اسکین دستیاب نو آئین ہندی

شمشاد

لائبریرین
نو آئین ہندی

صفحہ 53

مقدور ہمیں کب ہے تری حمد و ثنا کا
حقا! کہ خداوند ہے تو ارض و سما کا

انسان ضعیف کی کیا مجال ہے کہ آفریدگارِ جہاں کی تعریف بیان کر سکے۔

بیت ؂
تیز پر ہیں طائر وہم و گماں
ان کے بھی پر جلتے ہیں اڑنے سے واں

ان دنوں میں کہ صاحبانِ انگریز کے تئیں ہندوستانی زبان سیکھنےکا اکثر شوق ہے، اور آگے ہندوستان جنت نشان میں کہ حق تعالٰی اسے تاقیامت بہ امن و امان سلامت رکھے، ان باتوں کا کچھ چرچا نہ تھا۔ اس واسطے اس زبان کیں کسی استاد نے کوئی کتاب نثر تصنیف نہیں کی۔ مگر انہیں روزوں میں عطا حسین خاں مرصع رقم نے چار درویش کا قصہ فارسہ سے ہندوی میں تضمین کر کے نوطرز مرصع نام رکھا ہے، سو الحق نو طرز مرصع ہے۔ لیکن جو ریختہ زبان میں بالفاظِ دقیق و عبارِ رنگین، موزوں کیا ہے، اس سبب سے مطبوع ان کے نہیں، نیاز مند درگاہِ الٰہی بندہ مہر چند قوم کھتری چوپڑہ لاہوری مہر تخلص کہ بحسبِ آب خور

صفحہ 54
موام فرخ آباد، کنپ فتح گڑھ صاحب والامناقب، فیاضِ زماں، حاتم عصر رستمِ دوراں، شامی دل کیلی (1) صاحب بہادر کی رفاقت میں کہ فیاضی اور جوانمردی

صفحہ 55

میں بے مانند ہے۔ نظم

سخاوت میں ہے وہ حاتم برابر
شجاعت میں ہے وہ رستم سے برتر
دعا ہے مہرؔ کی یہ تجھ سے اللہ
رہے عالم میں وہ باحشمت و جاہ

بہرہ اندوز ہے اور سبب تصنیف اس کتاب کا یہ ہے کہ اُس چشمۂ فیض کو بھی

صفحہ 56

اس زبان سے شوق ہوا، سو ہر چند میں نے تلاش کی پر کوئی کتابِ نثر زبان ہندی روزمرہ بولنے کے موافق بہم نہ پہنچی۔ اگرچہ اس ہیچ مداں کے تئیں لیاقت نہیں، لیکن بہ ضرورت آذر شاہ و سمن رخ بانو کا قصہ حسب ارشاد اُس کان عطا و بحرِ سخاوگ کے بہ عبارت صاف و سلیس کہ عوام الناس کی سمجھ میں بھی آوے، ہندی زبان میں لکھ کے "نو آئین ہندی" اس کا نام رکھا۔ دانش مندانِ والا منش سے یہ امید ہے کہ اگر اس میں کچھ سہو و خطا معلوم ہوئے تو عیب گیری نہ کر کے بہ اصلاح پردہ پوسی کریں۔ نظم ؂

سراپا اگر اس میں سہو و خطا ہے
تو صاحب دلوں سے امیدِ عطا ہے
کہا مجھ سے ہاتف نے تاریخ اس کی
بیان کر تو اے مہرؔ قصے کو جلدی"
1218ء

پہلی حکایت

شروع داستان آذر شاہ کی اور نکلنا اس کا اولاد کے غم سے فقیری کے ارادے پر، اور ملنا ایک بُڈھے کا اور آذر شاہ کو نصیحت کر کے پھر جانا جدھر سے آیا تھا اُدھر کو۔

صفحہ 57

بیچ ولایت خلد نشان ہندوستان کے ایک بادشاہ تھا آذر شاہ نام کہ عدل اور انصاف میں بیچ تمام عالم کے مشہور تھا۔ لیکن کوئی بیٹا کہ جس سے جہان میں نام باقی رہے نہ تھا۔ اس واسطے ہمیشہ دلگیر رہتا اور فقیروں خدا پرستوں کی خدم جان و دل سے کرتا کہ شاید کسی اللہ کے دوست کی دعا سے مراد حاصل ہوئے۔ جو ایک مدت اسی طرح گزری اور مراد حاصل نہ ہوئی۔ ایک روز آدھی رات کے وقت بادشاہ کے دل میں یہ خیال آیا کہ اتنی عمر میں نے یوں ہی غفلت میں کوئی، میرے پیچھے کوئی ایسا نہیں کہ مالک مال اور وارث ملک کا ہو گا۔ اور اس زندگی کا ایک دم بھروسہ نہیں۔ نظم؂

ہے زندگی حباب کی مانند یک نفس
کیا سیر ہیں جہاں کی کرے چشم وا کوکئی
آبِ راوں کی طرح رواں ہے ساد یہ عُمر
نازاں ہو ایسی زیست پرے مہرؔ کیا کوئی

اب یہی بہتر ہے کہ کسی جنگل میں جا کر باقی عمر حقِ تعالٰی کی بندگی میں صرف کروں۔یہ خیال کر کے اسی وقت تاج بادشاہی کا سر سے اتارا، اور لباس گدائی پہن کے جنگل کیطرف روانہ ہوا۔ اور اپنے حال سے کسی کو خبر نہ کی۔ کوس دو ایک راہ جا کے ایک ویرنے میں کیا دیکھتا ہے کہ ایک بڈھا سبز پوش کبڑا سفید ڈاڑھی رکھے ہوئے نہایت ضعف سے عصا کے بل آہستہ آہستہ چلا آتا ہے۔ نزدیک پہنچ کر کیا۔ "اے آذر شاہ سلامُ علیکم۔" اس نے سلام کا جواب دے کے پوچھا، "اے پیر روشن دل! اس ضعیفی میں کہ عمر تیری سو برس سے زیادہ معلوم ہوتی ہے اور بدوں عصا کے

صفحہ 58

قدم اٹھانے کی طاقت نہیں۔ اس آدھی ات کے وقت ایسے جنگل خطرناک میں کیوں پھرتا ہے۔ مگر خضر ہے کہ واہ بولے ہوؤں کی رہنمائی کے واسطے آیا ہے۔"

اس نے کہا، " اے جوان! نہ میں خضر ہوں نہ الیاس۔ ایک آدمی ہوں کہ جہاں کے تئیں مکانِ ناپائیدار جان کے اسی برس سے بیچ ایک ویرانے کے، کہ یہاں سے چالیس کوس پر ہے، رہتا ہوں۔ اور آگے میں ٹھگ تھا کہ مسافروں کو مکر و دغا سے مار کر، سب مال اور اسباب ان کا لے لیتا تھا۔ بیس برس تک یہی کام کرتا رہا۔ اتفاقاً ایک روز دو جوان سفید پوش بیس بیس و یا تیس تیس کی عمر کے راہ میں مجھے ملے۔ سو میں نے یہ جان کر کہ جوہری بچے ہیں ان کے کنے جواہر مقرر ہوئے گا، دغا سے ان دونوں کو مار ڈالا، سو ان کے پاس سوائے بدن کے کپڑوں کے اور کچھ نہ نکلا۔ میں ان جوانوں کے مارنے سے بہت پچھتایا اور اپنے دل میں قسم کھائی کہ آج سے تمام عمر ہرگز یہ کام نہ کروں گا۔ وہاں سے اسی وقت گھر کو روانہ ہوا۔ اس اندیشے میں تھا کہ سوائے ٹھگ بدیا کے اور کوئی ہنر مجھے نہیں آتا، اب قوت روزمرہ کا کس طرح پیدا کروں گا؟ آگے جا کے دیکھتا کیا ہوں کہ ایک بڑا اژدہا کہ بدن کے بوجھ کے مارے جگہ سے ہل نہیں سکتا ہے۔ جنگل میں منہ بائے پڑا ہے۔ میں اسے دیکھ کر متعجب ہوا کہ یہ جاندار تو جگہ سے سرک نہیں سکتا۔ دیکھا چاہیے کہ اس تئیں کھانے کو کیوں کر پہنچتا ہے؟ اور یہ تو ممکن نہیں کہ بغیر قوت کے جی سکے۔ میں اسی اندیشے میں تھا کہ یکایک دیکھتا کیا ہوں کہ ایک غول ہرنوں کا بے تحاشہ مانند ہوا کے دوڑتا چلا آتا ہے، اور ایک شیر شکار کے واسطے ان کے پیچھے ہے۔ ہرن اژدہے کے منہ کو پہاڑ کا درہ جان کے شیر کی دہشت سے خود بخود

صفحہ 59

سب اس کے منہ کے اندر گھس گئے۔ اژدہے نے فی الفور منہ بند کر کے ان سبھوں کو ایک لقمے کے مانند حلق سے نیچے اتار لیا۔ پھر سر اٹھا کے آسمان کی طرف دیکھا۔ سو خدا کی قدرت سے اسی وقت ایک چھوٹی سی بدلی اٹھی اور خوب مینہ برسا۔ سو اژدہے نے پانی پی کے آرام کیا۔ اور شیر ناامید ہو کے جنگل کی طرف چلا گیا۔ میں نے یہ احوال دیکھ کر کہا۔ سبحان اللہ تیری قدرت کہ شیر زور آور نے اتنی محنت کی اور کچھ نہ پایا۔ اور اس جاندار لاجنب کے تئیں یوں رزق پہنچایا تو نے۔

بیت؂
تیری قدرت کا کروں دریافت حال؟
ہے خیال خام اپنی کیا مجال

اے آذر شاہ میرے دل میں جو یہ وہم ہوا تھا کہ اب کھانے پینے کو کیوں کر پیدا ہو گا۔ سو اژدہے کا احوال دیکھ کے یقین ہوا کہ جس نے جی دیا ہے وہ ہر طرح رزق بھی دے گا۔اور بے اختیار یہ شعر میری زبان سے نکلا۔ شعر؂

تدبیر کا عبث تو ولا مبتلا ہوا
تقدیر کا مٹے نہیں ہرگز لکھا ہوا

اسی وقت میں دنیا اور اہل دنیا کی محبت سے دل اٹھا کے جنگل کو روانہ ہوا۔ اب شام تک جو کچھ میسر ہوتا ہے سو قیام بدن کے واسطے کھا کے، فراغت سے آفریدگار کی عبادت میں مشغول ہوتا ہوں اور اس وقت میرے تئیں حضرت خضر علیہ السلام نے تیرے پاس اس واسطے پہنچایا ہے کہ تو جو لا اولادی کے سبب فقیر ہونے کے ارادہ پر گھر سے نکلا ہے، سو یہ خیالِ خام دل سے دور کر، تیرے نصیب میں اولاد ہے۔ لیکن زلالہ کہ تیرا قبیلہ ہے اس سے نہیں۔ ختن کے بادشاہ کی ایک بیٹی ہے سمن رخ نام۔ بیچ حسن و جمال کے بے مانند

بیت؂

صفحہ 60

چاند سے نسبت جو دے اس کو سو بے انصاف ہے
چاند کے منہ پر ہے جھائیں، اس کا مکھڑا صاف ہے

اگر اس سے تو اپنا بیاہ کرے گا تو اولاد ہو گی۔اس بڈھے نے حضرت خضر علیہ السلام کی طرف سےیہ پیام کہہ کر کہا، "اے آذر شاہ اب تو گھر کو جا کہ رات تھوڑی باقی ہے۔ اگر صبح ہوتے جائے گا تو تیری نوکر چاکر تجھے اس حالت سے دیکھ، جانیں گے کہ دیوانہ ہو گیا ہے۔ اور تمام عالم ٹھٹھا کرتے گا۔" یہ بات کہہ کر آپ جدھر سے آیا تھا ادھر کو پھر روانہ ہوا۔

دوسری حکایت

عاشق ہونا آذر شاہ کا سمن رخ، ختن کے بادشاہ کی بیٹی پر اور گھر آن کے نامہ لکھنا اور پہنچنا خجستہ رائے وزیر کو سمن کے باپ کے پاس اور بیاہ ہونا آذر شاہ شاہزادی سمن رُخ سے۔

راوی سے یوں روایت ہے کہ آذر شاہ، سمن رُخ کے حسن کی تعریف سن کے بن دیکھے عاشق ہوا۔ اور وہاں سے پھر کر جس راہ سے نکلا تھا، اسی راہ محل میں داخل ہو کر پلنگ پر سو رہا اور اپنے جانے کے آنے سے کسی کو خبر نہ کی۔ دوسرے روز دیوانِ عام کے بعد وزیروں دانش مند اور امیروں صاحب تدبیر کے تئیں خلوت خاص میں بٹھا کر رات کی تمام حقیقت اور سمن رخ کے اوپر عاشق ہونے کا احوال بیان کیا۔

خجستہ راے وزیر نے آداب بجا لا کر عرض کیا کہ "مشرق سے مغرب تلک روئے زمین کے تخت نشینوں میں ایسا کون ہے کہ سراراوت کا اس آستانے پر نہ رکھتا ہو

صفحہ 61

پہلے تو اس مقدمے کے واسطے بارگاہ آسماں جاہ سے کوئی شخص بطریق رسالت سمن رخ کے باپ کے پاس جاوے۔ غالباً وہ اپنا افتخار جان کے زنہار انکار نہ کرے گا۔ اور مبادا جو غرورِ سلطنت سے اس کے دل میں کچھ اور خیال آیا تو حرب اور لڑائی سے جس طرح ہو گا، اسلوب کیا جائے گا۔ بادشاہ کو یہ صلاح پسند آئی، اور فرمایا کہ "اے خجستہ رائے وہاں کے جانے کے واسطے تجھ سے بہتر اور کون ہے؟

خجستہ راے نے تسلیمات بجا لا کے عرض کیا۔ "جو ارشاد ہو بندہ تابعدار ہے۔" پھر اسی وقت بادشاہ نے منشی سے شاہ ختن کے نام نامہ لکھوایا، اور تحائف اپنے دیار کے اس کے واسطے دے کر خجستہ رائے کو رخصت کیا۔

نامہ

بعد حمد کارساز جہاں کے کہ جس نے روز کے تئیں نور آفتاب سے منور کیا اور شب کے تئیں شمع ماہ سے روشنی بخشی۔ ظاہر خاطر دوستی مآثر کی ہوئی کہ اگرچہ مدتوں سے فی مابین رابطہ تو دد و صفا کا مربوط اور قدیم سے جانبین میں واسطہ محبت و ولا کا مضبوط ہے، لیکن جو ایک مدت سے طریقہ رسل و رسائل کا یک قلم مسدود اور سلسلہ نامہ و پیام کا بالکل مفقود ہے، سو مُردم ظاہر بیں اصلاً خیال اوپر حقیقت کار معنی کے نہیں لے جاتے، بلکہ جو باتیں کہ عالم تودود اتحاد میں گنجائش وہم و خیال کی نہ رکھتی ہوئیں دل میں لاتے ہیں۔ جو زمانے میں کوئی شے محبت و اخلاص سے بہتر نہیں خصوصاً ظہور پانا اس امر شریف کا بادشاہوں میں کہ برگزیدہ درگاہ کبریا کے ہیں، موجب امن و آسایش خلق اللہ ہے۔ سو واسطے مضبوطی سلسلۂ ارتباط و اتحاد کے اور استحکام سر رشتہ تودد و داد کے زبدۃ الامر

صفحہ 62

خجستہ رائے نے رخصت اس طرف کی پائی ہے اور امانت راز سربستہ کہ اس کے حوالے ہوئی ہے۔ باریاب خلوتِ خاص کا ہو کے تفویض کرے گا۔ امید کا پنجہ عروسِ مراد کا حنائے قبول سے رنگین ہوئے، اور شاہد گزارش مدعا کا بیچ آغوش اجابت کے بیٹھے، اور آکئندہ رسم نامہ و پیغام کی طرفین سے جاری رہے۔ بیت ؂

ملک محبتر رہے بستا مدام
نامہ بس اب ختم ہوا والسلام

خجستہ رائے بعد طے مراحل و قطع منازل، مدت کے بعد ختن میں پہنچا، سو وہاں کا بادشاہ یہ خبر سن کر متعجب ہوا کہ اب تلک کبھی کوئی رسول شہنشاہ ہندوستان کا نہیں آیا تھا۔ ابا اس کے آنے کا کیا سبب ہے؟

اسی گفتگو میں تھے کہ عرض بیگی نے آن کے عرض کیا کہ "ہندوستان کے بادشاہ کا ایلچی ملازمت کے واسطے حاضر ہے۔" فرمایا کہ "آوے۔" خجستہ رائے حضور میں جا کر مانند ایلچیوں قاعدہ دان کے آداب بجا لایا۔ اور آذر شاہ کا نامہ دے کے سب تحفے نذر گزرانے اور جو مناسب جانا زبانی عرض کیا۔

بادشاہ نے نامہ کا مضمون دریافت کیا اور نہایت خوشی سے فرمایا کہ "جو کچھ آذر شاہ نے لکھا ہے سو ہم نے قبول کیا۔ لیکن تھوڑے روز یہاں آرام کرو کہ سفر کی ماندگی رفع ہوئے۔ بعد دو مہینے کے رخصت کیا جائے گا۔"

خجستہ رائے نے اس خوشخبری سے نہایت خوش ہو کر بادب دست بستہ عرض کیا، جو حکم! بندہ جاں نثار مخلص فرماں بردار ہے۔" پھر زمین بوس ہرکر ڈیرے کو رخصت ہوا۔

صفحہ 63

بادشاہ نے دستور یسار کی طرف دیکھ کے اشارہ کیا کہ "خجستہ رائے جب تلک یہاں رہے اہل کار آموز خلافت کے اس کی مہمان داری اور دلجوئی سے غافل نہ رہیں اور جمیع اخرابات اداجات اس کا اور اس کے ہمراہیوں کا خزانہ سرکار سے ہو۔ اگر اسباب شادی کا جو کچھ کہ چاہیے جلد تیار ہو۔" سو اہل کاران سرکاری موافق ارشاد کے خجستہ رائے کی خبر گیری سے یک لمحہ غافل نہ ہوئے اور تھوڑے دنوں میں لوازمہ شادی کا موافق شہنشاہوں کے تیار کیا۔ پھر بادشاہ نے سمن رخ کے تئیں لباس عروسی کا پہنا کر بہت سی لونڈیاں آفتاب طلعت اور غلام خوبصورت خدمت گاری کے واسطے دے کر خجستہ رائے کے ساتھ روانہ کیا۔ اور ہزار گھوڑے صبا رفتار مع سنہرے ساز اور ہاتھی کو پیکر اور اسباب بے شمار اور اچھے تحفے بے قیاس اور بہت ہاتھ خزانے سے لدے ہوئے دہیز میں دیئے اور کہا، "ارے خجستہ راے! آذر شاہ کو میری طرف سے عاجزی کر کےکہنا کہ اگرچہ یہ اسباب تمہارے حضور کے لائق نہیں ہے، لیکن تمہاری آرزو کے موافق سمن رخ کو کنیزگی کے واسطے دیا ہے۔"

خجستہ راے نے اس بات کا جواب جو کچھ مناسب جانا دے کر رخصت مانگی۔ بادشاہ نے سات پارچے کا خلعت مع سرپنچ مرصع اور موتیوں کی مالا اور ہاتھی گھوڑے اس کو اور پانچ سو خلعت ہر ایک کے مرتبے کے موافق اس کے ساتھیوں کو دے کر چشم پر آب ہو کے رخصت کیا۔

خجستہ رائے سمن رُخ کو ساتھ لے کر منزل بہ منزل اپنے ملک کو روانہ ہوا۔ چند روز کے بعد اپنے ملک میں داخل ہوئے۔ شہر کے نزدیک ایک باغ تھا، باغ جاد اس کا نام کہ جس کے ہر ایک درخت میں میوے پک رہے تھے، اور درختوں پر طرح طرح کے جانور بیٹھے ہوئے اپنی اپنی آواز میں مست تھے اور چمن میں ہر قسم

صفحہ 64

قسم کے پھولوں کی وہ بہار تھی کہ واہ جی واہ۔ وہاں ڈیرا کیا اور آذر شاہ کو اپنے آنے کی خبر پہنچائی۔

بادشاہ اس خوشخبری سن کر نہایت خوش ہوا اور ہر طرف شادیانے بجنے لگے۔ تمام شہر میں عمدہ فرش بچھے اور جابجا قندیلوں وغیرہ کی تیاری کی۔ آذر شاہ آپ، وزیروں چند امیروں کو ساتھ لے کے مراد باغ کی طرف متوجہ ہوا۔

سمن رُخ نے بادشاہ کی آوائی سن کر اپنے آدمیوں کو تاکید کی کہ باغ کے دروازے سےلر کر شہر پناہ کے دروازے تک زربفت و تمامی کا فرش کرو اور آذر شاہ کے داخل ہونے کے بعد وہ تمام فرش فروش خیرات کر کے فقیروں اور محتاجوں میں بانٹ دو۔ اور لونڈیاں پری پیکر کے تئیں حکم دیا کہ بادشاہ کے اوپر نثار کرنے کے واسطے جواہر کے خوان تیار رکھو۔" سو وہ موافق حکم کے بجا لائیں۔ اور سمن رُخ نے باغ میں بادشاہ کے واسطے ایک تخت زمرد کا اور ایک تخت جڑاؤ لعل کا اور ایک تخت سونے کا سب قسم کے جواہر سے جڑا ہوا بچھوایا۔ اور تمام باغ میں بیش قیمت فرش کروایا۔

آذر شاہ نے آن کے پہلے خجستہ رائے وزیر کو نہایت اعزاز سے بغلگیر کیا اور سروپا بادشاہانہ، اپنی دستار سربستہ اور کمر کا پٹکا اور خنجر اور تلوار اور گھوڑا باد رفتار کہ اس کے باپ سے یادگار تھا، مع ساز مرصع مرحمت کیا اور بہت مہربانی سے فرمایا۔ "اے خجستہ رائے! اگر اتنی محنت تو اپنے اوپر اختیار نہ کرتا تو اس کا اسلوب ہرگز نہ ہوتا۔"

اس نے تسلیمات کر کے کہا کہ "یہ سب کام حضور کے اقبال عالی سے سر انجام ہوا ہے،ہم بندۂ تابعداران کا اگر سرکار کے کام میں جی آؤے تو

صفحہ 65

دریغ نہ کریں۔"

بادشاہ خجستہ رائے کی وفاداری سے بہت خوش ہو کر باغ کے اندر کو روانہ ہوا۔ سمن رُخ کی لونڈیوں نے موتی اور یاقوت اور زمرد کے تھال بادشاہ لے اوپر تصدق کر کے خیرات کر دیے۔ اندر جا کے جو دیکھا تو تمام باغ کے در و دیوار سونے اور جواہر سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ اور ہر طرف طرح طرح کے عمدہ فرش بچھے ہیں۔ آذر شاہ یہ ٹھاٹھ دیکھ کر بہت محظوظ ہوا۔ آگے جا کے جو دیکھا تو ایک مکان میں نازنین مینا کاری تخت پر بیٹھی ہے اور لونڈیوں پری پیکر آس پاس دست بستہ کھڑی ہیں۔ اور دو تخت لعل اور زمرد کے اور ایک تخت سونے کا جڑاؤ بچھا ہے۔ سمن رخ نے آذر شاہ کے تئیں دیکھ کر گھونگھٹ کھینچ لیا اور تخت سے اتر کے زمین پر کھڑی ہوئی اورلونڈیوں کو اشارہ کیا، سو انہوں نے بادشاہ کو تخت پر بٹھایا۔ بادشاہ نے تخت پر بیٹھ کے حضور کے کارندوں کو حکم دیا کہ "جشن شاہانہ کی تیاری ہو۔"

سو خجستہ راے نے اسی وقت مجلس عالی ترتیب دے کے قاضی کو بلوایا۔ توصیف جلوس و آرائش شادی کی اور تعریف ترتیب محفل و مجلس کی کہ ماہ و خورشید جس کی خوشہ چینی کی تمنا رکھتے تھے اور زہرہ و مشتری کو تماشائے جمال مہ جبینانِ محفل کی آرزو تھی، طاقت ناطقہ سے بیان نہیں ہو سکتی۔

لوازمہ شادی کا کہ مہیا و موجود تھا ارکان شریعت و ارباب طریقت نے سمن رُخ کے تئیں بعقد نکاح آذر شاہ کے ازدواج میں لائے۔ اور پہلے خجستہ رائے وزیر نے دو لعل گراں بہا بطریق مبارک باد نذر گزرانے ۔ پھر اور ہر ایک امیر و امرا نے اپنے اپنے موافق نذر دی۔

صفحہ 66

بادشاہ نے سب کے تئیں ہر ایک کے مرتبےکے موافق خلعت دے کے سرفراز کیا۔ اور سمن رُخ کو ہزاروں خوشی اور شادی سے شادیانے بجاتے ہوئے بہ کمال حشمت و شوکت اپنے بزرگوں کی رسم کے موافق سونے کے محافے میں کہ بیش قیمت جواہر سے جڑا تھا بٹھا کر شہر میں لے گئے اور محل میں داخل کیا۔ اور رسمیات بزرگوں کی بجا لائے۔

پھر خجستہ رائے کے قبیلے نے سمن رُخ بانو کی ملازمت حاصل کر کے دو لعل نذر گزرانے۔ سو بانؤے جہاں نے قبول کر کے خلعت خاصہ اپنی پوشاکی برقع سمیت اور سونے کی جڑاؤ کرسی اور موتیوں کی مالا اور ایک سفید ہاتھ کہ دہنیز میں آیا تھا مع سنہرے ساز کہ جس کی عمار سونے اور جواہر سے مرصع بھی، دے کر بہت اعزاز سوے رخصت کیا۔ وہ آداب بجا لا کے اپنے گھر کو روانہ ہوئی۔ اور پچاس توڑے اشرفیوں کے سمن رخ بانو پر نثار کر کے راہ میں فقیروں اور محتاجوں کو دیتی گئی۔ پھر حضور کے امراؤں اور کارندوں کے قبیلوں نے ملازمت حاصل کر کے نذریں گزرانیں۔ سو بانوے جہاں نے ہر ایک کو درجے موافق سرفراز کر کے رخصت کیا۔ اور آذر شاہ نے حضور کے سرداروں کو ہر ایک کے مرتبے کے موافق سر و پادئے کئے۔ خیرات کرنے کے واسطے خزانے کا دروازہ کھول دیا اور اتنی بخشش اور داد و دہش سے فراغت کر کے بعد دوپہر کے محل میں تشریف لے گئے۔ سو سمن رُخ نے بادشاہ کو دیکھ کر منہ پر نقاب کھینچ لیا۔ بادشاہ نے نزدیک جا کر اپنے ہاتھ سے گھونگھٹ اٹھا کر دیکھا تو تمام چہرے پر پسینے کی بوندیں ہیں اور نازنین گرمی سے بہت گھبرا رہی ہے، اور کلیجا دھڑکتا ہے۔ آذر شاہ نے اپنے رومال سے اُس کے منہ کا پسینہ پونچھ کر چھاتی سے لگا لیا اور کئی بوسے لب و عارض کے لے کے کہا۔ بیت ؂

صفحہ 67

دیکھا کروں تجھی کو منظور ہے تو یہ ہے
آنکھیں نہ کھولوں تجھ بن مقدور ہے تو یہ ہے

اس نے شرما کے ہونے سے یہ جواب دیا۔ مصرع

؂ منہ لگاوے کون تجھ کو، گر نہ چاہے تو مجھے

پھر دونوں آپس میں بڑی دیر تک پیار و محبت کی باتیں کرتے رہے۔ پچھلے پہر گھڑی چھ ایک دن باقی رہے آذر شاہ نے محل سے برآمد ہو کے سب مجرائی لوگوں کا مجرا لیا۔ اور سر شام کنچینوں کے ناچ ہونے کا حکم دیا اور حضور کے امیروں اور وزیروں سمیت علٰیحدہ مکان میں طوائفوں کے رقص کا تماشا دیکھنے میں مشغول ہوا۔

تیسری حکایت

دیوانہ کرنا زلالہ، آذر شاہ کے پہلے قبیلے نے سمن رُخ کے تئیں اور لانا خجستہ رائے نے شیخ صنعان کے تئیں قندھار سے سمن رُخ کے علاج کے واسطے اور بلانا شیخ صنعان نے دانا دل اور روشن ضمیر اپنے دو مریدوں کو۔

سنتے ہیں کہ زلالہ نے جو آذر شاہ کا پہلے قبیلہ تھا، سمن رُخ کے آنے سے نہایت کراہ کے اپنے دل میں کہا کہ کچھ ایسی تدبیر کیجیے جس میں بادشاہ کا دل سمن رُخ کی طرف سے آزردہ ہو جائے، نہیں تو رات دن اس کی صحبت میں مشغول رہے گا۔ اس نابکار کے پاس پتھر کا ایک ٹکڑا تھا۔ اُس میں یہ خاصیت تھی کہ جو کوئی اسے پانی میں گھس کے پئے سو تُرت دیوانہ ہو جائے۔ سو اس ستمگارہ نے اس پتھر کو پانی میں رگڑ کے ایک عورت کو بیس ہزار روپے دینے کہے اور کہا۔ "جس طرح چاہے اُس طرح سمن رُخ کو پلا دے۔" وہ عورت روپوں کے

صفحہ 68

لالچ سے شربت میں گھول کے لے گئی اور دو چار مکر و فریب کی باتیں کر کے شگون کے شربت کے بہانے سے پلا آئی۔ اُس پانی کے پیتے ہی سمن رُخ کے بدن کے تمام روئیں کھڑے ہو آئے۔ ایک دو گھڑی کے بعد آنکھوں میں نشہ سا معلوم ہوا اور دل گھبرانے لگا۔ یکایک سمن رُخ بیقرار ہو کے پلنگ پر لیٹ گئی اور لونڈیوں کو پکار کے کہا، "اس وقت میرا جی بہت مچلاتا ہے اور بدن میں اٹھنے اور بیٹھنے کی طاقت نہیں رہی، کیا جانے کیا ہے؟" انہوں نے الائچی اور لونگ پان میں رکھ کے دیا، لیکن اس کا احوال دم بدم بتر ہوتا جاتا تھا۔ شام کے وقت آذر شاہ ناچ کی مجلس سے اٹھ کر محل میں درآمد ہوا۔ سمن رخ کو پلنگ پر لیٹا دیکھ کر سبب پوچھا؟ اُس نے اول سے آخر تک سب احوال بیان کر کے کہا کہ "صبح سے تیسرے پہر تک تو میں اچھی تھی۔ پیچھے گھڑی چار ایک دن رہے سے خدا جانے میرے تئیں کیا ہا گیا ہے کہ لحظہ لحظہ بیماری بڑھتی جاتی ہے۔" اسی بات چیت میں یکایک دیوانی ہو کے بیہودہ باتیں بکنے لگی۔

آذر شاہ، سمن رُخ کا یہ احوال دیکھ کے بہت غمگین ہوا، اور حضور نے حکیموں کے تئیں بلا کے سب احوال ظاہر کیا۔ اُس سبھوں نے اپنے اپنے شعور کے موافق علاج کیا، لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا اور کسی کی دوا نے کچھ اثر نہ کیا۔ تب بادشاہ نے شہر کے سیانے جھاڑنے والوں کو بُلایا کہ شاید جن یا پری یا دیو کا آسیب ہوا ہوئے۔ انہوں نے بھی ہرچند دھونی دی اور فلیتے لکھ کے جلائے اور منتر پڑھ پڑھھ کے حاضرات کی، پر کچھ فائدہ نہ ہوا، بلکہ دم بدم احوال بدتر تھا اور دیوانگی زیادہ ہوتی جاتی تھی۔ حکیموں اور سیانوں نے آداب بجا لا کے عرض کیا کہ جتنا کچھ ہمیں آتا تھا اس میں ہم نے کچھ قصور نہیں کیا اور بانوئے جہاں کو کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ خدا جانے کیا اسرار ہے۔ اس بات میں ہم سب لاچار ہیں۔ مگر قندھار میں ایک

