وجود میں انسان کی محوریت (Centrality )
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
حضرتِ انسان کو وجود میں ایک خاص قدر و منزلت حاصل ہے اور یہ بھی امرِ واقع ہے کہ وہ وجود میں ظہور کے اعتبار سے اجناس میں سے آخری جنس(Category) ہے۔ اور اس کا سببب اس کے سوا کچھ نہیں کہ انسان کی ذات میں دو قوسوں(Arcs) کا اجتماع ہوا ہے۔ ایک قوسِ الوھیت اور دوسری قوسِ مألوهيت. الوھیت کے پہلو سے دیکھیں تو اس کے رب کا ارشاد ہے : {وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي} [الحجر: 29]؛(اور میں نے اُس میں اپنی روح پُھونک دی) اور اسی کے بارے میں متفق علیہ حدیث کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ» (اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر تخلیق کیا)۔ اور انسان کا اس کی صورت پر ہونے کا مطلب ہے کہ ذات، صفات اور افعال، یہ سب کے سب ذاتِ الٰہیہ اور اس کے صفات و افعال کی صورت ہیں۔ اور صورت کبھی بھی اصل کے برابر نہیں ہوتی۔ اسi الٰہی پہلو کی وجہ سے انسان دنیا میں خلافتِ غیبیہ کا استحقاق رکھتا ہے۔ اور خلافت، دنیا میں ان تمام اسمائے الٰہیہ کے ساتھ تصرف کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ,وہ تمام اسماء جو اللہ نے ابو البشر آدم علیہ السلام کو سکھلائے۔ جیسا کہ االلہ نے فرمایا {وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا} [البقرة: 31] ( اور اس نے آدم کو سارے کے سارے اسماء سکھلا دئیے)۔ چنانچہ یہ خلافتِ الٰہیہ آدم علیہ السلام سے لے کر ساعتِ قیامت تک ایک شخص سے دوسرے شخص تک بالفعل منتقل ہوتی ہے۔ اور یہ اس شخص کے لئے ہے جو صاحبِ اسم "اللہ" یا اسمِ "رحمٰن" ہو۔ جہاں تک بنی نوع انسان میں سے باقی اشخاص کا معاملہ ہے، تو ان میں یہ خلافت بالقوۃ موجود ہے، بالفعل نہیں۔ اور لوگ اس امر میں ایک دوسرے سے تفاوت رکھتے ہیں، چنانچہ ان میں یہ تفاوت "انسان الحیوان" ( کہ جو وجود کا تعقل اسی قدر کرپاتا ہے جتنا دیگر حیوانات کرسکتے ہیں) کے درجے سے لے کر خلافتِ جزئیہ کے درجے تک پایا جاتا ہے جس کی بدولت انسان دائروں میں سے کسی دائرے کے اندر رہتے ہوئے اس اسم کے تحت تصرف کرتا ہے جو اس کے لئے ہے اور اس کے دائرہ کار کی وسعت یا تنگی بھی اسی اسم کے مطابق ہوتی ہے جو اس انسان پر سایہ فگن ہوتا ہے۔
اور جہاں تک قوسِ مألوهيت کا تعلق ہے تو اسی کی بدولت انسان اس عالم کے ساتھ پوری پوری مطابقت رکھتا ہے،جس طرح اس کے بدن اور عقل کو اس عالم کے زمین و آسمان کے ساتھ مطابقت یا موازنے کی نسبت حاصل ہے۔ چنانچہ اپنی اسی جامعیت کے ساتھ جو اسے الٰہی اور مألوهي کے حوالے سے حاصل ہے، انسان نے وجود کے تمام اسرار کو اپنے اندر سمولیا ہوا ہے، کاش وہ اپنے اس مقام و مرتبے کو جانتا۔ اور یہی وہ امانت ہے کہ جسے ساری مخلوقات کو چھوڑ کر صرف انسان نے اٹھایا ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ {إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا} [الأحزاب: 72].(بے شک ہم نے آسمانوں، پر زمین پر اور پہاڑوں پر اپنی امانت کو پیش کیا تو انہوں نے اسے اٹھانے سے معذوری ظاہر کی اور اس کے بوجھ سے ڈر گئے، جبکہ انسان نے اسے اٹھالیا، بے شک وہ پرلے درجے کا ظالم اور نادان تھا)۔
اہلِ دین انسان کو عمومی طور پر اس انداز سے دیکھتے ہیں گویا اسے ایک ملازم کے طور پر بنایا گیا ہے اور جس کا کام فقط یہ ہے کہ وہ میکا نکی انداز میں اپنے رب کی اطاعت کرتا رہے۔ اس اندازِ نظر میں انسان کی مذکورہ بالا دونوں متقابل جہتوں (یعنی الٰہی اورمألوهي) کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ اوریہی انسان کا وہ ظلم اور اپنی حقیقت سے جہل ہے ( کان ظلوماّ جھولا)۔ اور یہی انسان کی وہ ناقدری ہے کہ جس کے نتیجے میں دین اپنی قدر و قیمت کھو بیٹھتا ہے۔ اور مومنین کا اپنے رب کے ساتھ معاملہ اپنے مقام سے نیچے اتر کر محض ملازم کا اپنے باس کے ساتھ تعلق کے مترادف بن کر رہ جاتا ہے۔ معاملے کی اصل اور اس کے انجامِ کار میں اس سے زیادہ کیا دُوری کیا ہوگی۔۔۔۔!!!
