے مرنے سے غمناک نہیں ہوتیں۔“
رسول اکرم کی شخصیت قیادت و رہبری کی شرائط کی بہترین مصداق
قیادت و رہبری کی شرائط کو ان الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے تشخیص و تمیز کی حس دلیری اور ہوشیاری کامل یقین پیش قدمی کرنا محتمل و ممکن عواقب سے بے خوف رہنا مستقبل بینی اور دوراندیشی تنقید برداشت کرنے کی قوت افراد شناسی افراد کی قوتوں کا اندازہ کرنا اور ان کے مطابق انہیں اختیارات سونپنا۔ نجی اور انفرادی امور میں نرمی اصولی مسائل میں سختی اپنے پیروکاروں کی شخصیت کو اجاگر کرنا اور ان کی طرف برابر متوجہ رہنا ان کی عقلی جذباتی اور عملی صلاحیتوں کی تربیت کرنا اور انہیں ابھارنا استبداد و حاکمیت اور اندھی تقلید کے میلان و رجحان سے پرہیز تواضح و انکساری سادگی و درویشی وقار و متانت و سنجیدگی تنظیم اور نظام کو دوست رکھنا تاکہ انسانی قوتوں کو استعمال میں لایا جا سکے اور انہیں منظم کیا جا سکے۔ یہ تمام شرائط و صفات رسول اکرم کی ذات اقدس میں کمال کی حد تک اور مکمل طور پر موجود تھیں۔
آنحضرت فرماتے تھے:
”اگر تم تین آدمی ایک ساتھ سفر کرتے ہو تو اپنے میں ایک آدمی کو رئیس و حاکم منتخب کر لیا کرو۔“
آپ نے مدینہ کے اندر خود اپنے معاشرے میں خاص شعبے قائم کئے تھے مثلاً منشیوں کی تربیت فرمائی تھی ہر گروہ کو الگ الگ ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ چند کاتبان وحی کی حیثیت سے تھے جو قرآن کو لکھ لیا کرتے تھے۔ ایک گروہ خصوصی خط و کتابت کے لئے مخصوص تھا۔ کچھ لوگوں کے معاہدوں اور معاملات کو لکھا کرتے تھے۔ ایک جماعت صدقات و ٹیکسوں کا حساب کتاب لکھتی تھی کچھ لوگ عہد ناموں اور اقرار ناموں کے ذمہ دار تھے: ”تاریخ یعقوبی“، ”التنبیہ والاشراف“ مسعودی ”معجم البلدان“ بلازری اور ”طبقات“ ابن سعد وغیرہ جیسی تاریخ کی کتابوں میں یہ ساری باتیں موجود ہیں۔
تبلیغ کا طریقہ کار
اسلام کی تبلیغ کے سلسلے میں آپ آسانی اور نرمی کا راستہ اختیار کرنے والے تھے نہ کہ سخت گیر خوف دلانے والے۔ آپ ڈرانے دھمکانے کی بجائے زیادہ تر بشارت و خوشخبری کے ذریعے دعوت دیتے تھے۔ اپنے اصحاب میں سے ایک شخص کو تبلیغ اسلام کی غرض سے یمن بھیجا تو انہیں حکم دیا کہ
یسرو لا تعسرو بشرولا تنفر
(دلائل النبوہ ج ۵ ص ۴۰۱)
”یعنی آسانی اور نرمی کا راستہ اختیار کرو سختی کا نہیں اور لوگوں کو خوشخبری دو اور ان کی خواہش و رغبت و شوق کو ابھارو انہیں متنفر نہ کرو۔“
خود آپ ۱تبلیغ کے کام میں اکثر مشغول رہتے چنانچہ طائف کا سفر کیا حج کے زمانے میں (باہر سے آئے ہوئے) قبائل کے درمیان تشریف لے جاتے اور تبلیغ فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت علی کو اور پھر دوبارہ معاذ بن جبل ۱کو لوگوں کی تبلیغ کے واسطے یمن بھیجا مدینہ ہجرت فرمانے سے پہلے مصعب بن عمیر کو مدینہ والوں میں تبلیغ کرنے کے لئے بھیجا۔ اپنے بہت سے اصحاب کو حبشہ بھیجا جنہوں نے مکہ والوں کے ظلم و ستم اور ان کی ایذا رسانیوں سے نجات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حبشہ میں دین کی تبلیغ بھی کی اور حبشہ کے بادشاہ نجاشی سمیت وہاں کی تقریباً آدھی آبادی کے لئے اسلام لانے کا موقع فراہم کیا۔ چھٹی ہجری میں دنیا کے بادشاہوں کو خطوط روانہ فرمائے جن میں انہیں اپنی نبوت و رسالت کی خبر دی ان میں سے تقریباً ایک سو خطوط کی نقلیں ابھی بھی موجود ہیں جو آپ نے مختلف اشخاص کو تحریر فرمائے تھے۔
علم کی تشویق و ترغیب
آپ لوگوں کو تحصیل علم کا شوق دلاتے تھے آپ نے اپنے اصحاب کے بچوں کو آمادہ کیا کہ وہ علم حاصل کریں۔ اپنے کئی اصحاب کو حکم دیا کہ وہ سریانی زبان سیکھیں۔
آپ فرماتے تھے کہ
”علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض اور واجب ہے۔“
(بحارالانوار ج ۱ ص ۱۷۷)
ایک اور مقام پر آپ فرماتے ہیں:
”حکمت کو جہاں اور جس شخص کے پاس پاؤ اگروہ مشرک اور منافق ہی کیوں نہ ہو اس کو حاصل کرو۔“(بحارالانوار ج ۲ ص ۹۹)
نیز آپ فرمایا کرتے تھے:
”علم کو تلاش کرو اگرچہ تم کو اس کے لئے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔“(بحارالانوار ج ۱ ص ۱۷۷)
طلب و تحصیل علم کے لئے آنحصرت کی یہ تاکید و ترغیب اس بات کا باعث بنی کہ مسلمان ہمت و حوصلے اور بے مثال تیزی کے ساتھ پوری دنیا میں علم کی جستجو اور اس کی تحصیل میں مشغول ہو گئے۔ جہاں جہاں علمی آثار پائے انہیں حاصل کیا۔ ان کے ترجمے کئے اور خود تحقیق میں مصروف ہو گئے اور اس طریقے سے یونانی رومی ایرانی مصری اور ہندی جیسے قدیم تمدنوں اور جدید یورپی تمدنوں کے درمیان باہمی رابطے کا حلقہ بننے کے ساتھ ساتھ خود تاریخ بشریت میں شاندار اور باوقار تمدن کی بنیاد رکھ دی جس کو ”اسلامی تمدن و ثقافت“ کے نام سے پہچانا گیا اور اب بھی پہچانا جاتا ہے۔ آپ ۱کا اخلاق اور آپ کے خصائل آپ کے کلام اور آپ کے دین کی مانند جامعیت اور ہمہ گیر حیثیت کے حامل تھے۔ تاریخ آپ کی مانند کسی ایسی شخصیت کو پیش کرنے سے قاصر رہی ہے اور نہ ہرگز کسی ایسی شخصیت کو پیش کر سکتی ہے کہ جو تمام انسانی پہلوؤں کے اعتبار سے حد کمال کو پہنچی ہو آنحضرت واقعاً انسان کامل تھے۔
 
Top