نیت کو خالص رکھنا

نیت کو خالص رکھنا

ہمیں اپنے دل کو ٹٹولتے رہنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ ہماری نیت میں اخلاص ہے کہ نہیں۔ اگر نیت میں کوئی کھوٹ پیدا ہو یا اخلاص کی کمی ہو تو اسے صحیح اور خالص کرنا چاہئے۔ یہ کام باربار کرنا چاہئے اور باربار کرتے رہنا چاہئے کیونکہ ہماری نیتوں کو بگاڑنے کیلئے شیطان ہمارے ساتھ لگا ہوا ہے جو اللہ تعالٰی کیلئے ہماری نیت کو خالص رہنے نہیں دیتا۔ شیطان کو یہ بات معلوم ہے کہ ہمارے اعمال کا دارومدار ہماری نیتوں پر ہے۔

جیسا کہ اللہ کے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملتا ہے جس کی وہ نیت کرے‘‘۔ (صحيح البخاري)

’’نیت ‘‘کہتے ہیں دل کے پکے ارادے کو۔ اگر نیت ٹھیک نہ ہو تو کسی بڑے سے بڑا نیک عمل بھی خاک کے سوا کچھ نہیں۔ جیسے

a) اللہ تعالٰی کے راستے جان قربان کرنا
b) دین کا علم سیکھنا اور سکھانا
c) صدقہ خیرات کرنے والا سخی

یہ تینوں بڑے بڑے نیک اعمال ہیں لیکن نیت میں کھوٹ اور ریاکاری کی وجہ کر قیامت کے دن سب سے پہلے ایسے اعمال کرنے والے لوگوں کو ہی جہنم میں ڈالا جائے گا۔

جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ قیامت کے دن لوگوں میں فیصلے کیلئے سب سے پہلے جنہیں بلایا جائے گا (وہ یہ ہیں:)

(1) ۔ ۔ وہ آدمی جو شہید ہوا، اسے لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کا تعارف کرائے گا اور وہ اقرار کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا: تو نے کون سا عمل کیا ہے؟ وہ کہے گا: میں نے تیری خاطر لڑائی کی، حتی کہ شہید ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹ بولتا ہے، تو اس لیے لڑا تھا تاکہ تجھے بہادر کہا جائے، اور وہ (دنیا میں) کہا جا چکا ہے، پھر اس کے بارے میں حکم ہو گا اور اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

(2) ۔ ۔ وہ آدمی، جس نے علم سیکھا اور سکھایا اور قرآن مجید پڑھا، اسے لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتوں کا تعارف کروائیں گے، وہ اقرار کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا: کون سا عمل کر کے آیا ہے؟ وہ کہے گا: میں نے تیری خاطر علم سیکھا اور سکھایا اور قرآن مجید پڑھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹا ہے، تو نے تو علم اس لیے حاصل کیا تھا تاکہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن مجید پڑھا، تاکہ تجھے قاری کہا جائے اور (دنیا میں) وہ کہہ دیا گیا۔ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا اور اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر آگ میں پھینک دیا جائے گا۔

(3) ۔ ۔ پھر وہ آدمی، جسے اللہ تعالیٰ نے رزق میں فراوانی دی اور ہر قسم کا مال عطا کیا، اس کو لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کا تعارف کروائیں گے، وہ اقرار کر لے گا۔ پھر للہ تعالیٰ پوچھے گا: تو کون سا عمل کر کے لایا ہے؟ وہ کہے گا: میں نے ہر اس مصرف میں مال خرچ کیا جہاں خرچ کرنا تجھے پسند تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹا ہے، تو نے تو اس لیے کیا تھا کہ (دنیا میں) تجھے سخی کہا جائے اور وہ کہہ دیا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا اور چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔“

(سلسله احاديث صحيحه: 2139، سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 3518)

