نیلم جہلم پن بجلی منصوبہ؛ ٹائم لائن

الف نظامی

لائبریرین
جون 28, 2016
دستاویز کے مطابق، آغاز میں نیلم جہلم منصوبہ اکتوبر دو ہزار پندرہ میں مکمل کرنے کا دعویٰ ہوا، جسے بعد میں بڑھا کرنومبر 2016 کر دیا گیا، کچھ ماہ بعد منصوبے کی تکمیل کیلئے اگست 2017 کی تاریخ دی گئی اور اب اطلاع یہ ہے کہ منصوبہ 2018 میں پیداوار دے سکے گا۔
ماہرین منصوبے کی مدت تکمیل میں توسیع کی وجہ بین الاقوامی ڈونرز کی جانب سے فنڈز کی عدم فراہمی قرار دیتے ہیں، تاخیر سے منصوبے کی لاگت بھی 84 ارب سے بڑھ کر 404 ارب روپے ہوچکی ہے۔
 

ربیع م

محفلین
بدر الفاتح آپ کیا جانتے ہیں اس منصوبے کے بارے میں جو غیر متفق ہیں؟؟

میرے خیال میں آپ کا تعلق مظفر آباد سے ہے ، 2005 کے زلزلہ کے بعد سے آنے والی قدرتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہر سال دریائے نیلم میں آنے والے سیلاب اور اس سے ہونے والی تباہی اور جانی ومالی نقصان سے آپ بے خبر نہیں ہوں گے، اس کے سدباب کے سلسلے میں اس ٹنل سے بہترین متبادل کوئی نہیں ۔

باقی رہی آپ کی بات کہ بجلی جائے گی لاہور تو صاحب آزاد کشمیر کو بجلی کے معاملے میں جتنی سہولت ہے پاکستان کے کسی بھی شہر کو شاید ہی ہو ، دوردراز کے گاؤں اور انتہائی بلند علاقوں تک بجلی پہنچائی گئی ہے ، اور صاحب مجھے یہ بھی بتائیے کہ مظفر آباد کے مضافات میں کتنے گاؤں بجلی کا بل ادا کرتے ہیں ۔
 
میرے خیال میں آپ کا تعلق مظفر آباد سے ہے ، 2005 کے زلزلہ کے بعد سے آنے والی قدرتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہر سال دریائے نیلم میں آنے والے سیلاب اور اس سے ہونے والی تباہی اور جانی ومالی نقصان سے آپ بے خبر نہیں ہوں گے، اس کے سدباب کے سلسلے میں اس ٹنل سے بہترین متبادل کوئی نہیں ۔

باقی رہی آپ کی بات کہ بجلی جائے گی لاہور تو صاحب آزاد کشمیر کو بجلی کے معاملے میں جتنی سہولت ہے پاکستان کے کسی بھی شہر کو شاید ہی ہو ، دوردراز کے گاؤں اور انتہائی بلند علاقوں تک بجلی پہنچائی گئی ہے ، اور صاحب مجھے یہ بھی بتائیے کہ مظفر آباد کے مضافات میں کتنے گاؤں بجلی کا بل ادا کرتے ہیں ۔
آپ کو کس نے کہا ہے کہ مظفرآباد میں سیلاب سے تباہی اور جانی و مالی نقصان ہوتا ہے؟
مظفرآباد میں سوائے ان دریاؤں کے اور کوئی قابل ذکر چیز نہیں ہے. اس منصوبے سے اب سارا سال پانی کمی ہوگی. جو مظفرآباد میں اس سے پہلے کبهی نہیں ہوئی. شہر کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوگا. اس سے پہلے سارا شہر کا گند ان دریاؤں میں ڈالا جاتا تها.اور یہ برداشت کر لیتے تهے. اب وہ کدهر جائے گا؟
اس منصوبے میں خواہ مخواہ اتنے پیسے ضائع کیے ہیں پاکستانی گورنمنٹ نے. اور عین ممکن ہے کہ یہ فیل ہو جائے.
آزاد کشمیر والوں کو ویسے بهی اس منصوبے سے ملنا کچھ بهی نہیں ہے. اور یہاں کے لوگ ویسے بهی اپنے حقوق کے لیے آواز کم ہی اٹهاتے ہیں. اس بات سے بهی پاکستانی قیادت واقف ہے. ورنہ ابهی بند کیے جائیں آزاد کشمیر کے بجلی والے منصوبے تو ہم بهی دیکهیں پاکستان کتنا روشن رہتا ہے. بجلی فی یونٹ یہاں ابهی بهی پاکستان سے دو گنی قیمت پر واپڈا بیچتا ہے.
 

