نیب نے جنگ و جیو گروپ کے مالک میر شکیل الرحمان کو گرفتار کرلیا

جاسم محمد

محفلین
اس کا تعین کون کرے گا کہ کس قسم کی صحافت چل رہی ہے۔ یہ جو اسکینڈلز آپ نے گنوائے ہیں جن کو یہ صحافی سامنے لانا چاہتے ہیں، کیا یہ غلط طرز عمل ہے؟ کیا میٹرو پشاور پراجیکٹ کی تحقیقات اور مالم جبہ سکینڈل کی تحقیقات کا مطالبہ غلط تھا؟ کیا حکومتی زعماء اور ان کے اتحادیوں کے خلاف کیسز کھلوائے جانے کا مطالبہ غلط ہے؟
بظاہر لگتا ہے کہ نیب مکمل طور پرمقتدر حلقوں کے کنٹرول میں ہے۔ نیب چیئرمین ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کا فیورٹ اثاثہ رہ چکے ہیں اس لئے جب تک وہ نہ چاہیں اس حکومت کے خلاف کوئی بڑا کرپشن سکینڈل نہیں کھل سکتا۔ تب تک اپوزیشن کو ہی تختہ مشق بنایا جائے گا۔
 

فرقان احمد

محفلین
بظاہر لگتا ہے کہ نیب مکمل طور پرمقتدر حلقوں کے کنٹرول میں ہے۔ نیب چیئرمین ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے فیورٹ اثاثہ رہ چکے ہیں اس لئے جب تک وہ نہ چاہیں اس حکومت خلاف کوئی بڑا کرپشن سکینڈل نہیں کھل سکتا۔ تب تک اپوزیشن کو ہی تختہ مشق بنایا جاجائے گا۔
بناتے رہیں تاہم اس کے بعد اخلاقی 'بھاشن' دینا بنتا نہیں۔ :) ادارے کا رہا سہا وقار جاتا رہے گا۔ اسی طرح ادارے برباد ہوتے ہیں۔ اگر مقتدر حلقے ایسا کرتے ہیں تو کیا اسے حب الوطنی کہا جا سکتا ہے؟ احتساب تو بلا امتیاز ہی ہونا چاہیے۔ یہ ایک اصولی موقف ہے جو ہر ذی شعور کو اپنانا چاہیے۔ خان صاحب کو ہم تب جی دار سیاست دان اور منصف مزاج مانتے اگر وہ اپنے احباب کے خلاف کرپشن کیس کھولنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے۔ اب ہم انہیں روایتی سیاست دان ہی تصور کرنے پر مجبور ہیں۔ کل کلاں کیس بھی کھل جائیں گے تاہم اس کا کریڈٹ خان صاحب کو شاید نہ مل پائے گا۔
 
سیلیکٹڈ کو ذاتی دشمنیاں پالنے اور اسکور سیٹل کرنے کا بچپن سے شوق ہے۔ پہلے اپنے سیاسی مخالفوں کو بغیر مقدمہ بنائے بند رکھا جنہیں کورٹ نے آزاد کیا اب مخالف میڈیا سے نپٹنے کا وقت ہے۔ یہ بھی دیکھ لیں گے۔ کبھی تو آئے گا اونٹ پہاڑ کے نیچے!
 

جاسم محمد

محفلین

فرقان احمد

محفلین
آج عمران خان کو ملک کے طاقتور "ادارے" اقتدار سے فارغ کر دیں تو یہی میر شکیل الرحمٰن کے میڈیا ہاؤسز اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جا کر کھڑے ہو جائیں گے۔
یعنی اصل مسئلہ طاقتور ادارے کا ہے۔ نتیجہ تو یہی نکلے گا۔ یعنی کہ جو ادارہ یا شعبہ برباد ہوا، دراصل ان کی بے جا مداخلت سے ہوا۔
 

