نکلے جو دم کسی کا تیرے انتظار میں۔ حیرتؔ شاہ وارثی

نکلے جو دم کسی کا تیرے انتظار میں
کیا خاک چین پائے وہ کنج مزار میں

او مست ناز اف تیری محشر خرامیاں
اک حشر سا بپا ہے دل بے قرار میں

کہنا نہ پھر کہیں ہمیں بدنام کر دیا
دیکھو کہ دل نہیں ہے مرے اختیار میں

اب کیا کہیں کہ کیسے ملا آستان یار
سجدے قدم قدم پہ کیے راہ گزار میں

اس عندلیب سوختہ ساماں کی کچھ نہ پوچھ
جس کا اجڑ گیا ہو نشیمن بہار میں

اس برق وش کے حسن کی اللہ رے تپش
اک آگ سی لگی ہے دل داغدار میں

قسمت کی نارسائیاں بعد فنا رہیں
مر کے بھی دفن ہو نہ سکا کوئے یار میں

کیا پوچھتے ہو دل کا پتہ دل کا کیا پتہ
مدت ہوئی کہ مل گیا گرد و غبار میں

خورشید حشر اپنی دکھاتا ہے تابشیں
میں سو رہا ہوں گوشۂ دامان یار میں

حیرتؔ کہ تجھ کو حیرت دیدار ہو نصیب
آ دیکھ لے تو شان خدا حسن یار میں

حیرتؔ شاہ وارثی
 

حسرت جاوید

محفلین
Top