احمد ندیم قاسمی نہ وہ سِن ہے فرصتِ عشق کا ، نہ وہ دِن ہیں کشفِ جمال کے

نہ وہ سِن ہے فرصتِ عشق کا ، نہ وہ دِن ہیں کشفِ جمال کے
مگر اب بھی دِل کو جواں رکھیں ، وہی شعبدے خدوخال کے
یہ جو گَرد بادِ حیات ہے ، کوئی اِس کی زَد سے بچا نہیں
مگر آج تک تیری یاد کو میں رکھوں سنبھال سنبھال کے
میں امین و قدر شناس تھا ، مجھے سانس سانس کا پاس تھا
یہ جبیں پہ ہیں جو لکھے ہوئے ، یہ حساب ہیں مہ و سال کے
وہ کبھی شفق کا فَسوں کہیں ، کبھی گُل کہیں کبھی خوں کہیں
کہ ہیں میری صبحِ عروج میں ابھی رنگ شمعِ زوال کے
شبِ تار سے نہ ڈرا مجھے ، اے خُدا جمال دِکھا مجھے
کہ تیرے ثبوت ہیں بیشتر ، تیری شانِ جاہ و جلال کے
کوئی کوہکن ہو کہ قیس ہو ، کوئی مِیر ہو کہ ندیم ہو
سبھی نام ایک ہی شخص کے ، سبھی پھول ایک ہی ڈال کے
احمد ندیم قاسمی
 
Top