گویا سب سے پہلے جہنم میں داخل ہونے والے دنیا میں بڑے بڑے نیک اعمال کرنے والے ’’ ریاکار لوگ ‘‘ ہوں گے جن کی نیتوں میں کھوٹ کی وجہ کر اعزاز و اکرام اور جنت سے نوازنے کے بجائے اللہ رب العزت انہیں جہنم میں جھونک دے گا۔

کسی بھی نیک عمل پر اجر و ثواب کا تعلق اخلاص نیت پر ہے۔ جو بھی کام ہم کریں گے اس میں نیت کی اچھائی و برائی دیکھی جائے گی اور اللہ رب العزت کی بارگاہ میں نیت کے اعتبار سے ہی سزا و جزا کا فیصلہ ہوگا۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ ’’لوگوں کو قیامت میں ان کی نیتوں کے مطابق اٹھایا جائے گا‘‘۔ (صحيح البخاري)

ہمارا کوئی بھی عمل اخلاص نیت کے بغیر قابل اعتبار نہیں۔ ہمارے سارے اعمال کا دارو مدار ہماری نیت پر ہے۔ خالص اپنے رب کو خوش اور راضی کرنے کی نیت سے کام کرنا ہی فلاح کا ضامن ہے۔

نیت دل کے اردے کا نام ہے، یہ دل کا عمل ہے جسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے یعنی کوئی شخص ظاہری طور پر کتنا ہی اچھا عمل کرے لیکن اس کے پیچھے کیا جذبہ اور کیا نیت کا رفرما ہے، یہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

رَّبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ ۚ إِن تَكُونُوا صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلْأَوَّابِينَ غَفُورًا (سورة الإسراء : ٢٥)
’’جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے تمہارا رب خوب جانتا ہے اگر تم نیک ہو ئے تو وہ توبہ کرنے والوں کو بخشنے والا ہے‘‘۔ (سورة الإسراء : ٢٥)

اس لئے ہمیں اپنے دل کو باربار ٹٹولتے رہنا چاہئے اور جوں ہی نیت میں کوئی کھوٹ پیدا ہو اسے کو صحیح اور خالص کرتے رہنا چاہئے۔ ہر نیک عمل نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق صرف اللہ تعالٰی کی رضا و خوشنودی کیلئے اور صرف اللہ تعالٰی سے اجر و ثواب پانے کی نیت سے کرنا چاہئے۔

اللہ تعالٰی ہمیں اخلاصِ نیت کی دولت عطا فرمائے۔ آمین

تحریر: #محمد_اجمل_خان
۔
 

سیما علی

لائبریرین
عن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ قال سمعت رسول اللہ ﷺ یقول انما الاعمال بالنیات وانما لامرئ ما نوی فمن کانت ھجرتہ الی اللہ ورسولہ فھجرتہ الی اللہ ورسولہ ومن کانت ھجرتہ الی دنیا یصیبھا او مرأۃ یتزوجھا فھجرتہ الی ما ھاجر الیہ


ترجمہ: حضرت عمر بن الخطاب ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرماتے تھے کہ ’’سب انسانی اعمالوں کا دارومدار نیتوں پر ہے اور آدمی کو اس کی نیت ہی کے مطابق پھل ملتا ہے تو جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کی (اور خدا اور اس کے رسول کی رضا جوئی کے سوا اس کی ہجرت کا اور کوئی مقصد نہ تھا) تو اس کی ہجرت در حقیقت اللہ اور اس کے رسول ہی کی طرف ہوئی(اور بیشک وہ اللہ اور اس کے رسول کا سچا مہاجر ہے اور اس کو ہجرت الی اللہ و الرسول کا مقرر اجر ملے گا) اور جو کسی دنیاوی غرض کے لئے یا کسی عورت سے نکاح کی خاطر ’مہاجر‘بنا تو (اس کی ہجرت اللہ و رسول کے لئے نہ ہو گی ‘ بلکہ) فی الواقع جس دوسری غرض اور نیت سے اس نے ہجرت اختیا ر کی ہے عند اللہ بس اسی کی طرف اس کی ہجرت مانی جائے گی‘‘ (بخاری و مسلم(