ربیع م

محفلین
سیلاب کے دنوں میں لگتا ہے پھر آپ شہر سے باہر ہوتے ہیں دریائے نیلم میں طغیانی اس قدر شدید ہوتی ہے کہ مظفر آباد اڈے سے اٹھمقمام کی جانب جانے والا روڈ (پر چہلہ پل سے پہلے) پانی میں ڈوب کر اوپر والے گھروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے جبکہ دریا کے دوسری جانب موجود گھر خطرناک حد تک دریا کے اندر واقع ہیں

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سارا سال پانی کی بندش رہے گی بلکہ بوقت ضرورت پانی کے نکاس کو کنٹرول کیا جائے گا اور آپ کے علم کیلئے ٹنل کے بعد سے مظفر آباد شہر تک اتنے بڑے بڑے نالے دریا میں آ کر گرتے ہیں جو برسات میں دریا سے زیادہ طغیانی لاتے ہیں

دگنی قیمت والی بات بھی آپ کی کافی دلچسپ رہی

اگر آپ کے خیال میں حق تلفی ہو رہی ہے اور اہل کشمیر اس بارے میں آواز کم ہی اٹھاتے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟ انڈیا اس سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتا؟ اور آپ جیسے لوگ اس کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے آگے کیوں نہیں آتے ؟
 
مدیر کی آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
میں پچھلے کئی سالوں سے نیلم جہلم سرچارج حکومت کو دے رہا ہوں۔ ساٹھ سے ستر روپے ہر ماہ کے بجلی کے بل میں شامل ہوتے ہیں، اوسطا اگر سالانہ سات سو روپے ہوں، اور دس بیس لاکھ بجلی کے بلوں میں اگر یہ رقم شامل ہو ( کئی گھروں میں ایک سے زیادہ بجلی کے میٹر ہوتے ہیں) تو سالانہ اربوں روپے بنتے ہیں، وہ کدھر ہیں؟ ان کا حساب کیا ہوا؟ اس سرچارج سے ہماری جان کب چھوٹے گی؟ شاید ہی کبھی کوئی بتلائے!
 
سیلاب کے دنوں میں لگتا ہے پھر آپ شہر سے باہر ہوتے ہیں دریائے نیلم میں طغیانی اس قدر شدید ہوتی ہے کہ مظفر آباد اڈے سے اٹھمقمام کی جانب جانے والا روڈ (پر چہلہ پل سے پہلے) پانی میں ڈوب کر اوپر والے گھروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے جبکہ دریا کے دوسری جانب موجود گھر خطرناک حد تک دریا کے اندر واقع ہیں

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سارا سال پانی کی بندش رہے گی بلکہ بوقت ضرورت پانی کے نکاس کو کنٹرول کیا جائے گا اور آپ کے علم کیلئے ٹنل کے بعد سے مظفر آباد شہر تک اتنے بڑے بڑے نالے دریا میں آ کر گرتے ہیں جو برسات میں دریا سے زیادہ طغیانی لاتے ہیں

