نیب چیئرمین کی عدلیہ پر تنقید، استعفے کی دھمکی

نایاب

لائبریرین
نیب کے چیئرمین ایڈمرل ریٹائرڈ فصیح بخاری نے صدر پاکستان سے کہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ اور میڈیا کے ایک حصے کو ان کے ادارے کے معاملات میں مداخلت سے روکیں۔ نیب چیئرمین نے یہ بھی کہا ہے کہ اگرصورتِ حال کا ازالہ نہ ہوا تو وہ استعفیٰ دینے پر مجبور ہو جائیں گے۔
نیب چیئرمین نے یہ باتیں صدر آصف علی زرداری کے نام ایک خط میں تحریر کی ہیں جس کی نقول میڈیا کو ملی ہے۔ خط میں نیب کے چیئرمین نے کہا کہ ایسے وقت میں جب ملک میں انتخابات کا انعقاد سر پر ہے اور فوج سمیت تمام سیاسی قوتیں انتخابات کے انعقاد پر متفق ہیں، اس معاملے میں سپریم کورٹ کی پوزیشن مبہم ہے۔
نیب چیئرمین نے دھمکی دی ہے کہ اگر ان کے تحظفات دور نہ کیےگئے تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہونے پر مجبور ہو جائیں گے۔
ایڈمرل ریٹائرڈ کلِک فصیح بخاری نے خط میں لکھا ہے کہ انتخابات کے انعقاد سے متعلق سپریم کورٹ کی ’مبہم پوزیشن‘ ہے جس کا اثر نیب کے ادارے پر اثر پڑ رہا ہے۔
نیب کے سربراہ کے مطابق سپریم کورٹ توہین عدالت کے نوٹسوں اور زبانی احکامات کے ذریعے جو تحریری احکامات سے مختلف ہوتے ہیں، ’نیب کے افسران پر انتہائی دباؤ ڈال رہی ہے‘۔
ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے خوف کی وجہ سے کئی تفتیش کار صحیح تفتیش کرنے کے بجائے وہی کر رہے ہیں جو وہ سمجھتے ہیں کہ عدالت ان سے چاہتی ہے۔ ’وہ عدالت کے خوف اور اپنی نوکریوں کو بچانے کی خاطر ایسے کام کر رہے ہیں جن سے تفتیش کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھ سکتے ہیں۔‘
نیب کے سربراہ کے مطابق یہ طریقہ کار حکومت میں شامل کلِک سینیئر سیاستدانوں سے متعلق کیسوں میں نمایاں ہے جہاں گرفتاری تک کے احکامات کلِک نچلی سطح کے افسران کی رپورٹوں کی بنیاد پر جاری کیےگئے ہیں حالانکہ یہ رپورٹیں نیب کے مرکزی ایگّزیکٹیو بورڈ تک نہیں پہنچائی گئی ہیں۔ ایڈمرل فصیح بخاری نے کہا کہ سپریم کورٹ کے بعض احکامات ’نیب کے چیئرمین کے اختیارات کی خلاف ورزی ہے اور یہ قومی احتساب آرڈیننس کی خلاف ورزی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ نیب کے قانون کے تحت کوئی ریفرنس چیئرمین کی منظوری کے بغیر کسی عدالت میں پیش نہیں ہو سکتا۔
نیب کے سربراہ نے خط میں لکھا ہے کہ نیب کے اندر ایک قسم کی بغاوت ابھارنے کی کوششیں جاری ہیں جس میں کئی مخصوص صحافی اور میڈیا کے کچھ ’انٹیلیجنس یونٹ‘ عوام اور بعض ججوں کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق تفتیشی افسر کلِک کامران فیصل کی افسوسناک موت کو جواز بنا کر چیئرمین اور دیگر سینیئر افسروں کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔
انہوں نے ’میڈیا کے ایک حصے‘ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ مخصوص گروپ اس مہم میں سرگرم ہے اور عدالت کے کچھ افراد پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس گروہ کے ٹیکس معاملات کا بھی شاید اس سے تعلق ہو جس پر اب تک ’حکم امتناعی ‘ لگا ہوا ہے۔ نیب کے سربراہ نے لکھا ہے کہ’اس عمل سے مجھ پر بہت دباؤ ڈالا جا رہا ہے، کہ میں عدالت کو خوش کروں، جلد بازی میں غیر قانونی کام کروں اور ایسا کام کروں جس کو ’پِری پول رِگنگ‘ یعنی قبل از انتخابات دھاندلی بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔‘
نیب کے سربراہ نے صدر زرداری کو اس خط کے شروع میں کہا ہے کہ ’میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے بغیر کسی مداخلت کے فرائض ادا کرنے دیے ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ نیب رقم کی برآمدگی میں کافی حد تک کامیاب رہا ہے اور تقریباً پچیس ارب روپے کی رقم حاصل کر سکا ہے۔ اس کے علاوہ نیب ایسے منصوبوں پر بھی کام کر رہا ہے کہ جس سے حکومت اور انتظامیہ کے اندر ایسے انتظامی ڈھانچے ختم کیے جا سکیں جن کے اندر بدعنوانی کی گنجآئش بھی ہے اور توقع بھی۔
نیب کے سربراہ نے بطور چیئرمین نیب کے اپنے تحفظات کے ساتھ اپنے بطور پاکستانی شہری تحفظات کا بھی اظہار کیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ میں فوجی بغاوت سے پہلے بحریہ کے سربراہ کے عہدے سے اس لیے مستعفی ہوا کہ میں آئین سے اپنا حلف نہیں توڑنا چاہتا تھا۔ میں عدلیہ کی بحالی کی تحریک میں شامل تھا سابق فوجی افسران کی تنظیم کے ساتھ۔ ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ آئین اور قانون کا تحفظ کرے۔‘
نیب کے سربراہ نے صدر زرداری کو ان تمام امور (عدالتی دباؤ ، انتظامی خلاف ورزیاں، میڈیا ، کی طرف توجہ دلا کر آخر میں کہا ہے کہ اگر ان تمام امور پر جلد توجہ نہ دی جائے تو وہ مستعفیٰ ہو جائیں گے۔
بشکریہ بی بی سی اردو
 

