نہ مجھ سے کہنا پھر۔

رشید حسرت

محفلین
نہیں دیا ھے جو کہنے، نہ مجھ سے کہنا پھر
جدائیوں کے ہیں جتنے عذاب، سہنا پھر

ذرا سی دیر خُوشی کو بھی اِن میں رہنے دو
اے جُگنوؤ! میری آنکھوں میں تم ہی رہنا پھر

خزاں کی دُھوپ نے زردی ملی ھے چہرے پر
لو آرزو نے ہرا اک لباس پہنا پھر

گلے سے نوچ کے پھینکی گئی تھی اک مالا
مِرے بدن پہ جچا ھے نہ کوئی گہنا پھر

مجھے دھکیل گیا جیتے جی جہنّم میں
مِرے رفیق کی آنکھوں سے اشک بہنا پھر

وہ چاند نام پہ اترا ھے ایک مدّت بعد
کہ چودھویں کا گیا آج چاند گہنا پھر

رشیدؔ ٹُوٹ رہی ہیں قیامتیں دل پر
وہ دے گیا ھے غریبی کا آج مِہنا پھر۔

رشید حسرتؔ۔
 
Top