دگنی قیمت والی بات بھی آپ کی کافی دلچسپ رہی

اگر آپ کے خیال میں حق تلفی ہو رہی ہے اور اہل کشمیر اس بارے میں آواز کم ہی اٹھاتے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟ انڈیا اس سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتا؟ اور آپ جیسے لوگ اس کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے آگے کیوں نہیں آتے ؟
سیلاب کا آسان حل ڈٰیم بنانا تھا۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ڈیم اور پاور ہاؤس تعمیر کر کے بغیر ماحول کو تباہ کیے بجلی بنائی جا سکتی تھی۔
میرے اپنے علاقے کے علم میں اضافہ کرنے کی آپ کو ضرورت نہیں ہے۔ میں اپنے علاقے کو آپ سے زیادہ پہچانتا ہوں مجھے معلوم ہے کہ اس منصوبے کے بعد کتنا پانی دریا میں ہوگا ۔ جتنا ہوگا اتنا شہریوں کی تمام ضروریات کے لیے ناکافی ہے۔
اتنی تباہی کے بعد اصولی طور پر مظفرآباد کو لوڈشیڈنگ سے مکمل نجات مل جانی چاہیے تھی مگر اس منصوبے کی بجلی کا ذرا سا بھی حصہ نہیں دیا جا رہا۔
انڈیا کے ٹھیکیدار آپ ہوں گے مجھے صرف اپنے علاقے کی فکر ہے۔ آواز اٹھانے والے تھے، خود مختار کشمیر والے۔ اب وہ بھی ختم ہوگئے ہیں۔ باقی پی پی ، نون وغیرہ والے آواز اٹھانے سے رہے۔ یہ صرف جی حضور کرنے والے ہیں پاکستانی قیادت کے آگے۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
1 اگست 2016
نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی نے 145کلومیٹر طویل 500کے وی نیلم جہلم ڈبل سرکٹ ٹرانسمیشن لائن پر کام کی رفتار تیز کردی ۔
پراجیکٹ ڈائریکٹر ای ایچ وی منظور احمد نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ٹرانسمیشن لائن کے تعمیری کام کو تین لاٹس (لاٹI،لاٹ IIاور لاٹ III) میں تقسیم کیا گیا اور مجموعی طور پر 68فیصد کام مکمل کرلیا گیا ہے جس میں ڈیزائن کے مطابق راستے کی کلیئرنس (Right of Way)، فاونڈیشنز، ایریکشن اور سٹرنگنگ (ٹاورز پر تاریں ڈالنے کا عمل)جیسے بڑے کام شامل ہیں ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
نیلم جہلم منصوبہ- نشیب و فراز کی عجب کہانی
آزاد کشمیر میں مظفر آباد کے قریب نیلم اور جہلم دریا آپس میں ملتے ہیں۔ پہلی دفعہ اِس ملاپ کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ دریائے نیلم کا نیلگوں پانی جہلم سے علیحدہ، اپنے دھارے میں بہتے ہوئے بہت خوبصورت دکھائی دیتا۔ اُن دنوں آزاد کشمیر کی حکومت اسکول کے بچوں کو سیاحت کی سہولتیں فراہم کرتی تھی۔ آزاد کشمیر کے چیف سیکرٹری مرحوم عبدالحق سہروردی کے صاحبزادے، عزیز الحق، کیڈٹ کالج حسن ابدال میں ہم جماعت تھے۔ اِس حوالے سے بھی وہاں جانے کا اتفاق ہوتا۔ عزیزالحق سہروردی، پی آئی اے میں فلائٹ انجینئر رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد عوامی خدمت کا شوق اُنہیں کراچی کی مقامی سیاست میں لے آیا۔ عوام نے پذیرائی کی۔ آج کل کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ میں نائب صدر ہیں۔
دریائے نیلم، دریائے جہلم کا معاون ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اِسے کشن گنگا کہتے ہیں۔ سندھ طاس معاہدے میں ہندوستان کو اختیار ہے کہ وہ پاکستان کو ملنے والے سندھ، جہلم، چناب اور اُن کے معاون دریائوں سے پن بجلی پیدا کرے مگر اِس شرط پر کہ پاکستانی منصوبے متاثر نہ ہوں۔ 1988ء میں پاکستان کو علم ہوا کہ ہندوستان کشن گنگا سے بجلی پیدا کرنے کے بعد اُس کے پانی کو وولر جھیل میں ڈالنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ اِس تبدیلی سے دریائے نیلم کے بہائو میں کمی آتی۔ واپڈا کے انجینئر بہت پہلے