نایاب

لائبریرین
چیئرمین نیب کا خط عدالت میں پیش کرنے کا حکم
پاکستان کی سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو کے چیئرمین ایڈمرل (ریٹائرڈ) فصیح بخاری کی جانب سے صدر پاکستان کوعدلیہ کے کردار پر تنقید سے متعلق لکھے گئے خط کا نوٹس لیتے ہوئے اس کی اصل کاپی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے یہ حکم بدھ کو کرائے کے بجلی گھروں سے متعلق مقدمے کی سماعت دوران دیا۔
چیف جسٹس نے کہا ’نیب کے چیئرمین نے خط کے ذریعے عدالت کے خلاف نفرت پھیلانے اور اسے بدنام کرنے کی کوشش کی ہے جس کی انہیں اجازت نہیں ہے‘۔
عدالت نے اس سلسلے میں سابق فوجی جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کی جانب اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ تین نومبر سنہ دو ہزار سات میں بھی ایسا کرنے کی کوشش کی گئی تھی جسے عدلیہ نے ناکام بنا دیا تھا‘۔
عدالت نے کہا کہ خط کا متن پڑھنے کے بعد اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ خط لکھنے اور اس کی میڈیا پر تشہیر کرنے کے پیچھے کیا مقاصد ہیں۔
سپریم کورٹ میں بدھ کو جب مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کے کے آغا نے چیف جسٹس کو نیب کے چیئرمین کی غیر حاضری سے متعلق آگاہ کرنا چاہا تو چیف جسٹس نے کہا ’آپ اسے چھوڑیں پہلے یہ بتائیے کہ آپ کے چیئرمین کی جانب سے صدر کو بھیجے گئے خط میں انہوں نے کیا لکھا ہے؟‘ جس کے جواب میں پراسیکیوٹر جنرل نے کہا خط میں نیب کے چیئرمین نے عدالت سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
عدالت نے اپنے ردعمل میں انہیں حکم دیا کہ وہ خط کی تصدیق شدہ نقل عدالت میں جمع کرائیں اور یہ بھی بتائیں کہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں اس خط کی تشہر کیوں کی گئی؟ اس پر پراسیکیوٹر جنرل کے کے آغا نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت جب تک باقاعدہ حکم جاری نہیں کرتی وہ چیئرمین کو کیسے اس بارے میں آگاہ کر سکتے ہیں؟۔
عدالت نے اپنا تحریری حکم جاری کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور کسی کواس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے توہین آمیز خط لکھ کر عدلیہ کے خلاف نفرت پھیلائے ۔
پراسیکیوٹر جنرل نے جواب دیا کہ ’یہ ایک عام خط ہے‘ لیکن چیف جسٹس نے کہا ’عدالت کے لیے یہ ایک عام خط نہیں اور اس کا متن پڑھنے کے بعد ہی اس کا تعین کیا جائے گا اور اگر نیب کے چیئرمین یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ایسے کرنے کا حق حاصل ہے تو اس کا فیصلہ بھی عدالت ہی کرئے گی۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کرائے کے بجلی گھروں کےمقدمے کی سماعت کل جمعرات ملتوی کر دی۔
بشکریہ بی بی سی اردو
 

