مکمل وحشی (افسانہ) ۔ احمد ندیم قاسمی

فرخ منظور

لائبریرین
وحشی (افسانہ)
(تحریر: احمد ندیم قاسمی)

’’آ گئی۔‘‘ ہجوم میں سے کوئی بولا اور سب لوگ یوں دو دو قدم آگے بڑھ گئے جیسے دو دو قدم پیچھے کھڑے رہتے تو کسی غار میں گر جاتے۔
’’کتنے نمبر والی ہے؟‘‘ ہجوم کے پیچھے سے ایک بڑھیا نے پوچھا۔
’’پانچ نمبر ہے۔‘‘ بڑھیا کے عقب سے ایک پنواڑی بولا۔
بڑھیا ہڑبڑا کر ہجوم کو چیرتی ہوئی آگے بڑھنے لگی کہ سب لوگ بس کے بجائے اسے دیکھنے لگے۔
’’عجیب وحشی عورت ہے۔‘‘ ایک شخص نے اپنی ٹھوڑی سہلاتے ہوئے کہا۔ ’’لے کے جبڑا توڑ ڈالا۔‘‘
’’ابے پاگل ہوئی ہے کیا؟‘‘ ایک اور نے فریاد کی۔

اتنے میں بس آ گئی۔ کنڈکٹر نے کھڑاک سے دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔ ’’پہلے عورتیں۔‘‘
ہجوم کے وسط میں پہنچی ہوئی بڑھیا رک گئی۔ ہجوم نے بڑی ناگواری سے دو حصوں میں بٹ کر اسے راستہ دے دیا۔
بڑھیا نے سر پر سے چادر اٹھا بالوں پر ہاتھ پھیرا۔ پھر چادر کے ایک پلّو کو مٹھی میں پکڑ لیا اور دو رویہ ہجوم پر فاتحانہ نظر ڈال کر کنڈکٹر سے کہنے لگی ’’تیری ماں نے تجھے بسم اللہ پڑھ کر جنا ہے لڑکے۔‘‘

’’چل آ بھی مائی۔‘‘ کنڈکٹر نے شرما کر کہا۔
’’رستہ تو میں ویسے بھی بنا لیتی۔ آدھا تو بنا بھی لیا تھا پر تُو نے جو بات کہی وہ ہزار روپے کی ہے۔‘‘ بڑھیا نے بس کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی وہ دوسری کو ہاتھ سے جکڑ کر یوں بیٹھ گئی جیسے بہت بلندی پر پہنچ کے چکرا گئی ہو۔ کنڈکٹر نے اسے تھام لیا۔ ہاتھ پکڑ کے اٹھایا اور دروازے کے سامنے ہی ایک نشست پر بٹھا دیا۔ پھر سب لوگ بس میں بھر دیے گئے، اس ریلے میں کنڈکٹر بس کے پرلے سرے پر پہنچ گیا۔

بڑھیا نے ذرا سا اٹھ کر، نشست کو ہاتھ سے ایک دو بار دبایا اور آہستہ سے بولی۔ ’’بڑی نرم ہے۔‘‘ بس چلی تو اس نے دائیں طرف دیکھا۔ ایک گوری چٹی عورت، دودھیا رنگ کی صاف ستھری ساڑھی پہنے، سنہرے فریم کی عینک لگائے، سفید چمڑے کا پرس ہاتھ میں لیے بیٹھی کھڑکی سے باہر دیکھے جا رہی تھی۔
بڑھیا نے بھی گردن کو ذرا سا کھینچ کر باہر دیکھا۔ ہر چیز پیچھے کی طرف بھاگی جا رہی تھی۔ وہ آنکھیں مل کر سامنے دیکھنے لگی، پل بھر بعد اس نے گوری چٹی عورت کی

طرف دوبارہ دیکھا۔ پھر اپنی انگشتِ شہادت اس کے گھٹنے پر بجا دی۔ عورت نے بھویں سکیڑ کر بڑھیا کی طرف دیکھا تو وہ بولی ’’چکر آ جائے گا، باہر مت دیکھو۔‘‘
گوری چٹی عورت مسکرائی اور بولی ’’مجھے چکر نہیں آتا۔‘‘
’’مجھے تو آ گیا تھا۔‘‘بڑھیا بولی۔

