معاویہ منصور
محفلین
پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے گزشتہ دنوں کہا: نیٹو سپلائی کی بندش کے دو پہلو ہو سکتے ہیں، سازش یا حماقت۔ وزیر موصوف ان میں حماقت کا پہلو بالاتر قرار دیتے ہیں۔ جبکہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے نیٹو سپلائی روکنے والے امریکی ڈیوٹی پر ہیں۔ سوال یہ ہے اگر نیٹو سپلائی روکنے والے امریکی ڈیوٹی کر رہے ہیں تو کیا نیٹو سپلائی کے حامی پاکستان کے وفادار ہیں؟ اور جو امریکی ڈیوٹی پر نہیں ہیں ان کا نیٹو سپلائی کے حوالے سے کیا ردعمل ہے؟
وطن عزیز کا المیہ رہا ہے سیاست برائے سیاست اور مخالفت برائے مخالفت کے نام پر اہم قومی ایشوز کو تنازعات کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ نیٹو سپلائی کے حامیان کی بات چھوڑیں، دکھ تو اس بات کا ہے نیٹو سپلائی کے مخالفین کی صفوں میں اتحاد و اتفاق مفقود اور اختلاف بلکہ انتشار نمایاں ہے۔ تحریک انصاف، جمیعت علمائے اسلام، دفاع پاکستان کونسل و دیگر مذہبی جماعتوں کا نیٹو سپلائی کے حوالے سے ایک مشترکہ موقف یہ رہا ہے، یہ پاکستان کی سلامتی کی قیمت پر ہرگز نہیں گزرنی چاہیے۔ ڈرون حملوں پر بھی ان تمام جماعتوں کا موقف تقریبا یکساں ہے۔ انتخابات سے پہلے تک نون لیگ کا بھی یہی موقف تھا تاہم اب وہ اقتدار گنگا میں اشنان کرنے میں مصروف ہے۔ المیہ تو یہ ہے امریکا اپنی افواج کو تمام لاجسٹک سپورٹ بھی پاکستان کے راستے فراہم کرتا ہے اور بدلے میں پاکستان کو ڈرون حملوں کی صورت میں نقد ادائیگی بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایسے میں پاکستان و اسلام پسند جماعتوں کے باہمی اختلافات اس کے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ ثابت ہو رہے ہیں۔ اگر یہ تمام جماعتیں ایک مشترکہ حکمت عملی وضع کر کے ایک طریقہ کار پر اکتفا کر لیتیں، شائد امریکا کے آرام و سکون میں کچھ خلل بھی پڑتا۔
امریکا اس وقت افغانستان میں بے بس ہے اور نکلنے کی راہیں تلاش کر رہا ہے۔ سازوسامان کی منتقلی کا پاکستان سے سستا ترین روٹ اسے میسر نہیں۔ ایسے میں پاکستان امریکا کی ضرورت سے زیادہ مجبوری بن چکا ہے، اگرچہ اپنی اس مجبوری پر قابو پانے کے لئے امریکا ایران کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی شروع کئے ہوئے ہے۔ سنجیدگی سے کوشش کی جائے تو امریکا سے ہر بات یا کم از کم اکثر باتیں منوائی جا سکتی ہیں۔ لیکن یہاں بھی امریکا کی تقسیم کرو اور حکومت کرو والی پالیسی کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان کے ہاتھ کچھ نہیں آ رہا اور امریکا افغانستان کے شکنجے سے اپنی جان بھی چھڑا رہا ہے۔
تحریک انصاف نے ڈرون حملوں کے معاملے پر بجائے صوبائی حکومت کا اختیار استعمال کرنے کے، دھرنے کا راستہ اپنایا تو دیگر جماعتیں اس سے لاتعلق نظر آ رہی ہیں۔ تحریک انصاف نے بھی دیگر جماعتوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کی بجائے سولو فلائٹ پر اکتفا کیا۔ نتیجہ یہ ہے نیٹو سپلائی کسی حد تک ہی روکی جا سکی اور امریکا پر کوئی خاص دباو نہ ڈالا جا سکا۔ بقول رانا ثنا اللہ نیٹو کنٹینر اب دن کی بجائے رات کو گزرتے ہیں جب دھرنا دینے والے گھروں کو جا چکے ہوتے ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہو رہا ہے تو یہ دھرنا سازش سے زیادہ حماقت ثابت ہو رہا ہے۔ اور حماقت سے بڑھ کر ایک مذاق کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اس سے زیادہ سے زیادہ تحریک انصاف کی سیاسی پوائنٹ سکورنگ میں اضافہ ہو سکتا ہے جبکہ اس مذاق کا نشانہ پاکستان بحیثیت ملک اور پاکستانی بحیثیت قوم بن رہے ہیں۔ اس طرح اگر دھرنا دینے والے امریکی ڈیوٹی پر نہیں تو امریکا مخالفت بھی ثابت نہیں کر پا رہے۔ اور جو امریکا مخالف ہیں، عملا وہ بھی امریکا کے لئے کوئی دشواری پیدا کرنے میں کامیاب نظر نہیں آ رہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا تمام جماعتیں متفق ہو کر ایسا فیصلہ کرتیں جو پاکستان کے لئے شرمندگی کی بجائے نیک نامی کا سبب بنتا اور جس سے پاکستان کے رسوائی کی بجائے حقیقی فائدہ حاصل ہوتا۔