La Alma

لائبریرین
سلیکٹڈ کو دھرنے کے دوران کئی بار سخت غصے میں یہ کہتے ہوئے سُنا گیا: "کسی کو نہیں چھوڑوں گا!"
اور پھر اس نے اقتدار میں آکر واقعی کسی کو نہیں چھوڑا :)
"کسی کو نہیں چھوڑوں گا"
عمران خان نہ ہوا، کورونا وائرس ہو گیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
یعنی اصل مسئلہ طاقتور ادارے کا ہے۔ نتیجہ تو یہی نکلے گا۔ یعنی کہ جو ادارہ یا شعبہ برباد ہوا، دراصل ان کی بے جا مداخلت سے ہوا۔
بے جا شائد اضافی لکھا ہے۔ کسی بھی آزاد ادارہ و محکمہ میں تھوڑی سی بھی بیرونی مداخلت اسے ناکارہ بنا دیتی ہے
 

فرقان احمد

محفلین
سلیکٹڈ کو دھرنے کے دوران کئی بار سخت غصے میں یہ کہتے ہوئے سُنا گیا: "کسی کو نہیں چھوڑوں گا!"
اور پھر اس نے اقتدار میں آکر واقعی کسی کو نہیں چھوڑا :)
سوائے ان کے، جو انہیں لائے۔ اتنے اُستاد تو حضرتِ نیازی خود بھی ہیں کہ خوب جانتے ہیں کہ کہاں پنگا نہیں لینے کا اور پھڈا نہیں بنانے کا۔۔۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
سوائے ان کے، جو انہیں لائے۔ اتنے اُستاد تو حضرتِ نیازی خود بھی ہیں کہ خوب جانتے ہیں کہ کہاں پنگا نہیں لینے کا اور پھڈا نہیں بنانے کا۔۔۔ :)
ظاہر ہے خان صاحب نے ۲۲ سال بال سفید دھوپ میں رکھ کر تو نہیں کیے ہیں۔ سیاست کی ایچی پیچی جانتے ہیں :)
 

فرقان احمد

محفلین
ظاہر ہے خان صاحب نے ۲۲ سال بال سفید دھوپ میں رکھ کر تو نہیں کیے ہیں۔ سیاست کی ایچی پیچی جانتے ہیں :)
سیاست کے تو نہیں، تاہم، جی ایچ کیو کے مزاج سے واقف ہو چکے ہیں۔ ضیاء و مشرف و راحیل تک معاملہ نہ بن سکا، تاہم، بالآخر مسٹر باجوہ کے ساتھ سیٹنگ بیٹھ گئی حالانکہ ضیاء بھی انہیں سامنے لانا چاہتے تھے، مشرف بھی، پاشا صاحب بھی، راحیل شکریہ شریف بھی چاہتے تھے کہ اقتدار میں انہیں لایا جائے تاہم بالآخر عوامی سپورٹ شامل ہوئی اور جی ایچ کیو کی آشیر باد سے اس ملک کو ایک نجات دہندہ ملا۔ ازراہ تفنن عرض ہے کہ اب ان سے ہی عوام کو نجات نہیں مل رہی ہے۔ جنہیں ان کی لیڈر شپ پر بھروسا ہے، وہ آسانی سے ڈانواں ڈول ہونے والا نہیں ہے۔ مزید تین برس انتظار کر لیتے ہیں تاکہ ہم پر ان کی خفیہ صلاحیتوں کے جوہر کھل سکیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
جنہیں ان کی لیڈر شپ پر بھروسا ہے، وہ آسانی سے ڈانواں ڈول ہونے والا نہیں ہے۔

دراصل ہم قحط الرجال کا شکار ہیں۔

ممکن ہے کہ عمران خان بدترین حکمران ثابت ہوں تاہم فی الحال ان کا بھی کوئی متبادل ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
دراصل ہم قحط الرجال کا شکار ہیں۔

ممکن ہے کہ عمران خان بدترین حکمران ثابت ہوں تاہم فی الحال ان کا بھی کوئی متبادل ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔
عمران خان کو اسی لئے سب سے آخر میں سلیکٹ کیا گیا ہے۔ تاکہ عوام کسی اور ری پلیسمنٹ لیڈر کے بارہ میں سوچے بھی نا! :)
 