’’تمھیں آ گیا تھا تو باہر مت دیکھو، مجھے نہیں آتا، اس لیے میں تو دیکھوں گی۔‘‘عورت نے کہا۔
بڑھیا نے پوچھا ’’کیا تم باہر نہیں دیکھو گی تو تمھیں چکر آ جائے گا؟‘‘
عورت کی مسکراہٹ یکایک غائب ہو گئی اور وہ باہر دیکھنے لگی۔

بڑھیا کو اگلی سیٹ پر ایک عورت کا صرف سر نظر آرہا تھا۔ اس نے بالوںمیں زرد رنگ کا ایک پھول سجا رکھا تھا۔ بڑھیا نے ذرا سا آگے جھک کر پھول کو غور سے دیکھا۔ پھر انگلی سے اپنی ہمسائی کا گھٹنا بجا کر بڑی رازداری سے بولی ’’یہ پھول اصلی ہے کہ نقلی؟‘‘
’’نقلی ہے!‘‘ عورت بولی۔

’’نقلی ہے تو سونے کا ہو گا۔‘‘ بڑھیا نے رائے ظاہر کی۔
’’رنگ تو سونے جیسا ہے ‘‘عورت نے کہا۔
’’مجھے تو اصلی لگتا ہے۔ کسی جھاڑی سے اتارا ہے۔‘‘ بڑھیا بولی۔
’’تو پھراصلی ہو گا۔‘‘ عورت نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔

بڑھیا نے ذرا سا حیران ہو کر گوری چٹی عورت کی طرف دیکھا اور پھر انگلی سے اس کا گھٹنا بجا دیا۔
’’کیا ہے؟‘‘ عورت نے بھویں سکیڑ کر پوچھا۔
بڑھیا بولی ’’عجیب بات ہے۔ باہر تم دیکھتی ہو اور چکر مجھے آجاتا ہے۔ ‘‘
عورت ذرا سی مسکرائی۔
’’سنو!‘‘ بڑھیا نے کہا۔

’’کیا ہے؟‘‘عورت نے پھر سے بھویں سکیڑ لیں۔
’’لیڈی ہو؟‘‘ بڑھیا نے سوال کیا۔
’’کیا؟‘‘ عورت نے جیسے برا مان کر پوچھا۔
’’ہسپتال کی لیڈی ہو؟‘‘ بڑھیا نے وضاحت کی۔
’’نہیں!‘‘ عورت بولی۔
’’تو پھر کیا ہو؟‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’کیا کرتی ہو؟‘‘
’’کچھ نہیں کرتی۔‘‘

’’کچھ تو ضرور کرتی ہو۔‘‘ بڑھیا نے دائیں بائیں سر ہلا کر کہا۔
’’ٹکٹ لے لو مائی۔‘‘ بڑھیا کو سر کے اوپر سے کنڈکٹر کی آواز سنائی دی۔
’’دے دو۔‘‘ بڑھیا نے چادر کا پلّو مٹھی سے آزاد کر دیا۔
’’کہاں جائو گی؟‘‘ کنڈکٹر نے پوچھا۔
’’گھر جائوں گی بیٹا۔‘‘ بڑھیا بڑے پیار سے بولی۔

کنڈکٹر زور سے ہنسا۔ گوری چٹی عورت بھی بڑھیا کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگی۔کنڈکٹر نے جیسے تمام مسافروں کومخاطب کر کے کہا۔ ’’میں نے مائی سے پوچھا کہاں جائو گی؟ بولی، گھر جائوں گی۔‘‘

اب کے مسافروں نے بھی کنڈکٹر کے قہقہے کا ساتھ دیا۔
کنڈکٹر بہت محظوظ ہوا تھا۔ اس لیے بڑھیا کو بڑی نرمی سے سمجھاتے ہوئے بولا ’’گھر تو سب لوگ جائیں گے مائی۔ یہ بتائو، میں کہاں کا ٹکٹ کاٹوں؟‘‘
’’والٹن کا۔‘‘ وہ بولی۔ ’’میرا گھر والٹن کے پار ایک گائوں میں ہے۔‘‘
مسکراتے ہوئے کنڈکٹر نے ٹکٹ کاٹ کر بڑھیا کو دیا اور بولا ’’ساڑھے پانچ آنے دے دو۔‘‘