صفحہ 69

فقیر ہے صاحب کرامت شیخ صنعان نام کہ رات دن حق تعالٰی کی عبادت میں مشغول رہتا ہے۔ اگر وہ آن کر کچھ تدبیر کرے تو یقین ہے کہ آرام ہائے۔"

بادشاہ نے یہ بات سن کر خجستہ راے وزیر سے کہا۔ "تو اب جا کے اُس بزرگ کی خدمتگاری میں میری طرف سے بہت عاجزی کر، شاید کہ اُس کے دل میں رحم آوے۔"

خجستہ راے اسی وقت قندھار کو روانہ ہوا۔ کئی دن کے بعد پہنچ کے شیخ کی ملاقات کی۔ اور سمن رُخ کا احوال ظاہر کر کے کہا کہ "اگر آپ قدم رنجہ کیجیے تو نہایت مہربانی ہوئے۔" شیخ نے جواب دیا کہ بیس برس سے میں اسی جگہ حق تعالٰی کی بندگی میں مشغول ہوں میرا یہاں سے چلنا نہ ہو سکے گا۔" خجستہ رائے نے بہت منت اور عاجزی کے کر کے کہا کہ "اے بزرگ آپ کے تشریف لے چلنے سے یہ کام ہوتا ہے۔ اگر مہربانی کیجیے تو شفقت سے دور نہیں۔" یہ بات سن کر شیخ کے دل میں رحم آیا اور کہا کہ "اگر میرے چلنے سے تمہارا کام ہوتا ہے، تو بہت اچھا دو روز یہاں رہو، اترسوں میں چلوں گا۔ؔ

خجستہ رائے نے اس بات سے خوش ہو کر وہاں مقام کیا۔ شیخ صنعان اپنے وعدے کے موافق خجستہ رائے کے ساتھ روانہ ہو کر چند روز کے بعد آذر شاہ شہر کے نزدیک پہنچا۔ سو بادشاہ شہر پناہ کے دروازے تک استقبال کر کے لے گیا اور بہت اعزاز سے بیٹھا کر سمن رُخ کا احوال ظاہر کیا۔ شیخ نے غور کر کے کہا کہ"میرے دو مرید ہیں۔ ایک کا نام دانادل ہے، سو مجھے سے رخصت ہر کے دکھن کی سیر کو گیا ہے۔ اور دوسرے مرید کا نام روشن ضمیر ہے۔ سو وہ اُتر گیا ہے۔ اگر وہ دونوں یہاں ہوتےتو سمن رُخ کو جلد آرام ہوتا، کیوں کہ ان دونوں تئیں ان کاموں میں بڑی دسترس ہے۔"

صفحہ 70

آذر شاہ نے کہا کہ "اب مہربانی کر کے ان دونوں کو بلایا چاہیے۔"

شیخ نے اپنے دونوں مُریدوں کے نام علٰیحدہ علٰیحدہ خط لکھ دیے۔ سو بادشاہ نے اپنے دو مصاحبوں کے حوالے کر کے ایک کو دکن کی طرف دانادل کے پاس بھیجا اور دوسرے کے تئیں روشن ضمیر کے بُلانے کے واسطے اتر کو روانہ کیا۔ شیخ کے دونوں مرید اپنے پیر کا خط دیکھ کے بادشاہ کے مصاحبوں کے ساتھ روانہ ہوئے اور چند روز میں آ کر پیر کی ملاقات حاصل کی۔ شیخ نے ان دونوں سے سمن رُخ کی حقیقت ظاہر کر کے اچھے ہونے کی تدبیر پوچھی؟ انہوں نے اپنے دل میں غور کر کے کہا، "اے مُرشد اس کے اوپر کسی جادوگر نے جادو کیا ہے۔ دوا سے کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ مگر یہ تدبیر ہماری تجویز میں آتی ہے کہ اچھی اچھی کہانیاں اور باتیں اور نادر نادر قصے اور داستانیں اس کے روبرو بیان کریں۔ شاید کہ اس کا دل اس کے سُننے میں مشغول ہوئے اور دیوانگی جاتی رہے۔"

شیخ نے کہا، "تم سے سوا اور بہتر کون ہے؟ جو کچھ تم نے دیکھا سُنا ہوئے سو بیان کرو۔"

دانادل نے کہا کہ "ایک مکان ایسا مقرر ہوئے جہاں آذر شاہ اور سمن رُخ اور آپ اکٹھے ہو کے بیٹھیں تو اس بندے نے جو کچھ دیکھا سُنا ہوئے سو بیان کرے۔"

آذر شاہ نے اُسی گھڑی ایک مکان علٰیحدہ کہ غیر کا ہرگز وہاں دخل نہ ہوئے خالی کروا کے سُمن رُخ بانو کو وہاں پردے کے اندر بیٹھایا اور آپ چاروں شخص مانند اربع عناصر کے پردے کے باہر فرش بادشاہانہ بچھوا کے بیٹھے۔ تب شیخ بزرگوار نے کہا، "اے دانادل اب تو جو کچھ مناسب جانے سو بیان کرنا شروع کر۔"

صفحہ 71

چوتھی حکایت

بیان کرنا دانا دل نے داستان ملک محمد اور گیتی افروز کی آگے سمن رُخ بانو کے اور عاشق ہونا ملک محمد کا گیتی افروز پری پر، اور کبوتر کرنا گیتی افروز نے ملک محمد کے تئیں اور پھر آدمی ہونا اس کا دانشمند وزیر اپنی جمانے توجہ سے۔

کہتے ہیں کہ دانادل نے اپنے مرشد کی اجازت لے کر کہا، "سن اے ملکۂ آفاق میرے بھائی بندوں میں سے ایک شخص تھا ملک محمد نام تھا۔ ہمیشہ ملکوں اور شہروں کی سیر کرتا تھا اور اکثر راتوں کو کوہ و بیابان میں رہ جاتا۔ اتفاقاً ایک روز شہر بابل کے نزدیک پہنچا۔ شہر پناہ کے باہر ایک سنگ مرمر کا پکا تالاب تھا۔ بہت خوش اسلوب مصفا پانی سے بلب دیکھا اور اس کے کنارے پر ایک چھوٹا سا تختہ باغیچے کا تھا۔ نہایت خوش تعمیر کہ جس کے درختوں میں طرح طرح کا میوہ پک رہا تھا۔ اور کناروں میں قسم قسم کے پھول پھول رہے تھے اور درختوں کی ڈالیوں پر بلبل اور قمری وغیرہ رنگ برنگ جانور بول رہے تھے۔

مثنوی
ہر چمن میں جا بجا پھولے تھے گل
ہر طرف تھا بلبلوں کا شور و غل

صفحہ 72

جا بجا نہروں میں پانی تھا رواں
سو بہ سو تھیں قمریاں کو کو کناں
سرو ہر گوشے میں اس خوبی سے تھے
وا چھڑے جی وا چھڑے جی وا چھڑے

ملک محمد نے اس باغیچۂ خوبی اور لطافت کو دیکھ کے یہ بیت پڑھی ؂

ہے مگر یہ باغ رب العالمیں
یاکہ ہے فردوس بروئے زمیں

ملک محمد تمام روز سیر کرتا رہا۔ شام کے وقت رفع اشتہا کے واسطے تھوڑا سا میوہ توڑ کے کھایا اور تالاب کا پانی پی کے رات کو، اسی مکان دلچسپ میں آرام کیا۔ آدھی رات کے وقت اس کے کان میں شور اور غل کی آواز آئی۔ آنکھیں کھل گئیں۔ دیکھتا کیا ہے کہ آسمان کی طرف مشعلیں بے شمار جلتی ہیں اور ان مشعلوں کی روشنی میں ایک تخت اڑا چلا جاتا ہے اور ہزاروں پریاں اور پری زاد تاش باولے کا لباس پہنے ہوئے اس تخت کے گرد ہیں۔

ملک محمد دیکھ کے متعجب ہوا کہ الٰہی یہ کیا اسرار ہے؟ پھر اس وقت سے صبح تلک اس کی آنکھ نہ لگی۔ گجر کے وقت بابل میں جا کے وہاں کے لوگوں سے رات کی حقیقت ظاہر کی۔ اور اُس تخت نشین کا نام و نشان پوچھا؟

جو شخص کہ اس حقیقت سے واقف تھے۔ انہوں نے کہا، "اے جوان! تو اس خیال میں مت پڑ۔ وہ پریوں کے بادشاہ کی بیٹی ہے۔ گیتی افروز نام۔ سو اپنے باپ سے روٹھ کر یہاں سے نزدیک کوہستان میں محل بنا کے رہنا اختیار کیا۔ جو کوئی آدمی زاد وہاں جاتا ہے، اسے حیوان کر ڈالتی ہے۔"

ملک محمد کے دل میں اس کے دیکھنے کا شوق اور بھی زیادہ ہوا۔ اور کہا

صفحہ 73

"ان کی مجلس میں حیوان ہو کے رہنا غنیمت ہے۔" سو اسی وقت کوہستان کی طرف روانہ ہوا۔ وہاں پہنچ کر دیکھا تو محل کا دروازہ بند ہے۔ اس نے آواز کی۔ سو پریوں نے شاہ پری کے حکم کے موافق درواہ کھول دیا۔

ملک محمد نے اندر جا کے دیکھا تو تما در و دیوار تمامی سے منڈھا ہے۔ اور سب جگہ فرش باشاہانہ بچھا ہے۔ اور ایک زمرد کے تخت پر نازنین مانند چاند چودھویں رات کے بیٹھی ہے۔

مثنوی
کیا کروں صورت کا اس کی میں بیاں
وصف اس کے کر نہیں سکتی زباں
سرو قد غنچہ دہن، نرگس نیین
یاسمیں رو، گل بدن، رشکِ چمن
زلف تھی عارض پہ یوں باپیچ و خم
رات دن آکر ہوئے گویا بہم
زرد تھا اس منہ کے آگے ماہتاب
حُسن سے اُس کے خجل تھا آفتاب
عضو عضو اس کا غرض محبوب تھا
کہا کہوں آگے سراپا خوب تھا

اور ہزاروں پری زاد مانند ستاروں کے اس ماہ کے آس پاس کھڑے ہیں۔ ملک محمد کو اس کی شکل دیکھتے ہیں غش آ گیا اور بے ہوش ہو کے زمین پر گر پڑا۔ پری زادوں نے اس کے چہرے پر گلاب چھڑکا، سو ذرا ہوش میں آیا۔ گیتی افروز نے پوچھا

صفحہ 74

"اے آدم زاد تو کون اور یہاں آنے کا کیا سبب ہے؟"

ملک محمد اسے دیکھ کر ایسا مدہوش تھا کہ ہرگز منہ سے کچھ جواب نہ نکلا۔

گیتی افروز نے دیکھا کہ میری شکل پر فریفتہ ہے۔ تخت کے پاس ایک سونے کی کرسی پڑی تھی، اشارہ کیا کہ اس پر بیٹھ جا۔

ملک محمد نہایت خوش کر وہاں بیٹھا اور رات کے باغ میں رہنے کا احوال اور آنے کا سبب بیان کیا۔

گیتی افروز اس کے باتوں سے خوش ہو کے دیر تک باتیں کرتی رہی۔ پھر ایک پری زاد کی طرف کہ روح افزا اس کا نام تھا، دیکھ کے کہا، سو وہ ایک شیشہ شراب دو آتشہ کالے آئی اور دو پیالے اس نے گیتی افروز اور ملک محمد کے تئیں پلائے۔ گیتی افروز نے نشے میں ملک محمد کی طرف دیکھ کے کہا۔ اگر تو راضی ہو تو روح افزا ساقی کو تیرے تئیں بخشوں میں۔"

اس نے کہا اور جواب دیا۔ بیت ؂

مجھ کو تو نہیں تیرے سوا کام کسی سے
طالب ہوں ترا ہے مجھے کیا کام کسی سے

گیتی افروز نے کہا، "اے ملک محمد میری بھی یہ آرزو ہے کہ تجھ کو اپنے پاس رکھوں میں، لیکن آدمی زاد بے صبر ہوتا ہے سو اسی اپنی بے صبری سے آپ دکھ پاتا ہے اور ہم کو بدنام کرتا ہے۔ اس واسطے روح افزا کو تجھے دیتی ہوں۔ اب اس کی ملاقات میں مشغول ہو۔"

اس نے کہا، "مجھے اور کسی سے کچھ کام نہیں۔ بیت

آرزو میری جو حاصل ہو تو میں اتنا کروں
پاس تو بیٹھی رہے، میں رات دن دیکھا کروں

صفحہ 75

اسی گفتگو میں دن تو آخر ہوا، رات کے وقت گیتی افروز نے حکم دیا کہ "ملک محمد اور روح افزا کا پلنگ ایک جگہ بچھاؤ"

ملک محمد نے قبول نہ کیا اور کہا، "اے نازنین میں تیرے دُور سے دیکھنے میں خوش ہوں۔"

گیتی افروز نے یہ بات سُن کے صحن میں ایک پانی کا حوض تھا، اس کے اِدھر اپنا پلنگ بچھوایا اور اُدھر ملک محمد کا۔ غرض کہ ملک محمد نے وہ رات تو ہزار دشواری سے اور نہایت بے قرار سے کاٹی۔ دوسرے روز اسی حوض پر باشاہانہ مجلس کر کے ناچ ہونا شروع ہوا، اور روح افزا ساقی ہو کے پیالے پیالہ شراب کا دیتی تھی۔ اور ملک محمد کو محبت کے شوق نے ایسا غلبہ کیا کہ بے اختیار گیتی افروز کے قدموں میں جا پڑا۔

اس نے کہا "اے ملک محمد خبردار ایسا نہ ہوئے کہ کوئی حرکت نامناسب تجھ سے سرزد ہوئے کہ اسی وقت جانور ہو جاوے پھر آدمی ہونا بہت مشکل ہوے۔"

بارے اس وقت تو جوں توں سنبھل کے اس نے صبر کیا۔ لیکن عاشق کو قرار کہا؟ گھری دو ایک کے بعد ایک پری زاد گلاب کا پھول لائی، سو ملک محمد اس کے ہاتھ سے لے کر گیتی افروز کے آگے لے آیا۔ اس نے پھول کے لینے کے واسطے ہاتھ لمبا کیا۔ سو ملک محمد نے اپنے ہاتھ میں اس کا ہاتھ پکڑ کے چوم لیا۔

گیتی افروز نے بہت غصے ہو کر کہا۔ "اے کبوتر کمبخت میں یہ کہتی تھی کہ آدمی بے صبر کو ہماری مجلس میں رہنے سے کام کام؟"

ملک محمد اُسی وقت لوٹ پوٹ کے کبوتر کی شکل ہو گیا، اور اُڑ کے محل کے کنگورے پر جا بیٹھا اور تمام روز گیتی افروز کے سامنے اڑتا پھرا۔ لیکن اس بے رحم

صفحہ 76

کے دل میں رحم نہ آیا۔ لاچار دوسرے روز وہاں سے اڑ کر اپنے گھر آیا۔ سو اس کے آدمیوں نے کبوتر جان کے پکڑ لیا۔ ان میں سے ایک شخص نے چھری لےکر چہا کہ ذبح کرے۔ دوسرے نے کہا۔ "اے یارو! ایک کبوتر کے گوشت سے کچھ پیٹ نہ بھرے گا اور مدت سے ملک محمد کا احوال معلوم نہیں۔ خدا جانے کہاں ہے؟ سو اس کبوتر کو اپنے خاوند کے نام پر صدقہ کر کے چھوڑ دو۔ اور ایک روز دانشمند ملک محمد کے کے چچا کےیہاں کے بادشاہ کا وزیر ہے، مجھ سے ملک محمد کا احوال پوچھتا تھا۔ میں نے کہا، "ایک مہینے سے غائب ہے اور کچھ احوال دریافت نہیں۔" اس نے کہا، "اس کمبخت کو ملکوں اور شہروں اور بیابان اور پہاڑوں کی سیر سے نہایت شوق ہے۔ ایسا نہ ہوئے کہ پریوں کے محل کی طرف گیا ہوئے کہ وہاں جو کوئی جاتا ہے اسے وہ جانور کر لیتی ہے۔ شاید وہاں گیا ہوئے اور جانور ہو کے آؤے تو مجھے خبر کرنا کہ میرے یہاں ایک معجون ہے۔ اس کے کھانے سے فی الفور اچھا ہو جائے گا۔" سب نے یہ بات ون کر اس کبوتر کو اپنے خاوند کے نام پر تصدق کر کے چھوڑ دیا۔

ملک محمد ان کے پنجے سے خلاص ہو کے خدا کا شکر بجا لایا اور وہاں سے اڑ کر دانشمند کے گھر گیا۔ وہ مسند پر بیٹھا اپنی وزارت کے کاروبار میں مشغول تھا۔ اور آدمیوں کی بڑی بھیڑ تھی۔ یہ اپنے چچا کی گود میں جا بیٹھا۔ سب مجلس کے لوگ یہ احوال دیکھ کر متحیر ہوئے کہ جانور آدمی کے سائے سے بھاگتے ہیں اور یہ کبوتر خود بخود اتنی بھیڑ میں آن بیٹھا۔ دانشمند نے عقل سے دریافت کیا کہ ملک محمد کو پریوں نے کبوتر بنا کے چھوڑ دیا ہے۔ سو یہاں آیا ہے، نہیں تو کیا ممکن کہ جانور خودبخود آدمیوں میں آؤے۔ دانشمند نے یہ بات دریافت کر کے ایک خواجہ سرا کو کہ کافور اس کا نام تھا، حکم دیا سو وہ اندر سے معجون کا

صفحہ 77

ایک چھوٹا سا مرتبان نکال لایا اور اس میں سے معجون لے کبوتر کے منہ میں دی۔ وہ فی الفور لوٹ پوٹ کے بدستور آدمی کی صورت ہو گیا۔ دانشمند نے ملک محمد کو گلے سے لگا لیا اور بہت نصیحت کی کہ"اب کبھی اس کوہستان کی طرف مت جائیو۔"

اس نے کہا۔ اب میں وہاں کاہے کو جاؤں گا۔" پھر رخصت ہو کے اپنے گھر آیا۔ سب نوکر چاکر اپنے خاوند کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ اتنے روز باہر رہنے کی حقیقت پوچھی۔ ملک محمد نے کہا۔ "تم خوب نمک حلالی کرنےلگے تھے کہ میرے ذبح کرنے کے واسطے چھری تیز کی تھی، لیکن کچھ دن جو میری زندگی باقی تھی تمہارے ہاتھ سے خلاص ہوا۔"

انہوں نے حیران ہو کے کہا، "اے خداوند یہ بات آپ کیا فرماتے ہیں۔ ہم بندے تابعداروں کی کیا مجال ہے کہ کچھ گستاخی کریں، بلکہ جہاں آپ کے پسینے کی ایک بوند گرے وہاں اپنے لہو پیٹھنے کو حاضر ہیں۔"

تب ملک محمد نے اپنے کبوتر ہونے کا اور یہاں آنے کا قصہ بیان کیا۔ وہ یہ بات سُن کر کبوتر کو چھوڑ بہت پشیمان ہوئے۔ اور جس شخص نے کہا تھا کہ کبوتر کو چھوڑ دو۔ سب نے آفرین کی اور ملک محمد نے انعام دیا اور چند روز عیش و عشرت سے اپنے گھر میں آرام کیا۔

پانچویں حکایت

پھر جانا ملک محمد کا کوہستان پر گیتی افروز کے پاس اور مرغابی کر ڈالنا اس کے تئیں گیتی افروز نے اور بہ صورت آدمی کرنا سُن کےدانشمند وزیر اس کے چچا نے۔

صفحہ 78

دانادل نے کہا۔ "سن اے خاتون بہت دنوں کے بعد ایک روز ملک محمد کے دل میں یہ خیال ایا کہ گیتی افروز بھی مجھ کو یاد کرتی ہو گی یا نہیں؟" پھر دو ایک پیالے شراب کے پیا پے پئے کہ شاید نشے میں یہ خیال دل سے جاتا رہے، سو پیتے ہی گیتی افروز کے دیکھنے کا شوق اور بھی ہوا۔ سو اسی وقت شیشے ۔۔۔ کو زمین پر پٹک کے آہ آہ کرنے لگا اور نہایت بے قرار ہو کے کوہستان کی طرف روانہ ہوا۔ گیتی افروز کے محل کے دروازہ پر جا کر پکار کہ "درواسہ کھول دو۔" وہاں سے آواز آئی کہ "کون ہے؟" بولا "میں ہوں ملک محمد وفادار۔" پری زادوں نے ملک محمد کا نام سُن کر ترت کواڑ کھول دیا۔ اس نے اندر جا کے جو دیکھا تو نازنین مانند ماہِ دو ہفتہ کے تخت پر بیٹھی ہے، اور سیکڑوں پریاں اور پری زادیں آس پاس دست بستہ کھڑی ہیں۔

اس نے اسے دیکھتے ہی مسکرا کے کہا۔ "اے ملک محمد تو نے بہت محنت کھینچی۔ اگر پہلے ہی اپنے دل میں سوچتا اور میرا ہاتھ نہ چومتا تو اتنا دکھ کیوں پاتا؟ اب میں نے اپنے ہاتھ پاؤں چومنے کی اجازت دی۔ لیکن اس سے زیادہ کچھ حرص مت کیجیو کہ پھر پشیمانی ہوئے۔"

ملک محمد یہ بات سن کر بہت خوش ہوا اور خدا کا شکر کیا کہ جس کے دور کے دیکھنے کو محتاج تھا، سو اس کے ہاتھ پاؤں چومنے میسر ہوئے۔ رات کو گیتی افروز اپنے پلنگ کے برابر اس کا پلنگ بچھوایا اور کہا۔ "اے ملک محمد خبردار! مبادا پھر کوئی حرکت تجھ سے ظہور میں آؤے۔"

اس نے کہا، "اے جان ؛ تو نے ہاتھ پاؤں چومنے کی پروانگی دی ہے۔ اب اس کے سوا اور کچھ گستاخی نہ کروں گا۔" پھر دونوں نشے میں شراب کے سو رہے۔ پر ملک محمد کو نیند کہاں تھی۔ ساعت بساعت اس کے دست و پا کا

صفحہ 79

بوسہ لیتا تھا اور منہ چومنے کی ہوس تھی۔ لیکن جانور ہونے کے ڈر سے کچھ نہ کر سکتا تھا۔ آخر کو بے ہوش ہو کے اس کے منہ کے پاس اپنا منہ لے گیا۔ سو اس کے سانس کی گرم ہوا سے وہ جاگ اٹھی اور ہنس کے کہا، "اے نادان اپنے قول پر قائم رہ نہیں تو ابھی جانور ہو جائے گا اور میرا دیکھنا میسر نہ ہو گا۔" وہ بیچارہ شرمندہ ہو کے پھر اپنے پلنگ پر سو رہا۔ فجر کے وقت وہ دونوں عاشق و معشوق جاگے اور تمام روز عیش و عشرت میں کاٹا۔ رات کو بدستور اُسی حوض پر دو پلنگ بچھے۔ جب گیتی افروز سو گئی تب ملک محمد نے اٹھ کر اس کا ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھا اور منہ کی طرف نگاہ کر کے کہا ؂

خدا جانے کیا ہو گا انجام اس کا
میں بے صبر اتنا ہوں وہ تند خو ہے

غرض کہ اس نے ہر چند اپنے تئیں تھاما پر دل نہ تھما، سو بے اختیار ہو کے اس کا منہ چوم لیا۔ وہ جاگ اٹھی، اور بہت غصے تیوری چڑھا کے کہا، "اے مرغابی کمبخت یہ تو نے کیا کیا؟

ملک محمد اسی وقت لوٹ پوٹ کے مرغابی کی شکل ہو گیا۔ سمن رُخ یہ بات سن کر بولی۔ "وہ بیچارہ کس کس محنت سے کبوتر سے آدمی ہوا تھا، سو اس بے رحم نے پھر مرغابی کر ڈالا۔ اب کیسی مصیبت میں گرفتار ہوا ہو گا۔"

آذر شاہ سمن رُخ کے اتنا ہوش آنے سے بہت خوش ہو کر شیخ صنعان اور ان کے دونوں مریدوں کا نہایت ممنون ہوا۔

القصہ ملک محمد مرغابی ہو کے تمام رات اُسی حوض میں رہا۔ صبح کے وقت گیتی افروز اس کی طرف دیکھ کے بولی، اے بے صبر اگر میرا کہا مانتا تو اتنا دکھ نہ پاتا۔ اب جا اپنے چچا کے پاس، شاید کچھ علاج کرے۔"

صفحہ 80

ملک محمد اپنے دل میں سمجھا کہ اگر سو برس یہاں پڑا رہوں گا تو بھی اس بے رحم کے دل میں رحم نہ آوے گا۔ لاچار وہاں سے اڑ کے شہر کی طرف روانہ ہوا۔ اتفاقاً وہاں کا بادشاہ شکار کے واسطے نکلا تھا، سو راہ میں ایک تالاب پر شکار کھیلتا تھا۔ اس مرغابی کو دیکھ کر ایک باز کو چھوڑا۔ مرغابی ہر چند بھاگی پر باز کی چنگل سے اپنی خلاصی نہ دیکھی، لاچار ہو کے اُسی تالاب میں غوطہ مارا۔ باز نے حتی المقدور اس کا پیچھا کیا پر ہاتھ نہ لگی۔ اور دل میں کہا کہ جب تلک بادشاہ تالاب کے کنارے پر ے، تب تلک مجھے باہر نکلنا مناسب نہیں۔ اے ملکہ جب باز خالی پھر آیا، تب بادشاہ شہر کو روانہ ہوا۔ راہ میں جا کے دیکھا ایک میر شکار خاصے ایک باز کو لیے ہوئے چلا آتا ہے، بادشاہ اسے دیکھ کر جھنجھلایا اور بہت خفگی سےکہا کہ "اس خاصے باز کو تو نے شکار کے وت کیوں نہ حاضر کیا؟ اس فلانے تالاب میں ایک مرغابی ہے، اس باز کو لے جا کے اسے شکار کر لا، نہیں تو خوب سزا پاوے گا۔" سو وہ بادشاہ کے حکم کے موافق اسی تالاب پر آیا۔ مرغابی نے جو دیکھا کہ بادشاہ کی سواری گئی سو وہ تالاب میں سے نکل کے شہر کی طرف کو اڑی اور اُس میر شکار نے کہ منتظر بیٹھا تھا باز کو اس کے پیچھے چھوڑا۔ مرغابی ہر چند بھاگی لیکن باز نے جھپٹ کے چنگل میں پکڑ لیا۔ بارے کچھ دنوں جو اس کی زندگی باقی تھی، باز کے پنجے سے چھوٹ کے اسی تالاب میں غوطہ مارا اور پھر باز کے ہاتھ نہ لگی۔ جب میر شکار مایوس ہو کے شہر کو چلا تب وہ مرغابی یعنی ملک محم تالاب سے نکل کے دانشمند کے گھر گیا۔ وہاں جا کر کیا دیکھتا ہے کہ شکار باز بہت شکار لائے ہیں اور مرغابی کہ باز کے چنگل سے چھٹ گئی اس کا افسوس کرتے ہیں۔ ملک محمد نے اپنی سب حقیقت اپنے کانوں سے سنی اور خدا کا شکر کیا۔ پھر جوں کا توں لہو سے بھرا ہوا اپنے چچا کی گود میں جا بیٹھا۔

صفحہ 81

مجلس کے لوگ دیکھ کر حیران ہوئے کہ جانور آدمیوں کی مجلس میں کس واسطے آیا؟ دانشمند نے زخمی بدن اور اس کے پر ٹوٹے دیکھ کر عقل سے معلوم کیا کہ ملک محمد ہے۔ بادشاہ کے باز نے اس کو پکڑا تھا۔ پھر آواز کی کہ کیوں ملک محمد تو ہی تھا؟ اس نے پروں سے اشارہ کیا کہ "ہاں۔" اس کے چچا نے بہت جھڑک کے کہا۔ "اے بدبخت٬ میں جو کہتا تھا کہ اس طرف کبھی مت جائیو، تو نے میرا کہا نہ مانا، اب اگر قسم کھائے کہ پھر کبھی وہاں نہ جاؤں گا تو تیرے تئیں آدمی کروں۔" اس ن سر ہلا کے توبہ کی کہ اب میں ہرگز نہ جاؤں گا۔ دانشمند نے وہی مرتبان منگوا کے تھوڑی معجون کھلا دی۔ خدا کی قدرت سے معجون کے کھاتے ہی فی الفور آدمی ہو گیا۔ دانشمند نے کپڑے منگوا کے پہنوائے اور بہت نصیحت کر کے کہا۔ اب میرے پاس معجون نہیں رہی ہے ار پھر وہاں جاوے گا تو تو جان مجھ سے اچھا ہونے کی توقع مت رکھیو۔" پھر ملک محمد وہاں سے رخصت ہو کے اپنے گھر آیا۔ نوکروں چاکروں نے دُور سے دیکھا اور استقبال کر کے لے گئی اور ازراہ نصیحت کے عرض کیا۔ "اے خداوند آپ کے مزاج میں یہ کیا سودا ہے؟ ایک دن اس میں جی جاتا رہے گا اور اب تمہارے چچا نے قسم کھائی ہے کہ اب کی دفعہ گو کہ میرا بھتیجا مر جائے پر میں زنہار اچھا نہ کروں گا۔"

اس نے کہا کہ "میں نے بھی تو قسم کھائی ہے کہ ہرگز اس کوہستان کی طرف نہ جاؤں گا۔" یہ بات کہہ کے زنانے محل میں داخل ہوا اور جو کچھ موجود تھا کھا کر آرام کیا۔ اسی طرح چند روز اپنے گھر میں عیش و عشرت سے رہا۔ ہر روز اپنے چچا کے پاس جایا کیا کرتا۔

صفحہ 82

چھٹی حکایت

جانا ملک محمد کا گیتی افروز کے پاس اور وہاں آنا فیلسوف عنصر شاہ گیتی افروز کے باپ کے وزیر کا گیتی افروز کو سمجھانے کو اور قبول کرنا گیتی افروز نے، چھوڑنا محبت ملک محمد کا اور جانا سیر باغ کو اور رہنا ساری رات باغ میں اور یہ خبر سُن کے پیغام ضیافت دینا فرخندہ شاہ کو وہاں بادشاہ نے گیتی افروز کو اور کہنا گیتی افروز کا کہ پہلے بادشاہ ہماری ضیافت قبول کرے اور قبول کرنی فرخندہ شاہ نے ضیافت گیتی افروز کی۔

دانادل نے کہا۔ "سن اے سمن رُخ! ایک روز آدھی رات کے وقت ملک محمد اپنے گھر میں بیٹھا تھا کہ یکایک آسمان کی طرف غل ہوا۔ یہ سر اٹھا کے دیکھتا کیا ہے کہ گیتی افروز سونے کے تخت پر بیٹھی ہوئی ہزاروں پریوں سمیت ہوا کے مانند چلی جاتی ہے۔ ملک محمد اپنے معشوق کو دیکھ کے بے طاقت ہو گیا اور کہا۔ "میں عجب احمق ہوں کہ ایسی مجلس چھوڑ کے یہاں بیٹھا ہوں۔" پھر اسی گھڑی گھر سے باہر نکلا اور نوکروں سے چچا کے یہاں کا بہانہ کر کے کوہستان کی طرف روانہ ہوا۔ اور محل کے نیچے پہنچ کر آواز کی۔ سو پریوں نے دروازہ کھول دیا۔ اندر جا کے دیکھا کہ نازنین سُرخ پوشاک پہنے ہوئے عجب سج سے بلور کے تخت پر بیٹھی ہے۔ سو ملک محمد کو دیکھ کے بولی کہ، "آؤ! اچھے وقت آیا ہے۔ ابھی میں تیری ہی یاد میں تھی۔" پھر اپنے پاس بیٹھا کر تمام حقیقت پوچھی۔ سو ملک محمد نے ایک آہ دل سے

