نہ آنکھ ہوگی کوئی حال پر جو تر نہ ہوئی

نور وجدان

لائبریرین
نہ آنکھ ہوگی کوئی حال پر جو تر نہ ہوئی
مگر نَہ اُن کو ہوئی، میری گر خَبر نَہ ہُوئی

تھی میں جو پابَہِ زنجیر، مُڑ وہ بھی نَہ سَکے
گھَڑی نَہ ایسی تھی، جو اُس گھڑی بَسر نُہ ہوئی

خیالِ یار کے سائے میں رقص میں نے کِیا
نَہیں لکھی تھی مُلاقات، سر بَہ سَر نَہ ہُوئی

ترا خیال ز خود رفتگی کی نذر ہوا
مجھے کچھ اپنے بھی احوال کی خبر نہ ہوئی

وہ اک گھڑی کہ تھی سرمایہ ء محبت و زیست
کسی نَظر میں مگر وہ بھی معتبر نہ ہوئی

قفس کی ٹوٹی نَہ زنجیر، قیدِ غم میں رہی
لگی ہے آہ یہ کس کی کہ بے اَثر نَہ ہُوئی

طوافِ کوچہِ جاناں میں خاک میری رہی
زہے نصیب! یہ اور جا پہ در بدر نہ ہوئی
 

الف عین

لائبریرین
نہ آنکھ ہوگی کوئی حال پر جو تر نہ ہوئی
مگر نَہ اُن کو ہوئی، میری گر خَبر نَہ ہُوئی
... حال، کسی کا یا محض صیغہ؟ واضح کرو

تھی میں جو پابَہِ زنجیر، مُڑ وہ بھی نَہ سَکے
گھَڑی نَہ ایسی تھی، جو اُس گھڑی بَسر نُہ ہوئی
... دونوں مصرعوں میں انداز بیان اچھا نہیں۔ 'وُبی' بجائے 'وہ بھی' اور 'نہ ایسی' کی الٹی ترتیب روانی میں مانع ہے

خیالِ یار کے سائے میں رقص میں نے کِیا
نَہیں لکھی تھی مُلاقات، سر بَہ سَر نَہ ہُوئی
... ربط کمزور ہے دونوں مصرعوں میں، دوسرے میں 'سو' یا 'اس لئے' کی کمی ہے

ترا خیال ز خود رفتگی کی نذر ہوا
مجھے کچھ اپنے بھی احوال کی خبر نہ ہوئی
... مجھ کو ز خود.... غلط لگ رہا ہے، یہاں شاید از خود رفتگی کا محل ہے، ز خود.. کہنے سے 'کی نذر' مہمل ہو جاتا ہے کہ یہ خود 'خود رفتگی سے' مطلب لیا جائے گا۔

وہ اک گھڑی کہ تھی سرمایہ ء محبت و زیست
کسی نَظر میں مگر وہ بھی معتبر نہ ہوئی
.. درست لیکن 'کسی نطر' کی جگہ 'تری نطر' کہیں تو؟

قفس کی ٹوٹی نَہ زنجیر، قیدِ غم میں رہی
لگی ہے آہ یہ کس کی کہ بے اَثر نَہ ہُوئی
.... قید غم میں کون رہا؟ زنجیر یا نور؟ واضح نہیں

طوافِ کوچہِ جاناں میں خاک میری رہی
زہے نصیب! یہ اور جا پہ در بدر نہ ہوئی
.. اور کا' اُر' بن جانا قابل قبول نہیں، اس کی کیا اصلاح اچانک ذہن میں آئی ہے
خوشا! کہ اور کسی جا پہ در بدر نہ ہوئی
یا
خوشا کہ اور کہیں جا کے در بدر....
 