’’ساڑھے پانچ آنے؟‘‘ بڑھیا نے چادر کے پلّو کی گرہ کھولتے ہوئے پوچھا۔ ’’ساڑھے پانچ آنے کیسے؟ غوثا کہہ رہا تھا صرف چار آنے لگتے ہیں۔ اس نے تو مجھے صرف یہ گول مول چونّی ہی دی ہے۔‘‘ اس نے چونّی دو انگلیوں کی پوروں میں تھام کر کنڈکٹر کی طرف بڑھا دی۔
کنڈکٹر بولا ’’نہیں مائی۔ چار آنے نہیں، ساڑھے پانچ آنے لگتے ہیں۔‘‘

بڑھیا کی آواز تیز ہو گئی۔ ’’ساری دنیا کے چار آنے لگتے ہیں، میرے ساڑھے پانچ آنے لگ گئے؟ کیوں؟ ہڈیوں کا تو ڈھیر ہوں۔ میرا بوجھ ہی کیا، لے یہ چار آنے۔‘‘
’’عجیب مصیبت ہے۔‘‘ کنڈکٹر کے تیور بدل گئے اور وہ مسافروں کو سامعین بنا کر تقریر کرنے لگا۔ ’’میں تو کہتا ہوں کہ سرکار کو قانون پاس کرنا چاہیے کہ جو پرائمری پاس نہ ہو، بس میں سفر نہیں کرے۔ اب اس مائی کو دیکھیے، میو ہسپتال کے اسٹینڈ سے بس میں بیٹھی ہے۔ والٹن جا رہی ہے، کہتی ہے والٹن جائوں گی اور ساڑھے پانچ آنے بھی نہیں دوں گی۔ اس لیے کہ کسی نے اسے چار آنے ہی دیے ہیں۔‘‘
بڑھیا بچے کی طرح بولی ’’کسی نے کیوں؟ اپنے غوثے نے دیے ہیں۔‘

کنڈکٹر نے سلسلۂ تقریر جاری رکھتے اور اب کے مسکراتے ہوئے کہا ’’اس لیے کہ غوشے نے اسے صرف چار آنے دیے ہیں۔ اب اسے کون سمجھائے کہ بس سرکار کی ہے غوثے کی نہیں، غوثے کی ہوتی تو وہ تم سے چار ہی آنے لیتا۔‘‘

’’کیوں، وہ کیوں لیتا چار آنے؟‘‘ بڑھیا بولی ’’وہ تو میرا بھتیجا لگتا ہے۔ کمائو ہے، روز اپنے ریڑھے پر دودھ لاتا ہے۔ آج میں اسی کے ریڑھے پر توآئی تھی۔ چار آنے چھوڑ چار پیسے بھی نہیں مانگے۔ اس کی مجال تھی جو مانگتا؟ گود میں کھلایا ہے۔ اس کی سالی یہاں ہسپتال میں بیمار پڑی ہے ۔ میں نے کہا چلو، اسے دیکھ لوں۔ اسی ریڑھے پر واپس آ جائوں گی۔ مگر آج لڑکی کی حالت اچھی نہیں، اس لیے غوثا وہیں رہ گیا اور مجھے یہ چوّنی دے کر کہا ہے کہ گھر چلی جائوں۔ اب تم ساڑھے پانچ آنے مانگ رہے ہو۔ یوں کرو مجھے کسی چار آنے والی جگہ پر بٹھا دو۔ میں کسان عورت ہوں، نیچے بھی بیٹھ جائوں گی۔ تم کہیں اس نرم نرم گدّے کے تو ساڑھے پانچ آنے نہیں مانگ رہے؟‘‘
’’نہیں مائی۔‘‘ کنڈکٹر نے تنگ آ کر کہا۔ ’’سب سواریوں کے نیچے ایسے ہی گدّے ہیں۔‘‘
بڑھیا نے حیران ہو کر پوچھا ’’تو پھر میں کیا کروں؟‘‘

ڈیڑھ آنہ اور نکالو۔‘‘ کنڈکٹر بولا۔
’’کہاں سے نکالوں؟‘‘ وہ بولی۔ ’’بتا جو رہی ہوں کہ گھر سے خالی ہاتھآئی تھی۔ یہ چوّنی بھی غوثے نے دی ہے۔ کل اسے لوٹا دوں گی۔‘‘
کنڈکٹر صاف طور سے اپنا غصہ ضبط کر رہا تھا۔ بولا ’’مجھے تو آج ہی چاہیے مائی، میں ٹکٹ کاٹ چکا ہوں۔ جلدی کرو۔ بہت سے اسٹینڈ گزر چکے ہیں، کئی سواریاں جمع ہو گئی ہیں۔ سب کے ٹکٹ کاٹنے ہیں۔ کوئی چیکر آ گیا تو جان آفت میں کر دے گا۔ بھئی لوگو! خدا کے لیے اس مائی کو سمجھائو۔ جانا والٹن ہے اور کرایہ ماڈل ٹائون کا بھی نہیں دے رہی۔ پھر کہتی ہے، چوّنی سے زیادہ ایک کوڑی بھی نہیں ہے۔‘‘