نیلم کے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ بنا چکے تھے۔ ہندوستان کو باز رکھنے کے لئے ہنگامی طور پر دسمبر 1989ء میں پندرہ ارب روپے کی لاگت کا (PC-I) پی سی ون منظور ہوا۔ ہندوستان کو آگاہ کیا گیا۔ جب سندھ طاس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں کے وفود کی پاکستان میں میٹنگ ہوئی تو ہندوستانی وفد کو FWO کے انجینئر دریائے نیلم کے ساتھ، پہاڑ میں ایک تجرباتی سرنگ پر کام کرتے دکھائے گئے۔ پاکستان کا خیال تھا کہ ہندوستان کشن گنگا منصوبے کو ترک کر دے گا کیونکہ پاکستانی منصوبے کی موجودگی میں دریا کا رُخ موڑنا سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی تصور ہوتی۔
(PC-I) پی سی ون منظور ہوئے کئی سال گزر گئے مگر نہ نیلم جہلم منصوبے کے لئے رقم کا بندوبست ہوا اور نہ ہی انجینئرنگ ڈیزائن تیار کیا گیا۔ شاید اُس کی وجہ یہ تھی کہ پہاڑی علاقے میں پانی سے ایک طویل سرنگ کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کا ہمارے پاس کوئی تجربہ نہیں تھا۔ 1993ء کے دوران منصوبے کا ڈیزائن تیار کرنے میں ناروے کی حکومت نے معاونت کی۔ کچھ رقم امداد کی صورت اور کچھ قرض لے کر اُسی ملک کی کمپنی، ’’نار کنسلٹ‘‘ سے ڈیزائن تیار کروایا گیا۔ یہ ڈیزائن اِس لحاظ سے نامکمل تھا کہ جن پہاڑوں کے اندر سے سرنگ نکالی جانی تھی اُن کی چٹانوں اور پتھروں کا مکمل جائزہ نہیں لیا گیا۔ 1996ء میں ڈیزائن مکمل ہوا۔ طے پایا کہ دریا کے پانی کو پہلے ایک سرنگ اور پھر دو سرنگوں میں منتقل کیا جائے۔ پھر پانی کو نصف دائرے کی شکل میں بہتے ہوئے دریائے جہلم کے نیچے سے گزار کر زیریں سطح پر اِسی دریا میں ڈالا جائے۔ اِس طرح 969 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا تخمینہ تھا۔ رقم کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے منصوبہ سرد خانے میں پڑا رہا۔ 1990ء کی دہائی میں پیپلز پارٹی کی حکومت نجی شعبے کے ذریعے تیل سے بجلی بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا رہی اور مسلم لیگ حکومت کی اوّلین ترجیح غازی بھروتھا پراجیکٹ کی تکمیل تھی۔ مشرف دور کے تین سال گزرنے پر 2002ء میں نجی شعبے کو (Turn Key)ٹرن کی پراجیکٹ کی صورت میں پیشکش کی گئی مگر اِسے قبولیت نہ ملی۔ تین سال مزید خاموشی رہی۔ پھر 2005ء کے دوران دو دفعہ سپلائرز کریڈٹ کے تحت نجی شعبے کو پیشکش ہوئی مگر اِسے بھی قبول نہ کیا گیا۔ 2005ء کے زلزلے نے حالات یکسر تبدیل کر دیئے۔ انجینئرز نے رپورٹ دی کہ زلزلے کی فالٹ لائن اُس جگہ سے گزرتی ہے جہاں ڈیم کی تعمیر اور سرنگ کو دریا کے نیچے سے گزارا جانا ہے۔
