وجود یا موجود؟

حقیقت جو بھی ہے اس کو وجود سے آزاد ہونا چاہیے کا مطلب سمجھ نہیں آیا۔۔ چونکہ بعد از وجود عدم ہی عدم ہے۔ وجود کے بغیر تو کوئی چیز موجود نہیں۔
کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز موجود ہو لیکن وجود نہ ہو؟
وجود اور موجود میں فرق بھی کس اساس اور دلیل پر کیا گیا ہے ابھی تک واضح ٰ نہیں ہوا۔

وجود سے مراد آپ جسم یا ذات لے سکتے ہیں۔ جو ہماری تعبیرات ہیں۔ ہم تعبیرات کے ماتحت مجبور ہیں۔ کیونکہ نہ تو حقیقت کو وجود کی ضرورت۔ نہ ہی حقیقت کو لفظ "حقیقت" ہی کی ضرورت ہے۔
وجود سے میری مراد ظرف مکان جس میں ہمارے مذہب کے مطابق روح رہتی ہے یا کسی بھی دوسری جاندار یا غیر جاندار چیز کا جسم۔ وہ وجود ہے۔ موجود سے مراد "ہونا" کی عمل ہے۔ یہ اصطلاح کا تضاد یا صرفی تضاد ہی الجھایا ہوا ہے۔
alif IS.
rest IS NOT.
اس سے زیادہ میں بھی وضاحت کرنے سے قاصر ہوں۔
 
چونکہ بعد از وجود عدم ہی عدم ہے۔ وجود کے بغیر تو کوئی چیز موجود نہیں۔
کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز موجود ہو لیکن وجود نہ ہو؟

یہی پریشانی ہے۔ یہ لسانی رویہ ہے کہ انسان وجود کو موجود یا موجود سے وجود کو الگ تصور نہیں کر پاتا۔ لیکن یہ حقیقت ہے۔ عدم اور وجود کے تقاضے یا ان کے معیار تک غیر حقیقی ہیں۔ ہمیں ابھی اسے بھی دریافت کرنے کی ضرورت ہے کہ حقیقت میں وجود کا نہ ہونا عدم ہی ہے؟ لیکن اسے دریافت کرنے کی بھی کوئی صورت موجود نہیں۔
یہ ایسی ہی بات ہے کہ ہم وہ دیکھتے ہیں جو ہمیں دکھتا ہے۔
لیکن حقیقت میں ہم وہ دیکھتے ہیں جس طرح کوئی خاص شئے متاثر ہوئی ہے۔
ہر چیز کسی نہ کسی طور سے متاثر ہے۔ ہم اس کی حقیقت کو نہیں جانتے۔ جان سکتے ہی نہیں کیونکہ کوئی طریقہ ہی نہیں۔
وجود اور عدم بھی متاثر ہیں۔ اس لیے انکی حقیقت کو بھی جاننا ہمارے لیے ممکن نہیں۔
اگر آپ کہیں کہ آپ بھی موجود ہیں، حقیقت بھی موجود ہے۔ آپ کا بھی وجود ہے، حقیقت کا بھی وجود ہے تو یہ بات ایک عام پہلو سے تو درست ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وجود کے فلسفے کو در حقیقت ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ یہی بات میں نے اوپر کہی ہے۔
 

حسینی

محفلین
ہمیں ابھی اسے بھی دریافت کرنے کی ضرورت ہے کہ حقیقت میں وجود کا نہ ہونا عدم ہی ہے؟ لیکن اسے دریافت کرنے کی بھی کوئی صورت موجود نہیں۔
یقینا وجود کا نہ ہونا عدم ہی ہے۔ وجود اور عدم اک دوسرے کی نقیض ہیں۔ اجتماع نقیقین اور ارتفاع نقیضین دونوں محال ہیں۔ یہ تو بدیہی ہے۔ اس حوالے سے کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔
وجود اور عدم بھی متاثر ہیں۔ اس لیے انکی حقیقت کو بھی جاننا ہمارے لیے ممکن نہیں۔
عدم کیسے متاثر ہے؟؟؟ عدم تو لاشیء ہے۔۔ عدم کچھ نہ ہونے کا نام ہے۔ جب عدم کچھ ہے ہی نہیں تو تاثیر یا تاثر کی کیا بات ہے؟
اگر آپ کہیں کہ آپ بھی موجود ہیں، حقیقت بھی موجود ہے۔ آپ کا بھی وجود ہے، حقیقت کا بھی وجود ہے تو یہ بات ایک عام پہلو سے تو درست ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وجود کے فلسفے کو در حقیقت ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ یہی بات میں نے اوپر کہی ہے۔
یقینا اگر میں موجود ہوں تو میرا وجود بھی حقائق میں سے اک حقیقت شمار ہوگی۔ یعنی میرا وجود بھی اک حقیقت اور واقعیت ہے۔ وجود کے اسرار یا حقائق تو نہیں پہنچ سکتے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہمارسے سارے علوم وہم اور گمان میں تبدیل ہوجائیں۔ حقیقت کو وہم وگمان سے تشخیص دینے کے لیے اپنے پیمان اور معیارات ہیں۔
ان مباحث سے صرف مقصود یہ ہے کہ کسی نتیجے تک شاید ہم پہنچیں۔ امید ہے آپ برا نہیں منائیں گے۔
 