بڑھیا کی اگلی نشست پر بالوں میں پھول سجا کر بیٹھی ہوئی عورت نے پلٹ کر کہا۔ ’’ایسیوں کی تلاشی لینی چاہیے۔ اس کی جیبیں اکنیّوں دونیوّں سے بھری ہوتی ہیں۔‘‘
بڑھیا اس کے سر کے اوپر چیخ اٹھی۔ ’’کیا تو میرے بیٹے کی گھر والی ہے کہ تجھے میری جیبوں کا حال بھی معلوم ہے۔ سر میں کوڑی کا پھول لگا لینے سے بھیجے میں عقل نہیں بھر جاتی بی بی رانی۔‘‘

پھول والی عورت دانت کچکچا کر رہ گئی۔
گوری چٹی عورت نے بڑھیا کا بازو پکڑ کر اسے سیٹ کی طرف کھینچا اور وہ بیٹھ گئی۔
’’عجیب وحشی عورت ہے۔‘‘ کسی کی آواز آئی۔

’’یہ کون بولا؟‘‘ بڑھیا نے پلٹ کر بس کے آخری سرے تک نظریں دوڑائیں۔ ذرا ایک بارپھر بولے کہ میں اس کی زبان یوں لمبی لمبی کھینچ کر کھڑکی سے باہر پھینک دوں۔‘‘
گوری چٹی عورت کو جھُرجھُری سی آ گئی۔ وہ یوں سمٹ گئی جیسے بڑھیا نے سچ مچ لٹکتی اور خون ٹپکاتی ہوئی زبان اس کے اوپر سے گزار کھڑکی سے باہر اچھال دی ہے۔
’’دیکھ مائی۔‘‘ کنڈکٹر جواس دوران میںدوسرے مسافروں کے ٹکٹ کاٹنے لگا تھا، اس کے قریب آ کر سختی سے بولا۔ ’’ساڑھے پانچ آنے دے گی یا نہیں؟‘‘
’’تُو تو تھانیداروں کی طرح بولنے لگا لڑکے۔ کہہ جو رہی ہوں کہ چوّنی یہ رہی، باقی رہے چھے پیسے تو وہ میں تجھے پہنچا دوں گی۔ کل والٹن میں آ کر بیٹھ جائوں گی، اور تو آئے گا، تو تیرے ہاتھ پر رکھ دوں گی۔ کھرے کر لینا۔‘‘
’’لو اور سنو۔‘‘ کنڈکٹر نے سب مسافروں سے فریاد کی۔

پھر یکایک اس کے تنے ہوئے تیور ڈھیلے پڑنے لگے۔ وہ ایک سفید پوش بزرگ کے پاس جا کر جھک گیا۔
بڑھیا نے انگلی سے گوری چٹی عورت کا گھٹنا بجایا۔ جب عورت نے اس کی طرف دیکھا تو بڑھیا بولی۔ ’’دیکھ رہی ہو؟‘‘
عورت نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ ’’لگتے تو مائی ساڑھے پانچ ہی آنے ہیں، پھر یہ بس سرکاری ہے۔ یہ لڑکا سرکار کا نوکر ہے۔ ایک آنہ بھی کسی سے کم لے تو اپنی جیب سے ڈالے گا یا نوکری چھوٹ جائے گی غریب کی۔‘‘

’’ہے ہے بے چارا۔‘‘ بڑھیا نے پیار سے کنڈکٹر کی طرف دیکھا۔ ’’میں نے تو عمر بھر اپنا رزق اپنے ہاتھوں سے کمایا ہے۔ میں کیوں کسی کے رزق پرڈاکہ ڈالوں چھے پیسوں کے پیچھے! مجھے کیا خبر تھی، وہ غوثا ہی دھوکا دے گیا۔ پر اسے کیا پتا، وہ بیچارا بھی تو ریڑھے پر لاہور آتا ہے، اب کیا کروں؟‘‘
’’یوں کرو۔‘‘ گوری چٹی عورت نے اپنا پرس کھولتے ہوئے کہا۔ ’’میں تمھیں…‘‘