صفحہ 83

کھینچ کر یہ بیت پڑھی ؂

دیکھ تیری دوستی میں مجھ کو کیا سودا ہوا؟
ایک تو حرمت گئی اور دوسرے رسوا ہوا

گیتی افروز کو یہ بات بہت خوش آئی اور ملک محمد کے گلے میں اپنا ہاتھ ڈال کے دیر تک باتیں کرتی رہی۔ اور ہمیشہ مہ چومنے کی اجازت دی۔ ملک محمد اس بات سے بہت خوش ہوا۔ پھر یکبارگی آسمان کی طرف سے شور کی آواز آئی۔ اتنے میں ہرکارے نے خبر دی کہ فیلسوف، عنصر شاہ تمہارے باپ کا وزیر آیا ہے۔ اسی گفتگو میں فیلسوف آن پہنچا اور آداب بجا لا کے عنصر شاہ کا خط دیا۔ سو گیتی افروز نے خط پڑھ کے سر نیچا کر لیا۔ پھر فیلسوف، گیتی افروز کی طرف مخاطب ہو کے بولا، "تم نے یہ چال کیا اختیار کی کہ اپنے ننگ و ناموس پر نگاہ نہ کری۔ آدمی زادے سے دوستی کی۔ پری کو آدمی کی صحبت سے کیا کام؟ اسی سبب تمہارے ماں بات تم سے آزردہ ہیں۔ اب تمہیں لازم لے کہ یہ خیال دل سے دور کر کے پرستان کو اپنے گھر چلو کہ ماں باپ اور بھائی بہن وغیرہ قبیلے کے تمام لوگ تمہارے دیکھنے کو ترستے ہیں۔"

گیتی افروز نے بڑی دیر کے بعد سر اونچا کیا اور فیلسوف کی طرف منہ کر کے بولی کہ، "تیری نصیحت سب سچ ہے۔ لیکن اس آدمی زاد نے میرے واسطے ایسی ایسی آفتیں اور مصیبتیں اٹھائی ہیں کہ کچھ کہا نہیں جاتا، بلکہ کئی بار میں نے اس کے تئیں جانور کر ڈالا، سو تمام عالم میں رسوا اور فضیحت ہوا تو بھی میری دوستی نہ چھوڑی۔ اب میں اس کی مروت کی ایسی احسان مند ہوں کہ اگر مجھے بخش کے کسی کو دے ڈالے تو ہرگز عذر نہ کروں۔" یہ بات کہہ کے ملک محمد کے گلے میں اپنے ہاتھ ڈال کے اس کا منہ چوم لیا اور کہا۔

صفحہ 84

"اے وزیر ایک ماں باپ کیا اگر سارا جہاں مجھ سے آزوردہ ہوئے تو بھی اس آدمی کی دوستی سے ہرگز نہ پھروں اور اپنے قول پر ثابت رہوں۔ فرد

جیوں مروںرہوں اپنے ہی قول پر قائم
پھروں نہ اس سے اگر مجھ سے سب جہاں پھر جائے

بلکہ اب میں ماں باپ سے بیزار ہوں اور ان سے کچھ مطلب نہیں رکھتی، کہو کہ وہ بھی میری محبت اپنے دل سے دور کریں۔"

وزیر یہ احوال دیکھ کے بہت دنگ ہوا اور کہا۔ "لعنت خدا کی ہم جو پھر کبھی تیرا منہ دیکھیں۔" اس نے کہا۔ "یہ بات تو میری زبان سے کہتا ہے۔ میں اب تمہارا منہ دیکھنے کی روداد نہیں۔" پھر وہاں سے اٹھ کے سارے لشکر سمیت اپنے ملک کو روانہ ہوا۔ اور عنصر شاہ کے پاس پہنچ کے گیتی افروز کا جو احوال دیکھا تھا سو سب عرض کیا۔ عنصر شاہ، بیٹی کی حقیقت سُن کے بہت دلگیر ہوا۔ گیتی افروز کا بھائی حاضر تھا، اس نے کہا۔ "اگر حکم ہوئے تو میں آپ جا کر گیتی افروز کو یہاں لے آؤں۔" فرمایا۔ "اچھا اور جس طرح بنے اس آدمی زاد کو مار ڈالان۔"

جب گیتی افروز نے باپ کے وزیر کو اس طرح وداع کیا، تب ملک محمد اپنے دل میں بہت خوش ہوا اور جانا کہ گیتی افروز بھی مجھ پر عاشق ہے، نہیں تو میری خاطر باپ کے وزیر سے ایسی بے ملاحظہ نہ ہوتی۔ گیتی افروز نے کہا "اے ملک محمد دیکھا تیرے واسطے وزیر کو کس طرح رخصت کیا میں نے۔" پھر روح افزا کو اشارہ کیا سو وہ ایک شیشہ شراب دو آتشے کا کہ جس کے پیتے ہی آدمی بےہوش ہو جائے لے آئی۔ سو وہ دونوں جنے ایک ایک جام پی کے دیر تک اخلاص و محبت کی باتیں کرتے رہے۔ پھر اسی حوض پر سوئے۔ گیتی افروز

صفحہ 85

نے کہا، "اے ملک محمد خبردار! مبادا اس بات پر مغرور ہوئے کہ میں نے فیلسوف کو اس طرح دور کر دیا، اور پھر کوئی حرکت نامناسب کرے۔" اس نے کہا "اے محبوب تو نے منہ کے چومنے کی پروانگی دی ہے، اس سے زیادہ کچھ گستاخی نہ کروں گا۔" لیکن عاشق کے دل میں صبر و قرار کہاں؟ جب گیتی افروز سو گئی تب اس نے اٹھ کے دیکھا کہ اس کا چہرہ پسینے میں تر ہے اور عرق کی بوندیں سیج پر ٹپکتی ہیں۔ ملک محمد نے بیقرار ہو کے یہ بیت پڑھی۔ ؂

عرق ہے منہ پہ ترے یا گلاب ٹپکے ہے
مجھے عجب ہے کہ شعلے سے آب ٹپکے ہے

پھر اس کا منہ چوما اور بہ تمنائے قرب اس کے بدن پر ہاتھ رکھا۔ سو ہاتھ لگاتے ہی وہ چونک پڑی اور تیوری چڑھا کے بولی، "اے بے حیا! ہر چند میں نے تجھے سمجھایا پر تو اپنی شرارت سے باز نہیں آیا، اور پھر کسی بلا میں گرفتار ہوا چاہتا ہے۔"

ملک محمد اس بات سے شرمندہ ہو کر پھر پلنگ پر لیٹ رہا۔ صبح کے وقت جب چاند چھپ گیا اور سورج کی کرن دکھائی دی، تب گیتی افروز پلنگ پر سے اٹھی اور ملک محمد کو ساتھ لے کے باغ کی سیر کو متوجہ ہوئی اور چمن کے تختوں پر ٹہلنا شروع کیا۔ پھر سواری کے واسطے سونے کا جڑاؤ تخت منگوایا اور دونوں عاشق و معشوق اس پر بیٹھ کے شکار کے واسطے روانہ جنگل کی طرف ہوئے۔ سو بیابان میں پہنچ کر شیر و چیتے اور گوزن اور ہرن اور پاڑھے چرندوں وغیرہ کا شکار کر کے کبوتر، تیتر، لوا، بٹیر، مرغابی سبزک و سرخاب، قاز و قرقرے اور کلنگ وغیرہ پرندوں کا شکار کیا۔ تھوڑی دُور پر اس ملک محمد کے بادشاہ کا ایک پاکیزہ باغ تھا۔ وہاں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 86

جا کے کباب تیار کیے اور حاضری کھا کے ناچ کے تماشے میں مشغول ہوئے۔ رات کے وقت سارے باغ میں روشنی کروائی اور مخمل و کمخواب کے سنہرے فرش بچھوائے۔ شام سے صبح تک راگ و ناچ کے سوا کچھ چرچا نہ تھا۔ دو گھڑی کے تڑکے وہاں سے اٹھ کے اپنے محل میں داخل ہوئے۔ باغ کے مالی اور چوکی داروں نے ایسا تماشا کدھی نہ دیکھا تھا۔ دیکھ کر فرخندہ شاہ، اپنے بادشاہ سے رات کا سب ماجرا اور ملک محمد کا اس پریوں کی منڈلی میں ہونے کا احوال مفصل عرض کیا۔

یہ بات سُن کے فرخندہ شاہ کو بھی گیتی افروز کے دیکھنے کا شوق ہوا۔ سو اسی وقت دانشمند وزیر کو بُلا کے پوچھا۔ "ملک محمد کہاں ہے؟" اس نے عرض کیا کہ "ان دنوں وہ کمبخت گیتی افروز پری پر فریفتہ ہے۔ دو بار جانور ہو کے یہاں آیا، سو اس بندۂ درگاہ نے ایک معجون سے آدمی بنا کے ہر چند سمجھا کے منع کیا اور نصیحت کر کر کے تھکا کہ اس کام بیہودہ سے باز آ۔"پر وہ ہرگز اس کی رفاقت سے باز نہیں آتا، لاچار ہو کے میں نے اس کی الفت چھوڑ دی۔ واللہ اعلم اب کس احوال میں ہے۔"

بادشاہ نے فرمایا۔ "اگر پھر کبھی آؤے تو ہماری ملاقات کے واسطے لانا کہ اس سے کچھ کام ہے۔"

الغرض ایک روز گیتی افروز نے جواہر خانے کے موجودات میں ملک محمد سے پوچھا کہ "تیرے پاس بھی کچھ جواہر ہے؟"

اس نے کہا "میرے دو لعل شب چراغ ایسے ہیں کہ اگر رات کو اندھیرے میں رکھ دیجیے تو سارا مکان چاند نہ ہوئے اور جو کوئی دور سے ان کی جگمگاہٹ دیکھے تو بے شبہ یہ جانے کہ دیئے جلتے ہیں۔" نازنین

صفحہ 87

بولی کہ "کل ان لعلوںکو یہاں منگوانا کہ میں بھی دیکھوں گی۔"

رات کو دونوں نے بدستور صحن میں اسی حوض کے کنارے پر آرام کیا۔ فجر کے وقت جب ماہتاب غروب ہوا اور آفتاب نکلا، تب ملک محمد اپنے معشوق سے رخصت ہو کے وہ دونوں لعل شب چراغ لینے کے واسطے اپنے گھر آیا۔ نوکر چاکر لوگ کہ مُدت سے انتظار میں تھے، انہوں نے اپنے خاوند کو دور سے گھوڑے پر سوار دیکھا، سو بہت خوشی سے استقبال کر کے لے گئے۔ ملک محمد ان کا مجرا سلام لے کے محل میں در آمد ہوا، اور کھانا کھا کے ایک ساعت پلنگ پر لیٹا تھا کہ اتنے میں دانشمند وزیر، ملک محمد کے آنے کی خبر سُن کے بادشاہ کے حکم کے موافق آپ بلانے کے واسطے آیا۔ ملک محمد فی الفور چچا کے ساتھ حضرت جہاں پناہ کے حضور میں جا کے تسلیمات بجا لایا۔

بادشاہ نے فرمایا۔ "اے ملک محمد! اگر گیتی افروز کسی طرح ہماری ضیافت قبول کرے تو تیرے باعث ہم بھی اس کا جمال دیکھیں۔"

ملک محمد سوچ سوچ کے بولا۔ "اگر حضرت کی یہی مرضی ہے تو جس طرح بنے گا اسے حضور میں لاؤں گا۔" پھر بادشاہ نے فرمایا۔ "اچھا شاہ پری کو ہماری طرف سے دعا کے بعد کہنا کہ اگر ایک روز ہماری دعوت قبول کرو تو نہایت مہربانی۔"

الغرض ملک محمد وہاں سے رخصت ہو کے اپنے گھر آیا اور دونوں لعلِ شب چراغ لے جا کے گیتی افروز کی نذر گزرانے۔ سو اس نے اپنے جواہر خانے میں داخل کیے اور فرخندہ شاہ کی ضیافت کا پیغام کہا۔ گیتی افروز سُن کے بولی کہ، "اگر پہلے بادشاہ میری ضیافت قبول کرے تو پیچھے میں بھی اُس کی دعوت سے انکار نہ کروں گی، نہیں تو مجھے آدمیوں کے بادشاہ کی مہمانی سے

صفحہ 88

کیا کام؟"

جب ملک محمد نے گیتی افروز کا سندیسا بادشاہ کو پہنچایا، فرخندہ شاہ نے بہت خوش ہو کر اُس کی ضیافت قبول کی۔ ملک محمد نے وہاں سے پھر کے بادشاہ کے ضیافت قبول کرنے سے نازنین کو خبر دی۔

ساتویں حکایت

ضیافت کی تیاری کا حکم دینا گینی افروز کا اپنے اہلکاروں کو بلوانا پھر مہر انگیز اور شور انگیز حوروں کو پرستان سے اور بھیجنا ملک محمد کو فرخندہ شاہ کے بلانے کے واسطے۔

دانادل نے کہا۔ "سُن اے بانو!! گیتی افروز کو فرخندہ شاہ کی دعوت قبول کرنے کی جس وقت اطلاع ہوئی، اسی وقت اپنے سارے اہل کاروں کو بلوا کے ضیافت کی تیاری کا حکم دیا۔ اور میر مطبخ کو اپنے روبرو بُلا کے فرمایا کہ "طرح طرح کے نادر کھانے اور قسم قسم کے پاکیزہ پلاؤ بادشاہ کے واسطے جتنے خوب و لطیف تیار کر سکے بروقت جلد تیار کر۔" ادھر ایک اہل خدمت کو اجازت دی کہ اسی وقت اس کے موافق سب جنس کی تیاری کرو۔" سو ہر ایک شخص بموجب حکم اپنے اپنے کام میں مشغول ہوا۔

پھر نازنین نے اپنے باپ اور بڑے بھائی کے نام اس مضمون کا خط لکھ کے قاصد کے ہاتھ پرستان کو روانہ کیا کہ ان دنوں میں آپ کی خدمت میں پہنچنے کا میرا ارادہ ہے۔ اگر کسی کو میرے لینے کے واسطے بھیجو تو میں یہاں سے اُس طرف کو روانہ ہوں اور اب فرخندہ شاہ نے کہ اس ملک کا بادشاہ ہے مجھے لکھ بھیجا ہے کہ میرے دل میں

صفحہ 89

ایک مرتبہ تمہارے مہمان ہونے کی آرزو ہے، سو میں نے اس کی ضیافت کی تیاری کی ہے۔ امیدوار ہوں کہ مہر انگیز اور شور انگیز حُور کے تئیں اور کئی خدمتگاروں سمیت بھیج دیجیے کہ فرخندہ شاہ کی ضیافت سے فراغت کر کے پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہویں گی۔

جب گیتی افروز کا قاصد عنصر شاہ کے پاس خط لے کے گیا، اُس نے خط پڑھ کے نہایت خفگی سے پھاڑ ڈالا اور کہا۔ "میں اسے بے حیا کو اپنا ایک کُتا بھی نہ بھیجوں گا۔ پریوں اور خدمت گاروں کے بھیجنے کا کیا ذکر ہے؟"

گیتی افروز کا قاصد بادشاہ کے غصے سے بہت ہراساں ہوا اور نااُمید ہو کے چاہا کہ پھرے۔ اتنے میں گیتی افروز کا کے بھائی نے بادشاہ کو تسلیمات کر کے عرض کیا کہ۔ "گیتی افروز ہر چند نالائق اور سراسر تقصیر دار ہے، لیکن خرودوں سے خطا، اور بزرگوں سے عطا، جان کے بخشش کی امیدوار ہے۔ فرخندہ شاہ نے آپ کا نام سن کے اس سے ضیافت کی خواہش کی ہے۔ اگر مہر انگیز اور شور انگیز وغیرہ کو گیتی افروز کے بلانے کے موافق نہ بھیجئے گا تو آپ کی سبکی ہو گی۔"

عنصر شاہ اپنے دل میں سوچا کہ یہ بات سچ کہتا ہے۔ سو بیٹے کے کہنے سے مہر انگیز اور شور انگیز حور کے تئیں اچھا اچھا لباس اور پوشاک اور تحفہ تحفہ جواہر کا جڑاؤ زیور پہنا کر اور کئی خدمت گاروں سمیت گیتی افروز کے قاصد کے ساتھ روانہ کیا اور کہا کہ، "میں نے یہ بھی اسی کمبخت کو بخشیں، پھر میرے پاس نہ بھیجے۔"

وہ آداب بجا لایا اور پریوں کو ساتھ لے کے گیتی افروز کے پاس آیا اور وہاں کی تمام حقیقت مفصل ظاہر کی۔ گیتی افروز ان پریوں کے آنے سے بہت خُرسند ہوئی اور ملک محمد کو کہا کہ، "جا کے فرخندہ شاہ سے کہہ کہ "آج کے تیسرے روز اپنے سب امیر امراؤں اور تمام لشکر سمیت میرے غریب خانے

صفحہ 90

میں قدم رنجہ کیجیے گا۔" ملک محمد اپنے معشوق کی اجازت سے فی الفور فرخندہ شاہ کے حضور میں جا کے آداب بجا لایا۔ بادشاہ کو اس کے آنے کا انتظار تھا۔ بولا۔ "اے ملک محمد کیا خبر ہے؟" نازنین نے جو پیغام کہا تھا اس نے ہوبہو بیان کیا۔ بادشاہ کمال خوشی سے مسکرا کے بولا، "اس نے تیاری لشکر کی تکلیف کاہے کو کی؟"

ملک محمد نے اس بات کے در جواب عرض کیا کہ، "وہ خود بدولت کا تشریف لانا اپنی عین سعادت جانتی ہیں، تکلیف کا کیا ذکر ہے۔ لیکن انتا کہہ دیا ہے کہ کوہستان پر خود بدولت کے ہمرا دانشمند وزیر کے سوا اور کوئی نہ آوے کہ پری زادوں کو آدمیوں کی صحبت سے نفرت ہے۔ تمام لشکر کے لوگ پہاڑ کے گرد خیمے کھڑے کر کے ڈیرا کریں۔" بادشاہ نے سب باتیں قبول کیں اور ملک محمد کا بہت احسان مند ہوا۔ دل میں کہتا تھا کہ یہ دو روز جلدی سے بیت جائیں کہ اس نازنین کا دیدار میسر ہوئے۔

الغرض جب وعدہ کا دن آیا، تب ملک محمد نے اپنے دل میں کہا کہ پہلے آپ جا کے دیکھوں کہ گیتی افروز نے کچھ ضیافت کی تیاری کی ہے یا نہیں؟ سو اُسی وقت سوار ہوا اور محل کے دروازہ پر پہنچ کے آواز کی، سو پریوں نے ترت کواڑ کھول دیئے۔ اندر جا کے جو دیکھا تو تمام باغ کی دیواریں سونے اور جواہر سے منڈھی ہیں اور چھتوں پر مینا کاری کا ایسا کام ہوا ہے کہ واہ جہ واہ۔ اور تمام صحن میں یک لخت تمامی کا فرش بچھا ہے اور نازنین ایک سونے کی کرسی پر بادشاہانہ لباس پہنے ہوئے اس سج سے بیٹھی ہے کہ جس کی تعریف زبان سے بیان نہ ہو سکے۔ ملک محمد نے اسے دیکھ کے نہایت بیقراری سے یہ بیت پڑھی۔

صفحہ 91

بیت؂
کوئی مانی کے صدقے ہو کوئی بہزاد کے صدقے
بنائی جس نے یہ صورت اُس استاد کے صدقے

گیتی افروز نے مسکرا کے کہا، "آؤ ابھی میں تیری ہی یاد میں تھی۔ وہاں تو نے بھی کسی وقت مجھے یاد کیا تھا؟" ملک محمد نے اس کے در جواب یہ بیت پڑھی۔ بیت ؂

شب کو نیند آئی نہ تجھ بن، دل جو دکھ دیتا رہا
شام سے میں صبح تک کروٹیں لیتا رہا

گیتی افروز سُن کے بہت خوش ہوئی اور ایک ایک جام شراب کا دونوں پی کے دو تین گھڑی تک اختلاط کی باتوں میں مشغول رہے۔ پھر گیتی افروز نے کہا، "اے یار! اب شتابی جا کے فرخندہ شاہ کو کہہ کہ، "آج اپنے قدم سے میرے غریب خانے کو رونق بخشو۔"

آٹھویں حکایت

جانا فرخندہ شاہ کا گیتی افروز کی ضیافت میں اور محظوظ ہونا اس کی ضیافت اور وہاں مکانات کی سیر سے

دانادل نے سمن رخ سے کہا کہ "ملک محمد گیتی افروز کے پاس روانہ ہوا۔ اور بادشاہ کے حضور میں پہنچ کر کورنش کے بعد گیتی افروز کا پیغام ظاہر کیا۔ سو بادشاہ نے سن کر اسی وقت لشکر کی تیاری کا حکم دیا۔ نقیبوں نے فی الفور تمام لشکر میں خبر کر دی۔ سو ایک دم میں تمام لشکر جمع ہو گیا اور کوچ کا نقارہ ہوا۔

فرخندہ شاہ نے اپنی سواری کے واسطے ایک گھوڑا کمیت باد رفتار

صفحہ 92

ایسا جلد روکہ گرد اس کی گرد کو نہ پہنچ سکے منگوایا۔

مثنوی
بیاں میں کروں اس کی تعریف کیا
کہ جلدی کو جس کی نہ پہنچے ہوا
ہوا سے بھی زیادہ ہوا وہ شتاب
ہوا جس گھڑی شاہ پادر رکاب
سواری کا گر وصف کیجیے بیاں

تو پھٹتی ہے لکھتے قلم کی زباں
غرض فوج کا تھا بڑا ازدحام
چلا شاہ جب لے کے لشکر تمام
چپ و راست خاصے سواروں کے تھے
جو غولوں پہ غول اور پروں پر پرے
سو ہر وقت ساعت بساعت پکار
نقیب ان سے کہتے تھے یوں بار بار
پرے سے نہ گھوڑے نکالے چلو
جوانو! قدم کو سنبھالے چلو
نہ آگے نہ پیچھے نہ بیش اور نہ کم
برابر برابر قدم با قدم

القصہ جب لشکر کوہستان کے نزدیک پہنچا، تب بادشاہ نے سب لشکریوں کو اجازت دی کہ پہاڑوں کے آس پاس خیمے کھڑے کر کے ڈیرے کرو اور آپ دانشمند وزیر کو لے کے ہمراہ کوہستان کے اوپر گیا۔ گیتی افروز کے درواے پر پہنچ کے ملک محمد نے آواز کی۔ سو نازنین نے روح افزا کے تئیں حکم دیا کہ "تو جا کے دروازہ کھول دے۔" جب اس نے شاہ پری کے حکم کے موافق ان کا دروازہ کھولا اور جُھک کے بادشاہ کو سلام کیا۔ فرخندہ شاہ اس کا حسن دیکھ کے عاشق ہو گیا اور ملک محمد کی طرف نگاہ کر کے بولا کہ "گیتی افروز انہیں کا نام ہے؟" اس نے جواب دیا کہ "یہ ادنیٰ لونڈی گیتی افروز کی ہے۔ روح افزا نام، ہمہشہ اس کی ساقی گری میں رہتی ہے۔" بادشاہ نے اپنے دل میں کہا کہ جس کی ادنیٰ لونڈی کا یہ حسن و جمال ہے، خدا جانے وہ آپ کیسی؟

صفحہ 93

ہو گی؟ اور روح افزا کے منہ کی طرف ٹکٹکی لگا کے نہایت حیرانی سے مانند صورت نقش دیوار کے اُسی جگہ جوں کا توں کھڑا رہا۔ بڑی دیر کے بعدملک محمد نے عرض کیا کہ "حضرت اندر چل کے چمن کی سیر کیجیے اور باغ کا تماشا دیکھیے۔" تب آپ کھینچ کے یہ بیت پڑھی۔ بیت ؂

میں محو تماشائے رُخِ یار کھڑا ہوں
حسر زدہ جوں صورت دیوار کھڑا ہوں

پھر روح افزا سے رمز کی باتیں کرتے ہوئے اندر جا کے جو دیکھا تو عجب نادر باغ ہے کہ جس کی رونق اور بہار کو بہشت بھی نہ پہنچ سکے۔ اور تمام صحن میں یک لخت مخمل کا زربفتی فرش ہے اور چاروں طرف سنہری دیواروں پر موتی اور لعل اور یاقوت اور زمرد وغیرہ جواہر کی ایسی ایسی جڑاؤ تصویریں بنائی ہیں کہ نقل کھینچنے میں نقاش چین کا چیں مان جائیں، بلکہ مانی و بہزاد ہاہا کہائیں اور باغ کے چاروں کونوں میں بلور کے تختوں پر لعل و زمرد کی صراحیاں رنگ برنگ کی شرابوں سے بھری ہوئی قطار بہ قطار رکھی ہیں اور ان کے پاس سونے کی چوکیوں پر یاقوت کے پیالوں اور ہیرے کے آبخوروں کی عجب بہار ہے۔ غرض کہ قدم قدم پر تمام باغ ایسا آراستہ کیا تھا کہ حوران بہشتی اس کے دیکھنے کی آرزو کریں، اور جابجا پریاں عمدہ لباس سجے ہوئے اس سج دھج سے کھڑی تھیں کہ دیکھنے سے تعلق ہے۔ فرخندہ شاہ وہاں کی سیر سے محظوظ ہو کے گلزار کی طرف متوجہ ہوا۔ بیت؂

چمن میں جا کر جو ہم نے دیکھا ہر ایک بلبل چہک رہا تھا
قدم قدم پر تمام گلشن گلوں کی بُو سے مہک رہا تھا

وہاں ایک چندن کے بنگلے میں لاجوردی کے تخت پر گیتی افروز اپنی سج بانئے ہوئے اس دھج سے بیٹھی تھی کہ عاشق دیکھتے ہی جی دے۔ سو سرو قد اٹھ کے بادشاہ کی تعظیم کی۔ بادشاہ نے اُس کاجمال دیکھ کے چاہا کہ بیخود ہو کے زمین

صفحہ 94

پر گرے لیکن دانشمند کے اشارے سے آپ کو تھام رکھا۔ پھر نازنین بھی تخت سے اُتر کے سیر میں آن کے ساتھ ہوئی۔ سیر کرتے کرتے ایک مکان میں پہنچے کہ یک لخت بلور کا فرش تھا، وہاں جا کے جو دیکھا تو ایک جواہر بڑا چبوترا ہے، اس پر ایک ایسا عمدہ فرش بچھا ہے کہ بادشاہ نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ جا کر اس چبوترے پر بیٹھے اور چبوترے کے آس پاس کئی حوض گلاب سے تر تھے اور جواہر کی مرغابیاں اور بظخیں وغیرہ جانور اس حکمت سے بنا کر اس میں چھوڑے ہیں کہ ڈوبتے نہیں اور ہوا کے زور سے تیرتے پھرتے ہیں۔ بادشاہ نے دانشمند کی طرف نگاہ کر کے کہا کہ "ہم نے تو اپنی عمر میں ایسا مکان اور یہ چیزیں کبھی نہیں دیکھیں، تم دیرینہ اور جہاندیدہ ہو، شاید تم نے کبھی دیکھی ہویں؟"

اس نے عرض کیا کہ "یہ مکان اور یہ تحفہ پریوں کے سوا اور کسی کو میسر نہیں۔" پھر گیتی افروز نے اشارہ کیا سو لونڈیاں فی الفور شراب دو آتشہ کی صراحیاں کہ جس کے پیتے ہی انسان حیوان ہو جائے لے آئیں۔ شاہ پری نے روح افزا کو حکم دیا کہ "تو بادشاہ کی ساقی ہو اور ذوق انگیز حُور دانشمند کو شراب پلاوے۔"

روح افزا بولی، "ہم نے بادشاہ کو کئی پیالے پلائے۔ پر دانشمند نے ہرگز شراب کا پیالہ نہ لیا۔" بادشاہ نے دیکھا کہ دانشمند میرے ادب سے شراب نہیں پیتا، فرمایا۔ "اے دانشمند شراب پی کہ یہاں عذر کا مکان نہیں۔ بیت؂

نہیں ہے عُذر کی جاگہ جو تو نے عذر کیے
یہ بزم وہ ہے جو صوفی ہو سو شراب پیئے"

اس نے عرض کیا کہ "جب سے میں بڈھا ہوا ہوں تب سے شراب پینا چھوڑ دیا ہے۔" بادشاہ نے اپنے ہاتھ میں شراب کا پیالہ لے کے کہا، "آؤ میں تیرا ساقی ہوا ہوں۔"

صفحہ 95

اس نے دیکھا کہ بادشاہ کی نہایت مہربانی ہے۔ اگر اب شراب نہ پیوں گا تو خدا جانے کیا آفت آوے گی۔ اتنے میں گیتی افروز بولی، "اے دانشمند اس سے زیادہ اور کیا مہربانی ہو گی؟ مگر شیخ سعدیؔ کا کلام تیرے تئیں یاد نہیں کہ گلستان میں کہا ہے، از تلون طبع بادشاہان پر حذر باید بود کہ گاہے بسلامی برنجند و گاہے بدشنام خلعت دہند۔" (یعنی رنگ برنگ کی طبیعت بادشاہوں کی سے پرہیز کیا چاہیے کہ کبھی سلام سے آزردہ وویں اور کبھی گالی سے سروپا دیویں)

دانشمند نے لاچار بادشاہ کے ہاتھ سے شراب کا پیالہ لے کے پیا۔ پھر ذوق انگیز حور نے پیالے دو تین پلانے۔ پھر گیتی افروز کے حکم سے فوراے چھوٹنے لگے۔ سو دو تین گھڑی تک فواروں کے تماشے میں مشغول رہے۔ پھر نازنین نے کھانے کی تیاری کا حکم دیا۔ سو پریوں نے فی الفور دسترخوان بچھا کے الماس اور زمرد کی رکابیوں میں قسم قسم کے پلاؤ حاظر کئے اور نادر نادر کھانے اور کباب اور طرح طرح کی پاکیزہ شیرینی و لوزیات اور فیروزے کی طشتریوں میں سیب دہی کے مُربے اور انواع انواع کے اچار لا کے دسترخوان پر قطار بہ قطار رکھے۔ فرخندہ شاہ ہر لقمے پر "واہ واہ" کہتا تھا۔ پھر دانشمند کی طرف منہ کر کے ہولے سے کہا کہ "ہم نے تمام عمر اس لذت کا کھانا نہین کھایا۔" اُس نے جواب دیا کہ "یہ نعمتیں پریوں کے سوا اور کسے میسر ہیں؟" غرض کہ جب شراب اور کباب سے فراغت کر چکے تب بادشاہ نے دعا دی۔ گیتی افروز بولی، "یہ سب حضور والا کے اقبال سے سرانجام ہوا ہے اور اس غریب خانے میں آپ کے تشریف فرما ہونے سے اپنی ساری قوم میں بلکہ سارے جہان میں میری عزت زیادہ ہوئی۔" پرھ پریاں زہرہ جبیں کہ جن کے حُسن کے آگے ماہ و خورشید

صفحہ 96

شرمندہ ہوئیں۔ زری بادلے کی پوشاک پہنے ہوئے حاضر ہوئیں۔ اور ناچ ہونا شروع ہوا۔ اور شاہ پری کے کارندوں نے بادشاہ کے تمام لشکر کو اچھے اچھے کھانوں سےکہ انہوںنے کبھی سپنے میں بھی نہ دیکھے تے سیر کیا۔ اور سب دواب کو معمول کے موافق چارہ دانہ اور راتب پہنچایا۔

