نہ قفس، نہ آشیانہ

ابن عادل

محفلین
مذکورہ بالا عنوان اس کتاب کا ہے جس کے مصنف محترم سہیل فدا صاحب ہیں ۔ لیکن یہاں اس کتاب کا نہیں بلکہ مصنف کا تعارف کرانا مقصود ہے ۔ اس مصرع کے ساتھ کہ نومید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ
جہاں زیب کالج سیدوشریف (سوات) میں سالِ اوّل کا طالب علم اپنے کزن کے قتل میں دھر لیا گیا۔ بے گناہ ملزم کے والد نے تھانے دار کو ۲لاکھ روپے کی رشوت دینے سے انکار کیا تو ملزم پر بے پناہ تشدد ہوا، مقدمہ چلا اور آخر سزاے موت سنائی گئی۔ اس عرصے میں سہیل فدا نے اپنے دادا اور والدہ کی دعاؤں، مطالعے کی طرف طبعی رغبت اور (سب سے بڑھ کر) والد کی حوصلہ افزائی کے سہارے بفضلہ تعالیٰ پے درپے تعلیمی امتحانات پاس کیے۔’بین الاقوامی تعلقات‘ میں ایم اے کیا۔ ایک اپیل کے نتیجے میں وفاقی شریعت کورٹ نے سزاے موت عمرقید میں بدل دی۔ بی کلاس کی سہولت ملی، ایم اے تاریخ میں کیا۔ انگریزی ادب میں ایم اے کا نتیجہ مارچ ۲۰۱۲ء میں آنے والا ہے اور سہیل فدا کی رہائی بھی اسی سال متوقع ہے۔
کہنے کو تو یہ ایک نوعمر طالب علم کی آپ بیتی ہے مگر اس سے ہمارے عدالتی نظام، جیلوں، حوالات، پولیس کے طور طریقوں خصوصاً ’تفتیش‘ کے نام پر انسانیت سوز مظالم اور حربوں کے مثبت اور منفی پہلو سامنے آتے ہیں (زیادہ تر منفی)۔ مثبت یہ کہ اگر کوئی ملزم یا مجرم اپنی تعلیمی استعداد بڑھانا چاہے تو برطانوی عہد سے جاری قانون اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اور مختلف تعلیمی امتحانات پاس کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی سزا میں کمی ہوتی جاتی ہے جیساکہ سہیل فدا کے ساتھ ہوا۔
یہ مختصر آپ بیتی ملزموں، مجرموں اور خود حاکموں کے لیے بھی سبق آموز ہے۔ حاکم تو کیا سبق لیں گے، ہاں کوئی نرم دل اور دردمند شخص جیلوں اور پولیس تفتیشی طریقوں کی اصلاح کا بیڑا اُٹھائے تو اس داستان سے مدد ملے گی۔سہیل فدا قابلِ تعریف ہیں کہ انھوں نے رشوت طلب کرنے والے تھانے دار ، تشدد کرنے والے پولیس اہل کاروں، جیل میں امتحان لینے کے لیے آنے والے پروفیسر ممتحنوں اور تشدد سے اَدھ موے ملزم کو مزید ریمانڈ کے لائق (فٹ) اور تشدد کی علامات و نشانات کے باوجود اسے ہٹّا کٹّا قرار دینے والے جیل کے ڈاکٹروں کے خلاف کسی طرح کے انتقامی جذبات کا اظہار نہیں کیا (زندگی میں کامیابی کے لیے صبروتحمل کا یہ وصف غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے)۔
پانچ برس تک سزاے موت کی تلوار سہیل فدا کے سر پر لٹکتی رہی، مگر نماز اور ’’اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع‘‘ (ص ۱۰۳) کرنے سے ان کی گھبراہٹ کافور ہوجاتی۔ انھی پانچ سالوں میں سہیل نے ایم اے تک کی تعلیم مکمل کی اور بہت کچھ غیرنصابی عمومی مطالعہ بھی کیا۔ ایک جگہ بتایا ہے: معروف کمیونسٹ سبطِ حسن کی تحریروں نے میرے مذہبی معتقدات کو کچھ عرصے کے لیے ہلاکر رکھ دیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے ڈر اور کال کوٹھڑی میں اس کی مدد کی شدید ضرورت بالآخر سبطِ حسن کے کچھ نظریات کی بہ نسبت کہیں زیادہ طاقت ور ثابت ہوئی۔ (ص ۱۱۴)
۲۰۱۲ء میں متوقع رہائی کے بعد وہ تعلیمی شعبے میں خدمات انجام دینے کا عزم کیے ہوئے ہے۔ کتاب کا حُسنِ اشاعت و اہتمام لائقِ داد ہے، مگر قیمت افسوس ناک طور پر زیادہ، بہت ہی زیادہ ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)​
 
Top