اتنے میں کنڈکٹر آ گیا۔ بڑھیا بولی۔ ’’بھئی لڑکے! مجھے تو خبر نہیں تھی کہ اس طرح…‘‘
کنڈکٹر بولا ’’بس مائی! اب سارا حساب ٹھیک ہو گیا ہے۔ تجھے والٹن پر ہی اتاروں گا۔‘‘
بڑھیا کھل گئی۔ ’’میں نے کہا تھا نا کہ تیری ماں نے تجھے بسم اللہ پڑھ کے جنا ہے۔ پر یہ بتا لڑکے… چوّنی ہی پر راضی ہو جانا تھا تو ساڑھے پانچ آنے کا جھگڑا کیوں چلایا؟‘‘

’’حساب تو مائی ساڑھے پانچ ہی آنے سے پورا ہوا ہے۔‘‘ کنڈکٹر بولا۔
’’تو میں چھ پیسے کہاں سے لائوں؟‘‘ بڑھیا پھر اداس ہو گئی۔
’’چھے پیسے مجھے مل چکے۔‘‘ وہ بولا۔ ’’ اس چودھری نے دیے ہیں۔‘‘ کنڈکٹر نے سفید پوش بزرگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’کیوں دیے ہیں؟‘‘ بڑھیا نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’کنڈکٹر بولا ’’ترس کھا کر دے دیے۔‘‘

بڑھیا اٹھنے کی کوشش میں نشست پر گر پڑی۔ ’’کس پر ترس کھایا؟‘‘ وہ چلّائی۔
’’تم پر اور کس پر‘‘ کنڈکٹر بولا۔
بڑھیا بھڑک کر اٹھی اور چیخ کر بولی۔ ’’ذرا میں بھی تو دیکھوں اپنے ترس کھانے والے کو…‘‘
گوری چٹی عورت فوراً پرس بند کر کے بڑھیا کی طرف دیکھنے لگی۔
بڑھیا چھت کی راڈ اور سیٹوں کی پشتوں کے سہارے سفید پوش بزرگ کی طرف بڑھتے ہوئے بولنے لگی۔ ’’یہ چھے پیسے کیا تیری جیب میں بہت کود رہے تھے کہ تُو نے ترس کھا کر میری طرف یوں پھینک دیے جیسے کتے کی طرف ہڈی پھینکی جاتی ہے۔‘‘
’’لیجیے! یہ ہے بھلائی کا زمانہ۔‘‘ کوئی بولا۔

سفید پوش بزرگ کا رنگ مٹی کا سا ہو گیا اور بڑھیا بولتی رہی۔ ’’ارے سخی داتا کہیں کے، تُو مجھ پر ترس کھاتا ہے، جس نے ساٹھ سال دھرتی میں بیج ڈال کر پودوں کے اگنے اور خوشے پکنے کے انتظار میں کاٹ دیے، تو ان ہاتھوں پر چھے پیسے رکھ رہا ہے۔ جنھوں نے اتنی مٹی کھودی ہے کہ اکٹھی ہو تو پہاڑ بن جائے اور تو مجھ پر ترس کھاتا ہے؟ کیا تیری کوئی ماں بہن نہیں، ترس کھانے کے لیے؟ کوئی اندھا فقیر نہیں ملا تجھے رستے میں؟ شرم نہیں آتی تجھے ایک کسان عورت پر ترس کھاتے ہوئے!‘‘
پھر وہ کنڈکٹر کی طرف پلٹی۔ ’’یہ چھے پیسے جو اس نے مجھ پر تھوکے ہیں، اسے واپس کر اور مجھے یہیں اتار دے۔ میں پیدل چلی جائوں گی۔ مجھے پیدل چلنا آتا ہے۔‘‘
بڑھیا خاموش ہو گئی۔ بس میں صرف گاڑی چلنے کی آواز آ رہی تھی۔

بس ایک لمحہ بعد اسٹینڈ پر رکی تو بڑھیا سیڑھیوں کی پروا کیے بغیر دروازے میں سے لٹکی اور باہر سڑک پر ڈھیر ہو گئی۔ پھر اٹھی، کپڑے جھاڑے اور ناقابلِ یقین تیزی سے والٹن کی طرف جانے لگی۔
بس میں سے آوازیں آئیں۔ ’’عجیب وحشی عورت ہے!‘‘
 
Top