ذوق نہ کرتا ضبطِ نالہ تو پھر ایسا دھواں ہوتا

نہ کرتا ضبطِ نالہ تو پھر ایسا دھواں ہوتا
کہ نیچے آسماں کے اک نیا اور آسماں ہوتا
ابھی ٹھنڈا بھلا کیونکر تفتہِ جاں ہوتا
کوئی غم شمع مدہِ مردہ میں بھی ہے باقی دھواں ہوتا
کہے ہے مرغِ دل اے کاش میں زاغِ گماں ہوتا
کہ تا شاخِ گماں پراس کی میر ِ آشیاں ہوتا
عزاداری میں ہے کس کی یہ چرخِ ماتمی جامہ
کہ جیبِ چاک کی صورت ہےخطِ کہکشاں ہوتا
نہ ہوتی دل میں گر کاوش کسی کی نوکِ مژگاں
تو کیوں حق میں مرے ہر موئے تن مثلِ سناں ہوتا
اگر جی کھول کر میں تنگہائے دہر میں روتا
تو جوئے کہکشاں میں بھی فلک پہ خوں رواں ہوتا
بگولا نہ ہوتا وادیِ وحشت میں اے مجنوں
تو گنبد ہم سرگشتوں کی تربت پہ کہاں ہوتا
تیرے خونیں جگر کی خاک پر ہوتا اگر سبزہ
تو مثل مؤے مژگاں سے پہم خوں رواں ہوتا
رکاوٹ دل کی قاتل کے بوقتِ ذبح ظاہر تھی
کہ خنجر میری گردن پہ رُک رُک کر رواں ہوتا
نہ کرتا میں ضبطِ گریہ تو اے ذوق اک گھڑی پل میں
کٹورے کی طرح گھڑیال کے غرقِ آسماں ہوتا
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
اگر کسی شاعر کو اردو زبان و بیان پر قدرت حاصل کرنی ہے، تو ذوق کو پڑھے۔ ذوق، لفظ "قادر الکلام" کی سچی تفسیر ہیں۔

افسوس کہ ذوق کے خیال میں رفعت و ندرت نہیں پائی جاتی۔ کاش اس حسنِ بیاں کے ساتھ انھیں فکر کی گہرائی بھی نصیب ہوئی ہوتی تو آج اردو زبان کےپاس ایک اور غالب بھی ہوتا۔ مگر درباری ماحول نے انھیں اس طرف متوجہ ہونے کی فرصت ہی نہ دی۔ دربار میں جیسے کلام کی قدر تھی، وہ ویسا ہی لکھتے رہے۔ خلعتِ فاخرہ، القابات، جاگیریں اور مال و دولت تو حاصل کرتے رہے، مگر جیسا عظیم کام کرنے کی صلاحیت لے کر پیدا ہوئے تھے، اسے سر انجام نہ دے سکے۔ بادشاہوں کی خوشامد پسندی نے کیسے کیسے جوہر مٹی میں ملا دیے!

ادبی تنقیدسے ہٹ کر، سید شہزاد ناصر صاحب، آپ نے ذوق کے کلام کے جو نمونے پیش کیے ہیں، وہ اردو ادب کے طالب علموں کے لیے یقینا ایک تحفہ ہیں۔ اس پر میں آپ کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔

شاعر بننے کے شوقین حضرات اور میری (غیر رسمی سی) شاگردی میں آنے والے "محفلین" کو میرا مشورہ ہو گا، کہ کلامِ ذوق کا بنظرِ غائر مطالعہ کریں۔ یہ مطالعہ آپ کو اظہارِ خیال کا فن حاصل کرنے میں خوب مدد دے گا۔ البتہ ذوق کی سی سطحیت سے بچنے کی کوشش لازم ہے۔
 
اگر کسی شاعر کو اردو زبان و بیان پر قدرت حاصل کرنی ہے، تو ذوق کو پڑھے۔ ذوق، لفظ "قادر الکلام" کی سچی تفسیر ہیں۔

افسوس کہ ذوق کے خیال میں رفعت و ندرت نہیں پائی جاتی۔ کاش اس حسنِ بیاں کے ساتھ انھیں فکر کی گہرائی بھی نصیب ہوئی ہوتی تو آج اردو زبان کےپاس ایک اور غالب بھی ہوتا۔ مگر درباری ماحول نے انھیں اس طرف متوجہ ہونے کی فرصت ہی نہ دی۔ دربار میں جیسے کلام کی قدر تھی، وہ ویسا ہی لکھتے رہے۔ خلعتِ فاخرہ، القابات، جاگیریں اور مال و دولت تو حاصل کرتے رہے، مگر جیسا عظیم کام کرنے کی صلاحیت لے کر پیدا ہوئے تھے، اسے سر انجام نہ دے سکے۔ بادشاہوں کی خوشامد پسندی نے کیسے کیسے جوہر مٹی میں ملا دیے!

