نہیں ہلال فلک پر مہِ محرم کا - مرزا محمد رفیع سودا (مرثیہ)

حسان خان

لائبریرین
نہیں ہلال فلک پر مہِ محرم کا
چڑھا ہے چرخ پہ تیغا مصیبت و غم کا
دل اس طرح سے یہ گھائل کرے گا عالم کا
کہ واں نہ لگ سکے ٹانکا نہ پھاہا مرہم کا

دلوں میں آتشِ غم یہ رکھے ہے اب تب و تاب
کہ مور خاک میں اور مرغ ہوں ہوا میں کباب
کر اس کو یاد جو آلِ نبی پہ بند تھا آب
ہر ایک چشمہ رواں ہو گا چشمِ پُرنم کا

زمیں پہ زیرِ فلک ہے جو خلقتِ آدم
سروں پہ ڈالیں خاک اپنے اپنے سب اک دم
جدھر کرے گی خوشی منہ تو یوں کہے گا غم
ادھر نہ آئیو ہرگز یہ گھر ہے ماتم کا

خوشی رہے گی نہ موجب سے اُس کے پوچھے بن
کہے گا غم اُسے آسودگاں کی اے ساکن
اسی مہینے کے مارا پڑا وہ دسویں دن
شرف جو آدمیوں کا تھا فخر آدم کا

کریں نہ اہلِ جہاں کس طرح سے شیون و شین
سروں کو اپنے نہ پیٹے سو کیوں وہ کر کے بین
ہوا ہے آج کے دن قتل کربلا میں حُسین
یہ تعزیہ ہے رموزِ خدا کے محرم کا

بڑا کیا تھا محمد نے جس کو گود میں پال
پھرے تھا ساقیِ کوثر کے دوش پر مہ و سال
گیا جہان سے پیاسا وہ فاطمہ کا لال
عطش ہے تن سے ہوئی روح کی سبب رم کا

ہزار طرح کے دریا رواں تھے دنیا میں
جو کوئی تھا سو وہ سیراب تھا ہر اک جا میں
کئی غریب جو تھے کربلا کے صحرا میں
نصیب اُن کے نہ قطرہ ہوا کسی یم کا

یہ ظلم کس کی زباں کو ہے کہنے کا یارا
نبی کا قتل کیا ظالموں نے گھر سارا
جو اُن میں طفل تھا شش ماہہ اُس کو بھی مارا
کیا نہ عمرو نے کچھ فرق زائد و کم کا

قضا کی تیغ کا جب سب کو کھا چکا جوہر
رہا نہ اُس شہِ مظلوم کا کوئی یاور
زباں نکال کے بولا یہ شمر کا خنجر
کہ میں ہی اب تو ہوں اک آشنا ترے دم کا

کہے جو تو تجھے جد کے کنے میں لے جاؤں
جو مرضی ہووے تو والد کے پاس بٹھلاؤں
ترا اخی جو ہے کہہ اُس کے ساتھ ملواؤں
ملاپ چاہے جو تو اس شہِ مکرم کا

سخن یہ سن کے لگا کہنے وہ شہِ آفاق
اُنہوں کا دل کو مرے اس قدر نہیں ہے فراق
رضائے حق کی ملاقات کا ہوں میں مشتاق
جو ہووے ایسے میں تو ہو ملاپ باہم کا

خدا کی مرضی سے دل کو مرے محبت ہے
جو آب تجھ میں ہے مجھ تشنہ لب کو شربت ہے
جنہوں کے ذائقے سے دور اس کی لذت ہے
اثر مزاج میں اُن کے رکھے ہے یہ سم کا

ہمیں یہ مرتبہ پشتین سے چلا آیا
مرے پدر کو بھی حق نے یہ جام پلوایا
اور اب جو مجھ تک اُسے تیرے ہاتھ بھجوایا
ہمارے واسطے احسان ہے یہ پیہم کا

سن اس کو دشنہ گلے شہ کے لگ لہو رویا
غبار تن پہ جو تھا اپنے اشک سے دھویا
شہ اُس سے مل کے فراغت سے اس طرح سویا
کہ تا ابد نہ کھلے پردہ چشمِ برہم کا

حرم کے اور کہوں پھیر کیا نصیبوں کے
گریں گے لختِ جگر چشم سے حبیبوں کے
فلک نے پھینک دیا سر پہ اُن غریبوں کے
سمیٹ کر ستم و جور سارے عالم کا

چلے جو شام وہ آفت رسیدہ ہو کے اسیر
نہ جانیے انہیں کس طرح سے کیا زنجیر
سنا کیے ہیں کہ عابد کی تا بہ عمرِ اخیر
نشاں گیا نہیں گردن سے طوقِ پُرخم کا