نویں حکایت

شب باش ہونا فرخندہ شاہ کا گیتی افروز کے یہاں اور حاضر رہنا روح افزا کا بادشاہ کی خدمت میں اور رہنا ذوق انگیز کا دانشمند کی صحبت میں اور آنا فرخندہ شاہ کا دوسرے روز اپنے شہر میں

دانادل نے کہا، "سن اے بانو! شام کے وقت دانشمند نے بادشاہ کے کان میں کہا کہ، "اب زیادہ یہاں رہنا مناسب نہیں۔" ایک ساعت کے بعد فرخندہ شاہ نے گیتی افروز سے رخصت مانگی۔ اُس نے کہا کہ "اگر آپ نے اتنی مہربانی کی ہے تو میری خاطر آج کی رات یہاں اور رونق بخش رہیے۔" بادشاہ کے دل میں بھی یہی آرزو تھی سو دانشمند سے فرمایا کہ "شاہ پری کی خوشی ہمیں ہر طرح منظور ہے، آج رات کو یہاں ہی رہیں گے۔" اس نے کہا، "جو مرضی۔" پھر ناچ کے تماشے میں مشغول ہوئے۔ روح افزا دم بدم بادشاہ کو پیالہ دیتی تھی اور ذوق انگیز دانشمند کو۔ گیتی افروز نے کہا کہ "روح افزا ساقی حضور کی خدمت گاری میں حاضر رہے گی جس طرح مزاج میں آوے اس کے ساتھ عیش و عشرت کیجیے۔" بادشاہ یہ بات سُن کر بہت

صفحہ 97

خرسند ہوا۔ پھر رات گئے نازنین نے حکم دیا ایک خاصے مکان میں بادشاہ کے آرام کے واسطے پلنگ بچھواؤ اور ایک علٰیحدہ جگہ دانشمند کے واسطے۔ اور روح افزا کو اشارت سے کہا کہ تو جا کے بادشاہ کی خواب گاہ میں حاضر رہ اور ذوق انگیز دانشمند کو اپنی صحبت سے خوش کرے۔" اور آپ بادشاہ کا پہونچا پکڑا اور دانشمند وزیر اور ملک محمد اپنے عاشق کو ساتھ لے کے ٹہلتے ٹہلتے بالا خانے پر گئی۔ وہاں ایک ایسا پاکیزہ مکان جوزہر سے بنا تھا کہ جس کی تعریف کسی سے بیان نہ ہو سکے۔ اس میں ایک پری چودہ برس کی مانند چاند چودہویں رات کے ایک سونے کی جڑاؤ کرسی پر اس سج سے بیٹھی تھی کہ جس کے دیکھتے ہی آدمی کے ہوش پراں ہوئیں۔ فرخندہ شاہ نے اس کا حسن دیکھ کے نہایت حیرانی سے پوچھا کہ "اس محبوب کا کیا نام ہے؟"

گیتی افروز بولی کہ، "اس کا نام مہر انگیز حور ہے اور اس کی ایک چھوٹی بہن سے شور انگیز نام ہے سو یہ دونوں بہن انہیں دنوں میں ہماری ولایت سے آئی ہیں۔" بادشاہ نے پوچھا، "شور انگیز کہاں ہے؟" ابھی دو چار خدمت گاروں کو ساتھ لے کے چاندنی کی سیر کے واسطے چمن کی طرف گئی ہے۔" گیتی افروز نے ایک پری زاد کو فرمایا۔ سو وہ اسی وقت شور انگیز کو بلا لایا۔ بادشاہ نے اس کے چہرہ کی طرف نگاہ کر کے دیکھا تو دونوں بہن ایک صورت ہیں، ہرگز کچھ تفاوت نہیں۔ بادشاہ کبھی اس کی طرف دیکھتا تھا۔ اور کبھی اس کے منہ کی طرف ٹکٹکی لگا کے رہ جاتا تھا۔ بیت ؂

کبھی اس کی صورت پہ مائل تھا شاہ
کبھی اس کے چہرہ پہ کرتا نگاہ

صفحہ 98

گیتی افروز نے دیکھا کہ فرخندہ شاہ ان کی صورت پر بے اختیار فریفقہ ہے۔ مبادا مجھ سے ان کی خواہش کرے اس واسطے وہ سیر کرتے کرتے بادشاہ کو چھت پر لے گئی۔ وہاں ایک جڑاؤ تخت رکھا تھا اور اس کے چاروں کونوں پر چار مور مشک و عنبر و زعفران سے بھرے ہوئے اس حکمت سے دھرے تھے کہ ان کی خوشبو سے تمام باغ معطر تھا۔ بادشا ہ نے پوچھا کہ یہ تخت علیٰحدہ یہاں کیوں رکھا ہے؟" گیتی افروز بولی کہ یہ تخت میری سواری کا ہے اگر چاہوں تو اس پر سوار ہو کے مشرق سے مغرب تک ہو آؤں۔" یہ بات کہی اور بادشاہ کے ساتھ لپک کے اس تخت پر جا بیٹھی اور اپنے سامنے تخت کو گوشے پر دانشمند اور ملک محمد کو بٹھایا اور بادشاہ کی خوشی کے واسطے مہر انگیز اور شور انگیز حور کو ساقی کیا۔ اس انہوں نے بڑی ناز اور ادا سے ایک ایک پیالہ شراب انگوری کا سب کے تئیں دیا۔ نازنین نے فرمایا، "تھوڑی سی پریاں ساتھ کے واسطے تیار ہویں۔" سو اسی وقت تیار ہوئیں۔ اُسی گھڑی ہزاروں پریاں اور پری زاد کہ ہر ایک چاند کا ٹکڑا تھا حاضر ہوئیں اور مشعلچیوں نے مشعلیں بیشمار روشن کریں اور تخت کے اڑانے والی نانین اشارے سے تخت کو لے کے آسمان کی طرف اڑی۔ مہرانگیز اور شور انگیز نے پیالے شرا ب کے دیے کے سب کے تئیں ایسا مست میا کہ بے لحاظ ہو کے آپس میں بے لحاظی کی باتیں کرتے تھے۔ مثنوی

بیخودی کا تھا وہاں بازار گرم
نام کو ڈھونڈے نہیں ملتی تھی شرم
گرم تھا مطرب نوائے ساز میں
جلوہ گر معشوق تھے سب ناز میں

صفحہ 99

غرض کہ آدھی رات کے وقت جابجا کی سیر کر کے پھر اسی محل میں داخل ہوئے۔ گیتی افروز نے فرخندہ شاہ سے کہا کہ "آپ کو آج جاگنے کی بہت تکلیف ہوئی ہے۔ اب خواب گاہ میں تشریف لے جا کے آرام کیجیے۔" بادشاہ نے وہاں جا کے دیکھا تو تمام مکان ایسا آراستہ کی اہے کہ واہ جی واہ۔ اور چاروں طرف سے خوشبو کی لپٹیں آتی ہیں۔ اور ایک مونگے کے پلنگ پر سیج بند کسے ہوئے روح افزا مانند چاند چودھویں رات کے پھولوں کی سیج پر بیٹھی ہے اور عطر کی خوشبو سے بدن مہک رہ اہے۔ سو بادشاہ کی تعظیم کے واسطے سروقد اٹھ کھڑی ہوئی۔ بادشاہ اس کا ہاتھ پکڑ کے پلنگ پر جا بیٹھا اور کہا۔ بیت؂

اےپری نام خدا تیری سجاوٹ خاصی
بانکی دھج تس پہ یہ انگیا کی کساوٹ خاصی

پھر اس کے گلے میں اپنے ہاتھ ڈال کر لب و دہان کے بوسے لیے اور ساری رات عیش و عشرت میں مشغول رہے۔ اور دانشمند اپنی خواب گاہ میں جا کر باوجود اس کے بڑھاپے کے ذوق انگیز کی سج دیکھتے ہی مورچھا کھا کے گر پڑا۔ نازنین نے اُسی دم منہ پر گلاب چھڑک کے اٹھایا اور پلنگ پر بٹھا کر پیاے دو تین شراب کے پلائے۔ دانشمند اس کی صحبت کو ہفت اقلیم کی سلطنت سے بہتر جان کے تمام رات عیاشی میں مشغول رہا۔ ملک محمد نے دیکھا کہ یہ دونوں اپنے معشوقوں کے ساتھ عیش و نشاط میں مشغول ہوئے۔ سو آپ بھی اس توقع پر کہ شاید حق تعالٰی میرے درد کا علاج کرے، یعنی اس بے رحم کے دل میں رحم آوئے گیتی افروز کے پاس گیا۔ اُس نے پلنگ پر اپنے پاس بٹھا لیا۔ سو ملک محمد نے بیٹھ یہ بیت پڑھی ؂

صفحہ 100

اپنے معشوقوں سے سب عیش و طرب کرتے ہیں جاں
مدتوں سے اب تلک ہم درد و دکھ بھرتے ہیں یاں

یہ بات سن کے گیتی افروز کے دل میں رحم آیا اور کہا، "اے ملک محمد بے صبر مت ہو۔ خدا کی درگاہ سے امیدوار رہ کہ اس سے سب نزدیک ہے۔ تیرا مطلب حاصل ہو گا۔ (ف) دیر آید درست آید۔مبادا آج پھر کچھ حرکت تجھ سے سرزد ہوئی کہ بادشاہ اور دانشمند کے روبرو آپ شرمندہ ہوئے اور مجھے شرمندہ کرے۔" پھر دونوں نے شراب پی کے ایک پلنگ پر آرام کیا۔ جب گیتی افروز سو گئی۔ تب ملک محمد نے شہوت کے غلبے سے اٹھ کے چاہا کہ اپنی مراد حاصل کرے، وہ چونک اٹھی اور چیں بہ جبیں ہو کے بولی، اے بے عقل یوں تو ہرگز مقصد کو نہ پہنچے گا۔ خواہ مخواہ کیوں رسوا ہوتا ہے۔" وہ بے چارہ شرمندہ ہو کے پھر لیٹ رہا۔ علی الصباح گیتی افروز نے پلنگ سے اٹھ کے حکم دیا کہ سب مکانوں کا فرش تبدیل کر کے بچھاؤ۔ حکم ہے کہ دیر نہ ہو۔" فراشوں نے اسی سوقت فرش کی تیاری کر کے ایسی جلدی بچھا دیا گویا بچھا ہی تھا۔ بادشاہ رات کی خماری سے الکساتا ہوا اٹھا اور منہ دھو کے گیتی افروز کے پاس آیا۔ پھر دانشمند بھی رات کا انیندا آنکھیں ملتا ہوا بادشاہ کے حضور میں حاضر ہو کے تسلیمات بجا لایا۔ روح افزا اور ذوق انگیز پوشاکیں بدل کے ساقی گری میں حاضر ہوئیں اور ایک ایک جام خمار شکن سب کے تئیں پلایا۔ جب دانشمند کو پیالہ دینے کی نوبت پہنچی تب اُس نے کہا، فرد ؂

ساقی مجھے تو جام پیا پے نہ دے ابھی
ٹک دیکھ لوں کہ کیا تماشا خمار کا

صفحہ 101

پھر فرخندہ شاہ بہت شکر گزاری کر کے گیتی افروز سے رخصت ہوا، سو وہ تعظیم کے واسطے دروازہ تک ساتھ آئی۔ وہاں سے بادشاہ اسے وداع کر کے آپ ہاتھی پر سوار ہوا۔ دانشمند اور ملک محمد گھوڑے کی سواری پر رکاب میں حاضر تھے۔ کوچ کا نقارہ کر کے سارے لشکر سمیت اپنے شہر میں داخل ہوئے۔ ملک محمد اپنے گھر گیا تو نوکر چاکر لوگ کہ مدت سے اس فکر میں تھے کہ کیا جانیے ملک محمد کا کیا احوال اب کی مرتبہ ہوا ہو گا۔؟ سو اسے گھوڑے پر سوار دیکھ کے خوش ہوئے اور کہا۔ "الحمد للہ کہ اب کی مرتبہ ملک محمد خیریت سے گھر آیا۔" سو ملک محمد گھوڑے سے اتر گھر میں گیا۔ رات جو انیندا تھا سو جاتے ہی پلنگ پر سو رہا۔ تیسرے پہر جاگا اور کچھ کھانے کو کھایا اور کپڑے بدلے اور اپنے چچا کے ساتھ بادشاہ کا دربار کیا۔

دسویں حکایت

جانا گیتی افروز کا فرخندہ شاہ کی ضیافت میں اور رات کو وہاں رہنا اور بیل کر ڈالنا ملک محمد کے تئیں۔

دانادل نے کہا۔ "سن اے بانوئے جہاں! فرخندہ شاہ نے دانشمند کو اپنے پاس بلا کے کہا، "میری تئیں بھی ضروری ہے کہ ایک مرتبہ گیتی افروز کو اپنے پاس مہمان کروں۔"

اس نے کہا۔ "بہت اچھا۔" پھر ملک محمد کو بلا کے فرمایا کہ، "گیتی افروز قبول کرے تو ہم اس کو ضیافت کی تکلیف دیں۔" اس نے کہا، "البتہ آوے گی وگر کچھ عذر کرے گی تو میں جس طرح بنے گا خواہ مخواہ اس کو لاؤں گا۔

صفحہ 102

بادشاہ نے اسی وقت کارپردازانِ سرکار کو حکم دیا کہ، "میر مطبخ کو تاکید ہوئے کہ گیتی افروز اور تمام خواصی اور ہمراہیوں کے واسطے قسم قسم کے جتنے پاکیزہ کھانے اور پلاؤ اور طرح طرح کے لطیف کباب و لوزیات خوب اور جلد تیار کرے گا ویسا ہی بادشاہی انعام سے سرفراز ہوئے گا اور اسی موافق اور سب چیز کی تیاری ہوئے۔" سو حسب الحکم سب کارخانے والے اپنے اپنے کام میں مشغول ہوئے۔ پھر بادشاہ نے ملک محمد سے فرمایا کہ، "تو جا کے میری طرف سے شاہ پری کو دعا کے بعد کہہ کہ، "جو نعمتیں حق تعالیٰ نے تم کو بخشی ہیں سو ہم کو کہاں میسر ہیں؟ لیکن یہ آرزو ہے کہ آج میرے غریب خانے کو اپنے جمال سے مُنور کیجیے۔"

ملک محمد وہاں سے رخصت ہو کے گیتی افروز کے دروازے پر جا کے پکارا۔ اندر سے آواز آئی، "کون ہے؟" بولا، "میں ہوں ملک محمد۔" وفادار لونڈیوں نے ملکم محمد کا نام سن کے تُرت کواڑ کھول دیئے سو اندر گیا۔ گیتی افروز نے اپنے برابر مسند پر بٹھایا اور فرخندہ شاہ کی حقیقت پوچھنے لگی۔ ملک محمد نے کہا کہ، "بادشاہ نے تمہارے تئیں بہت دعا کے بعد کہا ہے کہ۔ اگر ایک ساعت میرے غریب خانے کو اپنے جمال سے روشن کرو تو کمال مہربانی ہے۔"

گیتی افروز بولی کہ، "اگر اس بات میں تمہاری خوشی ہے تو کیا مضائقہ ہے؟ جس وقت کہو حاضر ہو آؤں۔" ملک محمد بولا، "وہ تمہارے انتظار میں چشم براہ ہیں۔" یہ بات سن کے نازنین نے اسی دم فرمایاکہ، "تمام پریاں اور پری زادیں حاضر ہوئیں۔" اور آپ ستھری پوشاک اور عمدہ زیور سر سے پاؤں تلک پہن کے تیار ہوئی۔ اور مہر انگیز اور شور انگیز حور

صفحہ 103

اور روح افزا اور ذوق انگیز کو بھی اچھے اچھے کپڑے اور گہنا پہنا کر تیار کیا۔ اور ملک محمد کی طرف نگاہ کر کے پوچھا، "تخت پر سوار ہو آؤں یا گھوڑے پر؟" اس نے کہا کہ، "جس پر تمہاری مرضی ہوئے۔" بولی کہ "بادشاہوں کے یہاں تخت پر سوار ہو کے جانا خلافِ ادب ہے۔" سو اپنی سواری کے واسطے ایک گھوڑا ہو، اسے بھی جلد رو منگوایا۔ سوار ہوئی۔ مہر انگیز اور شور انگیز حور کو دو گھوڑوں پر کہ سرتاپا جواہر میں غرق تھے اپنے برابر سوار کیا۔ ملک محمد اپنے گھوڑے پر سوار ہو کے ساتھ ہوا۔ اور قریب ایک لاکھ کے پریاں اور پریزادیں طرح طرح کے کے لباس سے اپنے تئیں سجے بنائے ہوئے مانند ستاروں کے اس چاند کے گرد تھیں۔ الغرض بڑی دھوم دھام سے جب شہر پناہ کے نزدیک پہنچے، تب ملک محمد نے آگے جا کے بادشاہ کو خبر دی۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا تو کچھ شور و غل معلوم ہوا۔ پھر ملک محمد کی طرف نگاہ کر کے کہا، "شاید ابھی دور ہے۔" اس نے کہا، "آپ کے ادب سے تخت کی سواری چھوڑ کے گھوڑے کی سواری پر دروازہ تک پہنچی ہے۔"

بادشاہ یہ بات سن کے گیتی افروز کی پیشوائی کے واسطے پیادہ پا دروازہ تک آیا۔ سو نازنین گھوڑے سے اُتر کے مہر انگیز اور شور انگیز اور روح افزا اور ذوق انگیز کو ساتھ لے کے بادشاہ کے ساتھ اندر کو متوجہ ہوئی اور فرخندہ شاہ کے لوگ پریوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگے۔ شاہ پری یہ دیکھ کے کھڑی ہو گئی اور بادشاہ سے مخاطب ہو کے کہا، "آپ کے تئیں معلوم ہے کہ پریوں کو آدمیوں کی صحبت سے نہایت پرہیز ہے اور ہمارا یہاں آنا محض تمہاری خاطر داری کے واسطے ہوا ہے۔ یہ لوگ جو پریوں سے چھیڑ چھار کرتے ہیں تمہارے منع کیے سے باز آویں تو بہتر ہے، نہیں تو ایک

صفحہ 104

ساعت میں سب حیوان ہو جائیں گے۔"

بادشاہ نے غضب ناک ہو کے لوگوں کو بہ تاکید منع کر دیا کہ پریوں کی طرف زنہار کوئکی بانداز دگر نگاہ نہ کرے۔" اور آپ گیتی افروز کا ہاتھ پکڑ کے باغ کی طرف متوجہ ہوا۔ نازنین باغ کی تیاری اور چمن کی طراوت دیکھ کے بہت محظوظ ہوئی۔ چمن کے درمیان میں ایک پاکیزہ بارہ دری سونے اور جواہر سے آراستہ تھی۔ اس میں مخمل اور کمخواب کا فرش اس صفائی سے بچھا تھا کہ جس پر پاؤں پھسلے۔ اور آفتاب کی روشنی میں بادلے کے سائبانوں کی چمکاہٹ پر نظر چکا چوندی کھاتی تھی۔ سو اس مکان دلچسپ میں جا کر بیٹھے اور لونڈیاں گلرد، چاسمین بوبہ زیب و زینت شراب پلانے میں مشغول ہوئیں ۔ اور قوال اور کلاونت خوش ادا گانے لگے۔

(مثنوی)
ہر طرف کلیاں کھلاتی تھی صبا
ہر طرف سے گل رہے تھے لہلہا
اک طرف تھا بادۂ گلگوں کا جوش
اک طرف تھا عندلیبوں کا خروش
گرم تھا مُطرب نواے ساز میں
جلوہ گر معشوق تھے سب ناز میں
اک طرف تھی سرو کرتی سرکشی
اک طرف وہ سرو قد لیتی تھی جی
ہر طرف تھی ساقی و مل کی پکار
واسطے مے کے سبھی تھے بے قرار
خوب رو، سرگرم نوشا نوش تھے
مستی مے سے سبھی بے ہوش تھے
نشۂ مے سے تھے یاں تک بے خبر
یہ نہ جانا دین و دنیا ہے کدھر

اتنے میں بکاول نے آن کے عرض کیا، "خاصہ تیار ہے۔" فرمایا "حاضر کرو۔" سو خدمت گاروں نے ایک سفید اطلس کا دسترخوان لا کے بچھایا اور لونڈیاں زہرہ جبین نے قسم قسم کے کھانے سونے کے باسنوں میں

صفحہ 105

دسترخوان پر لا کے رکھےا ور سونے کی انگیٹھیوں میں مشک و عود و عنبر کے جلنے سے سب مجلس معطر ہو رہی تھی۔ گیتی افروز نے جس کھانے سے لقمہ لیا سو اپنے یہاں کے کھانے سے لذیذ تر دیکھا۔ جب کھانے سے فراغت کر کے ہاتھ دھوئے لونڈیوں نے عطر دان و پاندان و چوگھڑے حاضر کیے۔ سو بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے روح افزا کے کپڑوں پر عطر ملا۔ اور مہر انگیز اور شور انگیز حور کو گیتی افروز نے لگایا۔ اور اپنے عاشق کی طرف دیکھ کے بولی کہ، "اگر تیرے دل میں آرزو ہے تو تو، میرے کپڑوں پر عطر لگا۔" ملک محمد نے نہایت خوشی سے بادشاہ اور دانشمند کے روبرو اپنے معشوق کے بدن پر عطر ملا۔ بادشاہ نے گیتی افروز کی طرف دیکھ کے کہا کہ، "جو نعمتیں اور جواہرات تم کو میسر ہیں سو ہم لوگوں کو نہیں۔ اگرچہ ضیافت کا سر انجام تمہارے لائق نہ تھا پر تم نے مہربانی کر کے اپنے قدم سے ہمارے گھر کو رونق بخشی۔

اس نے جواب دیا کہ، "حضرت لعل اور یاقوت سب پتھر ہے سو ہم کو پتھروں سے کچھ کام نہیں، فقط آپ کی مہربانی درکار ہے۔" یہ بات چیت کر کے باغ کی سیر کو اٹھی۔ سو آپس میں پیار و محبت کی باتیں کرتی ہوئی شام تک چمن کے تختوں پر ٹہلتی رہی۔ پھر اسی بارہ دری میں آن کے بیٹھی سو ساقیان گلغدار نے شراب کے پیالے پیہم دینے شروع کیے۔ سو شراب کے نشے میں مست ہو کے سب مجلس کے لوگ بہک بہک کے بے لحاظی کی باتیں کرنے لگے۔ پھر بادشاہ نے اشارہ سے فرمایا کہ "گیتی افروز کے واسطے گلانے مکان میں پلنگ بچھاؤ۔" یہ بات کہہ کے چاندی کی سیر کو متوجہ ہوئے۔ تھوڑی دیر کے بعد شب مہتاب کی سیر کر کے گیتی افروز نے فرخندہ شاہ سے اجازت لی اور اپنی خوابگاہ کی طرف سدھاری۔ وہاں جا کے دیکھا تو گلاب کے پھولوں کا ایک ستھرا بنگلا آراستہ کیا ہے کہ دیکھے سے معلوم ہوئے اور ایک سونے کے

صفحہ 106

پلنگ پر سیج بند کسے ہوئے، تس پرا یک ذات چمپیلی کی سیج بچھی ہے سو گیتی افروز اس پر جا بیٹھی۔ پھر دانشمند بھی وداع ہو کے اپنے گھر گیا۔ اور فرخندہ شاہ اپنے محل میں داخل ہوا۔ اور ملک گیتی افروز کی خواب گاہ کی طرف روانہ ہوا۔ گیتی افروز اسے دیکھ کر بولی۔ "آؤ یار کہ تجھ بغیر میں بہت بے قرار اور نہایت اداس تھی۔" پھر ہاتھ پکڑ کے اپنے پاس بٹھا لیا۔ تھوڑی دیر تک بات چیت کرتی رہی پھر آرام کیا۔ ملک محمد شراب کے نشے اور شہوت کے غلبے سے ایسا از خود رفتہ تھا کہ کسی چیز کی خبر نہ تھی اور یہ منصوبہ دل میں کرتا تھا کہ جو کچھہونی ہو سو ہوئے۔ تب اس نے چاہا کہ بے حجابانہ اپنی آرزو حاصل کرے۔ سو وہ چھوتے ہی چونک پڑی اور جھنجھلا کے کہا، "اے بیل بے عقل میں نے تجھے کئی بار سمجھایا اور بہت نصیحت کی پر تو جان بوجھ کے فضیحت ہوتا ہے اس میں میں کیا کروں۔" اس کی یہ بات کہتے ہی ملک محمد لوٹ پوٹ کے ترت بیل کی شکل ہو گیا۔ سو نازنین کے اشارے سے خدمتگاروں نے ریشم کی ڈوری اس کے گلے میں ڈال کے درخت سے باندھ دیا کہ بادشاہ کا باغ پائمال نہ کرے۔ گیتی افروز نے اس بیل کی طرف دیکھا اور مسکرا کے کہا کہ۔ "لعل شب چراغ اس کے گلے میں باندھ دو۔" وہ بیچارہ اپنے دل میں پچھتاتا تھا کہ ہائے ابھی میں کیا آرام سے اپنے معشوق کے ساتھ سوتا تھا، اگر زیادہ حرص نہ کرتا تو اس بلا میں کیوں پڑتا؟ میں اس بھروسے تھا کہ گیتی افروز مجھ پر مہربان ہے اب حیوان نہ کرے گی۔ لیکن سچ ہے۔ فرد ؂

بتوں کی دوستی پر مطمئن ہووے سو کافر ہے
یہ ظالم مار ڈالیں بات کہنے میں جسے چاہیں

معشوقوں کی بے رحمی دیکھا چاہیے کہ مجھ اس بلا میں گرفتار کر کے آپ بے فکری

صفحہ 107

میں آرام سے سو رہی۔ بیت

نہ ہوتا گر کسی سے آشنا دل
تو کیا آرام سے رہتا مرا دل

القصہ ملکم محمد رات بھر اسی سوچ میں رہا۔ فجر کے وقت فرخندہ شاہ محل سے برآمد ہو کے تخت پر بیٹھا اور گیتی افروز بھی پلنگ پر سے اٹھی اور رات کی خماری شراب سے انگڑاتی ہوئی اُس بیل کے نزدیک آن کے ایک لمحہ کھڑی ہوئی۔ پھر بادشاہ کے پاس جا کہ تخت پر بیٹھی اور شراب کے دو تین جام خمار شکن پی کے رخصت مانگی۔

گیارہویں حکایت

فرخندہ شاہ سے رخصت ہو کے روانہ ہونا گیتی افروز کا اپنے کوہستان کو اور بیل سے آدمی کروا کے بھیجنا فرخندہ شاہ نے ملک محمد کے تئیں گیتی افروز کی خبر کو۔

دانادل نے کہا، "سن اے سمن رُخ! فرخندہ شاہ نے بوقت رخصت اقسام تحائف بطریق توزضع شاہ پری کے آگے رکھے۔ سو اس نے پانچ سات دانے موتیوں کے بادشاہ کی خوشی کے واسطے اٹھا لیے اور وداع ہو کے کوہستان کی طرف روانہ ہوئی۔ بادشاہ تخت پر بیٹھا، گیتی افروز کے خلق و خوبی کی باتیں کرتا تھا کہ اچانک اس بیل کی طرف نظر جا پڑی۔ بادشاہ دیکھ کر متعجب ہوا کہ یہ بیل کہاں سے آیا؟ پھر ملک محمد کو یاد کیا کہ آج صبح سے دیکھا نہیں۔ حاضرین نے عرض کیا کہ، "معلوم نہیں کہاں ہے؟ شاید

صفحہ 108

گیتی افروز کے ساتھ گیا ہوئے۔" فرخندہ شاہ نے فرمایا، "اگر گیتی افروز کے ساتھ جاتا تو البتہ ہم سے مل کے جاتا، اس کے چچا کے یہاں جا کے دیکھو۔" دانشمند وہاں آپ حاضر تھا، سو آداب بجا لا کے عرض کیا کہ میرے تئیں بھی اس کا احوال معلوم نہیں۔" اتنے میں جو دانشمند کی نگاہ اس بیل کی طرف گئی تو دیکھا کہ زیور سے آراستہ کھڑا ہے۔ اس نے عقل سے معلوم کیا کہ ملک محمد کو گیتی افروز بیل بنا کے چھوڑ گئی ہے۔ سو اٹھ کے ادب سے بادشاہ کے حضور میں عرض کیا کہ، "ملک محمد زیب و زینت سے خود بدولت کے سامنے کھڑا ہے۔"

بادشاہ نے پوچھا، "کہاں ہے؟" کہا کہ، "یہ ہے۔" گیتی افروز حضور کی آب کشی کے واسطے بیل بنا کے درخت سے باندھ گئی ہے۔" بادشاہ نے کہا، "تعجب ہے۔ کہ کل ہماری مجلس میں ملک محمد اس کا منہ چومتا تھا اور آج ہمارے روبرو بے چارہ اس بلا میں پھنسا کے چلی گئی"

دانشمند اس کے نزدیک گیا اور جھِڑک کے کہا، "اے بے شرم تجھے کسی کی حیا نہیں۔ میں نے بارہا منع کیا پر تو اس کام سے باز نہ آیا۔ اب اگر پانی ڈھوتے ڈھوتے مر جائے تو بھی تیرے حال پر مجھے رحم نہ آؤے۔" یہ بات کہہ کے اپنے نوکروں کو حکم دیا کہ، "اس کو یہاں سے لے جاؤ اور ایک بڑی پکھال بنوا کے جتنا پانی کہ سرکار کے چھڑکاؤ کے واسطے درکار ہوئے سو اس پر لاد لایا کرو۔" انہوں نے لے جا کے اور بیلوں کے پاس گاؤ خانے میں باندھ دیا۔ تمام روز اس سےپانی کی پکھالیں ڈھواتے اور رات کو بُھس کی سانی کھانے کو دیتے۔ ترت توڑے بے چارہ گاؤ خانے میں رہا اور دانشمند نے ہرگز رحم نہ کیا۔ چھ مہینے اسی طرح بیت گئے۔ چھ مہینے

صفحہ 109

کے بعد کہ ملک محمد کے نصیب یاور ہوئے۔ ایک دن بادشاہ کو شراب کے نشے میں گیتی افروز یاد آئی اور اپنے دل میں کہا کہ اس کے کنے کِسے بھیجوں جو خبر لاوے۔ اس کام کے واسطے ملک محمد خوب تھا۔ سو اسے بیل کی شکل بنا کے یہاں چھوڑ گئی ہے۔ اب کیا تدبیر کیا چاہیے؟ اس سوچ بچار میں دانشمند کو بلا کے فرمایا کہ، "اگر تو ملک محمد کو حیوان سے انسان کر سکے تو دریغ نہ کر۔" اس نے عرض کیا، "اب میں وہ معجون کہاں سے لاؤں کہ اچھا ہو جاوے۔"

بادشاہ نے کہا، "وہ معجون اور تیار کر۔" بولا کہ "وہ بوٹی جس سے یہ معجون بنتی ہے سوائے سراندیپ کے اور کہیں نہیں ملتی۔ اگر وہاں سے وہ بوٹی آوے تو معجون تیار ہوئے۔"

بادشاہ نے دو ہرکارے ایسے تیز رو کہ صبح سے شام تک سو کوس چلتے تھے بُلا کے اس بوٹی کے لانے کے واسطے سراندیپ کو رخصت کیا۔ سو وے اسی وقت دانشمند سے بوٹی کا نام و نشان پوچھ کر روانہ ہوئے اور چھ مہینے کی راہ ایک مہینے میں طے کر کے سراندیپ کے پہاڑ پر پہنچے۔ اور وہاں سے وہ بوٹی لے کر مانند ہوا کے اڑتے ہوئے فرخندہ شاہ کے حضور میں حاضر ہئے۔ بادشاہ نے ان کو انعام و خلعت دے کر سرفراز کیا اور آفریں و شاباش کی۔ پھر دانشمند کو بُلا کے بوٹی اس کے حوالے کی۔ سو اس نے کئی چیزیں اور ملا کے اتنی معجون بنائی کہ ملک محمد کے سو بار اچھا ہونے کو کافی تھی۔ بادشاہ نے اس بیل کو منگوا کے اپنے سامنے تخت کے پاس کھڑا کروایا۔ دانشمند نے اس کی طرف دیکھ کے کہا، "اے کمبخت!! اس مرتبہ تو حضرت کی مہربانی سے آدمی ہوتا ہے وگرنہ خدا کی قسم میں تمام عمر تیرا علاج نہ کرتا۔ اب اس شرط پر معجون دیتا ہوں کہ پھر کبھی گیتی افروز پر عاشق نہ ہوئے۔"