نور وجدان

لائبریرین
بچھڑ گئے مرے ہمدم، امید بَر نَہ ہوئی
مگر دعا جو کی میں نے وہ کارگر نہ ہوئی

نہیں لکھی تھی ملاقات اس لیے نہ ہوئی
طلب مری رہی پیہم جو آنکھ تر نہ ہوئی
یا
نہیں لکھی تھی ملاقات سو اگر نہ ہوئی
طلب مری رہی پیہم کہ آنکھ تر نہ ہوئی

یہ بندِ غم نَہ تو ٹوٹا، نَہ زیست سے ناطہ
نَہ جانے کس کی لگی آہ، بے اثر نَہ ہوئی

ترا خیال بھی طوفاں کی نذر ہوتا رہا
سیاہ بختی کسی طور کم مگر نہ ہوئی

وہ اک گھڑی کہ تھی سرمایہ ء محبت و زیست
تری نظر میں مگر وہ بھی معتبر نہ ہوئی

خیالِ یار کے سائے نے یوں کیا بیگانہ
مجھے کچھ اپنے بھی احوال کی خبر نہ ہوئی

وفا کی قبر پہ جس دم چڑھائے میں نے پھول
کسی بھی طور وہ ساعت کبھی بسر نہ ہوئی

طواف کوچہِ جاناں میں خاک میری رہی
خوشا! کہ اور کسی جا پہ در بدر نہ ہوئی
 

الف عین

لائبریرین
یہ تو پوری نئی غزل ہو گئی، پھر دیکھنا پڑ رہی ہے
بچھڑ گئے مرے ہمدم، امید بَر نَہ ہوئی
مگر دعا جو کی میں نے وہ کارگر نہ ہوئی
.... امید بر 'آتی' ہے 'ہوتی' نہیں

نہیں لکھی تھی ملاقات اس لیے نہ ہوئی
طلب مری رہی پیہم جو آنکھ تر نہ ہوئی
یا
نہیں لکھی تھی ملاقات سو اگر نہ ہوئی
طلب مری رہی پیہم کہ آنکھ تر نہ ہوئی
.... پہلے متبادل میں تقابل ردیفین ہے، دوسرا ٹھیک ہے
رہی مری پیہم... بہتر ہو گا کیا؟

یہ بندِ غم نَہ تو ٹوٹا، نَہ زیست سے ناطہ
نَہ جانے کس کی لگی آہ، بے اثر نَہ ہوئی
... پہلا مصرع ترتیب بدل کر روانی بہتر کرو

ترا خیال بھی طوفاں کی نذر ہوتا رہا
سیاہ بختی کسی طور کم مگر نہ ہوئی
... یہ بھی واضح نہیں رہا، طوفان کس قسم کا؟

وہ اک گھڑی کہ تھی سرمایہ ء محبت و زیست
تری نظر میں مگر وہ بھی معتبر نہ ہوئی
... درست قرار دے ہی دیا ہے

خیالِ یار کے سائے نے یوں کیا بیگانہ
مجھے کچھ اپنے بھی احوال کی خبر نہ ہوئی
.. پہلا مصرع بحر سے خارج؟
خیال یار نے بیگانہ کر دیا کچھ یوں
یا اس قسم کا کوئی مصرع رکھو، خواہ مخواہ اس کے سائے کو گھسیٹنے کی کیا ضرورت؟

وفا کی قبر پہ جس دم چڑھائے میں نے پھول
کسی بھی طور وہ ساعت کبھی بسر نہ ہوئی
... ٹھیک

طواف کوچہِ جاناں میں خاک میری رہی
خوشا! کہ اور کسی جا پہ در بدر نہ ہوئی
.. درست
 

نور وجدان

لائبریرین
بچھڑ گئے مرے ہمدم کہ بات پھر نہ ہوئی
مگر دعا جو کی میں نے وہ کارگر نہ ہوئی