نہ ساتھ تھا کوئی ایسا بجز خدا کی ذات
تھکے جو پاؤں تو اُس ناتواں کے پکڑے ہات
کٹے تھے جن کی رفاقت سے راہ میں دن رات
جگر پہ داغِ پدر، دل میں غم بنی عم کا

پیادہ وہ، حرم اونٹوں پہ بے حجاب سوار
ہر ایک پاؤں میں زنجیر، ہاتھ بیچ مہار
برہنہ پا وہ غریب اور دشت یہ پُرخار
غبار ہوئے تھا گل خوں سے اُس کے مقدم کا

کبھو تو مانگے تھا پانی کسی سے وہ معصوم
کبھو تو چاٹے تھا ہونٹھ اپنے پیاس سے مغموم
کبھو کہے تھا کہ اے وائے قسمتِ محروم
پیالہ پانی کا اب مجھ کو جام ہے جم کا

کوئی جو دیوے تھا پانی بھی تو اس آئیں سے
کہے تھا اوک سے پی پی نہ اتروں گا زیں سے
گراوے تھا وہ پلانے میں خاک پر کیں سے
کہ تا نہ بھر سکے چلو شہِ معظم کا

ہر ایک عضو میں شدت سے تپ کی ایسا درد
کہ رنگِ چہرہ کبھو سبز اور گاہے زرد
ٹھہرنے تس پہ نہ دیتے تھے ٹک کہیں نامرد
چلو چلو ہی سخن تھا ہر ایک اظلم کا

گذر انہوں کا ہوا حرب گاہ پر ناگاہ
پڑی جو اُس تنِ بے سر پہ عابدیں کی نگاہ
بھری وہیں دلِ پُرسوز سے اک ایسی آہ
کہ وہم سب کو ہوا شعلہ برق کا چمکا

زمیں وہ دیکھ کے چھینٹوں سے خون کے رنگیں
کہا مدینے کو منہ کر کے اے رسولِ امیں
خزانِ باغِ رسالت میں مجھ کو علم نہیں
چمن یہ پھول رہا ہے کدام موسم کا

یہ وہ حسین ہے بے سر پڑا ہے جس کا تن
یہ وہ حسین ہے جس پر نہیں ہے پیراہن
یہ وہ حسین ہے جس کو ملا نہ گور و کفن
کہ جس حسین کا تو غم گسار ہر دم کا

چمٹ کے اُس سے گہے آبدیدہ ہووے تھا
گہ اپنے اشک سے اُس کا غبار دھووے تھا
ہر ایک زخم سے یوں منہ لگا کے رووے تھا
کہ جس طرح سے گرے گل پہ دانہ شبنم کا

کہا یہ رو کے نہیں سر جو اے پدر تیرا
میں سر کے تیرے تصدق کہاں ہے سر تیرا
علم پہ سر ہے، تن اس جا، مدینہ گھر تیرا
مجھے نظر نہیں آتا ملاپ باہم کا

برہنہ اونٹوں پہ بے جان خواہر و مادر
گلے میں اس کے نہ کُرتا نہ اُس کے سر چادر
چلے ہیں شام کو یوں چھوڑ کر نبی کا گھر
بیاں اُنہوں کے ہے یہ صورتِ مجسم کا

عمل یہ کیا کیا ان اشقیائے امت نے
اُنہوں کو یاں تئیں گھیرا ہے اُن کی شامت نے
کہ فائدہ نہ کیا کچھ تری نصیحت کا
تجھے نواسا نہ سمجھے رسولِ اکرم کا

غرض وہ نعشِ پدر سے یہ حرف کہتا تھا
اور اُس کا خونِ دل آنکھوں کی راہ بہتا تھا
شفیق اس کنے ایسا وہ کون رہتا تھا
لہو جو پاک کرے اُس کے دیدۂ پُرنم کا

اگر خوشی سے کہی غم نے یہ حکایت سب
تو پھر جہان میں یارو خوشی رہے گی کب
ہر ایک رووے گا تا روزِ حشر روز و شب
بجا کرے گا دمامہ حسین کے غم کا

زہے نصیب جو سودا رلائے یا رووے
جز اشک نامۂ اعمال کس طرح دھووے
یہ روسیاہ تو ایسا نہیں جسے ہووے
تلاش مرثیہ گوئی سے دام و درہم کا

(مرزا محمد رفیع سودا)
تاریخِ وفات: ۱۷۸۱ء​
 
آخری تدوین:
Top