نیک عمل کرنے کی توفیق ‘ اس کی قبولیت اور اس پر اجر و ثواب

۔
نیک عمل کرنے کی توفیق ‘ اس کی قبولیت اور اس پر اجر و ثواب

نیک اعمال ایک مسلمان کارأس المال ہیں‘ ان ہی کیلئے وہ پیدا ہوا‘ ان ہی کا حساب ہوگا اور ان ہی پر اس کی دنیا کی پاکیزہ زندگی اور آخرت میں جنت کی زندگی کا دارومدار ہے ۔ اللہ اور رسول اللہ ﷺ نے نیک اعمال کی طرف رغبت دلائی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی نیک اعمال قبول کرنے اور ان پر دنیا و آخرت میں بہترین اجر و ثواب دینے کا وعدہ کیا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:

وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَ۔ٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا ﴿١٢٤﴾ سورة النساء
’’ اور جو بھی نیک کام کرے گا چاہے وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ صاحب ایمان بھی ہو- ان سب کو جنّت میں داخل کیا جائے گا اور کھجور کی گٹھلی کے شگاف برابر بھی ان کا حق نہ مارا جائے گا ‘‘۔(١٢٤) سورة النساء

لہذا مومن بندے کو نیک اعمال کرنے کا بے حد حریص ہونا چاہئے اور ان پر اللہ سے اجر و ثواب کا امید رکھنا چاہئے اور شروط‘ آداب اور حقوق کا لحاظ رکھتے ہوئے نیک عمل صحیح طریقے سے مکمل کرنا چاہئے۔

جیسا کہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’ اللہ تعالٰی کو یہ بات پسند ہے کہ جب عامل عمل کرے تو مضبوط اور مکمل کرے‘‘۔( صحیح الجمامع)

ہر مسلمان نیک اعمال کرنا چاہتا ہے لیکن ہر کسی کو اس کی توفیق نہیں ہوتی کیونکہ توفیق تو اللہ تعالٰی کی طرف سے ملتی ہے۔ نیک عمل کی توفیق انسان کی دل کی تڑپ‘ دعائیں اور بعض شرائط پوری کرنے پر ملتی ہے۔ پھر نیک عمل انجام دینے کے بعد اس کی قبولیت اور حفاظت کے بھی بعض شروط ہیں۔ ان سب کا جاننا ایک مسلمان کیلئے بے حد ضروری ہے۔
اگرچہ مضمون کافی طویل ہے لیکن ذیل میں پہلے ان شروط کی فہرست دی گئی ہے اور پھر اختصار کے ساتھ انہیں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اللہ تعالٰی ہماری اس عمل کو قبول فرمائے۔ آمین۔

اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(1) ۔۔ ایمان
اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(2) ۔۔ اخلاص
اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(3) ۔۔ محبت الٰہی
اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(4) ۔۔ خشیتِ الٰہی
اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(5) ۔۔ اتباعِ سنت
اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(6) ۔۔ احتساب فی العمل
اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(7) ۔۔ صدق فی العمل
اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(۔8۔) ۔۔ اللہ سے ملاقات
اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(9) ۔۔ اللہ کی کتاب کا تأثر قبول کرنا
اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(10) ۔۔ حرام سے اجتناب
اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(11) ۔۔ گناہوں کو چھوڑ دینا
اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(12) ۔۔ حقوق العباد کو ادا کرنا
اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(13) ۔۔ دعا کرنا

اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(1) ۔۔اللہ پر ایمان:
ایمان باللہ نیک اعمال کی توفیق‘ اسکی قبولیت اور اس پر اجر ملنے کی پہلی شرب ہے۔ایمان کے بغیر کوئی بھی عمل قبول نہیں ہو سکتا۔ فرمانِ الٰہی ہے:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٩٧﴾ سورة النحل
’’ جو کوئی بھی نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مؤمن ) ایمان والا (ہو تو ہم اسے (دنیا) میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ان کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق عطا کریں گے‘‘۔

وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَ۔ٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا ﴿١٢٤﴾ سورة النساء
’’ اور جو بھی نیک کام کرے گا چاہے وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ صاحب ایمان بھی ہو- ان سب کو جنّت میں داخل کیا جائے گا اور کھجور کی گٹھلی کے شگاف برابر بھی ان کا حق نہ مارا جائے گا ‘‘۔

وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَ۔ٰئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا ﴿١٩﴾ سورة الإسراء
’’ اور جو آخرت کا طلب گار ہو اور اس کے لیے جیسی کوشش کرنی چاہئے ویسی کوشش بھی کرے اور وہ ایمان والا بھی ہو‘ تو ایسے لوگوں کی کوشش (اللہ کے ہاں ) مشکور ہو گی ‘‘۔

اور بھی بہت سی آیات ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالٰی نے عمل صالح کی قبولیت کو ایمان کے ساتھ مشروط کیا ہے۔

اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(2) ۔۔ اخلاص:
اخلاص یہ ہے کہ نیک عمل خالصتاً اللہ کیلئے ہو اور اس کا مقصود دنیا کا حصول‘ ریاکاری یا غیر اللہ کی خوشنودی نہ ہو۔ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:

فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا ﴿١١٠﴾ سورة الكهف
’’ پس جو شخص اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے‘‘۔
اسی طرح فرمایا:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّ۔هَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ ﴿٥﴾ سورة البينة
’’اور انہیں صرف یہی حکم دیا گیا تھا کہ الله کی عبادت کریں دین کو اسی کیلئے خالص کرتے ہوئےبالکل یکسُو ہو کراورنماز قائم کریں اور زکواة دیں اور یہی محکم دین ہے ‘‘۔
اور فرمایا:
هُوَ الْحَيُّ لَا إِلَ۔ٰهَ إِلَّا هُوَ فَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۗ الْحَمْدُ لِلَّ۔هِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٦٥﴾ سورة غافر
’’وه زنده ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم خالص اس کی عبادت کرتے ہوئے اسے پکارو، تمام خوبیاں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘۔
اور فرمایا:
فَادْعُوا اللَّ۔هَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ﴿١٤﴾ سورة غافر
’’پس تم اللہ کو پکارتے رہو اس کے لیے دین کو خالص کر تے ہوئےاگرچہ کافر برا مانیں ‘‘۔
اور فرمایا:
فَاعْبُدِ اللَّ۔هَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ (٢)أَلَا لِلَّ۔هِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ ۔۔۔۔(۳)سورة الزمر
’’پس آپ اللہ ہی کی عبادت کریں، اسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے۔ خبردار! اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خالص عبادت کرنا ہے‘‘۔

اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(3) ۔۔ محبت الٰہی اور اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(4) ۔۔خشیتِ الٰہی:
یہ دونوں شرائط بھی ضروری ہے کیونکہ ہر وہ عمل جو خشیتِ الٰہی اور محبتِ الٰہی پر مبنی نہ ہو، وہ عبادت نہیں ہے۔ اللہ کو ’غایت درجے کی محبت جو عاجزی اور انکساری کے ساتھ ہو‘ مطلوب ہے جیسا کہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّ۔هِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّ۔هِ ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّ۔هِ ۗ۔۔۔ (۱۶۵) سورۃ البقرۃ
’’ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیئے اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں‘‘
اور فرمایا:
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١﴾ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴿٢﴾۔سورة المؤمنون
’’یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کرلی (۱) جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں (۲)‘‘

محبت اور خشیت الٰہی کو اہل ایمان کی علامات ہیں کہ جن کی وجہ کر انہیں نیک اعمال کرنے سعادت نصیب ہوتی ہے اور وہ قبول ہوتی ہیں۔
ابن کثیر رحمہ اللہ سورہ فاتحہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’ شریعت میں عبادت نام ہے محبت‘ خشوع‘ خضوع اور خوف کے مجموعے کا ‘‘۔
قرآن میں درج انبیا علیہم السلام کی دعاؤں میں اللہ سے محبت اورخشیت نمایا ہیں۔ اس کے علاوہ بے شمار آیتوں اور احادیث میں عبادت کے ساتھ محبت و خشیت اور عاجزی و انکساری کا تذکرہ نیک عمل کی توفیق اور قبولیت کی شرط ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔

اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(5) ۔۔ اتباعِ سنت:
عمل اگر سنت کے مطابق نہ ہو تو وہ کھوٹہ سکہ یا گھٹیا مال ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ قرآن و احادیث اتباع سنت کے احکام سے بھری پڑی ہیں۔ اللہ تعالٰی سے محبت کرنے والوں کیلئے ضروری ہے کہ نبی ﷺ کی اتباع کریں۔
فرمان باری تعالٰی ہے:
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّ۔هَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّ۔هُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّ۔هُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (۳۱) سورة آل عمران
’’(آپ ﷺ) فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ جس نے بھی کوئی ایسا عمل کیا جو ہمارے طریقے پر نہیں تو وہ عمل مردود ہے‘‘۔

امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ نبی کریم ﷺ کی سنت بھی نوح علیہ السلام کی کشتی کی مانند ہے‘ جو اس میں سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جو پیچھے رہا وہ غرق ہوا‘‘۔
سنت کے مطابق کیا گیا عمل قبول ہونے کی بے شمار دلائل ہیں ‘ جنکی تفصیل یہاں ممکن نہیں۔

اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(6) ۔۔ احتساب فی العمل:
اس کا معنی یہ ہے کہ عملِ صالح اللہ تعالٰی سے اجر کی امید کی جائے گو یا کہ یہ لفظ حساب سے ماخوذ ہے۔ احادیث نبویہ میں احتساب کا ذکر کثرت سے آتا ہے ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’جس نے ایمان و احتساب ) ایماناً و احتساباً ( کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اس کے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں، جو شخص رمضان کی راتوں کا قیام کرے ایمان و احتساب کے ساتھ ، تو اس کے بھی تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور جو شخص لیلتہ القدر کا قیام کرے ایمان اور احتساب کے ساتھ اس کے بھی تمام گزشتہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں‘‘۔ (بخاری)
’’ احتساباً ‘‘ ۔۔ کا معنی ’’ اللہ تعالٰی کی رضا او ر اس کے ثواب کی طلب میں کوئی عمل کرنا‘‘۔ اعمال صالحہ اور مکروہات میں احتساب یہ ہے کہ اس پر اجر کو طلب کرنا اور برضا و تسلیم اور صبر کے ساتھ اُسے حاصل کرنا۔
اس معنی میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ’’ لوگو! اپنے اعمال پر اللہ رب العزت سے اجر کی امید رکھو‘ جس نے اپنے عمل پر اللہ سے اجر کی امید رکھی اس کی عمل اور امید دونوں کا ثواب اس کے نامۂ اعمال میں لکھ دیا جاتا ہے‘‘۔
ایک حدیث قدسی میں ہے کہ ’’ میں نے جسکی دونوں آنکھیں سلب کرلیں اور پھر اس نے صبر کیا اور اجر کی امید رکھی تو میں انکے عوض اُسے جنت عطا کروں گا‘‘۔
ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں: ’’ مسلمان پر تعجب ہےکہ جب اسے خیر پہنچے تو اللہ کی تعریف کرتا ہے اور جب اسے مصیبت پہنچے تو صبر کرتا ہے اور اجر کی امید رکھتا ہے‘ مومن کو ہر چیز پر اجر سے نوازا جاتا ہے حتٰی کہ اس لقمے پر بھی جسے وہ اپنے منہ کی طرف اٹھاتا ہے‘‘۔( اسے احمد نے قوی سند کے ساتھ روایت کیا ہے)۔
ایک شخص نے آپ ﷺ سے سوال کیا مجھے بتلائیے کہ’’ اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کر دیا جاؤں جبکہ میں صبر اور اجر کی امید کروں اور میدان جہاد میں دشمن کی طرف رُخ کرکے جوانمردی سے جان دوں ‘ نہ کہ پیٹھ پھیر کر بھاگتے ہوئے تو کیا میری خطائیں معاف کر دی جائیں گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جی ہاں! سوائے قرض کے‘‘ ۔۔۔( رواہ احمد)
لہذا یہ بات ثابت ہوئی کہ اعمال صالحہ اور وہ آزمائش جو گناہوں کا کفارہ بنتی ہیں ان کیلئے شرط ہے کہ اجر کی امید رکھی جائے۔ مصیبت پر اجر کی امید نہ رکھنا گویا دوسری مصیبت ہے کہ یہ اجر سے محرومی ہے‘ کیونکہ کسی بھی عمل کے صالح ہونے کیلئے احتساب شرط ہے بصورت دیگر وہ عمل عبادت کے بجائے عادت شمار ہوگا۔
لہذا جو لوگ یہ بات کہتے ہیں کہ ہم جنت کیلئے عمل نہیں کرتے‘ وہ اپنی نیک عمل میں احتساب کی شرط اور سنت کو پوری نہیں کرتے جو کہ بہت بڑی گمراہی ہے۔
احتساب کی مثال یوں ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی مطلوب کام پر ایک انتہائی قیمتی انعام مقرر کرتا ہے اب جو شخص اس انعام میں رغبت رکھے وہ اس کا محبوب ہوگا اور جو انعام سے بے توجہی کرے وہ اس انعام مقرر کرنے والے کو ناپسند ہوگا۔

اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(7) ۔۔ صدق فی العمل:
صدق فی العمل یعنی انسان اپنے عمل میں سچا ہو۔ صدق کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کمال عزم کے ساتھ اللہ کے راستے پر چلتے ہوئے نیک عمل کرے جس عمل پر ابھارنے والی چیز صرف اللہ کی رضا ہو اور اس عمل سے دنیاوی امور یا نفسانی خواہشات کا تعلق نہ ہو۔
اللہ تعالٰی نےفرمایا:
لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّ۔هِ وَرِضْوَانًا وَيَنصُرُونَ اللَّ۔هَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَ۔ٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ ﴿٨﴾ سورة الحشر
’’(مال فییٔ وغیرہ) ان فقراء مہاجرین کیلئے ہے کہ جو اپنے گھروں اور اموال سے نکال دیئے گئے کہ وہ اپنے رب کا فضل اور اس کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں‘ یہی سچے لوگ ہیں‘‘۔

یہاں اللہ تعالیٰ نے مہاجرین کو صادقین کا لقب دیاکیونکہ اس موقع پر مہاجرین کا مقصد صرف اللہ کی رضا کا حصول تھا۔
لہذا عمل صالح کی قبولیت کیلئے مومن کا اپنے عمل میں سچا ہونا (صدق فی العمل) ضروری ہے۔

بعض لوگ سیر سپاٹے کو جاتے ہیں اور اسے دعوت الٰی اللہ کا نام دیتے ہیں یا کوئی مال جمع کرنے کیلئے مدرسہ بناتا ہے یاکوئی کسی کے یہاں کھانے پینے کیلئے جاتا ہے اور اسے اللہ کیلئے ملاقات قرار دیتا ہے۔۔۔ تو یہ صدق فی العمل نہیں ہوا۔
صدق جیسے عمل میں ہوتا ہے اسی طرح اعتقاد‘ قول اور حال میں بھی ہوتا ہے۔

اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(۔8۔) ۔۔ اللہ سے ملاقات اور اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(9) ۔۔ اللہ کی کتاب کا تأثر قبول کرنا:
مومن اللہ سے ملاقات کا شوق اور اللہ کے سامنے پیش ہونے کا خوف رکھتا ہے جو اسے گناہوں سے بچنے اور نیک اعمال کرنے کا رغبت دلاتا ہے اور اللہ کی کتاب سے متاثر ہونے کا مطلب ہے کہ یہ اچھی طرح جان لے کہ کتاب الٰہی میں جو حکم ہے اس کی اتباع اور پیروی میں سعادت ہے اور اس کی مخالفت میں ہلاکت ہے۔ غیر اللہ سے متاثر ہوکر کوئی عمل کرنا‘ مثلاً کوئی شخص نیک عمل کرتا ہے لیکن اللہ کا حکم سمجھ کر نہیں بلکہ اپنی پارٹی‘ فرقہ‘امام ‘ پیر و مرشدوغیرہ سے متاثر ہوکر تو یہ کسی بھی طرح اعمال صالحہ قرار نہیں پائے گا۔
اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُم بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا ﴿١٠٣﴾ الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا ﴿١٠٤﴾ أُولَ۔ٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا ﴿١٠٥﴾ سورة الكهف
’’ آپ فرما دیجئے: کیا ہم تمہیں ان لوگوں کے بارے میں نہ بتلائیں جو اعمال کے حساب سے سخت خسارہ پانے والے ہیں)١٠٣( ، یہ وہ لوگ ہیں جن کی ساری جد و جہد دنیا کی زندگی میں ہی برباد ہوگئی اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم بڑے اچھے کام کر رہے ہیں )١٠٤(، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنےرب کی آیتوں کا اور اس کی ملاقات کا انکار کیا پس ان کے سارے اعمال ضائع ہوگئے۔ اس لئے ہم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے (١٠٥)‘‘۔

