نیب قانون میں رعایت کا مطلب عمران کا 24 سالہ جدوجہد پر پانی پھیرنا

جاسم محمد

محفلین
نیب قانون میں رعایت کا مطلب عمران کا 24 سالہ جدوجہد پر پانی پھیرنا
بدھ 06 مئی 2020ء

تجزیہ: شاہین صہبائی

اٹھارویں ترمیم جو کہ ایک طے شدہ معاملہ سمجھا جاتا ہے پر اچانک بحث بلا جواز اور بغیر کسی منطق کے نہیں شروع ہوئی، درحقیقت یہ بحث پی ٹی آئی کی وسیع البنیاد ترجیحات جو 12سے 18ماہ کے حالات کے حوالے سے اور بالخصوص عمران خان کی طویل المدتی حکمت عملی کا حصہ ہے جو انہوں نے اپنے بدعنوان مخالفین کو الجھائے رکھنے اور مقتدر حلقوں کو اپنا ہمنوا بنائے رکھنے کے لیے ترتیب دی ہے تا کہ عمران خان اپنے سیاسی اہداف حاصل کر سکیں، اٹھارویں ترمیم اور نیب کے قوانین کا شوشہ جان بوجھ کر چھوڑا گیا جس کے باعث شریف خاندان کی رالیں ٹپکنا شروع ہو گئی ہیں اور ن لیگ کے حمایتیوں جو شریف خاندان کا سیاسی مستقبل کے ختم ہونے کے باعث سکتے میں تھے ، ان کو شریف خاندان کے تاریک مستقبل میں روشنی کی ایک کرن نظر آنا شروع ہوتی ہے مگر اس سب کچھ کو صحرا میں سراب سے زیادہ کچھ نہیں کہا جا سکتا، وزیر اعظم عمران خان دوٹوک انداز میں کہہ چکے ہیں کہ وہ چور، ڈاکوئوں اور بلیک میلروں سے کسی صورت سمجھوتہ نہیں کریں گے ، میرے ایک سوالیہ میسج جو اٹھارویں ترمیم کے بدلے نیب قانون میں رعایت کے بارے میں تھا انہوں نے واضح جواب دیاکہ سمجھوتے کا مطلب 24سال کی جدوجہد پر پانی پھیرنا ہے ، سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب خان کچھ دینے کے موڈ میں ہی نہیں تو پھر اس بے وقت کی راگنی کا مطلب کیا ہے ؟ ایک گریڈ 22کے سینئر بیورو کریٹ جو متعدد بار ڈپلومیسی کی خدمات، جن میں بین الاقوامی اور اقوام متحدہ میں فرائض بھی شامل ہے ، انجام دے چکے ہیں، کے مطابق پاکستان میں اس قسم کے مباحثے عام طور پر تب چھیڑے جاتے ہیں جب مستقبل قریب میں کوئی اہم تبدیلی کی خواہش ہو تو اس قسم کی بحث کے ذریعے راہ ہموار کی جاتی ہے ، حق اور مخالفت میں جاری رہنے والی چند ماہ کی بحث کے بعد جب عوام الناس کی اس حوالے سے دلچسپی ختم ہو جائے گی تو ترمیم بھی کر لی جائے گی اور اس پر ماتم کرنے والا بھی کوئی نہ ہوگا۔ ایک ایسے وقت میں جب کورونا کی وبا نے نظام حیات الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے ایسے میں 18ویں ترمیم کا معاملہ چھیڑنا بظاہر بے مقصد اور فضول محسوس ہوتا ہے مگر ایسا ہے بالکل بھی نہیں۔ یہ سب کچھ پی ٹی آئی کی سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے ۔ جس کو ذیل کے نکات میں بیان کیا جا رہا ہے ۔ عمران خان کی حکومت کی خواہش ہے کہ آئندہ آنے والے 6سے 8ماہ کے دوران اسے اپوزیشن کی طرف سے کسی سنجیدہ مزاحمت کا سامنا نہ رہے اور رمضان،عید الفطر، محرم اور وفاقی اور صوبائی بجٹ کا عرصہ پر سکون طریقے سے گزر جائے ۔ آسان کیوں؟پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے پاکستان کو غیر ملکی مالیاتی اداروں کے قرضے کی ادائیگیوں میں ایک سال اور کچھ میں اس سے زیادہ کا ریلیف مل چکا ہے ۔ کورونا سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی امداد کی صورت میں ڈالروں کا بہائو بھی پاکستان کی طرف ہے ۔ افراط زر کم ہو رہا ہے ۔ اس لیے حکومت کے لیے معیشت ایک طویل عرصہ تک کوئی سنگین مسئلہ نہیں ہو گی۔ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے حالات بھی معمول پر رہیں گے ۔ کورونا کے خلاف جنگ کے ساتھ سٹریٹجک حکمت عملی اور وارگیمز میں بھی وقفہ رہے گا کیونکہ بیشتر ممالک کی افواج اور نیویز اندرونی مسائل میں الجھی ہوئی ہیں۔ افغانستان کے حالات میں بھی بہتری آ رہی ہے اور ٹرمپ نومبر میں ہونے والے انتخابات سے پہلے امریکی فوج کو افغانستان سے نکلنے کے لیے انخلا کے عمل میں تیزی چاہتے ہیں کیونکہ ٹرمپ کا انتخابات میں جیت کے لیے معیشت میں بہتری کا ٹرمپ کارڈ کورونا کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا ہے ۔ ملکی سطح پر کورونا نے ہر کسی کو پنجوں پر کھڑا کر رکھاہے ۔ یہاں تک کہ عدالتیں اور ججز صاحبان بھی مشترکہ حکمت عملی ترتیب دینے اور تنقید اور توصیف میں حصہ داری کے لیے مداخلت کر رہے ہیں۔ عوامی مفاد میں حکومت کے جارحانہ اقدامات جن میں 12ہزار روپے کی ضرورتمندوں کو فراہمی کے علاوہ صنعتکاروں اور تاجروں کو بھی فراخ دلانہ ریلیف فراہم کیا جا رہا ہے ۔ عوام کو صحت کی سہولت اور احساس ریلیف پروگرام کے ذریعے اقدامات کے علاوہ زکوٰۃ فنڈز کے عوام کی بہبود میں استعمال سے عمران خان اور تحریک انصاف کی مقبولیت میں اضافہ ہو گا۔ دوسری طرف اپوزیشن اس عرصے میں بدعنوانی کے مقدمات میں الجھی رہے گی۔ اس عرصے میں اپوزیشن کے رہنما جیل اور نیب میں پیشیوں میں الجھے رہیں گے اور نیب قانون میں تبدیلی کا لالی پاپ ان کو حکومت کے خلاف مزاحمت سے باز رکھے گا۔ اس طرح قابل قبول حالات میں 2020ء گزر جائے گا اور سینیٹ الیکشن کا مرحلہ آن پہنچے گا، سینیٹ کے انتخابات ہی عمران کی حکمت عملی کا بنیادی سنگ میل ہیں۔ جس کا عمران خان بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔ پنجاب اور کے پی کے میں اکثریت اور باقی صوبوں میں پی ٹی آئی کی نشستوں سے عمران خان کو سینیٹ میں اکثریت حاصل ہونے کا انتظار ہے جس کے بعد وہ قانون سازی اور آئینی ترامیم کرنے میں قدرے آزاد ہوں گے ۔ایسی تمام صورتحال میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ تحریک انصاف کو اسٹیبلشمنٹ کی تائید و حمایت حاصل رہے ، خاص طور پر سینیٹ کے انتخابات کے دوران اپوزیشن حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات میں رخنہ ڈالنے کی بھرپور کوشش کرے گی جیسا کہ ہماری تاریخ اس امر پر شاہد ہے اس قسم کی پس پردہ تبدیلیاں بالعموم بحث سے پہلے یا بحث کے بعد رونما ہوتی ہیں جن سے سیاسی توازن تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔ ان حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے خان نے تیزی سے تیاری شروع کر دی ہے اور ٹائیگر فورس کا قیام عمل میں آ چکا ہے ۔ ٹائیگر فورس کی صورت میں عمران خان کو مفت میں ایسی فوج دستیاب ہو گی جس کو وہ غریبوں کے لیے ریلیف کاموں میں اتار سکیں گے ۔ اس وقت جب اپوزیشن کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوں گے عمران خان عوام، تاجروں، بینک کاروں، بلڈرز اور بازار سب کو خوش کر چکے ہوں گے یہی وقت ہو گا جب عمران خان مڈٹرم انتخابات کا اعلان کر دیں گے ۔ مڈٹرم انتخابات جی ہاں عمران خان کی یہ حکمت عملی ہے کہ جب اپوزیشن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو اور عمران خان کی مقبولیت اپنے عروج پر ہو، مڈٹرم انتخابات کے ذریعے عمران خان اسمبلی میں اکثریت حاصل کریں اور مضبوط حکومت بنائیں، قانون سازی اور آئین میں فوری ترمیم بھی کر سکیں، عمران خان کو ایسے ہی وقت کا ہی انتظار ہے مگر تحریک انصاف کی تمام ترجیحات کا انحصار عمران کی طرف سے کی جانے والی غلطیوں کی نوعیت اور شدت پر بھی ہو گا اب اس نقطے کی طرف آتے ہیں۔ امکانات تو یہی ہیں کہ ایک ناتجربہ کار عمران خان اپنے تمام چھوٹے بڑے بلنڈرز کے باوجود بھی اپنے آپ کو اور حکومت کو سنبھالنے میں کامیاب ہوں گے ، عمران اپنی ان غلطیوں سے بہت کچھ سیکھ بھی چکے ہیں، انہوں نے اپوزیشن یہاں تک کہ اپنے اتحادیوں کو سیاسی طریقے سے سنبھالنے کا ہنر بھی سیکھ لیا ، ماضی کی تمام تر مشکلات کے باوجود وہ نو ڈیل، نو این آر او، نو کمپرومائز کے عہد پر قائم رہے ہیں ، یہی طاقت ان کو مستقبل میں بھی سہارا دیئے رکھے گی۔ کسی حد تک ان کے ناقدین کا یہ کہنا درست ہے کہ عمران خان پہلے دو سال میں ہی تھری نوز پر سمجھوتہ کر چکے ہیں مگر وہ یہ بات بھول رہے ہیں کہ عمران خان کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں تھی جس سے انہوں نے اقتدار حاصل کیا ہو، نا ہی ان کے پاس کوئی ترپ کا پتہ تھا ان کا اقتدار اتحادیوں کے رحم و کرم پر ہے جس کو کوئی اور کنٹرول کر رہا ہے ۔ ان حالات میں حکومت کا قائم رہنا بھی غنیمت ہے ۔ جب کہ ان کو کچھ معاملات میں ہزیمت بھی برداشت کرنا پڑی ہے مگر اس کے باوجود بھی وہ اپنے اصولی مؤقف پر تاحال قائم ہیں کہ وہ پس پردہ کسی ڈیل کا حصہ نہیں ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے اپنی بے بسی کا کسی حد تک کامیابی سے اظہار بھی کیا ہے ۔ عمران خان کو ایک سہولت یہ بھی حاصل ہے کہ وہ عالمی سطح پر ایک سپر سٹار کے طور پر جانے جاتے ہیں اور ان کے عالمی رہنمائوں سے بہترین مراسم ہیں جن کو وہ سٹریٹجک پلاننگ اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے سکیورٹی پیراڈائم میں استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کر لیتے ہیں اور اندرونی طور پر اپنے اہداف کا نصف بھی حاصل کر لیتے ہیں ان کو چھونا بھی ممکن نہ ہو گا۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ غیر ضروری طور پر متکبر ہو جائیں اور غیر ضروری جنگوں میں خود کو الجھا لیں۔ ان پر بہت سے فورمز پر اس حوالے سے تنقید کی جاتی ہے ۔ حکمت اسی میں ہے کہ جنگل سے گزرتے ہوئے جب درختوں کی شاخیں زمین کے قریب ہوں تو سر جھکا کر گزرا جائے اور جب درخت زمین پر پڑا ہو تو پھلانگ کر۔
 
Top