4 جنوری کی شام کو قصور شہر سے لاپتہ ہونے والی سات سالہ ننھی بچی کو اغواء کرکے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور بعد میں قتل کر دیا گیا ،ٹھیک پانچ دن بعد 9 جنوری کی صبح کو گھر سے تھوڑے سے فاصلے پر ایک کوڑے کے ڈھیر سے لاش برآمد ہوئی۔اس دلخراش واقعے نے ملک کے باسیوں کو مکمل طور پر جھنجوڑ دیا ہے۔ یہ واقعہ اور منظر دیکھنے سے پہلے آسمان ہم پر کیوں نہ گِر پڑا۔زمین نے ہمیں نگلنے میں دیر کیوں لگا دی۔اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے ’’حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘ کا مصداق ٹھہرے گی۔ اس واقعے کو موضوع سخن بنا کر مختلف ٹی وی چینلوں پر پروگرامات نشر ہوئے،سیاسی ، غیر سیاسی حتی کہ ہر خاص و عام نے مجرم کو سخت ترین سزا ’’مگر شرعی سزا نہیں‘‘ دینے کی تجاویز پیش کیں، عوام نے ’’زینب کو انصاف دو‘‘ کا علم بلند کر کے محاصرے کئے ، دائرہ بڑھتا گیا ، عوام کی آواز آسمانوں کو چھوتی ہوئی حکومتی ایوانوں تک پہنچی جس سے حکومتی ایوانوں میں لرزش طاری ہوئی اور ہمارے منتخب کردہ حکمران خوابیدۂ اور خماری آنکھیں لئے ہوئے خواب غفلت سے بیدار ہوئے۔ اہل قانون نے بھی انگڑائی لی۔ دانشوران نے مسئلے کے حل پر بات چیت کی اور ہر کسی نے اپنی بساط سے زیادہ عقل کے گھوڑے دوڑائے ،الغرض ہم سے قبل اس سانحہ سے متعلق اتنا کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے کہ ہمارے لیے کچھ کہنے اور لکھنے کی ضرورت باقی نہ رہی ، بس فقط اللہ کی بارگاہ میں اپنی نجات اور معذرت پیش کرنے ، حدیث’’مَن رَأى مِنكُم مُنكَرَاً فَليُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَستَطعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَستَطعْ فَبِقَلبِه وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإيمَانِ‘‘ پر عمل کرنے اور اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے اپنے جذبات اور احساسات کو آپ کے سپرد کرتا ہوں۔ یہ سانحہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے منفرد نہیں ہے،بلکہ پچھلے کئی ماہ میں ایسے 12 واقعات رونما ہو چکے ہیں ۔ اِن سطور کے لکھتے وقت اس واقعے کو دس دن گزر چکے ہیں اور حالیہ رپورٹ کے مطابق ’’درندہ صفت انسان‘‘ کو گرفتار کر لیا گیا ہے جس کا کہنا ہے کہ ’’یہ کام میں اپنے اندر کی درندگی اور ہوس کو بجھانے کے لیے کرتا چلا آرہا ہوں ‘‘۔ بہر حال اس واقعے نے چند پہلوؤں کو روز روش کی طرح واضح کر دیا ہے۔

اس واقعے نے میڈیا کے چہرے سے ’’دلکش عربی نقاب‘‘ کھینچ کر بد نما اور منافق چہرے کو آشکارا کر دیا ہے۔پرنٹ میڈیا ہو، الیکٹرانک میڈیا ہو یا پھر سوشل میڈیا تینوں معاشرے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ اسی میڈیا کے ذریعے بڑے بڑے انقلابات رونما ہو چکے ہیں چاہے وہ فرانس میں ہو، ترکی میں ہو یا پھر کشمیر میں برہانی وانی کی تحریک ہولیکن جس ملک کی میڈیا اپنے عوام میں خوف و ہراس پھیلانے میں سر فہرست ہو، جس ملک کی میڈیا قتل و غارت ،ڈھاکہ زنی، چوری چکاری، مارپیٹ، کرپشن، منی لانڈرنگ اور اِن جیسے کئی دیگر مترادف الفاظ کو موضوع سخن بنا کر ہفتوں ہفتوں عوام کے ذہنوں ان الفاظ سے پراگندہ کرتی ہو، جس ملک کی میڈیا جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ میں بدلنے کی مہارت تامہ رکھتی ہو، جس ملک کی میڈیا کے پاس اپنے ہی حکمرانوں پر کیچڑ اچھالنے کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہ ہو، جس ملک کی میڈیا حوا کی بیٹی اور آدم کی اولاد کو اکٹھا نچاتے ہوئے دکھانے میں فخر محسوس کرے، جس ملک کی میڈیا ایک پٹاخے کو خود کش حملہ قرار دے کر ’’طالبان نے ذمہ داری قبول کر لی‘‘ کی رٹ لگائے بیٹھی ہو، جس ملک کی میڈیا ترقی کے نام پر مغربی تہذیب کو مسلمانوں پر ٹھونسنے کا منصوبہ رکھتی ہو، جس ملک کی میڈیا آرٹ کے نام پر فحاشی و عریانی پھیلانے کا عزم مصمم کر چکی ہو، جس ملک کی میڈیا رمضان جیسے با برکت مہینے میں دینی پروگرامات کے نام پر اپنے ہی ملک کی ماؤں بیٹیوں کو بے حیائی کی ترغیب دیتی ہو، جس ملک کی میڈیا کمرشل اشتہارات کے ذریعے اپنے شہریوں کے جذبات کو برانگیختہ کرتی ہو، جس ملک کی میڈیا ریٹنگ بڑھانے کے لیے ’’آرمی پبلک سکول‘‘ کے پھول جیسے بچوں کی شہادت کا سہارا لے، مثال خان کی بے دردی سے موت کی ویڈیوز اَپ لوڈ کر کے والدین اور ملک کے نوجوانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے، جس ملک کی میڈیا ظالم کو ہیرو اور مظلوم کو دہشت گرد بنا کر پیش کرےاُس میڈیا سے آپ کیسے ’’خیر‘‘ کی توقع کر سکتے ہیں۔جس کام میں ہماری میڈیا کو ’’ڈالرز‘‘ دکھائی نہ دیں چاہے وہ ’’کربلا‘‘ کا واقعہ ہی کیوں نہ ہو، اُس واقعے سے دلچسپی تو دور کی بات عوام کو خبردار کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتے۔ ’’ملالہ یوسفزئی‘‘ کا واقعہ ہو، یا پھر ’’مثال خان‘‘ کی موت ہو، ’’آرمی پبلک سکول‘‘ کا سانحہ ہو یا پھر ’’قندیل بلوچ‘‘ کا قتل،’’ریمنڈ ڈیوس‘‘ کی آزادی یا پھر ’’ممتاز قادری‘‘ کی پھانسی ہو جب تک ناظرین کی تعداد اور دلچسپی بڑھتی جاتی ہے ، مسلسل واقعے کو ’’ہاٹ ایشو‘‘ بنا کر پیش کرتے ہیں، جب ’’ہاٹ ایشو‘‘ دھندلا پڑ جاتا ہے اور ناظرین کی دلچسپی کم ہوتی دکھائی دے اُس ’’ہاٹ ایشو‘‘ کو یاداشت کے کباڑ خانے میں پھینک دیتے ہیں اور پھر ایک نئے ایشو کو لے کر آسمان سر پہ اٹھا لیتے ہیں جیسے اِس سے پہلے اس طرح کا کوئی واقعہ رونما ہوا ہی نہیں، ایک معمولی سے ’’چائے والے‘‘ کو ’’ماڈل‘‘ بنا کر پیش کرنا ہمارے ہی میڈیا کی پہچان ہو سکتی ہے اور یہی بات زینب کی بڑی بہن ’’لبنٰی‘‘ نے ایک انگریزی اخبار کے نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے پوچھی کہ ’’How long will it be till you forget Zainab?‘‘ زینب کو بھلانے میں کتنا وقت لگے گا۔زینب کیس سے قبل تقریبا اس نوعیت کے 12 واقعات پچھلے کئی ماہ میں وقوع پذیر ہو چکے ہیں لیکن ایک آدھ سرخی کے علاوہ میڈیا نے شاید اُن بچوں اور بچیوں کے متعلق زیادہ سوچا ہو کیونکہ اُن واقعات پر عوام سراپا احتجاج نہ ہوئے اور میڈیا کے پاس دکھانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔

دوسرا پہلو اتحاد و اتفاق کا ہے۔ ملک میں کوئی بھی واقعہ یا حادثہ ملک کے باسیوں کو کئی خانوں، فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ ایک ہی واقعے پر مذہبی قوتوں، سیاسی اشرافیہ، مقتدر طبقہ، سرمایہ دار، جدید دانشوران حضرات اور دفاعی قوتوں کا مؤقف مختلف ہوتا ہے۔آج بھی اکثر سیاسی و مذہبی جماعتیں اور بعض تجزیہ نگار و صحافی حضرات ’’ ملالہ یوسفزئی‘‘ کو امریکی آلۂ کار کے طور پر تسلیم کرتے ہیں جبکہ بعض جماعتیں اور ترقی پسند حضرات اپنی نمازوں میں سورۃ فاتحہ کی بجائے ’’ملالہ یوسفزئی‘‘ کی حمد و ثنا پڑھتے ہیں۔ مثال خان کا واقعہ پیش آیا تو علمائے کرام کو نشانۂ تنقید ٹھہرایا گیا ، اسلام پسند اور مغرب کے پجاریوں کے درمیان ’’ختم نبوت ‘‘ کے قانون کے حوالے سے معرکہ آرائی ہوئی۔ آرمی پبلک سکول کے واقعے نے ایک بار پھر مدارس کے گرد گھیرا تنگ کر کے دینی طبقہ، علمائے کرام اور پاک کے درمیان تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا۔ ریمنڈ ڈیوس کے متعلق سیاسی و مذہبی اور غیر سیاسی جماعتوں کا موقف ایک رہا جبکہ مقتدر طبقہ اور فوج کا دوسرا موقف رہا اور کچھ ہاتھ نہ آیا۔ لیکن جب ’’آپریشن ضرب عضب‘‘ پر اتفاق کا ٹرائیکا بن گیا تو بھارت اور امریکہ کو منہ کی کھانی پڑی ، اسی طرح حالیہ زینب کیس میں عوام کے اتحاد و اتفاق نے حکومت کو حرکت پر مجبور کر دیا جس کا نتیجہ خوش آئند ہے۔

تیسرا پہلو ہمارے بعض دانشوروں اور سیاسی لیڈروں کا کردار ہے جنہیں اپنے ہی ملک کے نوجوانوں اور بیٹیوں کی لاشوں پر سیاست چمکانے کا شوق ہے ، جو اپنے ملک کی بیٹیوں کو غیروں کے ہاتھوں بیچ کر تا دیر اقتدار کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں، جو مجرم کے سر کی قیمت ’’ایک کروڑ‘‘ روپے کا اعلان کر کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتے ہیں،مجرم کو ڈھونڈنے کی قیمت اگر ایک کروڑ کی بجائے دس کروڑ بھی رکھی جائے یا اُسے پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جائے یا اُس کی بوٹی بوٹی کر دی جائے تو کیا ان اقدامات سے زینب دنیا میں واپس آسکتی ہے ،کیا ان اقدامات سے زینب کے والدین کے دلوں کو سکون بہم پہنچایا جا سکے گا ، کیا وہ مطمئن ہو جائیں گے، کیا وہ اپنی چھوٹی سی بیٹی کو بھول جائیں گے، نہیں! بالکل بھی نہیں۔ وہ سیاست دان جو اپنے جرائم کو چھپانے کے لیے زندہ لوگوں کو لاش میں تبدیل کرتے نہیں کتراتے، جو امریکی مطالبات کے آگے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں وہ سیاست دان اور دانشوران جو ہر واقعے کی آڑ میں اسلامی اقدار کو پامال کرنے کی خواہش دل میں لئے بیٹھے ہیں، کہیں آزادیٔ رائے کے نام پر ’’ختم نبوت ایکٹ‘‘ کو دستور سے مٹانا چاہتے ہیں تو کہیں حقوق نسواں کے نام پر خاندانی نظام کے ادارے کو برباد کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں، کہیں تعلیمی نصاب میں مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کر کے انگریزوں، سکھوں اور ہندوؤں کی سوانح عمریوں کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں تو کہیں جنسی بے راہ روی کو فروغ دینے کے لیے بچیوں کو ’’سیکس ایجوکیشن‘‘ دلوانے پر غور کیا جاتا ہے اور کہیں اسلامی حدود، قصاص اور تعزیرات کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

جنسی تعلیم کو لازمی قرار دینے والے ممالک میں امریکہ سر فہرست ہے۔ جنسی تعلیم کے نتیجے میں امریکہ کو جو خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے اس کی حالت ملاحظہ کیجئے۔ امریکی معاشرے میں ہر منٹ میں دو عورتیں جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں ان میں سے نوے فیصد کی عمریں چوبیس سال سے کم ہوتی ہیں۔اس محتاط اندازے کے مطابق ایک گھنٹہ میں ایک سو بیس واقعات رونما ہوتے ہیں اور چوبیس گھنٹے یعنی ایک دن میں دو ہزار آٹھ سو اسی واقعات یقینی طور پر پیش آتے ہیں یہ تمام واقعات وہ ہیں جن کی رپورٹ پولیس تھانوں میں درج ہے جبکہ غیر درج شدہ واقعات اس کے علاوہ ہیں۔ پاکستان میں 2009ء کی رپورٹ کے مطابق 928 جنسی تشدد یعنی گینگ ریپ کے واقعات پیش آچکے ہیں جبکہ 274 عمومی یعنی ایک مرد کی عورت کی عزت لوٹنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔ یہ کل 1202 واقعات ہیں، یومیہ کے اعتبار سے پاکستان میں چار خواتین اجتماعی یا انفرادی آبرو ریزی کا شکار ہوتی ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ آٹھ سال کے دوران ان واقعات میں کتنا اضافہ ہو گیا ہو گا۔ جنسی تعلیم دلوانے کا لازمی نتیجہ ’’زینب کیس‘‘ جیسے واقعات میں کمی کے بجائے اضافہ ہے اور ملک خداد کی بچیوں اور بیٹیوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کے بجائے خطرے میں ڈالنا ہے۔بچوں اور بچیوں کو ’’سیکس ایجوکیشن‘‘ دلوانے سے یہ درندگی ختم نہیں ہو گی بلکہ اور زیادہ بڑھے گی اور قریبی رشتوں کے احساسات کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا یہاں تک کہ والدین بھی اپنی بیٹیوں سے محبت اور پیار کرنے میں جھجک محسوس کریں گے۔ اس کا صرف ایک ہی حل ہے اور وہ ہے اسلامی سزاؤں کو قانون کا حصہ بنا کر اُسے مجرموں پر نافذ کرنا۔سزائیں عام مہذب شہریوں کے لیے نہیں ہوا کرتی جس پر یہ اعتراض کیا جائے کہ یہ معاذ اللہ جانوروں کی سزائیں ہیں۔ ہمارے کرایے کے دانشوران نے اسلامی اقدار کو مذاق بنانے اور اُن پر اعتراضات کرنے کی گراں قدر ذمہ داری قبول کر کے بڑے احسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں۔ خصوصاً اسلامی سزاؤں قصاص، حدود اور تعزیرات کا تصور ہی ختم کرنا چاہتے ہیں جبکہ معاشرے کو بے حیائی سے پاک کرنے اور اِس جیسے واقعات کے روک تھام کے لیے جو طریقہ کار اور سزائیں احکم الحاکمین نے مقرر کیں ہیں اُن کو نظر انداز کر کے معاشرے میں بے حیائی کو روکنا تو درکنار بے حیائی میں اضافہ کا سبب بنتی ہیں۔ ایک شخص کو اسلامی شریعت کے مطابق سزا دی جائے جرائم کی شرح خود بخود نہ ہونے کے برابر ہو جائے گی، اگر مستقل طور پر نہیں تو تجربہ کی بنیاد پر ہی کچھ وقت کے لیے ایسا کر کے دیکھ لیں۔ہمارے سیاست دانوں، دانشوروں اور میڈیا کو بیرونی ایجنڈا کو پورا جو کرنا ہے۔ پرایے کلچر کو پاکستان میں انجیکٹ جو کرنا ہے۔ حدود اور تعزیرات کے ضمن میں اگر آپ افغانستان میں طالبان حکومت کی مثال لے لیں تو چار سال کے دوران اس جیسا ایک واقعہ دیکھنے کا اتفاق بھی نہیں ہوا ہو گا۔

ہمیں مسلمان اور پاکستان کے ایک ذمہ دار شہری ہونے کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ والدین کو چاہیے کہ اولاد کی تربیت کو زندگی کے بڑے بڑے مقاصد میں شمار کر کے اولین ترجیحات کی بنیاد پر سرانجام دینے کی کوشش کریں۔ وہ بچوں کی ناجائز خواہشات ہر گز پوری نہ کریں۔ وہ بچوں اور بچیوں اور ’’ٹی وی،انڈین فلموں اور بڑے والے موبائلوں‘‘ سے دور رکھیں اور بچوں کو وقت دے کر ان کی ذہن سازی کریں۔ تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ بچوں میں شعور و آگہی پیدا کریں۔ انہیں زندگی کے مقاصد سے آشنا کریں اور مقاصد کے حصول کے لیے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کریں۔ پارلیمنٹیرین اور قانون دان حضرات کو چاہیے کہ وہ معاشرے کے ایسے ’’درندوں‘‘ کو اسلامی سزائیں دے کر عبرت کا نشانہ بنائیں۔ وہ شرعی حدود کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی تنفیذ کی کوشش کریں اور ’’اللہ تعالیٰ سے زیادہ رحیم بننے‘‘ کی کوشش نہ کریں۔ یہ انتہائی احساس ذمہ داری کا لمحہ ہے۔ اگر ہم نے آج معاشرے میں اپنے کردار کا احساس نہ کیا تو کل کو معصوم ’’زینب‘‘ کی بجائے یہ درندگی ہمارے گھروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
 
Top