وطن عزیز کا المیہ رہا ہے سیاست برائے سیاست اور مخالفت برائے مخالفت کے نام پر اہم قومی ایشوز کو تنازعات کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ نیٹو سپلائی کے حامیان کی بات چھوڑیں، دکھ تو اس بات کا ہے نیٹو سپلائی کے مخالفین کی صفوں میں اتحاد و اتفاق مفقود اور اختلاف بلکہ انتشار نمایاں ہے۔ تحریک انصاف، جمیعت علمائے اسلام، دفاع پاکستان کونسل و دیگر مذہبی جماعتوں کا نیٹو سپلائی کے حوالے سے ایک مشترکہ موقف یہ رہا ہے، یہ پاکستان کی سلامتی کی قیمت پر ہرگز نہیں گزرنی چاہیے۔ ڈرون حملوں پر بھی ان تمام جماعتوں کا موقف تقریبا یکساں ہے۔ انتخابات سے پہلے تک نون لیگ کا بھی یہی موقف تھا تاہم اب وہ اقتدار گنگا میں اشنان کرنے میں مصروف ہے۔ المیہ تو یہ ہے امریکا اپنی افواج کو تمام لاجسٹک سپورٹ بھی پاکستان کے راستے فراہم کرتا ہے اور بدلے میں پاکستان کو ڈرون حملوں کی صورت میں نقد ادائیگی بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایسے میں پاکستان و اسلام پسند جماعتوں کے باہمی اختلافات اس کے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ ثابت ہو رہے ہیں۔ اگر یہ تمام جماعتیں ایک مشترکہ حکمت عملی وضع کر کے ایک طریقہ کار پر اکتفا کر لیتیں، شائد امریکا کے آرام و سکون میں کچھ خلل بھی پڑتا۔
امریکا اس وقت افغانستان میں بے بس ہے اور نکلنے کی راہیں تلاش کر رہا ہے۔ سازوسامان کی منتقلی کا پاکستان سے سستا ترین روٹ اسے میسر نہیں۔ ایسے میں پاکستان امریکا کی ضرورت سے زیادہ مجبوری بن چکا ہے، اگرچہ اپنی اس مجبوری پر قابو پانے کے لئے امریکا ایران کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی شروع کئے ہوئے ہے۔ سنجیدگی سے کوشش کی جائے تو امریکا سے ہر بات یا کم از کم اکثر باتیں منوائی جا سکتی ہیں۔ لیکن یہاں بھی امریکا کی تقسیم کرو اور حکومت کرو والی پالیسی کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان کے ہاتھ کچھ نہیں آ رہا اور امریکا افغانستان کے شکنجے سے اپنی جان بھی چھڑا رہا ہے۔
تحریک انصاف نے ڈرون حملوں کے معاملے پر بجائے صوبائی حکومت کا اختیار استعمال کرنے کے، دھرنے کا راستہ اپنایا تو دیگر جماعتیں اس سے لاتعلق نظر آ رہی ہیں۔ تحریک انصاف نے بھی دیگر جماعتوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کی بجائے سولو فلائٹ پر اکتفا کیا۔ نتیجہ یہ ہے نیٹو سپلائی کسی حد تک ہی روکی جا سکی اور امریکا پر کوئی خاص دباو نہ ڈالا جا سکا۔ بقول رانا ثنا اللہ نیٹو کنٹینر اب دن کی بجائے رات کو گزرتے ہیں جب دھرنا دینے والے گھروں کو جا چکے ہوتے ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہو رہا ہے تو یہ دھرنا سازش سے زیادہ حماقت ثابت ہو رہا ہے۔ اور حماقت سے بڑھ کر ایک مذاق کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اس سے زیادہ سے زیادہ تحریک انصاف کی سیاسی پوائنٹ سکورنگ میں اضافہ ہو سکتا ہے جبکہ اس مذاق کا نشانہ پاکستان بحیثیت ملک اور پاکستانی بحیثیت قوم بن رہے ہیں۔ اس طرح اگر دھرنا دینے والے امریکی ڈیوٹی پر نہیں تو امریکا مخالفت بھی ثابت نہیں کر پا رہے۔ اور جو امریکا مخالف ہیں، عملا وہ بھی امریکا کے لئے کوئی دشواری پیدا کرنے میں کامیاب نظر نہیں آ رہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا تمام جماعتیں متفق ہو کر ایسا فیصلہ کرتیں جو پاکستان کے لئے شرمندگی کی بجائے نیک نامی کا سبب بنتا اور جس سے پاکستان کے رسوائی کی بجائے حقیقی فائدہ حاصل ہوتا۔