یقینا وجود کا نہ ہونا عدم ہی ہے۔ وجود اور عدم اک دوسرے کی نقیض ہیں۔ اجتماع نقیقین اور ارتفاع نقیضین دونوں محال ہیں۔ یہ تو بدیہی ہے۔ اس حوالے سے کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔
میں نے وجود کی جو تعریف اپنے اول مراسلے کے حوالے سے اوپر کی ہے اس سے وجود کا جو معنی میں نے مراد لیا ہے وہ جسم، جسامت یا ظاہری لباس کا ہے۔ اگر مادی دنیا میں دیکھو تو ہر وہ چیز موجود ہے جس کا جسم ہے۔ خواہ کتنا ہی چھوٹا ہو۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ وجود متاثر ہے۔ اس لیے وجود کا حقیقی ہونا ممکن نہیں۔ یوں وجود بھی در حقیقت عدم ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ وجود کی حقیقت تب تک ظاہر ہی نہیں ہوسکتی جب تک وہ متاثر ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کائنات میں ذرہ ذرہ متاثر ہے۔ اسی لیے کوئی وجود حقیقی طور پر ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ آپ نے فرمایا کہ نقیضین کا جمع ہونا محال ہے۔ تو اس کو اگر مزید کریدا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ نقیضین کی سطح کیا ہے؟ اگر یہ بیان ایک سطح تک محدود ہے تو اسے دلیل بنانا بے کار ہے۔ مثلاً دن اور رات نقیض ہیں۔ لیکن یہ سطحی سچ ہے۔ حقیقت کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ دن اور رات ایک مقام تک نقیض ہیں۔ اس مقام کی حدود سے باہر یہ دونوں ایک دوسرے کی نفی نہیں کریں گے۔
اسی طرح دوسری بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔


عدم کیسے متاثر ہے؟؟؟ عدم تو لاشیء ہے۔۔ عدم کچھ نہ ہونے کا نام ہے۔ جب عدم کچھ ہے ہی نہیں تو تاثیر یا تاثر کی کیا بات ہے؟
عدم عدم ہے اسی لیے متاثر ہے۔ عدم بھی وجود کے لیے ہے۔ اور وجود سے عدم کا جواز پیدا ہوتا ہے۔ جب کہ وجود حقیقی نہیں تو عدم بھی حقیقی نہیں ہوسکتا۔ عدم وجود کے اثر سے متاثر ہے۔


یقینا اگر میں موجود ہوں تو میرا وجود بھی حقائق میں سے اک حقیقت شمار ہوگی۔ یعنی میرا وجود بھی اک حقیقت اور واقعیت ہے۔

جی اس بات کا مجھے اقرار ہے۔ یہ میں اوپر واضح کر چکا ہوں کہ عام پہلو سے یہ بات درست ہے۔

وجود کے اسرار یا حقائق تو نہیں پہنچ سکتے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہمارسے سارے علوم وہم اور گمان میں تبدیل ہوجائیں۔ حقیقت کو وہم وگمان سے تشخیص دینے کے لیے اپنے پیمان اور معیارات ہیں۔
ان مباحث سے صرف مقصود یہ ہے کہ کسی نتیجے تک شاید ہم پہنچیں۔ امید ہے آپ برا نہیں منائیں گے۔