صفحہ 110

معجون کا مرتبان بھرا دیکھ کے اگرچہ اُس کی خاطر جمع تھی پر دانشمند کی رضا مندی کے واسطے طوعاً و کرہاً سر ہلا دیا۔ دانشمند نے دیکھا کہ توبہ کرتا ہے۔ سو تھوڑی سے معجون پانی میں گھول کے اس کے حلق میں ڈالی۔ سو وہ اُسی وقت لوٹ پوٹ کے بدستور آدمی ہو گیا اور بادشاہ کو دعا دے کے اپنے چچا دانشمند کے پاؤں پڑا۔ پھر حمام میں جا کے غسل کیا اور کپڑے پہن کے بادشاہ کے حضور میں حاضر ہوا۔ فرخندہ شاہ نے کہا، "اے ملک محمد جب سے گیتی افروز یہاں سے گئی ہے تب سےکچھ اس کی خبر نہیں پائی۔ اب تو جا کر اس کی خبر لا کہ کس طرح ہے؟"

ملک محمد تو یہ بات خدا سے چاہتا تھا، اسی وقت رخصت ہو کے کوہستان کی طرف روانہ ہوا۔ وہاں پہنچ کے دیکھا تو دروازہ کھلا تھا بے محابہ اندر چلا گیا۔ گیتی افروز سبز لباس پہنے ہوئے زمرد کے تخت پر بیٹھی یہ بیت پڑھتی تھی۔ بیت ؂

بہت دن ہو گئے دیکھا نہیں ہے ہم نے یار اپنا
ہوا معلوم یہ، شاید کیا کم اس نے پیار اپنا

یہ بیت اپنے معشوق کی زبان سے سن کے ملک محمد کو خواجہ میر درد کی دو بیتیں یاد آئیں۔ بیت؂

گرچہ بیزار ہے پر دل میں اسے پیار بھی ہے
ساتھ انکار کے پردہ میں کچھ اقرار بھی ہے
دل بھلا ایسے کو اے دردؔ نہ دیجیے کیوں کر
ایک تو یار ہے، اور تسپہ طرحدار بھی ہے

گیتی افروز نے ملک محمد کو دیکھ کے کہا، "آؤ اے یار! اتنی مدت تلک کہاں تھا۔ میں نے جانا کہ تو نے بیزار ہو کے مجھ سے ملنا چھوڑ دیا۔" اس نے یہ جواب دیا۔ بیت؂

صفحہ 111

عشرت سے دو جہاں کی یہ دل ہاتھ دھو سکے
تیرے قدم کو چھوڑ سکے یہ نہ ہو سکے

اور تو نے جیسے جیسے ظلم مجھ پر کیے ہیں سو تمام جہان میں کسی معشوق نے اپنے عاشق پر نہ کیے ہوں گے۔ بیت ؂

جو گزری مجھ پہ کب وہ شوخ بے پرواہ جانے ہے
مرا دل جانتا ہے یا مرا اللہ جانے ہے

یہ باتیں سن کے گیتی افروز نے کے دل میں رحم آیا اور ملک محمد کو اپنی چھاتی سے لگا لیا۔ پھر روح افزا نے دونوں کے تئیں شراب پلائی۔

بارہویں حکایت

آنا گیتی افروز کے بھائی کا اور اس کے ساتھ جانا گیتی افروز اور ملک محمد کے تئیں ساتھ لے کے پرستان کو اور ملنا باپ ماں سے اور مشغول ہونا بھائی کے لوازمۂ شادی میں اور بیقرار ہونا ملک محمد کا اس کی جدائی میں۔

دانا دل نے سمن رُخ سے کہا، "حسن اے ملکۂ زماں! ملک محمد اور گیتی افروز دونوں شراب کے نشے میں پیار و اخلاص کی باتیں کرتے تھے کہ اچانک آسمان کی طرف شور و غل کی آواز آئی۔ گیتی افروز نے سر اونچ کیا تو اپنے بھائی کی سواری دیکھی۔ جب سواری نزدیک آئی تب گیتی افروز تعظیم کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی اور سلام کیا۔ پھر تخت پر اپنے پاس بٹھا کر بڑی دیر تک قبیلے کے سب لوگوں کی خیر و عافیت اور احوال پوچھتی رہی۔ اُس کے بھائی نے

صفحہ 112

ملک محمد کو گیتی افروز کے پاس بیٹھا دیکھ کر پوچھا، "اے بہن جس آدمی زاد سے کہ تو نے دوستی اختیار کی ہے سو یہی ہے؟"

اُس نے ہا، "ہاں"۔ پھر پوچھا کہ "اس کا نام کیا ہے؟" بولی "ملک محمد وفادار کہتے ہیں۔" کہا "تیرے ساتھ کیا وفا کی ہے؟" بولی میرے واسطے اس نے ایسی ایسی مصیبتں اور آفتیں اٹھائی ہیں کہ کچھ کہہ نہیں سکتی، بلکہ کئی مرتہ میں نے جانور کر ڈالا تو بھی اس نے میری دوستی نہ چھوڑی۔" ملک محمد یہ باتیں سن سن کے دل میں ڈرتا تھا کہ دیکھیے کیا ہوئے؟ گیتی افروز نے ملک محمد کے چہرہ کا رنگ تبدیل دیکھ کے نہایت مہربانی اور دلاسے سے کہا، "اے یار تیرے تئیں مجھ سے کام ہے، ہرگز کچھ اندیشہ مت کر۔" بارے اس کے دلاسا دینے سے ملک محمد کو تقویت ہوئی۔ الغرض گیتی افروز کے بھائی نے کہا۔

"اے بہن آج کے پندہویں روز تیرے بڑے بھائی کا بیاہ ہے۔ سو میں ماں باپ سے اپنا ذمہ کرکے تیرے لینے کے واسطے آیا ہوں۔ ایسا نہوہئے کہ تو چلنے میں کچھ عذر کر کے مجھے شرمندہ کرے۔ سوگند خدا کی اور قسم حضرت سلیمان کی۔ اگر اس بات میں تو انکار کرے گی تو میں بھی گھر نہ جاؤں گا، بلکہ تمام عمر ماں باپ کو منہ نہ دکھاؤں گا۔" گیتی افروز نے سوچ سوچ کے جواب دیا کہ "تیری قسم میرے دل میں تو ساری عمر وہاں جانے کا تو اادہ نہ تھا، جو تو اب میرے لے جانے کے واسطے اقرار اور ذمہ کر کے آیا ہے، اب نہ چلوں تو اس لاف زنی سے تیری سبکی ہوئے، لاچار چلوں گی۔ بشرطیکہ ملک محمد وفادار کو اپنے ساتھ لے چلوں اور وہاں کوئی اس کے دکھ دینے کا روادار نہ ہوئے۔"

صفحہ 113

اس نے کہا، "جس میں تو راضی ہوئے سو کر، تیری مرضی بن ہرگز کوئی کچھ کام نہ کرے گا۔"

گیتی افروز نے سب خدمت گاروں اور کارخانے والوں کو وہاں چھوڑ کے ملک محمد کو اپنے ساتھ لیا اور تخت کی سواری پر بیٹھا کے ساتھ روانہ ہوئی۔ باپ کے ملک کی حد میں پہنچی۔ عنصر شاہ نے گیتی افروز کے آنے کی خبر سن کر حضور کے امیر اور وزیروں کو بڑے بیٹھے کے ساتھ پیشوائی کے واسطے بھیجا۔ الغرض جب گیتی افروز نے پرستان میں پہنچ کر باپ کی ملازمت حاصل کی تب عنصر شاہ بہت مہربانی سے دیر تک احوال پوچھتا تھا۔ پھر پوچھا کہ "جس شخص سے تو نے دوستی کی ہے سو کہاں ہے؟" اس نے تو حیا سے جواب نہ دیا، پر ملک محمد نے معشوق کے اشارے سے چاہا کہ عنصر شاہ کے قدموں پر گرے، سو اس نے اپنے ہاتھ سے اُس کا سر اونچا کر کے بغل گیر ہوا۔ "اے ملکہ اگرچہ ظاہر میں عنصر شاہ کشادہ پیشانی سے اس کے ساتھ ہمکلام ہوا لیکن دل میں بہت قلق گزرا۔ ملک محمد نے دانائی سے دریافت کیا کہ میرے یہاں رہنے سے عنصر شاہ کو نہایت گرانی ہے۔ کیا جانیے جیتا چھوڑے یا نہیں؟ بیت؂

جو کچھ گزرے مصیبت یار کی خاطر سو راحت ہے
اگر جی سے مجھے ماریں گے اس میں بھی سعادت ہے

لیکن یہ ارمان ہے۔ ابیات ؂

جی کی جی ہی میں رہی بات نہ ہونے پائی
ایک بھی اس سے ملاقات نہ ہونے پائی

صفحہ 114

دید وا دید ہوئی دور سے اس کی میری
پر جو میں چاہا تھا وہ بات نہ ہونے پائی

پھر وہاں سے گیتی افروز اپنے عاشق کو ساتھ لے کے اپنی ماں کے پاس گئی۔ سو اس نے دیکھتے ہی سینے سے لگا لیا اور نصیحت کر کے کہا کہ "اگر تیرا دل اس پر مائل ہے تو مبارک ہو ہم غیر راضی نہیں۔ پر یہ چال اچھی نہیں کہ تو گھر بار چھوڑ کے بیگانہ ملک میں رہنا اختیار کرے اور ہم سدا تیرے دیکھنے کو ترستے رہیں۔ ہماری یہ آرزو ہے کہ اب یہاں ہی رہ اور اس آدی زاد کو بھی اپنے پاس رکھ۔ جس شخص سے تیرے سگائی ہوئی ہے، بیاہ کے واسطے اس کا ہمیشہ پیغام آتا ہے اور خلق ہم کو طعنے دیتا ہے تو عبث ہم کو رسوا کرتی ہے۔ؔ اس نے ماں سے یہ باتیں سُن کے جواب دیا کہ "میرے تئیں شادی کرنا ہرگز منظور نہیں۔ اس آدمی کی صحبت میں شاد ہوں۔ اگر کوئی دن مجھے یہاں رہنے دیتی ہو تو رہنے دو نہیں تو اب کی مرتبہ کسی ایسے مکان میں جا رہوں گی کہ نہ تم میرے حال سے خبر پاؤ نہ مجھے تمہارا احوال معلوم ہائے۔" اُس نے دیکھا کہ یہ اس جوان کی محبت میں ایسی پھنسی ہے کہ اور کسی سے کچھ مطلب نہیں رکھتی، اگر زیادہ کہوں گی تو ابھی اٹھ کر جاتی رہے گی۔ اب تو یہاں آئی ہے، رہتے رہتے سہج میں سمجھ جائے گی۔ اس وقت اسے بہت چھیڑنا اچھا نہیں، سو اس کی خاطر داری اور تسلی کر کے ایک محل علٰیحدہ رہنےکے واسطے خالی کروا دیا۔ گیتی افروز ملک محمد کو ساتھ لے کے اس محل میں داخل ہوئی اور ملک محمد سے کہا کہ "یہ تو بہ تحقیق جانتا ہے کہ یہاں سب لوگ تیرے لہو کے پیاسے ہیں۔ خبردار کچھ ایسی حرکت مت کیجیو کہ ناحق جان کھووے اور مجھے شرمندہ کرے۔"

صفحہ 115

اس نے کہا، "میں ایسا دیوانہ نہیں کہ اپنا جی جان، بوجھ کے کھواؤں گا۔" انہیں باتوں میں دن تو آخر ہوا، شام کے وقت گیتی افروز پوشاک بدل کے اپنے یار کے پاس بیٹھی ہوئی اختلاط کی باتیں کرتی تھی کہ عنصر شاہ کے پاس سے پانچ چار پریاں خوبصورت عمدہ لباس پہنے ہوئے خدمت گاری کے واسطے حاضر ہوئیں اور ادب سے مجرا کیا۔ گیتی افروز گھڑی چر تک اپنے عاشق سے ہنستی بولتی رہی۔ پھر نیند میں غافل ہو گئی۔ ملک محمد اپنے دل میں سوچا کہ یہاں کے لوگوں کے ہاتھ سے میں جیتا نہ بچوں گا، جس سے یہ بہتر ہے کہ آج اپنی آرزو حاصل کروں کہ دل میں افسوس باقی نہ رہے۔ یہ تجویز کر کے چاہا کہ اسے ہاتھ لگاوے، سو اُس نے آنکھیں کھول دیں اور کہا، "اے نادان میں نے ہر چند تجھے سمجھایا اور کتنا ہی منع کیا پر تو اپے مرنے سے نہیں ڈرتا۔ اگر اپنی سلامتی درکار ہے تو جب تلک میں یہاں ہوں تب تک گستاخی برباد جائے گی۔" وہ بیچارہ نا امید ہو کے پھر سو رہا۔ گجر کے وقت سورج کے نکلنے سے پہلے ہی گیتی افروز پلنگ پر سے اٹھ کے عنصر شاہ کے سلام کے واسطے گئی اور وہاں بھائی کی شادی میں مشغول ہوئی۔ اور چند حضور کے اہل کاروں نے عنصر شاہ کی پروانگی سے سارے شہر کے کوچہ و بازار ایسے آراستہ کیے تھے کہ دیکھنے سے تعلق ہے۔ غرضیکہ سات دن تلک گیتی افروز کو اتنی فرصت بھی نہ ہوئی کہ اپنے عاشق کو ملاقات سے خرسند کرتی اور تہ بیچارہ اس کی جدائی میں مانند مچھلی کے کہ پانی جدا ہو کے تڑپتی ہے۔ بیقرار تھا۔

(مثنوی)
کیا کہوں کیا حال اس کا ہو گیا
کام کچھ ہر گز نہ تھا رونے سوا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 116

گاہ سر پر ڈالتا تھا خاک وہ
گاہ کرتا تھا گریباں چاک وہ
نالہ وہ کرتا تھا گھائل کی طرح
گہہ تڑپتا تھا وہ بسمل کی طرح
نے اُسے کچھ خواب و خور سے کام تھا
نے اُسے اک دم کہیں آرام تھا
قیس گر حالت کو اس کی دیکھتا
بُھول جاتا اپنا غم وہ مُبتلا

تیرہویں حکایت

آنا گیتی افروز کا ملک محمد کے پاس اور اس کو ساتھ ہے کے جانا بھائی کی شادی کی برات میں اور بیاہ ہونا اُس کے بھائی کا اور بولنا سمن رُخ بانو کا اور اشارہ کرنا شیخ صنعان نے روشن ضمیر اپنے دوسرے مُرید کو کہ جو کچھ دیکھا سُنا ہوئے سو تو بیان کر۔

دانادل نے کہا، "سُن اے سمن رُخ! ملک محمد ایک روز بہت اداس ہو کے محل سے باہر نکلا اور عنصر شاہ کے محل کے تلے جا کے کیا دیکھتا ہے کہ گیتی افروز سُرخ لباس سجے ہوئے عجب ایک ادا سے چھت پر اکیلی کھڑی ہے۔ ملک محمد نے اُس کو سنا کے یہ رباعی پڑھی۔ رباعی ؂

کیا رسم ہے مل کے پھر جدائی کیجیے
دل لیجیے اور بے وفائی کیجیے

صفحہ 117

اے جان! نباہ گر نہ ہوئے منظور
کاہے کو کسی سے آشنائی کیجیے

اس نے اس کی طرف دیکھ کے یہ جواب دیا۔ ابیات ؂

ملنے کو تیرے میں بھی بہت بے قرار ہوں
پر کیا کروں کہ بس نہیں بے اختیار ہوں
یہ مت سمجھیو دل میں کہ خوش ہوں میں تجھ بغیر
روتی ہوں سب سے چھپ کے سدا زار زار ہوں

"اب تو اسی مکان میں جا کے بیٹھ۔ ان شاء اللہ تعالٰی جس طرح بنے گا آج رات کو آن کے تیری خدمت میں حاضرہوں گی۔" بارے ان باتوں سے ملک محمد کو ذرا تسلی ہوئی اور پھر اسی جگہ جا کے بیٹھ رہا۔ خدا سے یہ دعا مانگتا تھا کہ جلد رات ہوئے۔ شام کے وقت گیتی افروز وعدہ کے موافق تخت پر سوار ہو کے محل میں داخل ہوئی اور ملک محمد کے پاس پلنگ پر بیٹھ گئی اور ایک پری زاد کو اشارت کی۔ اُس نے ساقی ہو کے دونوں کو خوب شراب پلائی۔ سو دونوں عاشق و معشوق نشے میں مست ہو کے دیر تک آپس میں بے حجابی سے پیار و اخلاص کی باتیں کرتے رہے۔ پھر نیند میں غافل ہو کے ایسے سوئے کہ کچھ خبر نہ رہی۔ صبح کے وقت دونوں نے اٹھ کے منہ ہاتھ دھوئے۔ گیتی افروز بولی، "اے ملک محمد آج میرے بھائی کا بیاہ ہو گا اگرتیرے تئیں برات کے تماشے دیکھنے کا شوق ہوئے تو تو بھی میرے ساتھ چل۔" وہ بولا، "بہت خوب۔" سو اسی تخت پر اپنے پاس بٹھا کر جس جگہ برات کی تیاری ہوئی تھی وہاں لے گئی۔ اے بانو! حضور کے اہل کاروں نے برات کے نکلنے کے واسطے دو رستہ بازار آراستہ کر کے دو طرفہ دکانوں کے آگے بادلے کے سائبان بندھوائے تھے۔ اور

صفحہ 118

سر شام تمام بازار میں ایسی روشنی کروائی تھی کہ ماہتاب کی روشنی اس کے آگے زرد معلوم ہوتی تھی۔ پہر رات گئے ساعت کے موافق دولہا گھوڑے پر سوار کر کے بڑی دھوم دھام سے سمدھی کے دروازہ پر لے گئے۔ سو ادھر کے لوگ تھوڑی دور تک استقبال کر کے برات کو لے گئے اور خاصے ایک مکان میں براتیوں کے رہنے کو جگہ دے کر نوشہ کو زنانے محل میں لے گئے اور اپنی رسم و آئین کے موافق بیاہ کروایا، اور چار پانچ روز تک برات کو وہاں رکھ کے کما حقہ، شرط مہمان داری کی بجا لائے۔ یعنی ایک لحظہ براتیوں کی خبرگیری اور دلداری سے غافل نہ ہوئے۔ آخر الامر سمدھی نے اقسام تحائف دیار دیار اور اسباب بے شمر دہیز میں دے کر نہایت عاجزی سے ہاتھ جوڑ کے کہا کہ "آج سے تمام برادری میں میری عزت اور آبرو زیادہ ہوئی۔" پھر عنصر شاہ کے سرداروں اور اہل کاروں کے ہر ایک کے درجے کے موافق سر و پا دے کر بیٹی کو برات کے ساتھ رخصت کیا۔ عنصر شاہ وہاں سے ساتھ خوشی اور نشاط کے تمام برات کے سمیت روانہ ہو کے اپنے گھر میں داخل ہوا۔ اور اس شادی سے تمام روز داد و دہش میں مشغول رہا۔ شام کے وقت سب کے تئیں رخصت کر کے آپ محل میں داخل ہوا۔ گیتی افروز بھی ملک محمد کو ساتھ لے کے محل کی طرف متوجہ ہوئی اور پلنگ پر بیٹھ کے دونوں نے دو دو پیالے شراب کے پئے۔ جب گیتی افروز نشے میں آ کر نہایت خوشی سے ہنس ہنس کے بے حجابی کی باتیں کرنے لگی، تب ملک محمد نے کہا، "اے بے وفا مدت سے میں تیرے عشق میں گرفتار ہوں اور تیرے دل میں اب تلک وفا کا اثر نہیں۔ آخر تو کبھی میرے حال پر مہربانی ہو گی یا نہیں؟" فرد؂

ترا غروز مرا عجز کب تلک ظالم
ہر ایک چیز کا آخر کچھ انتہا بھی ہے

صفحہ 119

اس کو یہ بات بہت خوش آئی اور کہا، "اے یار مہرباں واے مشفق راحتِ جاں! سچ ہے جیسی جیسی آفتیں تو نے میری خاطر اپنے اوپر اختیار کی ہیں سو تیرا ہی کام ہے اور میں تیری وفاداری کی ایسی احسان مند ہوں کہ میرا دل جانتا ہے لیکن یہ وہ مکان ہے کہ جہاں آدمی زنہار نہ پہنچ سکے۔ دو چار دن کہ جب تلک ہم یہاں ہیں تب تک اور تحمل کر آخر تیرا مطلب حاصل ہوئے گا۔"

ملکم محمد نے آہ بھر کے کہا، "اے عہد شکن! آگے بھی ایسے ایسے تو نے کئی بار وعدے کئے تھے۔ پر کبھی وعدہ وفا نہ ہوا۔ یہ تو میں یقن جانتا ہوں کہ جھوٹ موٹ کے وعدوں پر مجھے بہلاتی ہے۔ اب بھی تیرے دل میں میری آرزو حاصل کرنی منظور نہیں شاید۔ بیت ؂

مرے ملنے کی تجھ کو تب ہوس ہووے اگر ہووے
کہ مجھ میں اک رمق باقی نفس ہووے اگر ہووے

گیتی افروز نے کچھ جواب نہ دیا اور تسلی کے واسطے اپنے ہاتھ سے شراب کا ایک پیالہ لبریز کر کے اُسےپلایا اور ٹک آپ پیا۔ پھر دو چار گھڑی تک آپس میں خوشی کی باتیں کر کے سو رہی۔ ملک محمد نے اپنے دل میں کہا کہ یہ تو اپنے منہ سے کبھی اجازت نہ دے گی۔ ہونی ہوئے سو ہوئے آج اپنا مطلب حاصل کرتا ہوں۔ جب گیتی افروز خوب سو گئی تب اس نے بانداز دگر اٹھ کے چاہا کہ کامیاب مواصلت کا ہوئے سو وہ ہاتھ لگاتے ہی چونک اٹھی اور متبسم ہو کے کہا، "اے عزیز! کیوں دیوانہ ہوا ہے۔ میں تجھے اپنی زندگی کا مزہ جانتی ہوں اور تو خواہ مخواہ اپنی جان کھوئے اور میرے رسوا کرنے کے در پے ہے۔ چنانچہ اس دنوں میں کئی حرکتیں نامناسب تجھ سے سرزد ہوئیں پر میں تیری تقصیروں کی تعزیر اس واسطے نہ دی کہ ناحق یہاں بیگانے

صفحہ 120

ملک میں مارا جائے گا۔ اب تیرا وعدہ نزدیک پہنچا ہے۔ اگر کہا مانے تو تھوڑے دن اور صبر کر نہیں تو خدا کی قسم میرے دیکھنے کو بھی ترسے گا۔"

ملک محمد نے کچھ جواب نہ دیا اور ایک ٹھنڈی سانس لے کے یہ دوہرہ پڑھا۔

دوہرہ
سہس جو ڈبکیں من لیے یکتا کر نہیں لاگ
ساگر کوں کہا دوس ہے جو نہیں ہمارے بھاگ

جب یہ بات یہاں تک پہنچی، تب سُمن رخ نے کروٹ پھیر کے کہا، "اے جوان دانادل! اس بیچارے نے ایسی ایسی آفتیں اور بلائیں اپنے اوپر جھیلیں بارے یہ کہہ کہ آخر اپنی مراد کو پہنچا یا یونہی مسوسے مار مار کے مر گیا۔"

شیخ بزرگوار نے متبسم ہو کے یہ جواب دیا کہ، "آگے سُننے سے معلوم ہو گا۔ آذر شاہ سمن رُخ کے بولنے سے نہایت خوش ہو کے شیخ صنعان کے قدموں پر گر پڑا، اور دانادل کی بہت شکر گزاری کر کےکہا، "میں جانتا ہوں کہ تمہاری زبان کی برکت سے سمن رُخ ہوش میں آنے چلی ہے، ورنہ کیا ممکن کہ انسان سحر زدہ قصے اور کہانیاں سننے سے ہوش میں آوے۔"

دانادل بولا کہ، "سچ ہے تمہارے پہلے قبیلے نے اس پر ایسا جادو کیا تھا کہ اگر ایسے ایسے ہم لاکھ قصے سناتے تو بھی کچھ فائدہ نہ ہوتا، لیکن جو اس کے حال پر حضرت سچے دل سے مہربان ہیں سو سب ان کی کرامات کا اثر ہے۔"

اسی گفتگو میں تھے کہ یکبارگی سمن رُخ بے قرار ہو گئی اور کہا، "اے دانادل!! یہ باتیں اور وقت کیجیو۔ اب گیتی افروز اور

صفحہ 121

ملک محمد کا احوال بیان کر کہ اس عاشق بیچارے کے حال پر میرا دل بہت کڑھتا ہے۔" جب شیخ نے دیکھا کہ ملک محمد کی حقیقت سننے پر سمن رُخ کا دل بہت بیتاب ہے، تب روشن ضمیر نے اپنے دوسرے مُرید کو اشارہ کیا کہ تو نے جو کچھ دیکھا سُنا ہوئے سو اب بیان کر۔

چودھویں حکایت

داستان روشن ضمیر کی اور بیان کرنا روشن ضمیر نے آگے سمن رُخ بانو کے، احوال روانگی اپنے کا قافلے ساتھ طرف مصر کےاور راہ میں گھیرنا ایک اژدہے نے تمام قافلے کو اور اس موذی سے سلامت بچنا سب قافلہ باشوں کا اور گرفتار رہنا روشن ضمیر کا۔

یوں سُنا ہے کہ جب روشن ضمیر نے اپنے پیر سے پروانگی پائی۔ تب سمن رُخ سےکہا، "اے ملکہ اب میری طرف کان کر کے دھیان سے سُن کہ جوانی میں ایک مرتبہ میں قافلے کے ساتھ مصر کو جاتا تھا۔ اتفاقاً ایک دن تمام قافلے کی پہاڑ کے نیچے منزل ہوئی۔ سو تمام روز ہر روز کے موافق سب کوئی اپنے کھانے پکانے میں مشغول رہا۔ رات کو ہر ایک نے اپنے اپنے بسترے پر آرام کیا۔ آدھی رت کے وقت میرے پیٹ میں کچھ خلل سا معلوم ہوا۔ سو میں اتھا اور پانی کی چھاگل ہاتھ میں لے کے حاجت مٹنے کے واسطے قافلے کے باہر چلا؛ آگے جا کے کیا دیکھتا ہوں کہ قافلے کے گرد ایک اونچی دیوار ہے۔ میں دیکھ کے اچنبھے میں رہا کہ جب ہم یہاں اترے تھے تب کچھ نہ تھا۔

صفحہ 122

اب یہ دیوار کہاں سے آئی؟ پھر ہاتھ لگا کے جو دیکھا تو ذرا گرم کچھ چیز نرم ہے۔ ساعت ایک اُس پر ہاتھ پھیرتا رہا تو دریافت ہوا کہ ایک بڑا اژدہا قافلے کو گھیر کے بیٹھا ہے۔ مجھ کو یقین ہوا کہ ہم سب لوگوں کی موت اس کے ہاتھ لکھی ہے۔ سو حق تعالٰی نے اس کی قوت یک روزہ کے واسطے ہمیں یہاں بھیجا ہے۔ میں اسی منصوبے میں تھا کہ یکبارگی قافلے میں شور ہوا اور سب لوگ چلا اٹھے۔ کوئی کہتا تھا، "ہائے ہمارے لڑکے بالے بیکس ہوئے۔" کوئی کہتا تھا، "اے یارو! مرنے کا کچھ افسوس نہیں، لیکن یہ افسوس ہے کہ ہمارے مرنے کی خبر گھر نہ پہنچے گی۔" کوئی کہتا تھا۔ "اگر ہم ایسا جانتے تو کنبے سے جُدا ہو کے ہرگز یہاں نہ آتے۔" کوئی کہتا تھا، "اگر یہ بات معلوم ہوتی کہ اژدہے کا مکان ہے تو رات کو یہاں ڈیرا کیوں کرتے؟" کوئی کہتا تھا، "حیف صد حیف! کون جا گہ مارے گے کہ کنبے کے لوگوں کی خبر نہ ہمیں، نہ ہماری خبر انہیں۔" کوئی کہتا تھا کہ کیسی ساعت گھر سے نکلے تھے کہ بن مارے موت مرے۔" میں نے کہا۔ "اے یارو! مسلا ن نہ آپ ہوئے جگ پر لو۔" جب اپنا ہی جی نہ رہا تب لڑکوں بالوں کا کیا افسوس ہے؟ اگر ہم سبھوں کی موت اسی کے ہاتھ ہے تو خیر۔ مسلا۔ مرگِ انبوہ جشنے دارد۔" کچھ افسوس نہیں اور ہمارے افسوس کیے سے کیا ہوتا ہے؟" انہیں باتوں میں سویرا ہو گیا اور دن کی روشنی میں سب نے دیکھا کہ ایک بڑا اژدہا قافلے کے آس پاس بھیرا کیے ہوئے منہ میں اپنی دم دابے بیٹھا ہے اور دم بدم ایسی پھنکار مارتا ہے کہ جس کی آواز کوسوں تک جاتی ہے۔ نہ آدمیوں کے کھانے کا قصد کرتا ہے نہ نکلنے کی راہ دیتا ہے۔ سب آدمی گھبراتے ہیں کہ کیا علاج کیا چاہیے؟ اور خُدا سے دعا

صفحہ 123

مانگتے تھے کہ کسی طرح اس بلا سے خلاصی پاویں اور وہ جوں کا توں بیٹھا تھا۔ یکایک میری عقل میں آیا کہ پانچ سات تیر اُس پر چلاؤں۔ اگر مارا جائے گا تو خدا کے بندوں ہزاروں کا جی بچے گا وگرنہ یہ تو ہمارے مارنے کی فکر میں بیٹھا ہے۔ سو ہم نے تیر کو چلے پر چڑھا کر کان تک کمان کھینچی اور چاہا کہ ایسا تیر لگاؤں کہ وار کا پار ہو جائے۔ اتنے میں اژدہے نے دو تیر کے تفاوت پر سر کر لیا۔ سو میں نے چاہا کہ باہر نکل جاؤں۔ اس نے پھر دُم سمیٹ کے جوں کی توں منہ میں داب لی۔ القصہ میں نے پانچ مرتبہ اسی طرح کمان کھینچی اور وہ اسی طرح جُدا ہو ہو گیا۔ پھر میں نے اپنے دل میں سوچا کہ ابھی تو یہ کسی کو دکھ نہیں دیتا، اگر تیر ماروں گا تو غصے میں آ کر اسی وقت سب قافلے کو کھا لے گا۔ میں نے وہاں سے قافلے سالار کے پاس آن کے کہا کہ، "اس اژدہے نے جو ہمارس راہ روکا ہے سو بے سبب نہیں ہے۔ کیا جانے کیا اس کا مطلب ہے؟ اگر ہمارا کھانا منظور ہوتا تو اب تلک جیتا نہ چھوڑتا۔ میری تجویز میں یہ آتا ہے کہ سارے قافلے میں جتنے بزرگ اور جہاندیدہ لوگ ہیں سب کو جمع کر کے مشورت کرو، جسب کی صلاح میں اچھی تجویز ٹھہرے اس موافق کام کیجیے۔" سو اُسی وقت قافلے میں جتنے بڑے اور جہاندیدہ لوگ تھے انہیں بُلا کے کہا کہ، "اس موذی نے قافلے کی راہ روکی ہے تو البتہ اس کا کچھ مدعا ہے۔ ابھی کسی نے اس بات کا جواب نہ دیا تھا کہ ان میں سے ایک بڈھا بولا، "سنو اے عزیزو!! اگر اسے ہمارے مارنے کا ارادہ ہوتا تو اب تک جیتا کاہے کو چھوڑتا؟ اس کے دل میں کچھ اور آرزو ہے۔ پر بول تو نہیںسکتا کہ بیان کرے، اگر کوئی اس کے نزدیک جا کےاس کا مقصد پوچھے تو البتہ اشارے سے