یہ آیتیں مندرجہ بالا شروط پر دلیل ہیں چیونکہ ان لوگوں کے اعمالان ہی دو وجوہات کی وجہ سے برباد ہوئے:
۱۔ اللہ کی آیات سے متاثر نا ہونا اور
۲۔ اللہ سے ملاقات کا انکار

اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(10) ۔۔ حرام سے اجتناب:
حرام سے اجتناب بھی بڑی اہم شرط ہے کہ انسان اپنے کھانے پینے اور لباس میں حرام سے اجتناب کرے ورنہ اسکی تمام عبادات حتیٰ کہ دعا بھی باطل ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّ۔هِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ﴿١٧٢﴾ سورة البقرة
’’اے ایمان والو پاکیزہ روزی کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی اور الله کا شکر کرو اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو‘‘۔
اور فرمایا:
يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ ﴿٥١﴾ سورة المؤمنون
’’ اے رسولوں کی جماعت! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو‘ بیشک تم جو کچھ کرتے ہو میں اسے خوب جانتا ہوں۔ ‘‘۔۔۔ (۵۱)

ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کا تذکرہ کیا جو لمبا سفر کرتا ہے‘ پراگندہ حال ہے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کرکے یارب‘ یا رب ! کی صدائیں بلند کرتا ہے‘ جبکہ اس کا کھانا حرام‘ اس کا پینا حرام‘ اس کا لباس حرام‘ اس کی پرورش ہی حرام پر ہوئی ہے تو ایسے شخص کی دعا کیونکر قبول ہو سکتی ہے۔ ( مسلم )

اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(11) ۔۔ گناہوں کو چھوڑ دینا:
گناہوں کو چھوڑ دینا بھی ان شروط میں سے ہے جن سے لوگ تغافل کا شکار ہیں۔ اگرچہ اہل سنت کے نزدیک تمام گناہوں کا چھوڑنا نیک عمل کی شرط نہیں البتہ بعض گناہ ایسے ہیں کہ جو نیک عمل کی توفیق ملنے اور اسے قبول ہونے سے روک دیتے ہیں۔

مثلاً حدیث ہے کہ ’’ جو شخص شراب پی لے تو چالیس دن تک اسکی نماز قبول نہیں ہوتی‘‘۔ (نسائی‘ مسند احمد)
اسی طرح قطع رحمی کے بارے میں حدیث ہے: ’’ رشتہ داری کو توڑنے والے کا عمل قبول نہیں ہوتا‘‘۔) مسند احمد)

اس کے علاوہ بھی بعض گناہیں ہیں ‘ نیک عمل کیلئے جن کا چھوڑنا ضروری ہے۔

اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(12) ۔۔ حقوق العباد کو ادا کرنا:
حقوق العباد کو صحیح طور پر ادا کرنا‘ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرنا اور اللہ کی کسی مخلوق کو خاص کر مسلمانوں کو تکلیف نہ پہنچانا نیک عمل کی توفیق‘ اسکی قبولیت اور خاص کر اسکی حفاظت کیلئے نہایت ہی ضروری ہےورنہ عمل برباد ہو جاتا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے ایک بار صحابہ کرامؓ سے پوچھا: تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟
صحابہؓ نے فرمایا کہ ہم تو مفلس اسے کہتے ہیں جس کے پاس روپیہ پیسہ یا مال و متاع نہ ہو۔
تو آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن بہت سی نمازیں‘ روزےاور زکاۃ و خیرات لے کر آئے گا لیکن اس حال میں آئے گا ‘ کہ کسی کا مال کھایا ہوگا‘ کسی کا خون ناحق بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا۔ لہذا اس کی نیکیوں میں سے کچھ اس فلاں کو اور کچھ اس فلاں کو دے دی جائیں گی‘ حق والوں کا حق پورا ہونے سے پہلے اگر اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں تو ان (حق والوں) کی خطائیں اس پر ڈال کر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم)

