نیا منظر دکھایا جا رہا ہے

نیا منظر دکھایا جا رہا ہے
جہاں مسرور پایا جا رہا ہے
زمین پر عرش چھایا جا رہا ہے
دو عالم کو سجایا جا رہا ہے
کوئی دولہا بنایا جا رہا ہے
یہی ہے رفعت واعزاز و اکرام
بڑھائی جا رہی ہے شانِ اسلام
فلک سے لائے ہیں جبریل احکام
ہے سبحٰن الذی اسریٰ کا پیغام
جو دنیا کو سنایا جا رہا ہے
حرم سے تا فرازِ عرشِ اعظم
ہے بزمِ کن فکاں نورِ مجسم
ہیں ضو افشانیاں تاروں کی پیہم
شبِ اسریٰ ہے جلووں کا یہ عالم
جہاں پر نور چھایا جا رہا ہے
ہے ذوق دید کی مقصود تکمیل
فلک سے آئے کعبہ میں بہ تعجیل
ہے فرمانِ الٰہی کی یہ تعمیل
لگاتے ہیں قدم آنکھوں سے جبریل
شہِ دیں کو جگایا جا رہا ہے
دکھانی شان ہے روح الامیں کو
ہے کرنا مفتخر عرشِ بریں کو
امینِ کعبہ ختم المرسلیں کو
حرم سے اپنے محبوب حسیں کو
قریب اپنے بلایا جا رہا ہے
حجابِ دید جو رازِ نہاں تھا
پسِ آئینہ کون ومکاں تھا
پئے گفتن بقدرِ دو کماں تھا
جو محبوب و محب کے درمیاں تھا
وہ پردہ اب اٹھایا جا رہا ہے
زہے پیوستگیٔ نگہت و گل
ہے اک آئینہ میں عکسِ جز و کل
ہیں خود جلووں میں گم با ایں تجمل
ہے اللہ جمیل کا تخیل
جمال اپنا دکھایا جا رہا ہے
ہیں محبوب و محب مائل بخلوت
ہے صرف جامہ زیبی دستِ قدرت
شہا نہ نور کا تاجِ شفاعت
سرِ اوجِ دنیٰ بخشش کا خلعت
شہِ دیں کو پہنایا جا رہا ہے
نہ تھی معراج کی حد ایک شب تک
رہے گا ذکر یہ دنیا ہے جب تک
سنیں نغمے خدا جانے یہ کب تک
ضیا معراج کے دولہا کا اب تک
جہاں میں گیت گایا جا رہا ہے
(استاد الشعراء حضرت ضیاء القادری بدایونی)
 
Top