نایاب

لائبریرین
چیئرمین نیب کو توہین عدالت کا نوٹس جاری
پاکستان کی سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو کے چیئرمین ایڈمرل (ریٹائرڈ) فصیح بخاری کو توہین عدالت کے معاملے میں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کر دیا ہے۔
پاکستان کے سرکاری ٹی وی کے مطابق انہیں یہ نوٹس جمعرات کو صدر پاکستان کو عدلیہ کے کردار پر تنقید سے متعلق خط تحریر کرنے پر دیا گیا ہے۔
عدالت نے چیئرمین نیب کو چار فروری کو طلب کیا ہے۔
سماعت کے دوران عدالت نے کہا ہے کہ اس کے آئینی اختیار کو کسی صورت دبایا نہیں جا سکتا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
نیب کے چیئرمین ایڈمرل ریٹائرڈ فصیح بخاری نے صدر پاکستان سے کہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ اور میڈیا کے ایک حصے کو ان کے ادارے کے معاملات میں مداخلت سے روکیں۔ نیب چیئرمین نے یہ بھی کہا ہے کہ اگرصورتِ حال کا ازالہ نہ ہوا تو وہ استعفیٰ دینے پر مجبور ہو جائیں گے۔
نیب چیئرمین نے یہ باتیں صدر آصف علی زرداری کے نام ایک خط میں تحریر کی ہیں جس کی نقول میڈیا کو ملی ہے۔ خط میں نیب کے چیئرمین نے کہا کہ ایسے وقت میں جب ملک میں انتخابات کا انعقاد سر پر ہے اور فوج سمیت تمام سیاسی قوتیں انتخابات کے انعقاد پر متفق ہیں، اس معاملے میں سپریم کورٹ کی پوزیشن مبہم ہے۔
نیب چیئرمین نے دھمکی دی ہے کہ اگر ان کے تحظفات دور نہ کیےگئے تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہونے پر مجبور ہو جائیں گے۔
ایڈمرل ریٹائرڈ کلِک فصیح بخاری نے خط میں لکھا ہے کہ انتخابات کے انعقاد سے متعلق سپریم کورٹ کی ’مبہم پوزیشن‘ ہے جس کا اثر نیب کے ادارے پر اثر پڑ رہا ہے۔
نیب کے سربراہ کے مطابق سپریم کورٹ توہین عدالت کے نوٹسوں اور زبانی احکامات کے ذریعے جو تحریری احکامات سے مختلف ہوتے ہیں، ’نیب کے افسران پر انتہائی دباؤ ڈال رہی ہے‘۔
ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے خوف کی وجہ سے کئی تفتیش کار صحیح تفتیش کرنے کے بجائے وہی کر رہے ہیں جو وہ سمجھتے ہیں کہ عدالت ان سے چاہتی ہے۔ ’وہ عدالت کے خوف اور اپنی نوکریوں کو بچانے کی خاطر ایسے کام کر رہے ہیں جن سے تفتیش کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھ سکتے ہیں۔‘
نیب کے سربراہ کے مطابق یہ طریقہ کار حکومت میں شامل کلِک سینیئر سیاستدانوں سے متعلق کیسوں میں نمایاں ہے جہاں گرفتاری تک کے احکامات کلِک نچلی سطح کے افسران کی رپورٹوں کی بنیاد پر جاری کیےگئے ہیں حالانکہ یہ رپورٹیں نیب کے مرکزی ایگّزیکٹیو بورڈ تک نہیں پہنچائی گئی ہیں۔ ایڈمرل فصیح بخاری نے کہا کہ سپریم کورٹ کے بعض احکامات ’نیب کے چیئرمین کے اختیارات کی خلاف ورزی ہے اور یہ قومی احتساب آرڈیننس کی خلاف ورزی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ نیب کے قانون کے تحت کوئی ریفرنس چیئرمین کی منظوری کے بغیر کسی عدالت میں پیش نہیں ہو سکتا۔