اس شخص کی حالت دیکھیں جو نیکیوں کے باوجود جہنم میں صرف اس وجہ سے ڈال دیا جائے گا کہ اس کا اخلاق اچھا نہ تھا اور وہ لوگوں کو تکلیف دیتا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’ جس نے اپنے بھائی کی بے عزتی کی یا کسی بھی قسم کا کوئی ظلم کیا ہے تو اسے چاہئے کہ آج ہی اس کی تلافی کر لے اس دن سے پہلے کہ جب درہم اور دینار نہ ہوں گے‘ اگر اس (ظالم) کے کچھ نیک عمل ہوئے تو اس کے ظلم کے بقدر اس سے لے لئے جائیں گے اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوئیں تو اس کے ساتھی (مظلوم) کے گناہوں کو لیکر اس پر ڈال دیا جائے گا‘‘۔

اللہ ہمیں معاف کرے۔ آج بہت سے دین کے دعویدار ہیں جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں‘ ان پر بہتان تراشی کرتے ہیں اور گالیوں سے نوازتے ہیں حالانکہ ان کا قصور اس کے سو کچھ نہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لائے اور شرک و بدعت کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔

اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(13) ۔۔ دعا کرنا:
اعمال صالحہ کی توفیق‘ اسکی قبولیت اور حفاظت کیلئے دعاؤں کا اہتمام کرنا نہایت ہی ضروری ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے ہر نماز کے بعد پڑھنے کی جو دعاسکھائی ہے وہ اعمال صالحہ کیلئے جامع دعا ہے۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسولاللہ ﷺنے انکا ہاتھ پکڑا اور فرمایا :اے معاذ میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ ہر نماز کے بعد اس دعا کو پڑھنا نہ چھوڑنا:

اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ ۔
’’اے اللہ میری مدد کر اپنے ذکر و شکر کرنے پر اور اچھی طرح عبادت کرنے پر‘‘

اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا:

رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ ﴿١٩﴾ سورة النمل
’’ اے میرے پروردگار! مجھے ہمیشہ توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکریہ ادا کر سکوں جن سے تو نے مجھے اور میرے والدین کو نوازا ہے اور ایسا نیک عمل کروں جسے تو پسند کرے اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں داخل کر(١٩)‘‘ ۔ ۔

اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالٰی نےچالیس سال کی پختہ عمر پر پہنچنے پر اپنے بندوں جو دعاسکھائی ہے:

رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي ۖ إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴿١٥﴾
سورة الأحقاف
’’اے میرے رب: مجھے توفیق دے کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر فرمایا ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک اعمال کروں جن سے تو راضی ہو اور میرے لئے میری اولاد میں نیکی اور خیر رکھ دے۔ بیشک میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں یقیناً فرمانبرداروں میں سے ہوں‘‘ ۔ ۔

اور نیک عمل کرنے کے بعد اس کی قبولیت کی دعا کرنا بھی ضروری ہے۔ جیسا کہ بیت اللہ شریف کی تعمیر کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اللہ تعالٰی نے قرآن میں فرمایا ہے:

وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿١٢٧﴾ سورة البقرة
’’ اور (یاد کرو) جب ابراہیم اور اسماعیل (علیھما السلام) خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے (تو دونوں دعا کر رہے تھے) کہ اے ہمارے رب! تو ہم سے (یہ خدمت) قبول فرما لے، بیشک تو خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے‘‘ ۔ (۱۲۷)

اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اعمالِ صالحہ کا اہتمام کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ انہیں قبول فرمائے ‘ انہیں ہماری دنیا اور آخرت کیلئے ذخیرہ بنائے اور ان پر ہمیں دنیا اور آخرت میں بہترین اجر سے نوازے۔ آمین یا رب العالمین۔

دعاؤں کا طالب: محمد اجمل خان

حوالہ: اس مضمون کو ’’ الفوئد۔ تزکیۂ نفس‘ علم القلوب اور محبت الٰہی کے فوائد ‘‘ ( تالیف: ابی محمد امین اللہ البشاری‘ مترجم: مولانا محمد علی صدیقی ) نامی کتاب سے استفادہ کرتے ہوئے عام فہم لفظوں تحریر کی گئی ہے۔
۔
 
Top