نیند میں چہل قدمی ! وسعت اللہ خان

ٹھیک چالیس برس پہلے کا زمانہ ہے

ساڑھے پانچ لاکھ امریکی فوج ویتنام کی دلدل میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ امریکی وزیرِ دفاع رابرٹ میکنامارا کہہ چکے ہیں کہ یہ جنگ جیتنا مشکل ہے۔ آخری بھرپور کوشش کے طور پر مچھروں اور ویت کانگ گوریلوں پر زہریلی گیس ایجنٹ اورنج کا سپرے اور ہنوئی پر بی باون طیاروں کی کارپٹ بمباری شروع ہوچکی ہے۔

یہ دونوں اقدام اس خفیہ ملاقات کی تیاری کا حِصّہ ہیں جو پیرس میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر ہنری کیسنجر اور شمالی ویتنام کے وزیرِ خارجہ لی ڈک تھو کے درمیان ہونے والی ہے۔ اگر کوئی ان خفیہ مذاکرات سے لاعلم ہے تو وہ ہے امریکی کٹھ پتلی جنوبی ویتنامی حکومت۔ جسے اس وقت اعتماد میں لیا جائےگا جب کیمونسٹ شمالی ویتنام اور امریکہ میں سودا پٹ جائے گا۔

امریکہ صرف اتنی مہربانی کرےگا کہ جنرل تھیو سمیت جنوبی ویتنام کی چند بڑی کٹھ پتلیوں کو اپنے ساتھ لے جائےگا۔ ہزاروں چھوٹی کٹھ پتلیاں اپنے کنبوں سمیت شمالی ویتنام کی حکومت، ویت کانگ گوریلوں اور ان کشتیوں کے بل بوتے پر رہ جائیں گی جو انہیں بحیرہ جنوبی چین کے شارک زدہ سمندر میں یا تو ڈبو دیں گی یا کسی نہ کسی سرزمین تک لے جائیں گی۔اور یوں بے رحم سیاست کی ڈکشنری کو ایک نئی اصطلاح مل جائے گی ’ویتنامی بوٹ پیپل‘۔

ٹھیک بیس برس پہلے کا زمانہ ہے !

سرخ فوج کا آخری دستہ کابل میں نجیب اللہ کی بااعتماد حکومت چھوڑ کر دریائے آکسس عبور کر کے افغانستان سے سووئیت وسطی ایشیا میں داخل ہوچکا ہے۔وہ انتظامیہ جس نے افغان مجاہدین کو وائٹ ہاؤس بلا کر امریکی آزادی کے بانیوں کا اخلاقی ہم پلہ اور آزاد دنیا کے تحفظ کا ہراول دستہ قرار دیا تھا۔جس نے خلائی شٹل کولمبیا کی ایک پرواز افغان مجاہدین کے نام کی تھی۔ وہی امریکہ سووئیت فوجوں کے جاتے ہی افغانستان میں ایک وسیع البنیاد جمہوری حکومت کے قیام کا انتظار کیے بغیر اس ارضِ بے قسمت کو آپس میں برسرِ پیکار مجاہدین، پاکستان، ایران اور سعودی عرب کے رحم و کرم پر چھوڑ کر کمبل کی بکل مار روانہ ہوچکا ہوگا۔

ٹھیک بارہ برس پہلے کا زمانہ ہے !

پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرچکے ہیں اور طالبان نمائندے واشنگٹن میں محمکۂ خارجہ کے ادنی اہلکاروں اور ٹیکساس میں یونی کول کمپنی کے مہمان ہیں۔ جو وسطی ایشیا سے پاکستان تک گیس پائپ لائن تعمیر کرنے کے خواب دیکھ رہی ہے۔

ٹھیک سات برس پہلے کا زمانہ ہے !

صدر بش کی انتظامیہ اعتراف کرتی ہے کہ ہم نے نوے کے عشرے میں افغانستان کو ادھورا چھوڑ کر جو غلطی کی اس کے نتیجے میں نائن الیون ہوا۔اب ہم یہاں سے اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک انتہاپسندی جڑ سے نہیں اکھاڑ دیتے اور افغانستان کی تعمیرِ نو مکمل نہیں ہوجاتی۔

لیکن سات برس بعد وہی امریکہ جو طالبان سے مذاکرات اور امن سمجھوتے کی پاکستانی کوششوں کو ہربار ویٹو کرچکا ہے آج اس کے وزیرِ دفاع رابرٹ گیٹس اور ان کے ہم جولی برطانوی وزیرِ خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ اور فرانسیسی اہلکار سعودی عرب کے شاہ عبداللہ کی میزبانی میں کرزئی حکومت اور طالبان کے اعتدال پسند عناصر کی افطار پارٹی ملاقات کو درست سمت میں ایک مثبت قدم قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ پاکستان کی ایک آنکھ امریکی ڈرون پر ہے تو دوسری آنکھ باجوڑ ، وزیرستان اور سوات پر ہے۔اور ہاتھ پھٹی ہوئی جیب پر !

توکیا اب بھی زرداری حکومت اپنے پیشرؤوں کی طرح نیند میں چہل قدمی جاری رکھےگی !

http://www.bbc.co.uk/urdu/miscellaneous/story/2008/10/081012_baat_sebaat.shtml
 
Top