نہ جانتے تھے کہ اس قیامت کی بندشوں میں حیات ہوگی

محمد مسلم

محفلین
نہ جانتے تھے کہ اس قیامت کی بندشوں میں حیات ہوگی
کہ ذکرِ ہجر و وصال ہوگا، نہ آرزؤں کی بات ہوگی

چلو کہ ہم زندگی کی نظریں بچا کے بس ایک پل چرا لیں
کہ اس وفاقت کی ایک ساعت ہی حاصلِ کائنات ہوگی

یہ بھیگتی شام میں پلکوں پہ پھر ستارے سجا رہی ہے
اترنے والی کسی کی یادوں کے جگنوؤں کی برات ہوگی

کوئی اٹھے اور اٹھ کے چہرے کو مہرِ تاباں کے ڈھانپ آئے
ہے ان کا کہنا کہ رات ہے یہ تو ٹھیک ہے پھر یہ رات ہوگی

بچھی ہوئی ہیں ہزار آنکھیں، ہزار احباب منتظر ہیں
سنا تو ہے آپ آرہے ہیں مگر کہاں ہم سے بات ہوگی

ہیں اپنی دیوانگی سے واقف، جبھی تو اکثر یہ سوچتے ہیں
ہوئی بھی ان سے جو سرگرانی، تو کس قدر بے ثبات ہوگی

مروّتیں سر پٹک رہی ہیں، انا کے تاریک گنبدوں میں
دلوں کی شمعیں جلا کے دیکھو، کوئی تو راہِ نجات ہوگی

تمہاری فہرست میں ہمارا ہی نام پہلے رقم ہوا تھا
شمار ہوگا جو سرکشوں کا، ہدف ہماری ہی ذات ہوگی

نہ ہو گراں بارئی سماعت، تو منصفانِ دمشق سن لیں
گواہ تشنہ لباں کی ہوگی تو صرف موجِ فرات ہوگی

گرا ہے بازارِ نیمروزی میں پھر کسی ماہ رُو کا جھمکا
سہیلیاں مل کے ڈھونڈ لائیں گی جب ذرا اور رات ہوگی

بھلا تو دیں داستاں پرانی، مگر ہم اس دل کو جانتے ہیں
ادھر یہ قصہ تمام ہوگا، اُدھر نئی واردات ہوگی

صبا کی نامہ بری پہ ہم کو کوئی بھروسہ نہیں رہا ہے
وہ خیر سے گھر جو لوٹ آئیں، تو روبرو اُن سے بات ہوگی

چشمِ ستارہ شمار۔ صبیحہ صبا
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
Top