داغ نکال اب تیر سینے سے کہ جان پر الم نکلے

نکال اب تیر سینے سے کہ جانِ پُرالم نکلے
جو یہ نکلے تو دل نکلے جو دل نکلے تو دم نکلے

تمنا وصل کی اک رات میں کیا اے صنم نکلے
قیامت تک یہ نکلے گر نہایت کم سے کم نکلے

مرے دل سے کوئی پوچھے شبِ فرقت کی بے تابی
یہی فریاد تھی لب پر کہ یارب جلد دم نکلے

ہوئے مغرور جب جب آہ میری بے اثر دیکھی
کسی کا اس طرح یا رب نہ دنیا ميں بھرم نکلے

مبارک ہو یہ گھر غیروں کو، تم کو، پاسبانوں کو
ہمارا کیا اجارہ ہے ، نکالا تم نے، ہم نکلے

نہ اٹھّے مر کے بھی ایسے ترے کوچے میں ہم بیٹھے
محبت ميں اگر نکلے تو ہم ثابت قدم نکلے

رہِ الفت کو اک سیدھا سا رستہ ہم نے جانا تھا
مگر دیکھا تو اس رستے ميں صدہا پیچ و خم نکلے

سمجھ کر رحم دل تم کو دیا تھا ہم نے دل اپنا
مگر تم تو بلا نکلے، غضب نکلے ، ستم نکلے

نہ نکلا دل ہی سینے سے نہ پیکاں ہی جدا نکلا
اگر نکلے تو دونوں آشنا ہو کر بہم نکلے

برا ہو اس محبت کا کہ اس نے جان سے کھویا
لگا دل اس ستمگر سے اجل کا جس سے دم نکلے

دمِ پُرسش جو دیکھا اُس بتِ سفّاک کو مُضطر
صفِ محشر سے دل پکڑے ہوئے گبھرا کے ہم نکلے

کہیں کیا دل میں کیا آيا، کہیں کیا منہ سے کیا نکلا
کہیں جو چلتے پھرتے ہم سوئےبیت الصنم نکلے

گئے ہیں رنج و غم اے داغ! بعدِ مرگ ساتھ اپنے
اگر نکلے تو یہ اپنے رفیقانِ عدم نکلے
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین
نکال اب تیر سینے سے، کہ جانِ پُرالم نکلے
جو یہ نکلے تو دل نکلے، جو دل نکلے تو دم نکلے


بُرا ہو اِس محبت کا، کہ اِس نے جان سے کھویا
لگا دل اُس ستمگر سے، اجل کا جس سے دم نکلے


سبحان الله
کیا ہی خوب ہے

تشکّر شیئر کرنے پر صاحب!
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین
آداب عرض ہے :)
سلامت رہیں
بہت خوب غزل کا انتخاب کیا سید صاحب تمام اشعار بہت دلپذیر ہیں
بہت سی داد :):)

مبارک ہو یہ گھرغیروں کو، تم کو، پاسبانوں کو
ہمارا کیا اِجارہ ہے ، نِکالا تم نے، ہم نکلے


گئے ہیں رنج و غم اے داغ ! بعدِ مرگ ساتھ اپنے
اگر نکلے، تو یہ اپنے رفیقانِ عدم نکلے
 
آخری تدوین:
Top