صفحہ 124

کچھ کہے گا۔" سب نے میری طرف دیکھکے کہا کہ، "روشن ضمیر کے سوا اور کسی سے اتنی جرأت نہ ہو سکے گی کہ اس کے پاس جائے۔"

سو میں نے اللہ کو اپنی پناہ کر کے قدم اٹھایا اور اس کے سر کے پاس جا کے کہا، "اے بے زبان! تو نے یہ کام کیا کیا ہے کہ اتنے خدا کے بندوں کو دیکھ دیتا ہے؟ ہر کوئی اپنےکام کے واسطے گھر سے نکلا ہے۔ سو تو راہ روک کے جانے نہیں دیتا ہے۔اگر تیرا کچھ مطلب ہے تو مجھ سے کہو کہ اس کی تدبیر کروں۔" اژدہے نے یہ بات سنتے ہی تین نیزہ کے موافق اپنا سر اٹھایا، سو میں نے آن کر قافلہ سالار سے یہ احوال کہا۔ اس بڈھے سے جس نے یہ تدبیر بتلائی تھی، کہا، "تم ہرگز مت ڈرو۔ اژدہے نے راہ دیا ہے۔ میرے ساتھ آؤ۔ میں تمہیں نکال لے چلوں۔" سو قافلے کے سب لوگ اپنا گٹھری بقچہ باندھ کے اس کے ساتھ ہوئے۔ لیکن کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ دلیری کر کے باہر نکل جائے۔ آخر پیر جہاندیدہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کے دلیرانہ باہر چلا گیا۔ اس کے پیچھے اور لوگ تھی ہولے ہولے نکلنے لگے۔ جب میں جانے لگا، تب اژدہے نے بدستور اپنی دُم منہ میں داب کے راہ بند کر لیا۔ میں دل میں سمجھا کہ میں نے جو اس کے مارنے کو تیر کھینچا تھا اس واسطے مجھ پر غصہ ہے۔ جب میں پیچھے ہٹ گیا تب اژدہے نے پھر سبھوں کو راہ دیا۔ سو آدمی نکلنے لگے۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے چاہا کہ اور لوگوں کے ساتھ شامل ہو کے باہر نکلوں۔ اژدہے نے پھر سر سمیٹ لیا۔ جب میں پھر دو چار قدم پیچھے کو سرکا، تب اس نے راہ دیا۔ تھوڑے سے آدمی کہ باقی رہے تھے وہ بھی نکل گئے۔ اب میں اکیلا وہاں رہا۔ اپنے دل میں غور کرتا تھا کہ اگر اس کے تئیں کھانا منظور ہوتا تو سب قافلے کو

صفحہ 125

کیوں جانے دیتا۔ البتہ اس کو مجھ سے کچھ کام ہے۔ نہیں تو اور کسی سے کیوں نہ مزاحم ہوا۔ پھر قافلہ سالار نے مجھے پکار کے کہا، "اے روشن ضمیر تو جانتا ہے کہ اژدہے سے ہمارا کچھ بس نہیں چلتا، لاچار ہم رخصت ہوتے ہیں اور تیرے تئیں خدا کو سونپا۔ اگر تیری زندگی باقی ہے تو اس اژدہے سے کچھ خطرہ نہیں، وگرنہ تقدیر کے آگے کیا تدبیر؟"

میں نےکہا، "اے صاحب! یہ تو بے شک ہے۔ اگر میری موت اس اژدہے کے ہاتھ لکھ ہے تو کوئی بچا نہیں سکتا ہے۔ لیکن مروت سے بعید ہے کہ مجھے اس بلا میں تنہا چھوڑ کے تم سب چلے جاؤ۔ اور یہ تو خدا کو معلوم ہے کہ میری موت آئی ہے؟ یا مانند ان ستر آدمیوں کے کہ ایک کو منہ میں سے نکال کے انہتر مارے گئے، تم سب مارے جاؤ اور میں اُس ایک جوان کی طرح جسے نکال دیا تھا جیتا رہوں۔" میر قافلہ مجھ سے یہ بات سُن کے بولا، "اے روشن ضمیر ان ستر آدمیوں کی حقیقت مفصل بیان کر، انہوں نے ایک کو کیوں نکال دیا تھا اور آپ کیوں کر مارے گئے؟"

پندرہویں حکایت

بیان کرنا روشن ضمیر نے قصہ ستر آدمیوں کا آگے میر قافلہ کے اور اقرار کرنا میر قافلہ نے روشن ضمیر سے آٹھ روز مقام کرنے کا ایک باغ میں۔

روشن ضمیر، سمن رُخ سے کہتا ہے کہ، "میں نے یر قافلہ سے کہا کہ یوں سُنا ہے کہ بیچ زمانۂ سلف کے ستر آدمی ایک شہر سے متفق

صفحہ 126

ہو کے مسافری کے ارادہ پر نکلے تھے۔ جب ایک ویرانے میں پہنچے تب مینہ برسنا شروع ہوا۔ اس جنگل میں کچھ ایسا سایہ نہ تھا کہ جس کی اوٹ میں بھیگنے سے بچیں۔ راہ سے بائیں طرف کوس پاؤ ایک پر ایک پکا گنبد نظر آیا، سو بھیگنے کے بچاؤ سے یہ سب دوڑ کے اس کے اندر دھنسے۔ ان کے وہاں داخل ہونے کے بعد چاروں طرف سے ایسا بادل جھکا کہ آسمان نظر نہ آتا تھا بلکہ تمام بیابان میں تاریکی ہو گئی اور اس شور سے بادل گرجتا تھا کہ زمین کانپتی تھی جس میں دم بدم بجلی کڑکڑا کے نزدیک ایسی آن کے چمکتی تھی گویا کرا ہی چاہتی ہے اور مینہ اس زور سے برستا تھا کہ چار گھڑی میں سب جنگل پانی سے بھر گیا۔ نظم ؂

مینہ برستات تھا اس قدر یک لخت
تھا یہ نزدیک ڈوب جاویں درخت
شور ایسا تھا بادلوں کا وہاں

کہ آسمان و زمین تھے لرزاں
کیا کہوں برق کا چمکنا یار

یک پلک مارنے میں سو سو بار

ان سبھوں نےیہ احوال دیکھ کے آپس میں کہا، "یہ بجلی جو اس طرح گنبد کے نزدیک ہو ہو جاتی ہے سو بے سبب نہیں۔ جو کہیے کہ جب مینہ برستا ہے تب بجلی بھی چمکتی ہے، سو یہ بات سچ، لیکن کبھی کہیں کبھی کہیں یہ کہ ساعت بہ ساعت ایک ہی جگہ؟" ایک شخص بول اٹھا کہ "میری عقل میں تو یہ آتا ہے کہ ہم سب میں سے کسی کی موت آئی ہے، سو بجلی اس کے مارنے کے واسطے لمحہ لمحہ آتی ہے لیکن جو اور سب اسی مٹھ میں ہیں، اس واسطے نہیں گرتی۔ آخر گرے گی اور ایک کے پیچھے سب کا جی مفت جائے گا۔ میری تجویز میں یہ صلاح آتی ہے کہ دروازہ کے سامنے دہنے رُخ کو وہ جو کھجور کا درخت ہے سو ایک ایک شخص علٰیحدہ علیٰحدہ جا کے اسے چھوآئے۔ جس کی اجل ہو گی،

صفحہ 127

اس کے اوپر بجلی گر پڑے گی اور سب بچ جائیں گے۔" یہ صلاح سب کو پسند آئی۔ سو نوبت بہ نوبت ایک ایک آدمی جا کے اس کھجور کے پیڑ کو چھو آتا تھا۔ اسی طرح انہتر آدمی اس درخت کو چھو آئے اور ایک آدمی باقی رہا۔ پھر بجلی ساعت بہ ساعت اور بھی نزدیک آن آن کے چمکتی تھی اور سب کو یقین ہوا کہ یہ شخص جو باقی رہا ہے اس کے واسطے بجلی آتی ہے۔ سو سب بضد ہو کے اس سے کہنے لگے کہ، "اب تو بھی جا کے اس درخت کو چھو آؤ۔" اُس نے دیکھا یہ سب درخت کو چھو ڑئے ہیں اگر ان میں سے کسی کی موت ہوتی تو البتہ بجلی اُس کے اوپر گرتی۔ بے شبہ میری موت ہے۔ سو سب کی منت اور عاجزی کر کے بولا، "اے عزیزو! میں بھی بیشک اپنے دل میں جانتا ہوں کہ میرے مارنے کو گھڑی گھڑی بجلی آتی ہے۔ اگر مجھے یہاں ایک کونے میں بیٹھا رہنے دو تو تمہارے پیچھے میری جان بچتی ہے۔" انہوں نے کہا، "اے بیوقوف دیکھتا نہیں کہ لمحہ لمحہ بجلی بُرج کو چھو چھو جاتی ہے۔ اگر تجھے بیٹھا رہنے دیں تو تیرے پیچھے ہم سب بن آئے موت مریں۔" غرض کہ وہ بیچارہ ہاہا کہہ کے گھگھیاتا رہا پر انہیں ترس نہ آیا اور زور آوری سے ہاتھ پکڑ کے باہر ڈھکیل دیا۔ لاچار وہ مرنے پر راضی ہو کے قدم چار ایک گیا تھا کہ یکایک بجلی تڑتڑا کے اُس گنبد پر گری۔ وہ سب مارے گئے اور وہ سلامت اپنے گھر پہنچا۔ اگر اس کی عاجزی پر رحم کرتے تو سب کا جی بچتا اور وہ ساری عمر احسان مند رہتا۔ پر کیوں کر رحم کریں کہ تقدیر سے تو ان کے نصیب میں یوں مرنا لکھا تھا۔ اسی طرح تم میری موت اُس اژدہے کے ہاتھ جان کے بے مروتی سے مجھے اس بلا میں اکیلا چھوڑ چلے ہو اور آخرکار اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ خدا جانے میں مروں یا مانند اس ایک جوان کے

صفحہ 128

جیتا رہوں اور تم سب مارے جاؤ۔ اگرچہ تمہیں میرے جینے کا بھروسہ نہیں لیکن وہی مثل ہے۔ مثل

"جب تک سانس تب تک آس۔"

مجھے اب بھی خدا کی درگاہ سے توقع ہے کہ اس بلا سے بچوں گا۔ بارے میری ان باتوں نے میر قافلہ کے دل میں اثر نہ کیا اور اس نے سوگند کھا کر کہا۔

"اے روشن ضمیر یہاں سے دو کوس پر فلانے باغ میں آٹھ روز مقام کر کے تیرا انتظار کریں گے اگر اس عرصے میں تو اژدہے کے ہاتھ سے چھوٹ آیا تو بہتر ہے نہیں تو لاچار نویں روز آگے کو روانہ ہوں گے۔" میں نے کہا، "اچھا۔" لیکن ایک کوزہ پانی کا چھوڑ جاؤ شاید کام آوے۔ سو وہ مجھے دے کے روانہ ہوئے۔

سولہویں حکایت

لے جانا اژدہے نے روشن ضمیر کو اپنے مکان میں اور مارنا روشن ضمیر کا بچھو کو کہ اژدہے کا دشمن تھا اور وہاں ملاقات ہونا ایک پیر بزرگ سے اور قافلے میں پہنچانا اژدے نے روشن ضمیر کے تئیں۔

سمن رُخ بولی، "اے جوان روشن ضمیر!! یہ کہہ کہ پھر تو اس موذی کے پنجے سے کیوں کر خلاص ہوا اور تیرے گرفتار کرنے سے اس کا مدعا کیا تھا۔" حضرت شیخ بولے "آگے سننے سے معلوم ہو گا۔"

صفحہ 129

آذر شاہ دم بدم ان کا شکر گزر تھا۔ روشن ضمیر نے کہا، "اے بانو! جب قافلہ وہاں سے کوچ کر کے دور نکل گیا اور نظر سے غائب ہوا، تب اژدہا کنڈلی مارے بیٹھا تھا۔ منہ سے اپنی دُم باہر نکال کے ساڑھے تین کوس تک لمبا ہو گیا اور سر اونچا کر کے قافلے کی طرف دیکھنے لگا۔ میں نے اتنی فرصت پا کے جان کی دہشت سے چاہا کہ بھاگوں۔ اژدہے نے مجھے اپنی پونچ میں لیپٹ کے اپنی طرف کھینچ لیا۔ اور اشارے سے کہا "میری پیٹھ پر چڑھ۔" میں مارے ڈر کے اس پر سوار نہ ہوا۔ پھر اُس نے منہ سے پکڑ کے اپنی پیٹھ پر سوار کیا اور دہنی طرف کو روانہ وا۔ اس کی پیٹھ جو بہت چکنی تھی سو میں پھسل کے زمین پر گر پڑا۔ اُس نے اٹھا کے گردن پر سوار کیا۔ اس کی گردن میں ایک سوراخ تھا۔ میں نے اس میں اپنا ہاتھ ڈال کے مضبوط پکڑ لیا اور تن بقضا جدھر کو لے چلا میرا کچھ بس نہ تھا۔ جب اُس نے جانا کہ یہ آدمی سنبھل کے خوب مضبوط بیٹھا ہے، تب شتابی سے قدم اٹھائے تھوڑی دیر کے بعد پہاڑ کے نیچے ایک بڑے غار پر لے جا کے مجھے پیٹھ سے اتارا اور اشارت کی کہ، "اس غار کے اندر جا۔" میں بسم اللہ کہہ کے غار کے اندر گیا۔ وہاں تو کچھ نظر نہ آیا۔ پھر باہر نکل کے میں نے دیکھا کہ آپ غار کے کنارے پر کھڑا ہوا اشارہ کرتا ہے کہ اندر جا۔ میں نے عقل سے دریافت کیا کہ یہ جونہیں آتا اور مجھ کو ۔۔۔۔۔ بھیجتا ہے، شاید یہاں کوئی جانور ہے۔ اس سے بھی زور آور کی جس کی دہشت سے اندر نہیں جا سکتا۔ میں نے پھر اندر جا کے جو دیکھا تو وہاں کچھ نہ تھا۔ پھر وہاں سے باہر نکل کے اس سے کہا کہ، "اس غار کے اندر جا کے میں نے ہر چند نگاہ کی پر کچھ نظر نہیں آیا۔" یہ بات سُن کے اس نے ایسا نعرہ مارا

صفحہ 130

کہ جس کی آواز سے زمین کانپی گویا بھونچال آیا۔ میں یہ سمجھا کہ غار کے اندر سے میں جو خالی پھرا ہوں اس واسطے یہ غصہ ہوا ہے۔ اب کوئی دم میں مجھے نگل لے گا۔ اس نے میری چہرے کا رنگ تبدیل دیکھ کے اشارت سے کہا، "اے آدمی خاطر جمع رکھ تجھے ہرگز کچھ ڈر نہیں۔" اژدہے کی آواز سُن کے گھڑی دو ایک کے بعد ایک بچھو بالشت ڈیڑھ ایک کا اُسی غار سے باہر نکلا۔ اژدہا باوجود اتنے بڑے ڈیل کا اسے دیکھتے ہی بے تحاشا ایسا بھاگا کہ ہرگز پیچھے پھر کے نہ دیکھا۔ جب کوس پاؤ ایک پہنچا تب کھڑا ہو کے مجھے اشارے سےکہا کہ، "یہ بچھو میرا دشمن ہے اگر تو اسے مار سکے تو مار نہیں تو میں تجھے مار ڈالوں گا۔" میں تیر کو چلے پر چڑھا کے اُس بچھو کا راہ روک کے کھڑا ہوا۔ سو وہ اژدہے کا پیچھا چھوڑ کے میری طرف آیا۔ میں نے کان تک کمان کھینچ کے ایسا ایک تیر مارا کہ اس کے دو ٹکڑے ہو گئے اور فی الفور مر گیا۔ میں نے پاس جا کے چاہا کہ اپنا تیر نکالوں سو اس کے زہر سے راکھ ہو گیا تھا۔ میں دیکھ کے اسے متعجب ہو گیا اور اژدہا اُس کے مرنے سے نہایت خوش ہو کے ناچتا ہوا آیا اور میرے قدموں پر سر رکھا۔ وہ عجب وقت تھا کہ اگر کوئی حیوان سے ذرا نیکی کرتا تھا تو وہ احسان مند ہوتا تھا۔ اس زمانے میں اگر کوئی آدمی کے عیوض اپنا جی دے تو بھی وہ احسان نہ مانے۔ الغرض وہ اژدہا مجھے اپنی گردن پر سوار کر کے اُس غار کے اندر لے گیا۔ ساعت ایک کے بعد ایسی جگہ پہنچا جہاں تاریکی سے اپنا ہاتھ بھی نہ سوجتا تھا، تھوڑی دور اور آگے گیا تو ایک پاکیزہ مکان تھا۔ آفتاب کی روشنی سے بھی روشن تر اور جابجا بعلانِ شب چراغ کہ ہر ایک کے تئیں خراج

صفحہ 131

ایک ولایت کا کہا دہیے ڈھیر لگے تھے۔ انہیں کی روشنی سے سب مکان جگمگا رہا تھا۔ اژدہے نے میری تئیں اشارہ سے کہا کہ یہ لعلِ شب چراغ جس قدر تجھ سے اٹھ سکیں باندھ لے۔ میں دل میں سوچا کہ اگر یہ لعل لیتا ہوں تو مزدوری ٹھہرتی ہے، جس سے یہی بہتر ہے کہ بلا اُجرت خدا کے نام پر میں اس کے دشمن سے اس کا جی بچایا۔ دل میں یہ سمجھ کے میں نےکہا، "مجھے درکار نہیں۔ اگر تیرا کام ہو چکا ہے تو مہربانی کر کے مجھے باہر نکال دے کہ اپنے کام کو جاؤں۔" اس نے اشارہ کیا کہ جب تک ان لعلوں میں سے کوئی لعل نہ لے گا تب تک میں بھی نہ جانے دوں گا۔ لاچار میں نے دو لعل وہاں سے اتھا کے اپنے بازو میں باندھ لیے۔ پھر وہ مجھے اپنی گردن پر سوار کر کے گھڑی ایک کے بعد باہر لایا۔ وہاں ایک بڈھا سفید ریش، سبز پوش عصا ہاتھ میں لیے ہوئے کھڑا تھا۔ میں نے اسے بزرگ صورت دیکھ کے سلام کیا۔ اُس نے سلام کا جواب دیا اور کہا، "اے روشن ضمیر!! وہ بچھو اس اژدہے کا دشمن تھا اور ہر روز اس کو ستاتا تھا۔ تو نے خوب وقت آن کے اس کو مارا۔ حق تعالٰی اس نیکی کا بدلہ دے۔" میں نے متحیر ہو کے پوچھا، "اے جوان بزرگ! میں تو تیری صورت سے بھی واقف نہیں، تو نے میرا نام کس طرح جانا؟" اس نے کہا۔"خدا کی قدرت سے۔" اور کہا۔ " اس بچھو کی ایک مادہ ہے۔ بہت دن ہوئے کہ اس اژدہے کی مادہ کو اس نے مار ڈالا تھا۔ اب اپنے انڈوں پر بیٹھی ہے۔ چھ مہینے میں اٹھے گی۔ سو چھ مہینے کے بعد تجھے یہاں ایک بار پھر آنا ہو گا۔ ضرور آئیو، بھولیو مت۔ اور جو نہ آوے گا تو جس جگہ تو ہو گا وہاں جا کے یہ اژدہا تجھے مار ڈالے گا۔ اس اژدہے کے دو بچے ہیں سو بچھو کے ڈر سے اس نے میرے سپرد کر دیئے تھے سو

صفحہ 132

میں نے ایک جگہ چھپا رکھے ہیں۔ جب تو پھر آؤے گا انہیں بھی تجھے دکھاؤں گا۔ یہ اژدہا مجھے ہر روز اشارہ کرتا تھا کہ اس بچھو کو مار۔ میں کہتا تھا کہ اس کی موت میرے ہاتھ میں نہیں۔ اتفاقاً ایک جوان روشن ضمیر یہاں آوے گا۔ اس کے ہاتھ اس کی موت ہے۔ سو آج نر کو تو تو نے مارا، مادہ کی زندگی کچھ دن اور باقی ہے۔ اب کی مرتبہ اسے بھی مارے گا اور کئی کاموں کی فتح تیرے نام پر ہے سووہ بھی کرے گا۔" یہ باتیں کہہ کر بولا، "جو کچھ میرے غریب خانے میں کھانے کومیسر ہے سو قبول کر آج کی رات یہاںہی آرام کر۔" میں نے کہا کہ۔"اگرچہ مسلمان کو دعوت سے انکار کرنا کفر ہے۔ لیکن آپ سے پوشیدہ نہیں کہ سب قافلے کے لوگ فلانے باغ میں مقام کر کے میرے انتظار میں چشم براہ ہیں۔ اس واسطے رہ نہیں سکتا۔ یہ فرمائیے آپ کا اسم مبارک کیا ہے؟"

مجھ سے یہ بات سن کے بولا، " اے روشن ضمیر! خیر اب تو جا! جب پھر آوے گا تب میں اپنا نام بتاؤں گا۔ پر بھولیو مت۔ ضرور آئیو۔" جب تک میں اس بڈھے سے باتیں کرتا رہا، تب تک اژدہا کھڑا رہا، جس وقت کہ میں رخصت ہوا، وہ پھر اپنی گردن پر سوار کر کے قافلے کی طرف چلا۔ گھڑی ایک کے بعد دور سے قافلے کے خیمے نظرآنے لگے۔ میں دیکھ کے خوش ہوا۔ جب تھوڑی دور اور گیا، تب قافلے کے لوگ اژدہے کو دیکھ کے گھبرائے اور آپس میں کہنے لگے کہ ہمارے گھیرنے کو اج اژدہا پھر آیا ہے۔ اگر ہم ایسا جانتے تو روشن ضمیر کے واسطے یہاں مقام نہ کرتے۔ میں نے پکار کے کہا، "اے عزیزو! دل میں کچھ اندیشہ مت کرو، یہ کسی کو دکھ نہیں دیتا۔" تھوڑی دور لے جا کے اُس نے

صفحہ 133

مجھے اپنی گردن سے اتارا اور آپ پھر کے گھر کو روانہ ہوا۔ میں قافلے میں داخل ہو کے پہلے قافلہ سالار کے ڈیرے میں گیا۔ سب لوگ متعجب ہو کے پوچھنے لگے۔ "اے عزیز! تو نے کیا جادو کیا کہ اس مردم خور کے ہاتھ سے جیتا بچا۔ بلکہ آپ اپنی پیٹھ پر سوار کر کے یہاں پہنچا گیا۔" میں نے اول سے آخر تک سب ماجرا بیان کیا۔ قافلے کے لوگ چاروں طرف سے میری پُر دلی پر شاباش اور آفریں کہتے تھے۔ سالار قافلہ بولا، "اے روشن ضمیر جزاک اللہ یہ مردانگی تو نے ایسی کی ہے جیسی زریوند نے شجاعت اور وفاداری کی تھی۔" میں نے کہا، " اے مشفق مفصل فرمائیے کہ زریوند کون تھا اور اس نے کیا شجاعت اور کیسی وفاداری کی تھی؟"

سترہویں حکایت

بیان کرنی قافلہ سالار نے داستان زریوند کی آگے روشن ضمیر کے اور جانا زریوند کا ماں باپ کے مرنے کے بعد روم میں اور دینا روم کے بادشاہ نے خفگی سے بیٹی اس کے تئیں اور شہزادی کو لے کے وہاں سے روانہ ہونا اس کا۔

روشن ضمیر نے کہا، "اے ملکہ! سالار قافلہ بولا، اے جوان کہنے والوں سے یوں شنا ہے کہ ہمدان میں ایک شخص تھا نہایت دولت مند اس کو کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ ہمیشہ خوشی سے زندگی کرتا تھا اور ایام زندگانی بے دغدغہ بہ عیش و نشاط بسر لے جاتا تھا۔ اس کیا ایک بیٹا تھا زریوند نام۔ جب سے اس نے ہوش سنبھالا، تب سے تیر اندازی

صفحہ 134

اور بندوق، نیزے اور تلوار کا ایسا شوق ہوا کہ سوائے فن سپاہ گری کے اور کسی چیز پر اس کی طبیعت نہ لگتی۔ آخرش کسب میں ایسا کمال پیدا کیا کہ چاندنی رات میں چیونٹی کو تاک کے تیر مارتا تو ہر گز خطا نہ کرتا اور تلوار سے پتھر وٹی کہنہ کو اس صفائی سے دو ٹکڑے کرتا کہ دیکھنے والوں کو کہیں نشان نہ معلوم ہوتا۔ مدت کے بعد اس کے ماں باپ نے جہانِ فنا سے عالمِ بقا کی طرف کوچ کیا۔ یعنی مر گئے اور ایک روز ہم سب کے تئیں بھی یہی راہ درپیش ہے۔ بیت

منزل ہستی سے سدا کوچ ہے
یارو! کوئی آج کوئی کل گیا

ماں باپ کے مرنے کے بعد زریوند نے عاقبت اندیشی نہ کر کے فضول خرچی سے سب دولت برباد کی اور نہ سمجھا۔ فرد ؂

گلشنِ دنیا میں ہو تب اعتبار
گل کی طرح ہاتھ میں زر چاہیے

جو لوگ کہ دولت مندی میں سو سو اس کی خوشامدیں کرتے تھے سو مفلسی میں بات بھی نہ پوچھنے لگے۔ اور کوئی یار ہمسایہ اس پر مہربانی نہ کرتا تھا، بلکہ طعنے دے دے کے کہتے تھے، "از پسرِ ناخلف، دختر بہ۔" (یعنی بیٹی، بیٹے کپوت سے بھلی) اتنی عمر یہ ماں باپ کے سر لاڈ کرتا رہا اور ناز پروردگی میں اوقات ضایع کی، اگر کچھ علم سیکھتا تو ایسا خراب نہ ہوتا۔ زریوند سب کی باتیں سن سن کے دل ہی دل میں کباب ہوتا تھااور کہتات تھا، سچ کسی نے کہا ہے۔ فرد ؂

مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے

صفحہ 135

اس نے دیکھا کہ یہاں کے رہنے میں کمال سُبکی ہوتی ہے۔ مسلا "دیس چوری پردیس بھیک" جس سے یہ بہتر ہے کہ پردیس میں جا کے جس طرح حق تعالیٰ رکھے گا زندگی بسر کروں گا۔ یہ بات دل میں ٹھانی اور گھر کا جو اسباب باقی رہا سع بیچ کے راہ خرچ کے واسطے ساتھ لیا اور گھوڑے پر سوار ہو کے روم کی طرف روانہ ہوا تامنزل بمنزل وہاں پہنچ کے سواری کے وقت بادشاہ کی ملازمت حاصل کرے۔ بادشاہ نے اسے پردیسی دیکھ کے پوچھا، "اے جوان! تیرا نام کیا ہے؟ اور کدھر سے آنا ہوا اور یہاں آنے کا کیا باعث ہے؟"

اس نے جواب دیا اور تسلیمات بجا لا کے عرض کیا کہ، "اصل ہمدانی ہوں زریوند نام میرا، سو حضور میں حاضر رہوں۔ مشکل سے مشکل جو کام کسی سے نہ ہو سکے سو مجھے حکم فرمائیے۔" بادشاہ نے کہا، "کیا در ماہہ لے گا؟"

بولا، "ہزار اشرفی۔ اور اس سے کم پر ہرگز گزارہ نہیں۔"

بادشاہ نے اس وقت تو کچھ جواب نہ دیا پر اپنے دل میں جانا کہ مرد لاف زن ہے۔ ایک مہینہ بھر اتنے درماہے پر اسے رکھتا ہوں، اگر کچھ کام کا ہو گا تو خیر وگرنہ جواب دے دوں گا۔ رات کو بادشاہ نے زنانے محل میں جوان ہمدانی کے آنے کا اور ہزار اشرفی مانگنے کا ذکر کیا۔ ابھی ملکہ نے کچھ جواب نہ دیا تھا کہ بادشاہ کی بیٹی بول اٹھی کہ "جو شخص اتنا درماہہ مانگتا ہے البتہ اس میں کچھ شجاعت ہو گی ایسےکو نوکر رکھنا درست ہے۔"

صفحہ 136

بادشاہ کو بیٹی کی بات بہت بری لگی اور چیں بہ چیں ہو کے فرمایا۔ "بے حیا تیرے تئیں ان باتوں سے کیا کام ہے؟ مگراس سے دوستی کیا چاہتی ہے کہ سفارش کرتی ہے۔ جو اب میں اسے رکھوں تو تمام عالم کہے گا کہ اس جوان کو بادشاہ کی بیٹی نے پسند کر رکھا ہے۔ سب ولایتیوں میں بدنامی ہو گی۔" بیٹی نے بادشاہ سے یہ بات سن کے کہا، "خدا نخواستہ میں تجھ سے بادشاہ کی بیٹی ہو کے یہ خیال دل میں کروں، آج تک تو کسی مرد کی نظر میرے سائے پر بھی نہیں پڑیاور نہ میں نے کسی کا منہ دیکھا ہے جو اپنی خوشی سے کسی فقیر کو بخش دو تو مجھ کو عذر نہیں۔"

بادشاہ بیٹی کی باتوں سے بہت ناخوش ہوا اور جھڑک کے کہا۔ "میں نے تیرے تئیں اسی جوان ہمدانی کو بخشا۔" اس نے کہا، "بہت اچھا۔ اگر تو مجھے اس رسوائی سے نکالتا ہے تو خوب! میرے نصیب میرے ساتھ ہیں اور خدا اپنے دل سے جُدا نہ کرے۔"

پھر بادشاہ نے خواجہ سرا کو اشارہ کیا کہ اس کا ہاتھ پکڑ کے جوان ہمدانی کو سونپ دے کہ میں نے تیرے تئیں بخشی۔"

لڑکی کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں اور بادشاہ کی طرف دیکھ کے بولی، "اے باپ تو نے مجھ سے ایسی کی، دیکھوں میرا خدا کیا کرے؟" ماں نے چاہا کہ بیٹی کی شفاعت میں کچھ کہے، بادشاہ نے تیوری چڑھا کے اس سے کہا، "سُن اے کمبخت! جو تو کچھ اس بات میں بولے گی تو اسی وقت تجھے بھی شہر سے باہر نکلوا دوں گا۔" پھر خواجہ سرا کی طرف غصے کی نگاہ سے دیکھا، سو وہ شہزادی کی بانہہ پکڑ کے باہر لے گیا اور جوان ہمدانی کے سپرد کر کے کہا، "لے خدا تجھ پر مہربان ہوا ہے کہ بادشاہ نے اپنی بیٹھی

صفحہ 137

تجھے بخشی۔ شکر خدا کا بجا لا اور اسی گھڑی شہر سے باہر ہو۔" زریوند اور بادشاہ کی بیٹی دونوں متفق ہو کے حیرت زدہ شہر سے باہر نکل کے ایک طرف کو روانہ ہوئے۔