انسان کو ، دوسری مخلوقات کے مقابلے میں یہ شرف عطا کیا گیا اور اسے اہلیت عطا کی گئی کہ اللہ کے اذن سے وجود کے راز کو جان سکے اور اللہ کی تعلیم سے قرآن کی تجلیاتِ اسمیہ کے اسرار جان سکے۔ لیکن مرتبہءِ انسانیہ (جو انسان میں بالقوۃ موجود ہے) کا تحقق صرف طریقِ مشروع کی پیروی اور عبودیت سے متخلق ہونے سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ اور اگر انسان اپنی خواہش اور من مرضی کے پیچھے چلنا شروع ہوجائے تو بسسب اس سرّ ( Secret) کے جو اس میں ودیعت کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے خلافت ملے بغیر ہی دعویٰءِ ربوبیت کرنے لگتا ہے اور ہلاک ہوجاتا ہے۔ کیونکہ خلیفہ کبھی بھی رب نہیں ہوسکتا، ورنہ تمام معانی ہی مختلط ہوجائیں۔ اور اسی مقام سے ہر زمانے میں لوگوں کوئی نہ کوئی ظاہر ہوتا رہا ہے جو فرعون اور نمرود بن کنعان وغیرہ کی طرح ربوبیت کا دعویدار ہوتا ہے۔ چنانچہ انسان کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی اصل کے لئے مخصوص اونچے مقام کے بالمقابل پائے جانے والے درکِ اسفل یعنی کھائی میں گرنے اور خلودِ نار کا مستحق ہونے سے بچتا رہے۔
انسان کی قدر شناسی اور اس کے حقوق کی معرفت کہ جن کے بارے میں آج کل کی مختلف حقوقِ انسانی کی تنظمیں چرچا کرتی رہتی ہیں، ان کی اس دعوت کا تعلق اللہ کی طرف سے انسان کو دئیے گئے اس مرتبے کے تحقق کے حصول کی جہت سے نہیں ہے بلکہ ان کی دعوت کا تعلق انسان کی فرعونیت سے ہے،اور انسان اپنی فروعنیت کو ہوا دینے کے رستے پر چلتے چلتے بالآخر ھاویہ میں جاگرتا ہے۔ اور ان دونوں راستوں میں تمیز کا معیار ہے اس راستے کی پیروی کہ جس کی پیروی کرنا اللہ نے انسان پر لازم قرار دیا ہے۔ ربّانی اور شیطانی انسان میں فرق کا تعلق محض ثقافتوں کے اختلاف اور نظریات و افکار کی تقدیم یا مزعومہ مادیت سے ہی نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق انسان کی انسانیت کے جوہر سے اور مختلف اشیاء کے حقائق کے بارے میں اس کے علم کے آثارسے ہے۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ «وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلاَّ رَفَعَهُ اللَّهُ» (ایسا کوئی نہیں ہے کہ جس نے اللہ کی خاطر تواضع اختیار کی ہو اور اللہ نے اسے سربلندی سے نہ نوازا ہو)۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ان امور کا تعلق ان کے برعکس مظاہر سے ہے۔ اور یہی وہ سبب ہے کہ جس کی بدولت خلیفہءِ زمان یعنی وقت کا خلیفہ(باطن کی جہت سے) انسانوں میں غیر معروف اور گمنام ہوتا ہے۔ اور اگر ہم فرض کریں کہ وہ اپنے مقام اور قدرومنزلت کا اعلان واضح الفاظ میں بھی کردے، تو لوگ اس کا انکار ہی کریں گے اور طرح طرح کے الزامات اس پر لگائیں گے، اور اس کی وجہ اس عبودیت سے ہے جو اس سے ظاہر ہوری ہے، بخلاف اس ربوبیت کے جو اس کے پسِ پردہ ہے، جبکہ لوگ اس ربوبیت کو آشکار دیکھنے کی توقع لگائے ہوتے ہیں۔
اور چونکہ عبودیت کا تقاضا ہے دینِ حق کی پیروی، اور چونکہ آج کا دینِ حق اسلامِ محمّدی ہی ہے، چنانچہ اس خلیفہءِ ربّانی کا تعلق صرف اسی امّت سے ہوتا ہے۔ اور بالخصوص اسی وجہ سے یہ امت دیگر تمام امتوں سے بہتر ہے جو انسانوں کے لئے ظہور پذیر ہوئیں۔
اور آدم علیہ السلام اور ان کے بعد آنے والوں کی خلافت کا مرتبہ بالاصالت ان کے لئے نہیں ہے کیونکہ بالاصالت یہ مرتبہ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے۔ ان کے عالمِ طبیعی(Physical World ) میں ظہور پذیر ہونے سے بھی پہلے۔ اور یہی وہ معنی ہیں جن کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کب نبی ہوئے؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ «وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ» (کہ جب آدم روح اور جسم کی درمیانی حالت میں تھے) یعنی ان کے اجزاء کی ترکیب سے بھی پہلے۔ اور اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ مقام جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا گیا، اس کا تعلق عالمِ طبیعی سےبالا تر ہے۔ یعنی یہاں کلام شخصِ محمدی کے بارے میں نہیں جو ابنِ آدم ہے بلکہ کلام کا تعلق حقیقتِ محمّدیہ سے ہے جو سب سے پہلی مخلوق ہے اور جسے فلاسفہ عقلِ اوٗل کا نام دیتے ہیں، بغیر اس کے کہ وہ اس ( حقیقتِ محمّدیہ) کو جانتے ہوں۔
(تحریر: الشیخ سیدی عبدالغنی العمری القاسمی الادریسی الحَسَنی حفظہ اللہ)
(اردو ترجمہ: محمود احمد غزنوی)​
 
Top