چاہئے تھا کہ ناروے کی کمپنی کے تیار کردہ ڈیزائن کا ازسرنو جائزہ لیا جاتا۔ پہاڑ کے اندر پتھروں اور چٹانوں کی ساخت کا معائنہ ہوتا اور فالٹ لائن کا علم ہونے پر ایک نیا، مفصل ڈیزائن تیار ہوتا۔ پھر اِس کی لاگت کا تخمینہ لگایا جاتا۔ مگر اِس کی نوبت نہ آئی۔ پاکستان کو علم ہوا کہ ہندوستان نے ہمارے تساہل کو دیکھتے ہوئے پراجیکٹ پر کام شروع کر دیا ہے۔ فوری طور پر تعمیر کا ٹھیکہ دینے کی پیشکش کی گئی۔ چین کی کمپنی کو ٹھیکہ ملا مگر وسائل مختص نہ ہوئے۔ فیصلہ ہوا کہ بجلی کے صارفین پر دس پیسے فی یونٹ سرچارج لگا کر رقم اکٹھی کی جائے۔ اِس طرح چھ ارب روپے سالانہ اکٹھے ہوتے جو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف تھے۔
کشن گنگا اور نیلم جہلم منصوبوں کے درمیان جلد تکمیل کا مقابلہ جاری تھا۔ ہماری رفتار سست تھی کیونکہ زلزلے کی فالٹ لائن کی وجہ سے ڈیزائن میں تبدیلیاں ضروری تھیں۔ دریا کے نیچے سے گزرنے والی سرنگ کے گرد فولادی ڈھانچے کی تعمیر بھی لازم ہو گئی۔ 2010ء میں ہندوستان نے رفتار بڑھانے کیلئے سرنگ کھودنے کی مشین خریدی تو ہماری حکومت بھی حرکت میں آئی۔ دو مشینیں خریدی گئیں مگر اُن کے کام شروع ہونے سے پہلے ہی ہم اپنا مقدمہ ہار گئے۔سابق وزیر اعظم نواز شریف نے چارج سنبھالنے کے بعد 2013ء میں اس پراجیکٹ کا دورہ کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ منصوبہ جلد سے جلد مکمل ہو، مگر وسائل فراہم نہ ہوئے۔ اپریل 2014ء میں واپڈا کی سربراہی مجھے تفویض ہوئی۔ پرائم منسٹر کی بریفنگ میں وسائل کی کمی کا شکوہ کرتے ہوئے فیض احمد فیض کا شعر سنایا
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دُکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے
میری جسارت پر پرائم منسٹر مسکرائے مگر اسحاق ڈار صاحب نے بُرا منایا۔ واپڈا کی ٹیم لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) زبیر کی سربراہی میں دن رات محنت کر رہی تھی۔ ایک طرف وسائل کی کمی تھی، دُوسری طرف سرنگ کی کھدائی کے دوران نہ رُکنے والے حادثات۔ مجھے یاد آتا ہے کہ 13نومبر 2015ء کو جہلم کے عین نیچے کھودی جانے والی سرنگ میں دریا کا پانی چھت پھاڑ کر داخل ہوا۔ سرنگ پانی سے بھرنے لگی ۔یہ علیحدہ کہانی ہے کہ اِس مصیبت پر کس طرح قابو پایا گیا۔ سرنگ کھودتے ہوئے چٹانیں کٹتیں تو کئی دفعہ پتھر بارش کی صورت نیچے گرتے۔ اِس منصوبے کے دوران سینکڑوں ایسے واقعات ہوئے۔ ایک دفعہ چھت پھٹی اور پتھروں کی اتنی شدید بارش ہوئی کہ نہ صرف مزدور زخمی ہوئے بلکہ ٹنل بورنگ مشین بھی کئی مہینوں کے لئے ناکارہ ہو گئی۔