اٹھارہویں حکایت

مارنا زریوند نے ایک شیر اور دو ہاتھیوں کو راہ میں اور خورشید آباد پہنچ کے نوکر ہونا وہاں کے بادشاہ کا اور نکاح ہونا زریوند کا روم کی شہزادی سے۔

سمن رُخ نے یہ احوال سن کر کہا، "اے روشن ضمیر! کیا وہ بادشاہ دیوانہ تھا کہ ایسی خرابی سے بیٹی کو بیگناہ نکال دیا اور اس بدنامی سے ڈرا کہ لوگ کہیں گے کہ بادشاہ کی بیٹی نے جوان ہمدانی کو پسند کیا ہے۔ اور بدنامی کچھ نہ ٹھہری کہ آپ بیٹی کی بانہہ پکڑ کے اس کے حوالے کی۔ لعنت خدا کی اس عقل پر، اگر وہ ایسی ہی تقصیروار تھی تو جی سے مار ڈالتا، لیکن جوان ہمدانی کو نہ دیتا۔"

روشن ضمیر بولا، "اے بانو کبھی تو نے یہ ہندوستانی مسلا سُنا کہ انہیں مسلا "جیسی ہئے بھوتبتیا تیسی آ پجے بدھ" تقدیر کے لکھے کو کون مٹا سکتا ہے؟ جو بات کہ ہونی ہوتی ہے آدمی کے دل میں ویسی ہی عقل آتی ہے۔ اس شہزادی کی قسمت میں تو یوں زریوند کے ساتھ جانا لکھا تھا سو ویسی ہی عقل بادشاہ کے دل میں آئی اور کچھ پس و پیش نہ سمجھا۔ سُن اے سُمن رُخ جب وہ دونوں روم سے باہر نکلے، چوتھے دن میں ایک دوراہا ملا سو

صفحہ 138

یہ دونوں وہاں ساعت ایک سوچ میں رہے کہ یہ دوراہا کدھر کو جاتا ہے اور دوسرا کہاں کو؟ وہاں ایک بڑا پتھر پڑا تھا۔ اس پر لکھا تھا کہ بائیں طرف کی راہ میں بہت آفتیں اور مصیبتیں ہیں اور دہنی طرف کا راہ بے خوف و خطر ہے۔ جو کوئی بائیں راہ کو جائے گا سو ہرگز سلامت نہ بچے گا۔ مسافر کو لازم ہے کہ یہ لکھا دیکھ کے دہنی راہ کو روزنہ ہوئے کہ بے خطرہ پہنچے گا۔ زریوند نے جو لکھا دیکھا ترت شہزادی کی طرف نگاہ کر کے دیکھا۔ "اے نازنین میں نے بارہا تیرا نام پوچھا پر تو بتلاتی نہیں، اس کا کیا سبب ہے؟ اور اب کونسی طرف چلنے کی صلاح ہے۔ دہنی راہ کو چلیں یا بائیں طرف کو؟"

اس نے آنکھوں میں آنسو بھر کے کہا، "اے جوان میں اپنا ناک کیا بتاؤں؟ جو خرابی اوررسوائی میری قسمت میں لکھی تھی سو آگے آئی۔ اگر تو نام دریافت کرنے میں بہت بضد ہے تو ماں باپ نے تو اس نامبارک کا نام مبارک النسا رکھا تھا۔ سو برخلاف ہوا۔ اب تو جو کچھ چاہے سو نام کہہ اور دہنے بائیں طرف کے چلنے کی صلاح مجھ سے کیا پوچھتا ہے؟ ہمت اور شجاعت دیکھ۔ جو تجھ میں ہمت ہوئے تو بائیں طرف چل، اور نہ دہنی طرف کا راہ لے۔ آئندہ جدھر تو چلے گا میں تیرے ساتھ ہوں۔" زریوند نے اس سے یہ بات سُن کے خدا کو یاد کیا اور بائیں راہ کو قدم اٹھایا۔ تین روز تک دونوں جنے پہیم چلتے گئے۔ کہیں کچھ حادثہ نہ دیکھا۔ چوتھے روز ایک بیابان میں پہنچے کہ وہاں عنقا کے مانند چرند و پرند کا نشان نہ تھا۔ ہر چند یہ دور دور نگاہ کرتے کہیں درخت بھی دکھائی نہ دیتا اور چاروں طرف بادِ سموم سے بھی زیادہ گرم لوئیں چلتی تھیں۔ نازنین بولی۔ "اے جوان

صفحہ 139

یہ کیسا دہشت ناک مکان ہے کہ جہاں کوئی طائر نہ حیوان؟" ابھی اسی بات چیت میں تھے کہ دیکھتے کیا ہیں کہ دور سے ایک بڑا شیر چلا آتا ہے۔ زریوند نے اسے آتا دیکھ کے کہا، "اے مبارک النسا کیا صلاح ہے؟" اس نے کہا۔ بیت

جو شخص تیر و کماں اپنے ہاتھ میں لیوے
ڈرے نہ شیر سے وہ اور نہ مست ہاتھی سے

یہ تو صریح ہمارے ہی مارنے کو آتا ہے۔ جو اب تو قصور کرے گا تو یہ کوئی لمحے میں ہم دونوں کو مار ڈالے گا۔" اتنے میں ہم پر شیر غراتا ہوا نزدیک آن پہنچا۔ زریوند نے کان تک کمان کھینچ کے ماتھے میں ایک ایسا تیر مارا کہ کھوپڑی پھوڑ کے سوفار تک گُھس گیا۔ شیر چلا کر زمین پر گر پڑا۔ زریوند نے تلوار سے اس کا سر علیٰحدہ کر کے چاروں پنجے کاٹ کے ناخن اپنے پاس رکھے اور آگے کو روانہ ہوئے۔ نازنین سے باتیں کرتا ہوا سات دن تک بے خوف و خطر چلا گیا۔ آٹھویں دن ایک ویرانے میں کہ اس شیر کے مکان سے بھی زیادہ دہشتناک تھا پہنچے۔ نازنین نے کہا، "اے جوان خبردار! کہ یہ ویرانہ بھی خالی از خطر نہیں۔" اتنے میں دیکھتے کیا ہیں کہ دہنی طرف سے دو بڑے مست ہاتھی چلے آتے ہیں۔ زریوند دل میں ہرگز نہ ڈرا اور تیر زہ کر کے دور ہی سے پہلے ان دونوں کی آنکھیں پھوڑ ڈالیں پھر بدن میں تیر مارنے لگا۔ جو تیر یہ چلاتا تھا سو ایسا کاری لگتا تھا کہ بدن پھوڑ کے سوفار تک تھس جاتا تھا۔ آخر وہ دونوں ہاتھی ادھ موئے ہو کے پیچھے بھاگے اور یہ ان کے پیچھے گھوڑا پھینکے ہوئے چلا گیا۔ کوس ایک پر وہ دونوں ہاتھی تیروں کے زخموں سے

صفحہ 140

بیدم ہو کے زمین پر گر پڑے۔ سو اُس نے تلوار میان سے کھینچ کے ان کے سونڈکاٹ کے جی سے مار ڈالا۔ مبارک النسا اس کی شجاعت اور تیر اندازی دیکھ کے بہت خوش ہوئی۔ دونوں ہاتھیوں کی پیشانی پر ہتھیلی کے برابر ایک داغ تھا۔ نازنین دیکھ کے بولی، "اے جوان! ایسا داغ کسی ہاتھی کے ماتھے پر نہیں دیکھا۔ ان کا ماتھا چیر کے دیکھا چاہیے کہ کیا ہے؟"

زریوند نے چھری سے ان کی پیشانی چیر کے دیکھا تو ان دونوں کے ماتھے میں ایک ایک موتی ایسا ہے کہ جس کی چمکاہٹ آفتاب کی روشنی سے برابری کرتی ہے، سو وہ دونوں موتی لے کے خدا کی شکر بجا لائے اور آگے کو روانہ ہوئے۔ بہت دنوں کے بعد ایک شہر میں پہنچے کہ خورشید آباد اس کا نام تھا۔ زریوند نے سرائے میں ڈیرا کر کے نازنین کو وہاں بیٹھایا اور آپ بازار کی طرف متوجہ ہو کر ایک آدمی سے پوچھا کہ، "یہاں کے بادشاہ کا کیا نام ہے؟" اُس نے کہا، "خورشید چہر۔ یہ شہر اس نے آباد کیا ہے۔" اتنے میں بڑی دھوم سے وزیر کی سواری نکلی۔ زریوند نے پوچھا، "یہ کون ہے؟" اس نے کہا، "خورشید چہر کا وزیر دربار کو جاتا ہے۔" زریوند نے نزدیک جا کے سلام کیا۔ وزیر نے اسے اجنبی دیکھ کر پوچھا، "اے جوان تو کون ہے اور کہاں سے آیا ہے؟" اس نے کہا، "اصل تو رہنے والا ہمدان کا ہوں اور اب روم سے آتا ہوں۔" وزیر بولا۔ "اس راہ میں کیوں کر سلامت آیا؟" کہا، "خدا کی مہربانی سے۔" پھر وزیر نے متعجب ہو کر پوچھا، "راہ میں کہیں کچھ حادثہ تو نہیں ہوا؟" پھر بولا، "تمام راہ میں ایک شیر اور دو ہاتھی ملے تھے۔ خدا کے فضل سے میں ان تینوں کو مار کے آیا ہوں۔" وزیر نے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 141

کہا، "اے جوان اتنا جھوٹ کیوں بولتا ہے؟"وہ شیر اور ہاتھی ایسے نہیں کہ کوئی مار سکے۔ بارہا ان کے مارنےکو بادشاہ کی فوج گئی ہے اور پھر پھر آئی۔ میں کیوں کر مانوں کہ تو نے انہیں مارا ہو گا۔ اگر یہ بات سچ ہے تو کچھ پتا بتلا۔" اس نے کہا، "دونوں ہاتھیوں کے ماتے میں ایک ایک موتی تھا، سو وہ موتی اور شیر کے پنجے میرے ڈیرے میں موجود ہیں۔"

وزیر بولا، "اگر تو میرے تئیں دکھلاوے تو البتہ اعتبار کروں۔" زریوند نے اسی وقت سرا میں سے وہ دونوں گج موتی اور شیر کے چاروں پنجے لے جا کے وزیر کے آگے رکھے۔ اس نے وہ دونوں گج موتی اور شیر کے پنجے دیکھ کے کہا، "اے جوان شاباش! رحمت خدا کی یہ کام تیرے سوا اور کسی سے نہیں ہو سکتا۔ مدت سے اس شیر اور ہاتھیوں نے یہ راہ بند کیا تھا کہ ان کی دہشت سے بالکل مسافروں کی آمد و رفت اس راہ موقوف تھی۔" یہ بات کہی اور زریوند کے اپنے ساتھ بادشاہ کے حضور میں لے گیا۔ سو اس نے وہاں جا کے ادب سے تسلیمات کی۔ بادشاہ نے وزیر سے پوچھا، "یہ کون ہے؟" اس نے عرض کیا کہ اصل تو ہمدانی ہے اور اب روم سے آیا ہے۔ راہ میں اُس ایک شیر اور دونوں ہاتھیوں کو کہ جن سے کوئی مسافر سلامت بچنے نہ پاتا تھا، مار کے یہ دونوں موتی ان ہاتھیوں کے ماتھے سے نکال لایا ہے۔" سو وہ دونوں موتی اور شیر کے چاروں پنجے بادشاہ کے آگے رکے۔ سو بادشاہ نے اسی کو بخشے اور پوچھا، "اے جوان اس سفر میں کوئی اور بھی تیرا رفیق تھا؟" عرض کیا کہ "روم کے بادشاہ کی بیٹی میرے ساتھ تھی۔ تیسرا کوئی نہ تھا۔"

بادشاہ نے فرمایا، "شہزادی کو تجھ سے کیا نسبت؟"

صفحہ 142

اس نے اول تا آخر سب ماجرا بیانکیا۔ بادشاہ نے سُن کے روم کے بادشاہ کی عقل پر لعنت کہی۔ اور زریوند کو کہا، "آج سے تو ہماری رفاقت قبول کر۔" اس نے کہا کہ، "میری بھی آرزو ہے کہ باقی عمر اس جناب میں حاضر رہوں۔" فرمایا، "کیا درماہہ لے گا؟" بولا، "ہزار اشرفی" بادشاہ نے ہزار اشرفی درماہے پر زریوند کو نوکر رکھ ا۔ پھر زریوند نے عرض کیا کہ "آج تک میں نے روم کی شہزادی کو ہاتھ نہیں لگایا۔ جب تلک نکاح نہ ہوئے حرام جانتا ہوں۔" سو حسب الحکم خدیو آفاق، ارکان سلطنت نازنین کے تئیں بشرط شریعت اس کے عقدِ نکاح میں لائے اور اسکی خدمت گاری سے روز بروز بادشاہ کی مہربانی زیادہ ہوتی تھی۔

انیسویں حکایت

پیدا ہونا بیٹا زریوند کے اور جانا خورشید چہر کا شکار کے واسطے اور وہاں مارنا زریوند نے ایک شیر کو۔

روشن ضمیر، سمن رُخ سے کہتا ہے کہ "سالار قافلہ سے یوں روایت ہے کہ ایک روز بادشاہ نے فرمایا، "اے زریوند! روم کی شہزادی سے کہہ کہ بانوئے جہاں کی ملازمت حاصل کرے۔"

اس نے کہا، "بہت خوب۔" جب اس نے گھر آن کے نازنین سے یہ بات کہی تو اسنے قبول نہکیا۔ اور کہا، "میرے تئیں کسی کی ملاقات سے کیا کام ہے؟"

صفحہ 143

زریوند نے ہر چند سمجھایا پر اس نے ہرگز نہ مانا۔ دوسرے روز اس نے شاہزادی کے انکار کرنے کا احوال بادشاہ کی خدمت میں عرض کیا۔ اس بات سے اُس نےیقین جانا کہ البتہ وہ بادشاہ کی بیٹی ہے۔ اتفاقاً ایک روز ملکۂ جہاں آپ اس کے گھر رونق افروز ہوئی۔ سو اس نے شہزادیوں قاعدہ دان کی طرح تعظیم کر کے مسند پر بٹھایا اور ایک لمحہ خدمت سے غافل نہ ہوئی۔ ملکہ نے اس کی عقلمندی سے نہایت خوش ہو کے رات کو بادشاہ کے روبرو، اس کی بہت تعریف کی۔ دوسرے روز بادشاہ نے نہایت مہربانی سے کہا، "اے زریوند تمام روز تو جہاں تہاں رہ مگر رات کو پلنگ کی چوکیداری میں حاضر رہا کر۔" وہ رات دن خدمت میں حاضر رہتا تھا۔ بہت دنوں کے بعد زریوند کے لڑکا پیدا ہوا۔ بادشاہ نے یہ سُن کے اس سے بہت رعایت کی۔ اس نے بھی اپنی خدمت سے بادشاہ کو ایسا خوش کیا کہ خورشید چہر جہاں جاتا وہاں اس کو ساتھ لے جاتا۔ اتفاقاً ایک روز خورشید چہر شکار کو سوار ہوا۔ سو بیابان میں پہنچ کے ایک ہرن کے پیچھے گھوڑا دوڑایا اور سب لشکر سے جُدا ہو کر کوس دو ایک نکل گیا۔ لیک زریوند نے ساتھ نہ چھوڑا۔ وہاں وہ ہرن تو نظر سے غائب ہو گیا اور بائیں طرف ایک بیھڑ تھا اس میں سے ایک شیر نکلا۔ بادشاہ شیرکو دیکھ کےمتامل ہوا۔ زریوند نے کہا، "اے خداوند زمین اگر ارشاد ہوئے تو ابھی اس موذی کا سر تن سے جدا کر وں۔"

بادشاہ نے کہا، "پھر دیکھتا کیا ہے؟ قتل الموذی قبل الایذا" (مارنا دکھ دینے والے کا آگے دکھ دینے سے)

زریوند نے ولی نعمت کا حکم پا کے شیر کو للکارا۔ سو وہ ڈپٹ کے

صفحہ 144

اس کے اوپر آیا۔ اُس نے پھرتی کر کے میان سے تلوار کھینچی اور بڑھ کے ایک ایسی تلوار لگائی کہ تن سے اس کا سر الگ جا پڑا۔ بادشاہ اس کی پُر دلی دیکھ کے نہایت خوش ہوا اور کہا، "اے جوان آفریں مرحبا۔ پھر وہاں سے پھر کر لشکر میں داخل ہوئے۔ بادشاہ نے گھر پہنچ کے زریوند کو سات پارچے کا خلعت مع دستار اور سر پنچ مُرصع سربستہ اور موتیوں کی مالا اور جواہر کی جڑاؤ سری اور ہاتھی اور گھوڑا دے کے بہت مہربانی کی اور دن بدن اعزاز زیادہ کرتا تھا۔ زریوند باوجود اس مہربانی کے بادشاہوں کی صحبت اور سانپ کے کھلانے کو برابر جان کے اپنی جواں مردی پر ہرگز مغرور نہ ہوتا اور رات دن خدمت میں حاضر رہتا۔

بیسویں حکایت

خورشید چہر کے کان میں آئی عورت کی آواز۔ پہنچنا زریوند کو اس کی خبر کے واسطے اور آپ بھی جانا زریوند کے پیچھے پیچھے اور پہنچنا زریوند کا ایک گنبد میں اور وہاں دیکھنا ایک بڑھیا کو کہ آواز کرتی تھی۔ اور مستعد ہونا زریوند کا اپنے بیٹے کا گلا کاٹنے کو بادشاہ کی سلامتی کے واسطے اور وزیر کرنا خورشید چہر نے زریوند کے تئیں۔

روشن ضمیر نے کہا، "سُن اے ملکۂ آفاق! سالار قافلہ سے یوں سنا ہے کہ ایک دن خورشید چہر برسات کے موسم میں ہر روز کی طرح اپنے محل میں آرام کرتا تھا کہ یکایک آندھی چلنے لگی، ہوا کی شدت سے بادشاہ

صفحہ 145

کی نیند کھل گئی۔ گھڑی ایک کے پیچھے جب آندھی تھم گئی اور ہوا صاف ہوئی، تب بادشاہ کے کان میں ایک عورت کی آواز آئی کہ آہ آہ کر کے کہتی ہے۔"میں جاتی ہوں، کوئی ایسا ہے جو مجھے رکھ سکے۔" پلنگ پر لیٹے لیٹے بادشاہ نہ پیہم دو تین دفعہ یہی آواز سُنی۔ پھر خواب گاہ سے نکل کے چھت پر آیا کہ اس آواز کا احوال دریافت کروں۔ باہر نکل کے دیکھا کہ زریوند تیر و کمان ہاتھ میں لیے محل کے پیچھے کھڑا ہے۔ اور چھوٹی چھوٹی پھوہار پڑتی ہے اور چاروں طرف پھوہار سے ایسی اندھیری جھکی ہے کہ اپنا ہاتھ بھی نہیں سوجھتا۔ زریوند نے اسے دیکھا ور تیر کو چلے پر چڑھا کے کہا، "اس اندھیری آدی رت کے وقت بادشاہ کے محل کہ خاص خواب گاہ سلطانی ہے کون کھڑا ہے؟"

خورشید چہر مچلا ہو کے چپ کر رہا اور کچھ جواب نہ دیا۔ اُس کے جواب نہ دینے سے زریوند کو یقین ہوا کہ چور ہے۔ سو کان تک کمان کھینچ کے چاہا کہ تیر لگا دیے۔ بادشاہ نے کہا زریوند ایسا مت کیجیو، میں ہوں خورشید چہر۔ کوئی عورت آہ آہ کرتی ہے۔ اس کی آواز سن کے پلنگ سے اٹھ آیا ہوں۔ کچھ تجھے بھی سنائی دیتا ہے؟"

اُس نے کہا، "اے خداوند! البتہ آٹھ روز ہوئے کہ میں آدھی رات سے صبح تک یہی آواز سنتا ہوں۔ خدا جناے کیا اسرار ہے اور آواز کرنے والا کون ہے۔ میں تو اپنے عہدہ پر حاضر ہوں کیا مقدور کہ بے حکم یہ مکان اکیلا چھوڑ کے کسی کی خبر لوں۔ اگر اب حکم ہوئے تو تجسس کر کے یہ حقیقت دریافت کروں۔"

بادشاہ نے کہا، "ہاں کما حقہ معلوم کر کہ یہ آواز کون کرتا ہے۔

صفحہ 146

اور اس کیا مدعا کیا ہے۔"

زریوند اسی وقت آواز کی طرف روانہ ہوا۔ خورشید چہر بھی ایک نیمچہ بغل میں داب کے محل سے اُترا اور جوان ہمدانی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلا کہ اسے معلوم نہ ہوئے۔ جوان ہمدانی نے شہر پناہ کے باہر جا کے دیکھا کہ ایک گنبد میں سے یہ آواز آتی ہے۔ سو ادھر کو روانہ ہو کے گنبد کے اندر گیا اور بادشاہ باہر چھپ کے کھڑا ہو رہا۔ زریوند نے اندر جا کے دیکھا تو ایک بڑھیا بیٹھی ہوئی چھری تیز کرتی ہے اور دم بدم آہ آہ کر کے کہتی ہے "میں جاتی ہوں۔" کوئی ایسا ہے کہ مجھے رکھ سکے۔" اور ایک چراغ میں تھوڑا سا تیل باقی رہا ہے سو اس کےآگے دھرا ہوا مندا مندا جلتا ہے۔ اس بڑھیا نے زریوند کو دیکھ کے کہا۔ "تو کون ہے؟ اور اس وقت میرے گھر میں کیوں آیا ہے؟" اس نے کہا، "میں آدمی ہوں اور اس واسطے آیا ہوں کہ تیرا احوال مفصل دریافت کروں۔" بارے کہ کہہ کہ آہ آہ کرنے سے تیرا کیا مدعا ہے اور کہاں جاتی ہے؟"

اس نے کہا، "اے آدمی میں خوشید چہر بادشاہ کی عمر ہوں۔ سو اب اُس کی موت آئی ہے۔ میں رخصت ہوتی ہوں۔ا س واسطے کئی دن سے پکار پکار کے خبر کرتی ہوں کہ شاید کوئی اس کے حال پر رحم کرے۔ آج کی رات تلک اس چراغ میں تیل باقی ہے۔ تب تک اس کی زندگی اور ہے۔ فجر کے ہوتے ہی یہ دیا بجھ جائے گا۔ دیئے کے گل ہوتے ہی اس کی جان نکلے گی۔"

زریوند نے کہا، "اے کمبخت اس کی کچھ تدبیر بھی ؟"

بولی "ایک تدبیر ہے، ایک شخص زریوند ہمدانی بادشا کا

صفحہ 147

نوکر ہے۔ اگر وہ اس چھری سے اپنے بیٹے کا گلہ کاٹ کے اس کے لہو سے مجھے نہلا دے تو بادشاہ جیتا رہے۔ اس کے سوا کچھ علاج نہیں۔"

بادشاہ باہر کھڑا ہوا روزن سے دیکھتا تھا۔ یہ سب باتیں اپنے کانوں سنیں۔ زریوند اس بڑھیا سے یہ بات سُن کے حیران رہ گیا کہ اگر بیٹا عزیز کرتا ہوں تو بادشاہ کا جی جاتا ہے اور اگر بادشاہ کی جان بچاتا ہوں تو بیٹا مارا جاتا ہے۔ ساعت ایک دل میں غور کرتا رہا۔ آخر سوچ سوچ کر بادشاہ کی نمک حلالی کے حق پر نگاہ کی کہ اگر میں جیتا ہوں تو بیٹا اور بھی ہو رہے گا۔ یہ بادشاہ پھر پیدا نہ ہو گا۔ اسی دن کے واسطے خوشید چہر ہزار اشرفی کا درماہہ ایسے اعزاز سے مجھے دیتا ہے۔ اپنے دل میں یہ بات مقرر کر کے بڑھیا سے کہا۔

"ایک ساعت تحمل کر، میں ابھی آتا ہوں۔" سو گنبد سے باہر نکل کے شہر کی طرف روانہ ہوا۔ مثنوی

نکل کر شتابی سے گھر کو چلا
تو سلطاں بھی دنباں اس کے ہوا
اسے درد کا اس قدر جوش تھا
کسی کی خبر کا نہ کچھ ہوش تھا
جو دیکھا وہاں اس نے جا اپنے گھر
تھی سوئی ہوئی نازنیں سیج پر
تھی گل شمع، وہ شمع رو تھی پڑی
کہ ہر طرف اس کی اجالی ہوئی
ادب سے کھڑا ہو گیا فکر یوں

کہ محبوب سویا، جگاؤں میں کیوں
کھڑا ہو کے رویا ندی بہہ چلی
جب آنسو، پڑے آنکھ اس کی کھلی
لگی بولنے کے وفادر من
حقیقت یہ کیا ہے اب اظہار کن
مفصل بتا آج کیا حال ہے؟
یہ رونا تیرا مجھ کو جنجال ہے
سخن سن کے فی الحال رویا ضواں

کیا نامرادی کا اپنی بیاں

صفحہ 148

مبارک النسا اس آفت ناگہانی سے زار زار رو کےکہنے لگی۔

"اے جوان! تو یہ سُنی کہتا ہے یا سچ ہے؟ میں تو خدا کی قسم اس بچے کے بغیر یک لمحہ نہ جی سکوں گی اور تو اپنے ہاتھ سے اس کے گلے پر کیوں کر چھری چلائے گا۔"

زریوند بولا، " اے نازنین غم مت کر اگر اس کے نصیب میں اسی طرح مرنا لکھا ہے تو ہمارے بچائے سے بچنا نہیں۔ جب خورشید چہر کو یہ خبر پہنچے گی تو وہ اپنی سلامتی کے واسطے اسے مروا ڈالے گا۔ اس سے یہی بہتر ہے کہ اپنے ہاتھوں اس خونخوار کو اس کے لہو سے نہلواؤں کہ بادشاہ کے حق سے ادا ہو کے ساری عمر عالم میں نیک نامی ہو گی۔" لاچار وہ بھی تن بقضا دے کے خاموش ہوئی۔ جب زریوند نے بیٹے کو مبارک النسا کی گود سے اپنی گود میں لے کے چلا تب نازنین بھی سر کھولے، بال نوچتی ہوئی بیٹے کا نام لے کے پیچھے پیچھے دہاڑیں مارتی ہوئی یہ بیتیں پڑھتی چلی۔ مثنوی۔

اپنے ماتم میں اکیلا چھوڑ کر
تو چلا مجھ سے محبت توڑ کر
میں نہ واقف تھی کہ مرگ ناگہاں
تجھ کو لے جاوے گی یوں اے میری جاں
ہائے پاپی یہ فلک نے کیا کیا
جی لیا تیرا مجھے غم دے گیا
تیرے بن مجھ کو کہاں صبر وقرار
رات دن روتی رہوں گی زار زار
یاں سے اب پھر کر نہ گھر جاؤں گی میں
آج کل کڑھ کڑھ کے مر جاؤں گی میں
سانس لے لے مہرؔ پھر با درد و ٹم
سوزؔ کا مطلع پڑھے تھی دم بدم
زندگی کا گر یہی اسلوب ہے
تو تو اس جینے سے مرنا خوب ہے۔

الغرض زریوند لڑکے کو لے کے مٹھ میں گیا۔ مبارک النسا بھی ساتھ تھی اور خورشید چہر باہر چھپ کے کھڑا ہو رہا۔ وہ بڑھیا نابکار تو مٹھ میں

صفحہ 149

بیٹھی اس کا انتظار کرتی تھی، سو دیکھ کے بولی۔ لڑکے کو لایا؟" اس نے کہا، ہاں یہ معصوم حاضر ہے جو چاہے سو کر۔" اس نے کہا، "مجھے تیرے بیٹے سے کچھ کام نہیں۔ اگر تیرے تئیں بادشاہ کی زندگی درکار ہے تو اپے ہاتھ سے گلا کاٹ کے اس کے لہو سے مجھے غسل کروا۔"

زریوند نے اپنا دل سخت کیا اور اس بے مہر کے ہاتھ سے چھری لے کے چاہا کہ لڑکے کی گردن کاٹے سو اس بڑھیا نے ہاتھ پکڑلیا اور کہا، "لڑکے کو مت ضائع کر، میں تیری نمک حلالی اور وفا داری دیکھتی تھی سو دیکھی۔ ہزار آفریں تجھ پر اور تیرے ماں باپ کو۔ یہ کام دوسرے سے ہرگز نہ ہو سکے کہ خاوند کی سلامتی کے واسطے بے تامل اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کو تیار ہوا۔ جا تیرے پیچھے خورشید چہر کی زندگی زیادہ ہوئی، ورنہ آج فجر ہوتے ہیں اس کی موت تھی۔"

بادشاہ یہ باتیں سن کے گھر کی طرف متوجہ ہوا اور محل میں داخل ہو کے جس جگہ زریوند کو خبر کے واسطے بھیجا تھا، اسی جگہ آن کر کھڑا ہوا۔ پھر زریوند بھی گنبد میں سے باہر نکل کے شہر میں آیا۔ اور مبارک النسا کو گھر پہنچا کے بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ بادشاہ نے اسے دیکھ کر کہا۔" اے جوان تو بڑی دیر میں آیا۔ بارے یہ کہہ کہ آہ آہ کون کرتا تھا اور اس کی مدعا کیا تھا؟" اس نے عرض کیا، "اے خداوند! ایک عورت اپنے خصم سے روٹھ کے نکلی جاتی تھی سو میں اسے سمجھا کے اس کے خصم سے صلح کروا آیا اب اپنے گھر کو گئی۔" اسی گفتگو میں تڑکا ہوگیا۔ بادشاہ نے کہا۔ "اے جوان تیرے پیچھے پیچھے میں آپ گیا تھا۔ اول سے آخر تک سب احوال میں نے اپنی آنکھوں دیکھا ہے۔ شاباش تجھے کہ میرے واسطے اپنے بیٹے کے ذبح کرنے میں دریغ نہ کیا۔ جو احسان تو نے

صفحہ 150

میرے اوپر کیا ہے سو دنیا میں کسی نہ کسی پر نہ کیا ہو گا۔" خورشید چہر اسی وقت زریوند کو بادشاہی خلعت سے سرفراز کر کے اپنا وزیر کیا اور باقی عمر اس نے عیش و عشرت سے گزرانی۔

اکیسویں حکایت

کوچ ہونا قافلے کا آگے اور پہنچنا بیچ مصر کے اور جانا روشن ضمیر کا ایک ٹنگو کے شہر میں اور وہاں پہنچنا اژدہے کا اور مارنا روشن ضمیر نے اُس بچھو کی مادہ کو اور جانا پیر بزرگ کی اشارت سے ایک عمارت میں اور دیو کو مار کے اپنے ساتھ لانا دمشق کے بادشاہ کی بیٹی کو کہ اس کی قید میں تھی۔

روشن ضمیر نے کہا۔ "سن اے سمن رُخ۔ میر قافلہ نے زریوند کی حکایت مجھ سے کہی۔ پھر قافلے کا کوچ آگے کو ہوا۔ مدت کے بعد قافلہ مصر میں پہنچا۔ وہاں سے ہر ایک شخص اپنے اپنے کام کے واسطے ہر ایک طرف کو روانہ ہوا۔ میں اسی شہر میں چھ مہینے تک ایک مسجد میں رہا کیا۔ جب ساتواں مہینا شروع ہوا تب میں نے دل میں سوچا کہ چھ مہینے میں اس بڈھے نے میرے تئیں بلایا تھا۔ اگر نہ جاؤں گا تو اژدہا آن کے مجھے مار ڈالے گا۔ پھر میں دل میں غور کیا کہ یہاں سے ایک مہینے کی راہ اور آگے جاؤں۔ خدا جانے اژدہا کہاں ہو گا اور وہ اتنی دور کاہے کو آؤے گا؟" یہ منصوبہ کر کے میں آگے روانہ ہوا۔ پندرہویں روز ایک شہر میں پہنچ کر کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں کے سب آدمی ایک ٹانگ کے ہیں۔ میں ان کو کے اچنبھے میں اور وے مجھے دیکھ کے متعجب! اور ہنس ہنس کے آپس میں کہتے تھے کہ "یہ آدمی دو پاؤں سے کیوں کر چلتا ہے؟" پھر دس پندرہ آدمی مجھ کو پکڑ کے اپنے بادشاہ کے پاس لے گئے۔ وہاں جا کے جو میں نے دیکھا تو بادشاہ تخت پر بیٹھا ہے اور سب لوگ تخت کے گرد ایک ٹانگ سے کھڑے ہیں۔ میں بھی سلام کر کے ایک گوشے میں کھڑا ہوا۔ بادشاہ نے میری طرف نگاہ کر کے کہا، "اے آدمی بوالعجب! تیرا آنا کہاں سے ہوا، کیا تمہاری ولایت میں سب آدمی ایسے ہی ہیں؟"