فرقان احمد

محفلین
دراصل ہم قحط الرجال کا شکار ہیں۔

ممکن ہے کہ عمران خان بدترین حکمران ثابت ہوں تاہم فی الحال ان کا بھی کوئی متبادل ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔
قحط الرجال کا معاملہ تو ہے تاہم متبادل بھی موجود ہیں تاہم وہ تب ابھریں گے جب یہ ڈوبنے والے ہوں گے۔ یقین جانیے اگر اسد عمر صاحب کو ہی وزیراعظم بنا دیا جائے تو معاملات کافی بہتر ہو سکتے ہیں۔ افہام و تفہیم کی سیاست بہتر رہتی ہے الا یہ کہ کوئی جوہری تبدیلی رونما ہو جائے اور بلا امتیاز احتساب ہونے لگے۔ خان صاحب جس طرح کی سیاست کر رہے ہیں، یہ ہمیں کہیں لے کر نہ جائے گی۔ مخالفین پھر زور پکڑ گئے اور افہام و تفہیم سے معاملات کو آگے بھی نہ بڑھایا جا سکا۔ اپنوں کو بچانے میں لگے ہیں تو اس احتساب کا کیا فائدہ!
 

جاسم محمد

محفلین
قحط الرجال کا معاملہ تو ہے تاہم متبادل بھی موجود ہیں تاہم وہ تب ابھریں گے جب یہ ڈوبنے والے ہوں گے۔ یقین جانیے اگر اسد عمر صاحب کو ہی وزیراعظم بنا دیا جائے تو معاملات کافی بہتر ہو سکتے ہیں۔ افہام و تفہیم کی سیاست بہتر رہتی ہے الا یہ کہ کوئی جوہری تبدیلی رونما ہو جائے اور بلا امتیاز احتساب ہونے لگے۔ خان صاحب جس طرح کی سیاست کر رہے ہیں، یہ ہمیں کہیں لے کر نہ جائے گی۔ مخالفین پھر زور پکڑ گئے اور افہام و تفہیم سے معاملات کو آگے بھی نہ بڑھایا جا سکا۔ اپنوں کو بچانے میں لگے ہیں تو اس احتساب کا کیا فائدہ!
اسد عمر، شاہ محمود، شیخ رشید اور بھی کئی لیڈرز شیروانیاں سلوا کر عمران خان کی شیروانی کا بٹن ٹوٹنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
لیکن عمران خان نے بھی بغیر بٹن والی شیروانی پہن رکھی ہے:)
 

جاسم محمد

محفلین
سیاست کے تو نہیں، تاہم، جی ایچ کیو کے مزاج سے واقف ہو چکے ہیں۔ ضیاء و مشرف و راحیل تک معاملہ نہ بن سکا، تاہم، بالآخر مسٹر باجوہ کے ساتھ سیٹنگ بیٹھ گئی حالانکہ ضیاء بھی انہیں سامنے لانا چاہتے تھے، مشرف بھی، پاشا صاحب بھی، راحیل شکریہ شریف بھی چاہتے تھے کہ اقتدار میں انہیں لایا جائے تاہم بالآخر عوامی سپورٹ شامل ہوئی اور جی ایچ کیو کی آشیر باد سے اس ملک کو ایک نجات دہندہ ملا۔ ازراہ تفنن عرض ہے کہ اب ان سے ہی عوام کو نجات نہیں مل رہی ہے۔ جنہیں ان کی لیڈر شپ پر بھروسا ہے، وہ آسانی سے ڈانواں ڈول ہونے والا نہیں ہے۔ مزید تین برس انتظار کر لیتے ہیں تاکہ ہم پر ان کی خفیہ صلاحیتوں کے جوہر کھل سکیں۔
یاد رہے کہ عمران خان عوام کا نہیں ریاست پاکستان کا نمائندہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو عوام اور میڈیا کی چیخیں سے کچھ خاص فرق نہیں پڑنے والا۔ ان کو خاص طور پر ریاست پاکستان مضبوط کرنے کیلئے سلیکٹ کیا گیا ہے۔ عوام کا جو حال ہے اس حکومت میں ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
 
Top