اگر یہ منصوبہ بروقت مکمل ہوتا تو ہم ہندوستان کو نیلم کا پانی وولر جھیل میں منتقل کرنے سے روک سکتے تھے۔ اب عدالتی فیصلے کے مطابق ہندوستان صرف نو مکعب میٹر پانی فی سیکنڈ دریا میں چھوڑنے کا پابند ہے۔ مگر خوش قسمتی سے ہمارا نقصان زیادہ نہیں ہو گا۔ پاکستان میں دریائے نیلم کا ستتر فیصد (77%) پانی، آزاد کشمیر کی حدود میں شامل ہوتا ہے۔ گرمیوں کے چار مہینے دریا اپنے جوبن پر بہتا ہے۔ اِس دوران چاروں ٹربائن مستقل طور پر بجلی پیدا کریں گی۔ باقی آٹھ مہینے میں بجلی کی پیداوار کچھ کم ہو گی، مگر منصوبے کی افادیت پر گہرا اثر نہیں پڑے گا۔
اِس منصوبے سے تین سبق ملتے ہیں۔ پہلا سبق کہ رقم کا بندوبست ہونے سے پہلے منصوبہ شروع نہ کیا جائے۔ مکمل وسائل کے بغیر ایک طرف لاگت میں اضافہ ہوتا ہے تو دوسری طرف عوام کو منصوبے کے فوائد بروقت حاصل نہیں ہوتے۔ دوسرا سبق ہے کہ کسی صورت پی سی ون میں لاگت کا تخمینہ کم نہ دکھایا جائے۔ چونکہ (PC-I) پی سی ون کے پرفارمے میں وسائل کی فراہمی کا انتظام دکھانا ہوتا ہے، اِس لئے لاگت کو کم دکھانے کے لئے قرضوں پر سود کی ادائیگی اور امپورٹ ڈیوٹی کو نظر انداز کیا گیا۔ ڈیزائن کی تبدیلی سے لاگت میں اضافہ بھی تخمینے میں شامل نہ ہوا۔ اِس کا نقصان موجودہ حکومت کو اُٹھانا پڑا۔ صحیح لاگت سامنے آئی تو ناقدین کو شک ہوا کہ یہ فرق حکومت کی نااہلی سے پیدا ہوا ہے یا بدعنوانی سے۔ تیسرا سبق ہے کہ واپڈا جیسے بڑے اداروں کو مالی معاملات میں خودمختاری دی جائے۔ اگر واپڈا ایگژم بینک چائنہ سے تقریباً ایک ارب ڈالر اور مقامی بینکوں سے سو ارب روپے کا قرضہ نہ لیتا تو منصوبہ ابھی تک زیر تکمیل رہتا۔
آج خوشی کادن ہے۔ پہلی ٹربائن سے بجلی پیدا ہو گی۔ باقی تین بھی ان شاء اللہ جون، جولائی تک کام شروع کر دیں گی۔ واپڈا ایک عظیم ادارہ ہے۔ اِس کے انجینئرز اور ورکر مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے جنرل مزمل کی قیادت میں اِس منصوبے کو مکمل کیا۔ اِس پُرمسرت موقع پر مجھے وہ تئیس (23)شہید یاد آ رہے ہیں جنہوں نے اِس منصوبے کی تکمیل کے دوران اپنی جانوں کی قربانی دی۔ اُن میں ہمارے دوست ملک چین کے چار باشندے بھی شامل ہیں۔ مختلف حادثات میں جو لوگ زخمی ہوئے اُن کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ آج اُن سب کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا دن ہے جن کی شبانہ روز محنت اور قربانیوں سے یہ منصوبہ تکمیل کے مرحلے تک پہنچا۔
 
Top