"نیند کیوں رات بھر نہیں آتی" (پیروڈی)

فاخرہ بھی نظر نہیں آتی
بازغہ بھی اِدھر نہیں آتی

اس کی منگنی تو ہم نے تڑ وادی
"نیند کیوں رات بھر نہیں آتی"

پہلے سیٹی پہ ہی وہ آجاتی
"اب کسی بات پر نہیں آتی"

اس کی شادی کی ہم کو دعوت تھی
"پر طبیعت ادھر نہیں آتی"

اس کے گوڈے ہیں میری گردن پر
"میری آواز گر نہیں آتی"

سڑ گیا بیٹھ کر میں توّے پر
بُو تجھے چارہ گر نہیں آتی؟

تیرا ابا کھڑا ہے رستے میں
کچھ تمہاری خبر نہیں آتی

تیری کزن بنی مری دشمن
موت اس کو مگر نہیں آتی

خط صبا کا پھڑا دیا گل کو
شرم تم کو مگر نہیں آتی
 
Top