نہیں لکھی تھی ملاقات سو اگر نہ ہوئی
طلب رہی مری پیہم کہ آنکھ تر نہ ہوئی

حیات میری رواں غم کے دائروں میں رہی
نَہ جانے کس کی لگی آہ، بے اثر نَہ ہوئی

ترا خیال حقیقت کی تاب میں ہوا گم
وہ رعبِ حسن کہ اپنی بھی کچھ خبر نہ ہوئی

وہ اک گھڑی کہ تھی سرمایہ ء محبت و زیست
تری نظر میں مگر وہ بھی معتبر نہ ہوئی

خیالِ یار نے بیگانہ کردیا کچھ یوں
مجھے کچھ اپنے بھی احوال کی خبر نہ ہوئی

وفا کی قبر پہ جس دم چڑھائے میں نے پھول
کسی بھی طور وہ ساعت کبھی بسر نہ ہوئی

طواف کوچہِ جاناں میں خاک میری رہی
خوشا! کہ اور کسی جا پہ در بدر نہ ہوئی
 

الف عین

لائبریرین
بچھڑ گئے مرے ہمدم کہ بات پھر نہ ہوئی
مگر دعا جو کی میں نے وہ کارگر نہ ہوئی
.. پھر قافیہ کیسے آ سکتا ہے؟

نہیں لکھی تھی ملاقات سو اگر نہ ہوئی
طلب رہی مری پیہم کہ آنکھ تر نہ ہوئی
.. درست

حیات میری رواں غم کے دائروں میں رہی
نَہ جانے کس کی لگی آہ، بے اثر نَہ ہوئی
.. پچھلا مصرع ہی بہتر تھا، اسی کو یوں کر دیں تو کیسا رہے؟
یہ بند غم ہی نہ ٹوٹا، نہ ٹوٹا رشتۂ زیست

ترا خیال حقیقت کی تاب میں ہوا گم
وہ رعبِ حسن کہ اپنی بھی کچھ خبر نہ ہوئی
.. درست، اگرچہ خیال ہی مکمل بدل گیا ہے

وہ اک گھڑی کہ تھی سرمایہ ء محبت و زیست
تری نظر میں مگر وہ بھی معتبر نہ ہوئی
.. درست

خیالِ یار نے بیگانہ کردیا کچھ یوں
مجھے کچھ اپنے بھی احوال کی خبر نہ ہوئی
.. درست

وفا کی قبر پہ جس دم چڑھائے میں نے پھول
کسی بھی طور وہ ساعت کبھی بسر نہ ہوئی
.. درست
طواف کوچہِ جاناں میں خاک میری رہی
خوشا! کہ اور کسی جا پہ در بدر نہ ہوئی
.. درست
 

نور وجدان

لائبریرین
کسی بھی طور شبِ غم کی پھر سحر نہ ہوئی
نصیب میرا، دعا بھی تو کارگر نہ ہوئی


نہیں لکھی تھی ملاقات سو اگر نہ ہوئی
طلب رہی مری پیہم کہ آنکھ تر نہ ہوئی

یہ بند غم ہی نہ ٹوٹا، نہ ٹوٹا رشتۂ زیست
نَہ جانے کس کی لگی آہ، بے اثر نَہ ہوئی

ترا خیال حقیقت کی تاب میں ہوا گم
وہ رعبِ حسن کہ اپنی بھی کچھ خبر نہ ہوئی

وہ اک گھڑی کہ تھی سرمایہ ء محبت و زیست
تری نظر میں مگر وہ بھی معتبر نہ ہوئی

خیالِ یار نے بیگانہ کردیا کچھ یوں
مجھے کچھ اپنے بھی احوال کی خبر نہ ہوئی

وفا کی قبر پہ جس دم چڑھائے میں نے پھول
کسی بھی طور وہ ساعت کبھی بسر نہ ہوئی

طواف کوچہِ جاناں میں خاک میری رہی
خوشا! کہ اور کسی جا پہ در بدر نہ ہوئی


الف عین سر، مطلع رہ گیا تھا فقط، اب دیکھیے
 
Top