نہ آستین میں کچھ ہے ، نہ منہ پہ تالا ہے (طرحی فی البدیہہ غزل)

قمرآسی

محفلین
نہ آستین میں کچھ ہے ، نہ منہ پہ تالا ہے
تبھی تو بزم سے اس نے ہمیں نکالا ہے
ترے وصال کی اب کوئی آرزو نہ رہی
ترے فراق کو سینے لگا کے پالا ہے
ضیاء ملے گی زمانے کو اپنی باتوں سے
"ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے"
تو کیا ہوا جو مجھے راس آگئی فرقت
ذرا سی بات ہے ، کتنا اُسے اچھالا ہے
سُنائی ساری کہانی بغیر رد و بدل
وفا کا ذکر مہارت سے اس نے ٹالا ہے
بغیر خوف چلے آؤ راہ الفت پر
یہ راستہ میں نے اچھے سے دیکھا بھالا ہے
یہاں پہ چلنا اگر ہے تو سر کے بل چلنا
کہ راہ عشق کا دستور ہی نرالا ہے
وہ پھیر پھیر نگاہیں جو ہم کو دیکھیں گے
ہمارے دل نے مچلنا تو لامحالہ ہے
گرا ہے جب بھی رہِ عشق میں قمرآسیؔ
کسی کی آس نے بڑھ کے اسے سنبھالا ہے
‫محمدقمرشہزادآسی‬ؔ
 
Top