سارے علوم وہم اور گمان بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ کوئی ناممکنات میں سے تو نہیں۔ فی الوقت تو علوم، ان کے مصادر، دماغی سطح اور دماغ کی رہنمائی میں کیے گئے فیصلے کے سچ ہونے کی دلیل پر بھی انسان کی حد صرف اس کائنات اور اس میں چلتے ہوئے "وقت" کی حدود تک موقوف ہیں۔ نہ انسان "وقت" کے علاوہ کچھ سوچ سکتا ہے نہ کائنات سے آگے۔ تو یہاں پیمانہ تو مقرر ہوجاتا ہے۔ لیکن اب نا معلوم کو نامعلوم رکھ کر ایک انجان حقیقت کو بنا کوئی نام دیے دریافت کرنا ممکن ہے۔ اس میں کچھ لوگ آگے ہیں کچھ لوگ پیچھے۔ کچھ لوگ بہت زیادہ پیچھے ہیں۔

نہیں جناب۔ مجھے برا منانے والی کوئی بات بھی نہیں لگتی جب تک بحث علمی اور منطقی دائروں کو پار نہ کردے۔ :)
 

حسینی

محفلین
میں نے وجود کی جو تعریف اپنے اول مراسلے کے حوالے سے اوپر کی ہے اس سے وجود کا جو معنی میں نے مراد لیا ہے وہ جسم، جسامت یا ظاہری لباس کا ہے۔ اگر مادی دنیا میں دیکھو تو ہر وہ چیز موجود ہے جس کا جسم ہے۔ خواہ کتنا ہی چھوٹا ہو۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ وجود متاثر ہے۔ اس لیے وجود کا حقیقی ہونا ممکن نہیں۔ یوں وجود بھی در حقیقت عدم ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ وجود کی حقیقت تب تک ظاہر ہی نہیں ہوسکتی جب تک وہ متاثر ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کائنات میں ذرہ ذرہ متاثر ہے۔ اسی لیے کوئی وجود حقیقی طور پر ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ آپ نے فرمایا کہ نقیضین کا جمع ہونا محال ہے۔ تو اس کو اگر مزید کریدا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ نقیضین کی سطح کیا ہے؟ اگر یہ بیان ایک سطح تک محدود ہے تو اسے دلیل بنانا بے کار ہے۔ مثلاً دن اور رات نقیض ہیں۔ لیکن یہ سطحی سچ ہے۔ حقیقت کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ دن اور رات ایک مقام تک نقیض ہیں۔ اس مقام کی حدود سے باہر یہ دونوں ایک دوسرے کی نفی نہیں کریں گے۔
اسی طرح دوسری بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔



عدم عدم ہے اسی لیے متاثر ہے۔ عدم بھی وجود کے لیے ہے۔ اور وجود سے عدم کا جواز پیدا ہوتا ہے۔ جب کہ وجود حقیقی نہیں تو عدم بھی حقیقی نہیں ہوسکتا۔ عدم وجود کے اثر سے متاثر ہے۔




جی اس بات کا مجھے اقرار ہے۔ یہ میں اوپر واضح کر چکا ہوں کہ عام پہلو سے یہ بات درست ہے۔



سارے علوم وہم اور گمان بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ کوئی ناممکنات میں سے تو نہیں۔ فی الوقت تو علوم، ان کے مصادر، دماغی سطح اور دماغ کی رہنمائی میں کیے گئے فیصلے کے سچ ہونے کی دلیل پر بھی انسان کی حد صرف اس کائنات اور اس میں چلتے ہوئے "وقت" کی حدود تک موقوف ہیں۔ نہ انسان "وقت" کے علاوہ کچھ سوچ سکتا ہے نہ کائنات سے آگے۔ تو یہاں پیمانہ تو مقرر ہوجاتا ہے۔ لیکن اب نا معلوم کو نامعلوم رکھ کر ایک انجان حقیقت کو بنا کوئی نام دیے دریافت کرنا ممکن ہے۔ اس میں کچھ لوگ آگے ہیں کچھ لوگ پیچھے۔ کچھ لوگ بہت زیادہ پیچھے ہیں۔