نیب کے سربراہ نے خط میں لکھا ہے کہ نیب کے اندر ایک قسم کی بغاوت ابھارنے کی کوششیں جاری ہیں جس میں کئی مخصوص صحافی اور میڈیا کے کچھ ’انٹیلیجنس یونٹ‘ عوام اور بعض ججوں کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق تفتیشی افسر کلِک کامران فیصل کی افسوسناک موت کو جواز بنا کر چیئرمین اور دیگر سینیئر افسروں کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔
انہوں نے ’میڈیا کے ایک حصے‘ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ مخصوص گروپ اس مہم میں سرگرم ہے اور عدالت کے کچھ افراد پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس گروہ کے ٹیکس معاملات کا بھی شاید اس سے تعلق ہو جس پر اب تک ’حکم امتناعی ‘ لگا ہوا ہے۔ نیب کے سربراہ نے لکھا ہے کہ’اس عمل سے مجھ پر بہت دباؤ ڈالا جا رہا ہے، کہ میں عدالت کو خوش کروں، جلد بازی میں غیر قانونی کام کروں اور ایسا کام کروں جس کو ’پِری پول رِگنگ‘ یعنی قبل از انتخابات دھاندلی بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔‘
نیب کے سربراہ نے صدر زرداری کو اس خط کے شروع میں کہا ہے کہ ’میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے بغیر کسی مداخلت کے فرائض ادا کرنے دیے ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ نیب رقم کی برآمدگی میں کافی حد تک کامیاب رہا ہے اور تقریباً پچیس ارب روپے کی رقم حاصل کر سکا ہے۔ اس کے علاوہ نیب ایسے منصوبوں پر بھی کام کر رہا ہے کہ جس سے حکومت اور انتظامیہ کے اندر ایسے انتظامی ڈھانچے ختم کیے جا سکیں جن کے اندر بدعنوانی کی گنجآئش بھی ہے اور توقع بھی۔
نیب کے سربراہ نے بطور چیئرمین نیب کے اپنے تحفظات کے ساتھ اپنے بطور پاکستانی شہری تحفظات کا بھی اظہار کیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ میں فوجی بغاوت سے پہلے بحریہ کے سربراہ کے عہدے سے اس لیے مستعفی ہوا کہ میں آئین سے اپنا حلف نہیں توڑنا چاہتا تھا۔ میں عدلیہ کی بحالی کی تحریک میں شامل تھا سابق فوجی افسران کی تنظیم کے ساتھ۔ ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ آئین اور قانون کا تحفظ کرے۔‘
نیب کے سربراہ نے صدر زرداری کو ان تمام امور (عدالتی دباؤ ، انتظامی خلاف ورزیاں، میڈیا ، کی طرف توجہ دلا کر آخر میں کہا ہے کہ اگر ان تمام امور پر جلد توجہ نہ دی جائے تو وہ مستعفیٰ ہو جائیں گے۔
بشکریہ بی بی سی اردو
اتنے سارے کِلک؟
 
Top