تشریح: حدیث کا جو اوپر ترجمہ کیا گیا ہے وہ خود مطلب خیز ہے اور نفس مفہوم کے بیان کے لئے اس کے بعد کسی مزید تشریح کی حاجت نہیں، لیکن اس کی خصوصی اہمیت کا تقاضہ ہے کہ اس کے مطالب و فوائد پر کچھ اور بھی لکھا جائے
حدیث کا اصل منشاء امت پر یہ واضح کرنا ہے کہ تمام اعمال کے صلاح و فساد اور مقبولیت و مردودیت کا مدار نیت پر ہے، یعنی عمل صالح وہی ہو گا اور اسی کی اللہ کے یہاں قدر و قیمت ہو گی جو صالح نیت سے کیا گیا ہو گا اور جو ’عمل صالح‘ کسی بری غرض یا فاسد نیت سے کیا گیا ہو وہ صالح اور مقبول نہ ہو گا، بلکہ نیت کے مطابق فاسد اور مردود ہو گا‘ اگرچہ ظاہری نظر میں ’صالح‘ ہی معلوم ہو ۔۔۔ حاصل یہ کہ اللہ تعالی عمل کے ساتھ نیت اور ظاہر کے ساتھ باطن کا بھی دیکھنے والاہے اسکے یہاں ہر عمل کی قدرو قیمت عمل کرنے والے کی نیت کے حساب سے لگائی جائے گی۔
ایک غلط فہمی: کسی کو اس سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ جب دارومدار نیت ہی پر ہو تو اگر برے کام بھی اچھی نیت سے کئے جائیں تو اعمال صالحہ ہوجائیں گے اور ان پر بھی ثواب ملے گا مثلا، اگر کوئی شخص اس نیت سے چوری اور ڈاکہ زنی کرے کہ جو مال اس سے حاصل ہو گا اس سے وہ غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرے گا تو وہ بھی ثواب کا مستحق ہوسکے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ جو کام فی نفسہ برے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ان سے منع فرمایا ہے ان میں حسن نیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، وہ تو بہرحال قبیح اور موجب غضب الہی ہیں ، بلکہ ان پر اچھی نیت کرنا اور ثواب کی امید رکھنا شاید ان کی مزید قباحت اور سزامیں زیادتی کا باعث ہو، کیونکہ یہ اللہ کے دین کیساتھ ایک قسم کا تلاعب (کھیل ) ہوگا، بلکہ حدیث کا منشا’اعمال صالحہ‘ کے متعلق یہ جتلانا ہے کہ وہ بھی اگر کسی بری نیت سے کئے جائیں گے تو پھر ’اعمال صالحہ ‘نہیں رہیں گے ، بلکہ بری نیت کی وجہ سے ان کا انجام برا ہی ہو گا ، مثلا جو شخص نماز نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھتا ہے جس کو ہم اعلی درجہ کا عمل صالح سمجھتے ہیں وہ اگر یہ خشوع و خضوع اس لئے کرتا ہے کہ لوگ اسکی دینداری اور خداپرستی کے متعلق اچھی رائے قائم کریں اور اسکا اعزاز واکرام کریں تو اس حدیث کی رو سے اسکی یہ خشوع و خضوع والی نماز اللہ کے یہاں کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتی، یا مثلا ایک آدمی دارالکفر سے دالاسلام کی طرف ہجرت کرتا ہے ، او ر اس کے لئے ہجرت کی ساری مشقتیں اور مصیبتیں سہتا ہے لیکن اس کی غرض اس ہجرت سے اللہ تعالی کی رضاجوئی نہیں بلکہ کوئی اور دنیاوی غرض پوشیدہ ہے، مثلا دارالہجرت میں رہنے والی کسی عورت سے نکاح کی خواہش اس ہجرت کے لئے محرک ہوئی ہے تو یہ ہجرت ہجرت اسلام نہ ہوگی اور اللہ کے ہاں اس کا کوئی اجر نہ ہو گا بلکہ الٹا گناہ ہو گا ، بس یہی ہے اس حدیث کا اصل منشا۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top