نہیں جناب۔ مجھے برا منانے والی کوئی بات بھی نہیں لگتی جب تک بحث علمی اور منطقی دائروں کو پار نہ کردے۔ :)
مجھے نہیں معلوم آپ کس فضا ٰ میں بات کر رہے ہیں؟؟
آپ کی بہت ساری باتیں میرے لیے نئی بھی ہیں اور حیرت ناک بھی۔
البتہ میں تو فلسفہ اسلامی کی کتابیں پڑھ کر انہی کی حدود میں بات کر رہا ہوں اور اپنی ہر بات پر دلیل بھی رکھتا ہوں۔
اب اجتماع نقضین کا محال ہونا عقلی قاعدہ ہے۔۔ جس کو اک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے۔۔ اور اسی پر سارے علوم کی بنیاد کھڑی ہے۔
وجود کو جسم وجسمانیات سے مختص کرنے کی کوئی وجہ یا دلیل نہیں۔
وجود بھی در حقیقت عدم ہوتا ہے۔۔۔ کا مطلب ہے اجتماع نقیضین۔
عدم جب کچھ ہے ہی نہیں تو اس میں تاثیر یا تاثر کی بات عجیب لگتی ہے۔
سارے علوم کے وہم وگمان ہونے کا احتمال دینا اک نوع سفسطہ ہے۔ دو اور دو چار ہوتے ہیں، یا کل جز سے بڑا ہے، یا اجتماع نقیضین محال ہے، یا چار جفت ہے جیسی مثالوں کے بارے میں وہم وگمان کا اگر احتمال دیں تو اس سے بڑا سفسطہ کچھ نہیں۔ اس کا مطلب ہے کچھ حقائق ہیں جو باقی حقائق کے لیے اساس بنتی ہیں۔
 
البتہ میں تو فلسفہ اسلامی کی کتابیں پڑھ کر انہی کی حدود میں بات کر رہا ہوں اور اپنی ہر بات پر دلیل بھی رکھتا ہوں۔

معذرت کہ میں اسلامی فلسفے کی مناسبت سے گفتگو نہیں کر سکتا۔ اسلامی فلسفہ یا تصوف کے حقائق بہر حال اسلام کے اپنے ہیں۔ میرے پہلے مراسلے سے آخری مراسلے تک کوئی بھی مراسلہ اسلامی فلسفے سے جڑا ہوا نہیں تھا۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ میں اپنی بات کو آپ تک پہنچانے میں ناکام ہوں۔ خیر۔
جزاک اللہ خیرا۔
 

حسینی

محفلین
معذرت کہ میں اسلامی فلسفے کی مناسبت سے گفتگو نہیں کر سکتا۔ اسلامی فلسفہ یا تصوف کے حقائق بہر حال اسلام کے اپنے ہیں۔ میرے پہلے مراسلے سے آخری مراسلے تک کوئی بھی مراسلہ اسلامی فلسفے سے جڑا ہوا نہیں تھا۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ میں اپنی بات کو آپ تک پہنچانے میں ناکام ہوں۔ خیر۔
جزاک اللہ خیرا۔

فلسفہ چاہے اسلامی ہو یا غیر اسلامی اس میں عقلی دلیلوں سے بات ہوتی ہے۔ اب اگر آپ کے پاس یا میرے پاس عقلی دلائل ہیں تو اک دوسرے کو بات سمجھانے میں کوئی مشکل نہیں ہونا چاہیے ۔
 
فلسفہ چاہے اسلامی ہو یا غیر اسلامی اس میں عقلی دلیلوں سے بات ہوتی ہے۔ اب اگر آپ کے پاس یا میرے پاس عقلی دلائل ہیں تو اک دوسرے کو بات سمجھانے میں کوئی مشکل نہیں ہونا چاہیے ۔

عقلی دلیل ہر کسی شعبے کے مطابق مختلف ہوتی ہے۔ سائنس کی عقلی دلیل اسلام میں نہیں چل سکتی اور نہ ہی اسلام کی عقلی دلیل سائنس میں یہی معاملہ فلسفوں کا بھی ہے۔ شعبہائے فلسفہ میں ہر ایک کا سچ دوسرے سے مختلف ہے۔ کائنات کا فلسفہ دینی فلسفے سے مختلف ہے۔ اس کے حقائق مختلف ہیں۔ اس کے اصول مختلف ہیں۔
دین کا فلسفہ دین کے بننے کے بعد قائم ہوتا ہے جس میں منطق بھی دین کی حدود میں ہوتی ہے اور دلیل بھی۔ اس لیے دین کی منطق کو ثابت کرنے کے لیے کوئی سائنسی دلیل کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اسی طرح سائنس کی منطق سائنس تک محدود ہے اسے ثابت کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ اسلامی منطق پر بھی اسے پورا اترنا ضروری ہو۔
مثلاً تصوف کا فلسفہ یا وحدت الوجود وغیرہ کے ثابت کرنے کے لیے مسائل تصوف ہی کار آمد ہونگے۔ حقیقی اور مجازی کے اصول تصوف اور مادی کائنات میں سائنس کے حوالے سے بالکل الٹ بھی ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح آپ لسانیات میں علم کلام اور علم بیان و بدیع کے فلسفے اور ان کے دلائل کو دیکھ لیں تو وہاں بھی ایسا ہی ہے۔ تو منطق اور دوسرے فنون میں استدلال کی جو اہمیت ہے وہ اس شعبے کی حدود تک سچ ہوتی ہے۔ اس سے آگے یا اس سے باہر وہ حد اکثر بے کار ہوجاتی ہے۔
 