ادبی تنقیدسے ہٹ کر، سید شہزاد ناصر صاحب، آپ نے ذوق کے کلام کے جو نمونے پیش کیے ہیں، وہ اردو ادب کے طالب علموں کے لیے یقینا ایک تحفہ ہیں۔ اس پر میں آپ کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔

شاعر بننے کے شوقین حضرات اور میری (غیر رسمی سی) شاگردی میں آنے والے "محفلین" کو میرا مشورہ ہو گا، کہ کلامِ ذوق کا بنظرِ غائر مطالعہ کریں۔ یہ مطالعہ آپ کو اظہارِ خیال کا فن حاصل کرنے میں خوب مدد دے گا۔ البتہ ذوق کی سی سطحیت سے بچنے کی کوشش لازم ہے۔
آپ کی بات سے سو فیصد اتفاق ہے
بلکہ میں تو یہ کہنے کو تیار ہوں کہ اسلوب میں ذوق غالب سے کہیں آگے ہے
مگر ان کی شاعری میں سوچ کی وہ گہرائی نہیں جو غالب کا خاصہ ہے
شاد و آباد رہیں
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
آپ کی بات سے سو فیصد اتفاق ہے
بلکہ میں تو یہ کہنے کو تیار ہوں کہ اسلوب میں ذوق غالب سے کہیں آگے ہے
مگر ان کی شاعری میں سوچ کی وہ گہرائی نہیں جو غالب کا خاصہ ہے
شاد و آباد رہیں

اسلوب والی بات پر تو تقریبا سبھی ناقدین متفق ہیں۔ اور اس کی کسی حد تک تصدیق، غالب اور ذوق کے قصائد کے موازنے سے بھی ہوتی ہے۔ ذوق کا کلام پڑھ کر مجھے تو یوں لگتا ہے، کہ ان میں نئے خیالات اور فلسفہ پیش کرنے کی بھی پوری صلاحیت تھی۔ مگر ماحول نے ایسا ہونے نہ دیا۔ وہ اپنی خوشحال اور بے فکری زندگی سے مکمل مطمئن تھے اور یہ بات مزید جدوجہد کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنی۔ یا پھر قصیدہ گوئی نے اتنی فرصت ہی نہ دی۔ اس کا نوحہ بھی میں پڑھ چکا!
 
اسلوب والی بات پر تو تقریبا سبھی ناقدین متفق ہیں۔ اور اس کی کسی حد تک تصدیق، غالب اور ذوق کے قصائد کے موازنے سے بھی ہوتی ہے۔ ذوق کا کلام پڑھ کر مجھے تو یوں لگتا ہے، کہ ان میں نئے خیالات اور فلسفہ پیش کرنے کی بھی پوری صلاحیت تھی۔ مگر ماحول نے ایسا ہونے نہ دیا۔ وہ اپنی خوشحال اور بے فکری زندگی سے مکمل مطمئن تھے اور یہ بات مزید جدوجہد کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنی۔ یا پھر قصیدہ گوئی نے اتنی فرصت ہی نہ دی۔ اس کا نوحہ بھی میں پڑھ چکا!
جہاں تک میری ناقص رائے کا تعلق ہے مرزا رفیع سودا قصائد میں دونوں سے آگے ہے
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
جہاں تک میری ناقص رائے کا تعلق ہے مرزا رفیع سودا قصائد میں دونوں سے آگے ہے
متفق! کمال ہے۔ آپ تو واقعی ہم ذوق نکلے!

سودا تو عجیب نابغہء روزگار تھے۔ بدقسمتی سے سودا کے وقت میں اردو ابتدائی اصلاح کی بھٹی سے گزر رہی تھی اور اس میں غالب و ذوق کے زمانے تک پہنچنے والی پختگی ابھی موجود نہ تھی۔ غالب کے کلام میں آپ کو جا بجا سودا کا نہ صرف رنگ نظر آئے گا، بلکہ کافی سارے مضامین بھی ایسے ملیں گے جنھیں غالب نے بعد میں اپنے الفاظ میں بیان کیا یا انہیں آگے لے کر چلے۔ "جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں" والی معرکتہ الآراء غزل کی زمین بھی تو سودا ہی کی ہے۔ اس کے علاوہ بھی اور کئی مقامات پر "استاد" کا تتبع نظر آتا ہے۔ کاش سودا کے سامنے بھی سودا سی مثالیں ہوتیں! انھوں نے تو اپنا راستہ خود بنایا۔ بلکہ غالب جیسے شاعر کے لیے بھی زمین ہموار کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
ماشااللہ :)
خوشی ہوئی کہ آپ کا مطالعہ بہت وسیع ہے

ایف ایس سی میں فیل یونہی تو نہیں ہوا تھا۔ دوسرے لائبریری سے سائنس کی کتابیں نکلواتے۔ میں میر اور سودا کے کلیات۔ باقی قصہ تو تعارف میں آپ پڑھ ہی چکے ہیں! اس شاعری نے بڑا رلایا بھی ہے اس فقیر کو! پوری زندگی داؤ پر لگا دی تھی۔ اور پھر بعد میں ایسا پچھتایا کہ اس گلی سے گزرنا بھی چھوڑ دیا۔

اب تو کتابیں تک نہیں میرے پاس۔ بہت جی کرتا ہے کہ کلیاتِ میر، سودا، نظیر وغیرہ ہوں تو کبھی جی بہلاؤں۔ گھر سے نکلنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی۔
 
Top