حسینی

محفلین
مزمل بھائی۔۔ فلسفہ کو ام العلوم کہا جاتا ہے۔۔ یعنی تمام علوم کی ماں۔ اس کے قواعد تمام علوم بلکہ نظام حیات پر حاوی اور حاکم ہیں۔
فلسفہ کے مسائل یا قواعد کسی خاص علم سے مختص نہیں ۔۔ منطق اور فلسفہ معیار ہیں۔ ان کو علوم آلی کہا جاتا ہے۔
فلسفہ کے قواعد عقلی ہیں۔ یہ قواعد قابل تخصیص بھی نہیں ہیں۔ یعنی کلی ہوتے ہیں اور زندگی کے ہر شعبے میں جارے ہوتے ہیں۔ برعکس دوسرے علوم کے۔
اب سائنس کی روش تجربہ اور استقراء ہے۔ سائنس کی روش عقلی نہیں ہے۔
جبکہ فلسفہ کے قواعد کا استنباط خالص عقلی بنیادوں پر ہوتا ہے۔۔ دینی تعلیمات سے ان کو ہرگز اخذ نہیں کیا جاتا۔
البتہ ہمارا یہ دعوی ہے کہ دین عین عقل ہے۔۔ دین اور عقل میں کوئی تضاد نہیں۔ اس لیے جس کو ہم نے فلسفہ اسلامی کا نام دیا ہے اس کی روش بھی عقلی ہے اور عقلی ادلہ سے ہی بات کرتا ہے۔
اب یہاں پر فلسفہ دینی اور فلسفہ دین میں فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔
 
مزمل بھائی۔۔ فلسفہ کو ام العلوم کہا جاتا ہے۔۔ یعنی تمام علوم کی ماں۔ اس کے قواعد تمام علوم بلکہ نظام حیات پر حاوی اور حاکم ہیں۔
فلسفہ کے مسائل یا قواعد کسی خاص علم سے مختص نہیں ۔۔ منطق اور فلسفہ معیار ہیں۔ ان کو علوم آلی کہا جاتا ہے۔
فلسفہ کے قواعد عقلی ہیں۔ یہ قواعد قابل تخصیص بھی نہیں ہیں۔ یعنی کلی ہوتے ہیں اور زندگی کے ہر شعبے میں جارے ہوتے ہیں۔ برعکس دوسرے علوم کے۔
اب سائنس کی روش تجربہ اور استقراء ہے۔ سائنس کی روش عقلی نہیں ہے۔
جبکہ فلسفہ کے قواعد کا استنباط خالص عقلی بنیادوں پر ہوتا ہے۔۔ دینی تعلیمات سے ان کو ہرگز اخذ نہیں کیا جاتا۔
البتہ ہمارا یہ دعوی ہے کہ دین عین عقل ہے۔۔ دین اور عقل میں کوئی تضاد نہیں۔ اس لیے جس کو ہم نے فلسفہ اسلامی کا نام دیا ہے اس کی روش بھی عقلی ہے اور عقلی ادلہ سے ہی بات کرتا ہے۔
اب یہاں پر فلسفہ دینی اور فلسفہ دین میں فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔

آپ کی مجموعی بات سے اتفاق سوائے اسکے کہ فلسفے کے قواعد کلی ہیں اور زندگی کے ہر شعبے میں جاری ہوتے ہیں۔ یہاں آپ کو اس بات کی طرف متوجہ کرنا چاہوں گا کہ آپ جس علم کی بات کر رہے ہیں وہ فلسفہ نہیں بلکہ منطق ہے جو فلسفے کی ایک شاخ ہے۔ منطق مکمل فلسفہ نہیں ہے۔ اور منطق ہر علم پر لاگو ہوتی ہے۔ اس کے لیے علم کا فلسفے سے تعلق تک ہونا ضروری نہیں۔ یوں سائنس بھی عقلی ہے۔ اسکی روش بھی عقلی ہے۔ کیونکہ سائنس کا اکثر بلکہ تقریباً تمام حصہ فلسفے کی ہی بدولت ہے فلسفے کے بغیر سائنس بے چارہ ہے۔
آپ نے فرمایا کہ فلسفے کو دینی تعلیمات سے اخذ نہیں کیا گیا۔ اس سے مجھے اتفاق ہے۔ لیکن دینی معاملات اور کسی بھی دینی یا لسانی یا کسی اور لٹریچر میں علم منطق کی صورت میں فلسفے کا بہر حال کردار ہمیشہ سے رہا ہے۔ اور اسی کے ذریعے سے ہمارے دین میں مسائل اور دلائل و مناظرے کے اصول اور علم فقہ وغیرہ کے معاملات کو سلجھایا جاتا ہے۔ اب فلسفے میں الگ الگ موضوعات ہیں۔ ان موضوعات کو اپنا نشانہ بنا کر اس میں منطقی دلائل سے چھان بین کی جاسکتی ہے لیکن خالص منطق کو مکمل فلسفہ کہہ دینا فلسفے کے ساتھ زیادتی ہے۔ کیونکہ علم منطق انسان میں فطرتی طور پر بھی پایا جاتا ہے اور پڑھ کر اسے سیکھا بھی جاسکتا ہے لیکن جیساکہ میں نے اوپر کہا کہ علم منطق کا نفاذ کسی خاص لٹریچر پر اسی لٹریچر کے اصولوں کی حدود میں رہتے ہوئے تو ہوسکتا ہےلیکن اس سے باہر نہیں ہوسکتا۔ ایک عام مثال لیجئے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اسلامی فلسفے کی بنیاد اللہ پاک اور رسولﷺ ہیں اس کے بعد قران کریم، احادیث طیبہ، اور دیگر چیزیں۔ اب اسلامی فلسفہ ان کتب کے ارد گرد تو گھوم سکتا ہے۔ اس کے اصول پر عقلی دلائل و براہین و مباحث تو کرسکتا ہے لیکن اس سے برات اختیار نہیں کرسکتا۔ اس لئے اس کے قوانین کسی رومن فلسفے پر لاگو نہیں ہونگے۔ یا کسی ہندی، یہودی یا الحاد کے فلسفیانہ دلائل اس سے مماثلت نہیں رکھیں گے۔ کیونکہ اس کی حد مقرر ہے۔ اب منطق میں ہمیں محض اس حد کے اندر رہ کر اسی کے اصولوں پر عقلی دلائل کو استعمال کرنا ہے۔ یہ منطق ہے۔ جو کسی علم پر لاگو ہوتی ہے۔ بیک وقت اسکا ایک سے زیادہ علوم پر لاگو ہونا ضروری نہیں۔ کیونکہ کسی اور علم کے فلسفے کو سمجھنے کے لیے اور اس کی عقلی دلیلوں کو جاننے کے اس شعبے سے آپ کا تعلق ہونا ضروری ہے۔ منطق سائنس میں بھی ہے۔ لیکن جب تک آپ سائنس سے وابستہ نہیں ہوتے اس وقت تک آپ سائنس کی منطق کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ یہی معاملہ طبیعات اور مابعد الطبیعات کا ہے۔ اس کے لیے آپ کو اسی شعبے کے فلسفے کی لٹریچر کو سمجھنا ہوگا تو کوئی بات ہوسکتی ہے۔ اس کے بغیر عقلی دلائل بھی بے کار ہیں کیونکہ وہ عقلی دلائل عقل میں ہی نہیں آئیں گے تو انکا کوئی فائدہ ہی نہیں ہوگا۔
 
آخری تدوین:

حسینی

محفلین
فلسفہ کے قواعد واقعا کلی ہوتے ہیں۔ چونکہ عقلی انسانی اک جگہ سے دوسری جگہ یا اک زمان سے دسری زمان میں فرق نہیں کرتی۔ ایسا نہیں ہے کہ عقل انسانی اک جگہ اک حکم کرے اور دوسری جگہ دوسرا حکم۔ علت ومعلول کا ہی قاعدہ دیکھ لیں۔ اس کائنات پوری پر علت ومعلول کا قاعدہ حاکم ہے۔ واجب الوجود علت العلل ہےَ ، معلول نہیں۔ اس کے بعد ہر شیء اس کا معلول ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں موجود ہر شیء ممکن ہے اک جہت سے علت ہو اور اک جہت سے معلول ہو یا ممکن ہے فقط معلول ہو علت نہ ہو۔ پھر علت اور معلول کے درمیان سنخیت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ علت تامہ کے وجود سے معلول کا وجود ضروری اور علت تامہ کے نہ ہونے سے معلول کا رفع ضروری ہے۔ اب یہ قاعدہ کسی خاص مورد سے مختص نہیں ہے۔
منطق کے بارے یہ کہا جا سکتا ہے کہ منطق اک نوع مقدمہ ہے فلسفہ کے لیے۔ البتہ مفاہیم منطقی کا مفاہیم فلسفی سے اک خاص فرق ہے کہ مفاہیم منطقی کلا عقلی ہے جبکہ مفاہیم فلسفی کا تعلق اک لحاظ سے ذہن سے ہے اور اک لحاظ سے خارج سے ہے۔ اگرچہ منطق اور فلسفہ میں سے ہر اک کی روش عقلی ہے۔
سائنس کے بارے میں، میں تو نہیں کہہ سکتا کہ اس کی روش عقلی ہے۔ سائنس ہمیشہ تجربہ اور استقراء سے نتائج تک پہنچتی ہے۔ اس لیے سائنس کا میدان بھی محدود ہے۔ ماوراء الطبیعہ یعنی غیر مادی چیزوں میں سائنس کا زور نہیں چلتا۔۔ جبکہ فلسفہ ہر موجود سے بحث کرتا ہے چاہے وہ مادی ہو یا غیر مادی۔ جیسے مجردات کی بحث ۔
البتہ فلسفہ کو مابعد الطبیعہ کہنے کی یہ وجہ ہرگز نہیں کہ یہ صرف غیر مادی سے بحث کرے۔۔ اور مابعد الطبیعہ کو کوئی ماوراء الطبیعہ کے معنی میں لے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
بلکہ۔۔ چونکہ ارسطو کے مباحث فلسفی کو جمع کرتے وقت فلسفہ کی بحثیں طبیعیات یعنی فزکس کے مباحث کے بعد قرار پائے اس لیے ان کو مابعد الطبیعہ کہا جانے لگا۔ یعنی فزکس کے بعد والی بحثیں۔۔ جو کہ فلسفہ کی بحثیں تھیں۔
 
فلسفہ کے قواعد واقعا کلی ہوتے ہیں۔ چونکہ عقلی انسانی اک جگہ سے دوسری جگہ یا اک زمان سے دسری زمان میں فرق نہیں کرتی۔ ایسا نہیں ہے کہ عقل انسانی اک جگہ اک حکم کرے اور دوسری جگہ دوسرا حکم۔ علت ومعلول کا ہی قاعدہ دیکھ لیں۔ اس کائنات پوری پر علت ومعلول کا قاعدہ حاکم ہے۔ واجب الوجود علت العلل ہےَ ، معلول نہیں۔ اس کے بعد ہر شیء اس کا معلول ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں موجود ہر شیء ممکن ہے اک جہت سے علت ہو اور اک جہت سے معلول ہو یا ممکن ہے فقط معلول ہو علت نہ ہو۔ پھر علت اور معلول کے درمیان سنخیت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ علت تامہ کے وجود سے معلول کا وجود ضروری اور علت تامہ کے نہ ہونے سے معلول کا رفع ضروری ہے۔ اب یہ قاعدہ کسی خاص مورد سے مختص نہیں ہے۔
منطق کے بارے یہ کہا جا سکتا ہے کہ منطق اک نوع مقدمہ ہے فلسفہ کے لیے۔ البتہ مفاہیم منطقی کا مفاہیم فلسفی سے اک خاص فرق ہے کہ مفاہیم منطقی کلا عقلی ہے جبکہ مفاہیم فلسفی کا تعلق اک لحاظ سے ذہن سے ہے اور اک لحاظ سے خارج سے ہے۔ اگرچہ منطق اور فلسفہ میں سے ہر اک کی روش عقلی ہے۔
سائنس کے بارے میں، میں تو نہیں کہہ سکتا کہ اس کی روش عقلی ہے۔ سائنس ہمیشہ تجربہ اور استقراء سے نتائج تک پہنچتی ہے۔ اس لیے سائنس کا میدان بھی محدود ہے۔ ماوراء الطبیعہ یعنی غیر مادی چیزوں میں سائنس کا زور نہیں چلتا۔۔ جبکہ فلسفہ ہر موجود سے بحث کرتا ہے چاہے وہ مادی ہو یا غیر مادی۔ جیسے مجردات کی بحث ۔
البتہ فلسفہ کو مابعد الطبیعہ کہنے کی یہ وجہ ہرگز نہیں کہ یہ صرف غیر مادی سے بحث کرے۔۔ اور مابعد الطبیعہ کو کوئی ماوراء الطبیعہ کے معنی میں لے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
بلکہ۔۔ چونکہ ارسطو کے مباحث فلسفی کو جمع کرتے وقت فلسفہ کی بحثیں طبیعیات یعنی فزکس کے مباحث کے بعد قرار پائے اس لیے ان کو مابعد الطبیعہ کہا جانے لگا۔ یعنی فزکس کے بعد والی بحثیں۔۔ جو کہ فلسفہ کی بحثیں تھیں۔

مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ منطق کے اصول ہر جگہ ایک نہیں ہیں یا عقلی نہیں ہیں۔ میں تو جو کہہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ منطق کسی خاص علم یا لٹریچر کے اندر نافذ ہوکر اسکے اصولوں کے مطابق کام کرتی ہے۔ کیونکہ منطق کا مطلب ہی اصولوں کی پیروی اور غیر اصولی باتوں سے آزادی ہے۔ اب وہ اصول کون طے کرے گا؟ وہ منطق نہیں بلکہ وہ علم یا لٹریچر طے کرے گی۔ اور یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ منطق ایک دوسرے سے مختلف بے شک نہیں ہوتی لیکن ہر علم ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ اسلام کی منطق عیسائیت کی منطق پر پوری نہیں اتر سکتی کیونکہ عیسائیت کے اصول اسلام سے الگ ہیں انکا لٹریچر الگ ہے ان کے قواعد و قوانین اور انکی شریعت الگ ہے۔ اب جب تک آپ عیسائیت کے قوانین کو قبول نہ کرلیں تب تک آپ اسکی منطق کو بھی قبول نہیں کرسکتے۔ میرے خیال میں یہ کوئی دور از فہم بات ہے ہی نہیں۔۔
یہی معاملہ فلسفے میں ما بعد الطبیعات کا ہے۔ اب جب تک ایک انسان مابعد الطبیعات اور خاص طور سے علم موجودات اور علمِ علمیات کو نہ سمجھ لے اس وقت تک اس کے لیے یہ مباحث بھی بے معنی ہیں۔
جہاں تک سائنس کی آپ نے بات کی تو سائنس تجربات سے کہیں پہلے منطقی مباحث اور اعتراضات پر بات کرتی ہے۔ اگر آپ سائنس سے صرف منطق کو نکال دیں تو بقیہ جو بچے گا اسے سائنس قرار ہی نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ کوئی بھی سائنسی دریافت پایۂ وجود تک پہنچنے سے پہلے محض ایک اندازہ ہی ہوتی ہے۔ تسخیر کائنات میں اکثر حصہ کامن سینس، لاجک یا منطق کا ہے۔ آپ اسے سائنس سے کیوں الگ کہہ رہے ہیں مجھے اس بات کا اندازہ نہیں ہے۔ کیا آپ سائنٹفک میتھڈالجی اور ہائپوتھیسس وغیرہ سے واقف نہیں ہیں؟ مادی کائنات کے بارے میں ہم جو کچھ جانتے ہیں اس کا صرف دسواں حصہ ہمارے تجربات اور استقراء کی بدولت ہے۔ باقی تمام حصے محض منطق کی بدولت ہمیں حاصل ہوئے ہیں۔ ایسے ایسے نظریات بھی سائنس میں موجود ہیں جو برسا برس سے صرف ایک منطقی بحث کی وجہ سے مقبول ہیں۔ ورنہ تجرباتی مفاہمت تو ان نظریات میں ممکن ہی نہیں۔ اعلی سے اعلی مثال اسکی "بگ بینگ" ہے۔ تو آپ سائنس کو منطق سے الگ کرکے سائنس کی بنیادیں ہی ختم کر رہے ہیں۔ کیونکہ جیساکہ میں نے کہا تجرباتی معاملہ منطقی پہیلیوں کو سلجھانے کے کافی بعد آتا ہے۔
 
Top