میں نے کہا، "تم مجھے دیکھ کے تعجب میں ہو اور میں یہاں کے لوگوں کو دیکھ کے حیران ہوں کہ ایک پاؤں سے کیوں کر چلتے ہیں؟"

اتنے میں یہ شور غل ہوا کہ ایک بڑا اژدہا دوڑتا ہوا شہر کی طرف چلا آتا ہے۔ سو اس کی دہشت سے تمام شہر میں کھلبلی پڑ گئی اور تتر بتر ہو کے لوگ بھاگنے لگے۔ میں نے دیکھا کہ اژدہا اتنی دور سے دوڑتا میرے واسطے آتا ہے۔ اب ہر چند چھپوں گا پر یہ میرا پیچھا نہ چھوڑے گا۔ ناحق میرے واسطے تمام خلق آزار پاتا ہے۔ سو میں اپنی جان سے ہاتھ دھو کے اس اژدہے کی طرف روانہ ہوا۔ وہ مجھے دیکھ کے کھڑا ہو گیا۔ جب میں نزدیک پہنچا وہ مجھے پیٹھ پر سوار کر کے مصر کی طرف روانہ ہوا۔ مصر میں پہنچ کے میں ےاشارت سے کہا کہ بھوک لگی ہے اور پیاس کا بہت غلبہ ہے۔ یہ دریافت کر کے اس نے مجھے پیٹھ سے اتارا۔ سو میں شہر میں گیا اور کھانے پیسے سے فراغت کر کے پھر آیا۔ وہ میرے تئیں گردن پر سوار کر کے بیسویں روز اپنے مکان میں پہنچا اور اسی غار پر مجھے لے جا کے کھڑا کر دیا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ

صفحہ 152

دُور سے اُس بچھو کی مادہ میرے مارنے کا قصد کر کے دوڑتی چلی آتی ہے۔ میں نے فی الفور ایک تیر کھینچ کے لگایا سو کاری نہ لگا۔ دوسرا تیر مارا وہ بھی ہلکا لگا۔ تیسری مرتبہ میں نے خدا کو یاد کای اور کان تک کمان کھینچ کے پھر ایک تیر اور مارا، جو اس کیاجل آن پہنچی تھی۔ ایسا کاری لگا کہ بدن پھوڑ کے وار کا پار ہو گیا۔ تس پر ایک اور تیر اور مارا، سو تڑپھڑا کے ایک ساعت میں مر گئی۔ جو تیر میں نے دیکھے سو اس کے زہر سے گل گئے۔ اژدہا دشمن کے مرنے سے نہایت خوش ہو کر میرے قدموں پر گر پڑا۔ اتنے میں وہی پیر بزرگ سبز پوش، عصا ہاتھ میں آن کھڑا ہوا۔ میں نے کہا، "اے بزرگ سلامُ علیکم۔"

اُس نے علیکم السلام۔" کہہ کے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور پہاڑ کے اوپر لے جا کے اژدہے کے دونوں بچے مجھ کو دکھلائے۔ وہاں ایک بڑی اونچی عمارت تھی۔ میں نے پوچھا، "اے بزرگ اس عمارت کے اندر کیا ہے؟" بولا، "یہ دیو کا مکان ہے۔ اس کی اجل بھی تیرے ہاتھ ہے۔" پھر ایک تختہ لکھا ہوا میرے ہاتھ میں دے کے کہا، "اس عمارت کے پاس جا۔ تین بار بسم اللہ کہہ کے قدم دروازے کے اندر رکھیو، کچھ اندیشہ مت کر۔ تیرے تئیں زینہار خطرہ نہیں۔ لاکن اس نابکار کو لات مکے سے ماریو، ہرگز ہتھیار مت چلائیو۔" میں وہ تختہ لے کے عمار ت کے دروازے پر گیا اور تین بار بسم اللہ کہہ کے اندر کو قدم رکھا۔ وہاں جا کے جو دیکھا تو ایسا پاکیزہ مکان ہے کہ حوارن بہشتی جس کے دیکھنے کی آرزو کریں۔ اور ایک لڑکی برس پندرہ سولہ ایک کی بہت حسین سہ دری میں ایک تخت پر بیٹھی ہے۔ مجھے دیکھ کے بولی، "عزیز! یہ وہ مکان ہے جہاں پرندہ پر نہ مار سکے۔ تو کیونکر

صفحہ 153

آیا؟ مگر تجھے اپنی جان پیاری نہیں کہ اپنے پاؤں سے اب گور میں آیا ہے۔ مجھے تیری جوانی پر رحم آتا ہے۔ جس راہ آیا ہے اسی راہ خیریت سے نکل جا۔ نہیں تو اسی وقت مارا جائے گا۔"

میں نےکہا۔ "اے نازنین جو کچھ ازل سے میری قسمت میں لکھا ہے، سو تو امٹ ہے۔" یہ کہہ کہ تو اس نزاکت اور ناز سے اس دیو کے پنجے میں کیوں کر گرفتار ہوئی؟" یہ بات سُن کے اس کی آنکھیں بھر آئیں لیکن انسوؤں کو تھام رکھا۔ فرد

ڈبڈبائی آنکھ آنسو تھم رہے
کاسۂ نرگش میں جوں شبنم رہے

بڑی دیر میں اور سانس لے کے بولی، "اے جوان میں حقیقت کیا بیان کروں کہ دمشق کے بادشاہ کی بیٹی ہوں۔ گرمی کے ہنگام میں کُھلے بالوں چھت پر سوئی تھی۔ اتفاقاً اس موذی نابکار کا وہاں سے گزر ہوا، سو میرے اوپر عاشق ہو گیا۔ اس دن سے ہر روز یہ آدھی رات کو آن کے صبح تک میرے سامنے بیٹھا رہنے لگا۔ اور مجھے منع کر دیا کہ خبردار میرے آنے کا ذکر کسی کے روبرو مت کیجیو۔ نہیں تو تجھ کو یہاں سے سیتی اٹھا لے جاؤں گا۔ میری وہ حقیقت ٹھہر۔ دوہرہ

من ماں رہے تو من جرے
کہوں تو مکھ جر جائے
جیسے گونگا سپنے دیکھے
روئے روئے رہ جائے

اس غم میں دن بدن دبلی ہونے لگی اور بدن کا رنگ زرد پڑ گیا۔ ماں باپ روز بروز میرا یہ احوال دیکھ کے لاغری اور ناتوانی کا سبب پوچھنے لگے۔ لیکن میں اس کے ڈر سے بتلاتی نہ تھی۔ آخر رفتہ رفتہ میں

صفحہ 154

سوکھ کے ایسی ہو گئی کہ بدن پر ماس نہ رہا اور سب ہڈیاں پسلیاں دکھائی دینے لگیں۔ ایک روز ماں نے مجھے گوشے میں اکیلے لے جا کے پوچھا، اے بیٹی! یہ تیرا کیا حال ہے؟ کہ روز بروز سوکھتی جاتی ہے۔ اگر کچھ بیماری ہے تو ظاہر کر کہ اُس کا علاج کریں۔ یا کسی کے عشق میں گرفتار ہوئی کہ اس کے غم میں دبلی ہوتی جاتی ہے۔" اے جوان! ماں سے یہ بات سُن کے میرے تئیں دونوں طرح کی مشکل ہوئی۔ اگر کہوں تو دیو کا ڈر و گر نہ کہوں تو اس پر یہ بات ثابت ہوئے کہ کسی پر عاشق ہوئی ہے۔ گھڑی دو ایک تک شش و پنچ میں رہی کہ کہوں کہ نہ کہوں۔ آخر سوچ سوچ کے میں نے کہا، "اے مادر مہربان! اب تلک نہیں جانتی کہ عشق کچھ کھانے پیسے کی چیز ہے پہننے کا کپڑا۔ عشق پیچاں کا پھول تو البتہ سنا ہے۔ کیا تو اسی کو عشق کہتی ہے؟ اگر کچھ روگ مجھے ہوتا تو میں آپ ظاہر کرتی۔ چھپانے سے کیا حاصل تھا۔ تو میرے دُبلے ہونے کا احوال مت پوچھ کہ باگفتہ بہہ ہے۔"

یہ بات سُن کے اس کو سننے کا ایسا اشتیاق بڑھا کہ دم بدم پر بضد ہو کے پوچھنے لگی۔ میں نے کہا۔ "اے مادر مہربان! اس بات میں ہرگز ہٹ مت کر۔ اگر کہوں گی تو پھر میں نہ رہوں گی،ا ور تو میری صورت دیکھنےکو ترسا کرے گی۔" اس بات سے اسے اور بھی شوق زیادہ وہوا۔ سو سو ضد کر کے کہنےلگی۔ "اس بات کا چھپانا خوب نہیں۔ تو اپنی حقیقت بیان کر کہ اس کی تدبیر کریں۔" جب میں نے دیکھا کہ خواہ مخواہ اس کی بھی مرضی ہے اور بدوں کہے میرا چھٹکارا نہیں، تب لاچار ہو کے میں نے اول سے آخر تک دیو کا سارا قصہ بیان کیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ اس نے منع کیا

صفحہ 155


تھا کہ ہرگز کسی سے مت کہیو اور جس روز کسی سے کہے گی اسی روز تجھے یہاں سے لے جاؤں گا۔ سو یقین ہے کہ آج میرے تئیں لے جائے گا۔"

وہ یہ احوال سنتے ہی گھبرا کے میرے پاس سے اٹھی اور ترت جا کے میرے باپ کو خبر کی۔ اُس نے اسی وقت تمام شہر کے جھاڑنے والوں کو بلا کے گنڈے اور تعویذ لکھوا لکھوا کے میرے گلے میں باندھے۔ شام کے وقت میرے باپ نے ایک طرف اپنا پلنگ بچھوایا اور ایک طرف میری ماں کا بیچ میں میرا پلنگ کیا اور ہر طرف شمع دانوں میں فلیتے جلوا دیئے اور ایک شخص جھاڑنے والا کہ اس فن میں استاد تھا پردے باہر اس ارادے پربیٹھا کہ جس وقت وہ دیو آوے گا میں اپنے علم سے اسے پھونک دوں گا۔ آدھی رات کے وقت یہ موذی وہاں پہنچا اور پہلے اس شخص کو کہ اس کے جلانے کے واسطے بیٹھا تھا ایک طمانچے سے بے جان کر کے پلنگ سمیت میرے تئیں یہاں اٹھا لے آیا۔ ہر روز چاہتا ہے کہ مجھ سے کچھ اور بات کرے۔ لیکن آج تک بیماری کے بہانے سے بچی ہوں۔ اور جس روز سے کہ یہ مجھے یہاں لے آیا ہے اس روز سے آدمیوں کی صورت دیکھنے کو ترستی ہوں۔ آج چوتھے برس ایک تیرا منہ دیکھا ہے۔" سُن اے سمن رُخ اس نازنین نے اپنی حقیقت بیان کر کے پوچھا، "اے جوان! اب یہ کہہ کہ تو آپ سے اپنا جی دینے کو یہاں کیوں آیا ہے؟" سو میں نے ابتدا سے اپنا سب احوال بیان کر کے کہا کہ ، "ایک بزرگ کے اشارے سے اس دیو بلند کے مارنے کے واسطے آیا ہوں۔ مجھ سے یہ بات سن کر مسکرا کے بولی، "اس کا مارنا سہج نہیں۔ اگر اپنی زندگی مطلوب ہے تو یہ خیال خام اپنے دل سے دور کر کے جس راہ آیا ہے، اسی راہ چلا جا۔ عبث اپنی جان کیوں برباد دیتا ہے۔"

صفحہ 156

میں نے کہا ہونی ہوئے سو ہوئے۔ اب تو میں بدوں مارے مرے نہ جاؤں گا۔"

اس نے کہا، "اگر تیرا یہی ارادہ ہے تو تو جان مختار ہے۔ لیکن اس کا مارنا بہت مشکل ہے۔ تیرا کام نہیں کہ اسے مار سکے۔" کہ بات کہہ بولی، "اب اس موذی کے آجے کا وقت ہوا ہے۔ آؤ تجھے ایک گوشے میں چھپا رکھوں۔" ایک ایسی جگہ مجھے بٹھا دیا کہ دیو کو ہرگز خبر نہ ہوئی۔ گھڑی ایک کے بعد وہ نابکار مانند پہاڑ کے آن کے نازنین کے پاس بیٹھا اور چاہا کہ اس کے تئیں ہاتھ لگاوے۔ وہ بھویں سکوڑ کے بولی، "اے کمبخت! میں اپنے آزار سے مرتی ہوں۔ ابھی تو میرے تئیں ہاتھ نہ لگا، تھوڑے دن صبر کر جب میں اچھی ہوں گی تب چاہو سی کیجیو۔" میں نے اس کاغذ کے تختے پر جو نگاہ کی تو یہ معلوم ہوا کہ۔" اے روشن ضمیر! باہر نکل کے یہ کاغذ اس دیو کو دکھلا اور لات گھونسے سے اس کا کام تمام کر۔ زیہنار ہتھیار مت چلائیو۔" تختے کو دیکھ کے میں باہر نکلا، سو دیو غصے ہو کے میری طرف آیا۔ میں نے وہی کاغذ کا تختہ اس کے سامنے کیا۔ تختے کی طرف نگاہ کرتے ہی اس کا بند بند سُست پڑ گیا۔ میں نے اس کی گردن میں ہاتھ ڈال کے زمین پر پٹک دیا۔ اور لاتوں سے ادھ موا کر ڈالا۔ پھر کشاکشی میں اس پیر بزرگ کی نصیحت مجھے بھول گئی اور میان سے تلوار نکال کے اس کا سر کاٹا۔ زمین پر اس کا خون گرتے ہیں ہزار دیو پیدا ہوئے اور میرے تئیں گھیر لیا۔ میں مضطرب ہو کے اس تختے پر جو نگاہ کی تو یہ بشارت ہوئی کہ حضرت سلیمان پیغمبر علیہ السلام کی دہائی دے کے یہ کہہ کہ تم سب جل جاؤ۔ سو حضرت سلیمان پیغمبر کی دہائی سے ان سبھوں کے بدن میں آگ لگ اٹھی اور خود بخود جل کے خاک ہو گئے۔ میں نے خدا کا شکر کیا اور اس نازنین کا ہاتھ پکڑ کے باہر آیا۔

صفحہ 157

بائیسویں حکایت

ملنا اسی پیر بزرگ کا روشن ضمیر سے اور نازنین کو ساتھ لے کے روانہ ہونا روشن ضمیر کا اور پہنچنا ایک شہر میں کہ متعلق مملکت دمشق تھا۔ اور وہاں سے فوج ساتھ لے کے چلنا آگے کو اور ٹھہرنا ایک باغ میں اور وہاں آنا دیوؤں کا اور باندھنا روشن ضمیر کے تئیں اور چھوٹنا اس کا پیر بزرگ کی مہربانی سے اور پہنچنا شہزادی کے تئیں دمشق میں اس کے ماں باپ کے پاس۔

یوں روایت ہے کہ روشن ضمیر نے سمن رخ سے کہا، "سُن اے خاتون عالم! جب میں نازنین کو ساتھ لے کے اس عمارت سے باہر آیا، وہی پیر بزرگ دروازے پر کھڑا تھا میں نے جھک کر سلام کیا۔ اس نے سلام کا جواب دے کےکہا، "اے روشن ضمیر! بارک اللہ یہ خوب مردانگی کی۔ پھر نزدیک ہی ایک چھوٹی سے جھوپڑی میں لے جا کے مجھے اور اس نازنین کو خوب کھانے سے سیر کیا اور کہا، "جا تیرے تئیں خدا کو سونپا۔ ایک یہ کام اور ہے کہ اس لڑکی کو ساتھ لے جا کے اس کے وطن میں گھر پہنچا دیجیو اور راہ می ہوشیاری سے جائیو کہ دیو تیرے مارنے کا قصد کریں گے۔"

میں نے کہا، "بہت خوب! پھر یہ تو فرمائیے کہ آپ کا اسم شریف کیا ہے؟ اور ایسے اجاڑ پن میں رہنے کا کیا باعث ہے؟"

یہ بات سُن فرمایا، "اے عزیز! میں حضرت سلیمان پیغمبر کی اولاد میں خلیفہ میرا نام کہتے ہیں۔ دنیا و مافیہا خواب اور اپنی زندگی مستعار، مثل حباب جان

صفحہ 158

کے اس ویرانے میں حق تعالٰی کی عبادت میں مشغول ہوں۔" اس نے یہ بات کہی، پھر میں نازنین کو ہمراہ لے کے رخصت ہوا۔ صبح سے تمام روز چلتے چلتے جس بستی میں شام ہوتی رات کو وہاں مقام کرتے۔ گجر کے وقت آگے کو روانہ ہوتے۔ تیرہویں روز سہ پہری کو ایک شہر میں کہ متعلق مملکت دمشق تھا پہنچے۔ نازنین نے باپ کے ملک میں پہنچنے سے خدا کا شکر کیا اور نہایت بشاشت سے میری طر دیکھ کے کہا، "اے جوان! اگرچہ تجھ پر کارفرما ہونا کمال گستاخی، بلکہ سراسر بے ادبی ہے کہ تیری توجہ سے از سر نو میری زندگی ہوئی، ورنہ اس موذی کے ہاتھ سے رہائی ممکن نہ تھی۔ اگر میرے ہر ایک روئیں سے ہزار ہزار زبانیں پیدا ہوئیں اور ایک زبان سے لاکھ لاکھ تعریف بیان کروں تو بھی تیرے احسان سے سرمو، ادا نہ ہو سکوں۔ وگر اپنے تئیں کنیز جان کے واہ واہ کہوں تو کیا؟" فرد ؂

روئیں روئیں سے میرے ہوں اگر ہزار زباں
ہر ایک زباں سے کروں لاکھ لاکھ وصف بیاں
ہر ایک بال برابر تو بھی نہ ہو تعریف
کیا ہے تو نے مرے حق میں اس قدر احساں

پر کیا کروں کہ تیرے سوا میرا یہاں کوئی نہیں جس سے اپنی حاجت کہوں۔ لاچار ہو کے ہر ایک بار تجھے تکلیف دیتی ہوں۔ یہ میری تقصیریں معاف کیجیو۔ اب یہ عرض ہے کہ قدم رنجہ فرما کے یہاں کے حاکم کو خبر دے کہ تمہارے بادشاہ کی بیٹی کو جو دیو لے گیا تھا سو آئی ہے۔"

اے ملکہ! جب میں نے وہاں یہ خبر پہنچائی، تب اس نے پیادہ پا آن کے تسلیمات کی۔ پھر کئی پالکیاں سونے اور جواہر کی جھلا جھل اور کتنے ہی

صفحہ 159

ہاتھی کہ جن کی عماریاں اور ہودے زربفتی کام سے جھکا جھک تھے سواریے کے واسے لا کے حاضر کیے۔ نازنین نے ایک ہاتھی پر میرے تئیں سوار کیا اور ایک پر آپ سوار ہو کے بڑی دھوم دھام سے روانہ ہوئی۔ وہاں کے حاکم نے اس کے آنے کی خوشی سے بہت خیرات کی اور سیکڑوں لونڈیاں خوبصورت خدمت کے واسطے بھیج دیں اور طرح طرح کی پوشاکیں اور زیور گراں قیمت لا کے حاضر کیے۔ دوسرے روز نازنین نے مجھ سے کہا، "اے عزیز! آج اور یہاں سستا لیں کل دمشق کو چلیں گے۔" میں نے کہا، "تو اب اپنے مکان میں ان پہنچی ہے، میرے تئیں رخصت کر کہ اپنے کام کو جاؤں۔"

اس نے کہا، "اے جوان یہ کیوں کر ہو سکتا ہے کہ اب میں تیری تئیں جانے دوں۔ اس عاجزہ کے غریب خانے میں تشریف فرما ہو کے دو چار روز آرام کر۔ بعد ازاں تو قصد جس طرف کا کرے گا افواج بادشاہی ساتھ لے کے بہ آسانی تمام پہنچ سکتا ہے۔"

میں نے عذر کیے۔ اس نے ایک نہ مانا اور قسمیں دے کے خواہ مخواہ میرے تئیں رکھا۔ دوسرے روز علٰی الصباح کہ سورج کی کرن نہ نکلی تھی۔ سواری بادشاہانہ تیار کر کے ایک گھوڑے باد رفتار پر کہ سونے اور جواہر میں غرق تھا میرے تئیں سوار کیا اور آپ بسنتی پوشاک پر پنیچی دوشالہ اوڑھ کے بڑی سج دھج سے ہاتھی کی عماری میں کہ بجواہرات مرصع تھی، بیٹھ کے دمشق کی طرف روانہ ہوئی۔ وہاں کا حاکم پیادہ پا دوڑتا جاتا تھا اور نقیب فوج کا اہتمام کرتے ہوئے پکارتے جاتے تھے۔ "بڑھے جاؤ شیرو بہادرو! اس روز میں نے اس نازنین کے چہرے پر جو نگاہ کی تو پنیچی دوشالے میں اس کا گورا منہ ایسا معلوم ہوتا تھا، جیسے کالی بدلی میں چاند۔ بیت ؂

صفحہ 160

تصور میں لیا دیکھ اس کا منہ کالے دوشالے میں
سیہ بدلی میں ہے خورشید یا ہے چاند ہالے میں

سو اس کی وہ چھب اب تلک میرے دل سے نہیں بھولتی۔ القصہ کوس چار ایک پر ایک باغ ملا۔ سو نازنین ہاتھی پر سے اتر کے باغ کے اندر کو متوجہ ہوئی۔ اور میرا ہاتھ پکڑے کے گھڑی دو ایک تک سیر کرتی رہی۔ باغ کے محل میں سنگ مرمر کا ایک ہشت پہلو بنگلا تھا۔ اس میں فرش محمل بچھوا کے دسترخوان بچھانے کا حکم دیا۔ سو خدمت گاروں نے دستر خوان بچھا کے کھانا حاضر کیا۔ ساعت ایک کے بعد نازنین چمن کی سیر سے فراغت کر کے بنگلے کی طرف متوجہ ہوئی اور میری تئیں ساتھ بیٹھا کے حاضری کھائی۔ جب حاضری سے فراغت کر چکے دسترخوان اٹھا لے گئے۔ پھر میں راہ کی ماندگی سے اسی جگہ لیٹ رہا، سو آنکھیں جھپک گئیں۔ جاگا تو دل میں شبہ ہوا کہ غسل کی احتیاج ہے۔ اس باغ میں پانی سے بھرا ہوا ایک پکا حوض تھا۔ میں نے وہاں جا کے وہ کاغذ کا تختہ کہ پیر بزرگوار نے دیا تھا بازو سے کھول کے حوض کے کنارے پر رکھ دیا، اور چاہا کہ نہانے کے واسطے حوض میں دھنسوں، دیو کہ میرے مارنے کی فکر میں تھے، انہوں نے فرصت پا کے وہ کاغذ کا تختہ اٹھا لیا اور خوب جکڑ کے میری مشکیں باندھیں اور لشکر کو برباد کیا۔ ان میں سے جس کی حیات باقی تھی سو بھاگ کے بچ گئے اور چاہا کہ اس نازنین کو بھی خراب کریں سو ایک دیو کو اس کا حسن و جمال دیکھ کے رحم آیا۔ اس نے کہا، "اے یارو! ایسی نازنین کو ضایع کرنا خوب نہیں۔ اس کے تئیں اپنا ساقی کیا چاہیے۔" غرض کہ وہ مجلس نشاط کی ماتم سرا ہو گئی۔ رات کو مجھے ان دیوؤں نے ایک درخت سے باندھ دیا۔ میں نے اس
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 161

حالت تباہی میں کہ زندگی سے ناامید تھا، پیر بزرگوار کو یاد کیا۔ بمجرد یاد کرتے ہیں میرے سامنے آن کھڑا ہوا اور دیوؤں سے وہ کاغذ کا تختہ چھین کے میرے ہاتھ میں دیا اور فرمایا، "اے غافل ہوشیار ہو خبردار! یہ کاغذ میرے سوا اور کسی کو مت دیجیو۔" پھر اپنے ہاتھ سے میری مشکیں کھول کے کہا، "حضرت سلیمان کی دہائی دے کے کہہ کہ۔ " تم سب ٹکڑے ٹکڑے ہو جاویں۔" یہ بات کہہ کے پھر نظر سے غائب ہو گیا۔ جب روشن ضمیرنے یہاں تک بات کہی، تب سمن رُخ بولی، "اے جوان! میں یہ پوچھتی ہوں کہ جن دیوؤں نے اتنے لشکر کو ایک دم میں فنا کیا، ان سے اس پیر ضعیف نے کاغذ کا تختہ کیوں کر چھین لیا؟" روشن ضمیر بولا، "اے بانوئے جہاں! یہ سچ ہے لیکن یہ بیت نہیں سنی۔ بیت ؂

یہ شیخ ہیں گرچہ دوست خدا کے، خُدا نہیں
لیکن خدا سے ایک گھری وہ جُدا نہیں

اگر کوئی دو چار روز کسی آدمی کی خدمت کرے تو وہ بھی البتہ مہربان ہوئے اور جو شخص کہ اپنی ساری عمر حق تعالیٰ کی بندگی میں صرف کرتے ہیں تو انہیں اتنا سا مقدور ہوتا ہے کہ چاہیں سو کریں۔ سن اے سمن رُخ جب وہ بزرگ میری آنکھ سے اوجھل ہوا تب میں پکار کے دہائی حضرت سلیمان پیغمبر علیہ السلام کی دے کے کہا کہ۔ "تم سب ٹکڑے ٹکڑے ہو جاؤ۔" سو اسی وقت بند بند جدا ہو گیا اور بدن بدن سے سر علٰیحدہ جا پڑے۔ لشکر کے آدمی جو بھاگ کے جیتے بچے تھے وہ یہ احوال دیکھ کے نہایت متعجب ہوئے اور کمال خوشی سے رت کو اسی باغ میں آرام کیا۔ وہاں سے دو گھڑی کے تڑکے آگے کو روانہ ہوئے۔ جب دمشق کے نزدیک پہنچے، تب بادشاہ

صفحہ 162

نے بیٹی کی خبر سُن کے نہایت خوشی وقتی سے وزیر کو استقبال کے واسطے بھیجا۔ نازنین نے دمشق میں پہنچ کے باپ کی قدمبوسی کی۔ وہ امتیاز سے اسے اپنے پاس بٹھا کر احوال پوچھنےلگا۔ اس نے اول سے آخر تک سب سرگزشت بیان کر کے میری طرف اشارہ کیا کہ، "اس جوان نے اس موذی کے پنجے سے مجھے چھڑا کر یہاں تک پہنچایا ہے، ولیکن کسی طرح رہائی ممکن نہ تھی۔ اور راہ میں ایسی آفتوں اور بلاؤں سے بچا لایا ہے کہ اسی کا کام تھا۔" پھر ہمراہی لوگوں نے باغ میں دیوؤں کے آنے کا احوال مفصل عرض کیا۔ بادشاہ نے میرے تئیں اپنے پاس بلا کے نہایت مہربانی سے فرمایا۔ "اے عزیز! تیرے سبب آج پانچویں برس بیٹی کا منہ دیکھ اہے۔ تیرے اس حق سے ہرگز ادا نہیں ہو سکتا۔" پھر میرے رہنےکے واسطے ایک مکان خالی کروا کے پچاس آدمی میری خدمت گاری کے لیے تعین کیے۔ آٹھ سات دن کے بعد میں نے بادشاہ سے رخصت مانگی۔ اس نے کہا، "اے جوان! ایسی شتابی کیا ہے؟ دس بیس دن یہاں آرام کر کہ راہ کی ماندگی دور ہوئے۔ بعد ازاں جس طرف کا تیرا ارادہ ہو گا فوج ساتھ دے کے بہ آسانی بھجوا دیں گے۔" وہاں سے اٹھ کے جب بادشاہ نے بیٹی سے یہ ذکر کیا، اس نے کہا، "اے باپ! اس جوان کو ہرگز مت جانے دینا، بلکہ اشارے سے کہا۔ "اگر مناسب جانیے اسی سے میرا نکاح کر دو۔" اے ملکہ!! جب یہ بات میں نے سنی، تب اپنے تئیں دیوانہ مقرر کر کے بیہودہ باتیں بکنے لگا اور بدن کے سارے کپڑے پھاڑ کے شہر سے باہر نکل گیا۔ جو کوئی راہ میں ملتا تھا اسے اینٹ پتھر مارتا تھا۔ اس طرح ان کے ہاتھ سے خلاصی پا کے کوس دو ایک راہ گیا تھا، کہ وہی بزرگ آگے آیا۔ میں نے ٹھہر کے سلام

صفحہ 163

کیا۔ اس نے سلام کا جواب دے کے کہا۔ "اے فرزند تختہ کاٖغذ کا مجھے دے کہ اس سے ابھی میرے تئیں بہت کام ہے۔" میں نے بازو سے کھول کے حاضر کیا۔ سو وہ میرے ہاتھ سے لے کے نظر سے غائب ہوا اور میں آگے کو راہی ہوا۔

سمن رُخ نے روشن ضمیر کا ماجرا سن کے بہت آفریں کی اور آذر شاہ اس کے ہوش میں ؟آنے سے دم بدم ان کا شکر گزار تھا۔ حضرت شیخ صنعان نے پوچھا، "اے سمن رُخ! اب تیری طبیعت کیسی ہے؟" بولی، "آپ کی توجہ سے آرام کلی ہے۔ لیکن ملک محمد کے قصے سننے کا اشتیاق باقی رہا کہ آخر اس کا کیا احوال ہوا، اپنی مرد کو پہنچا کہ نہیں۔" سو حضرت شیخ نے متبسم ہو کے دانادل کو فرمایا، "اے فرزند! ملک محمد کی حکایت جو باقی رہی ہے سو اب تمام کر۔"

تیئسویں حکایت

حکایت بیان کرنا دانادل نے باقی قصہ ملک محمد کا اور آنا گیتی افروز کا پرستان سے اپنے کوہستان میں باپ کی وفات کے بعد، کتا کرنا ملک محمد کو اور جانا اس کا اپنے چچا کے پاس اور ڈوریوں کے حوالے کرنا دانشمند نے اس کے تئیں۔

کہتے ہیں کہ دانادل اپنے مرشد کی اجازت پا کے بولا، "سن اے سمن رُخ! کہنے والوں نے یوں خبر دی ہے کہ جب گیتی افروز کے بھائی کا بیاہ ہو چکا تب اُس نے باپ سے رخصت مانگی۔ اس نے آبدیدہ ہو کے کہا، "اے بیٹی! یہ تو مجھے خوب وجہ دریافت ہے کہ اب تو یہاں نہ رہے گی۔ لیکن آئی ہے تو

صفحہ 164

میری خوشی کے واسطے چند روز تحمل کر۔"لاچار طوعاً و کرہاً باپ کے کہے سے وہاں رہی۔ تھوڑے دنوں کے بعد عنصر شاہ بیمار ہوا اور اسی بیماری میں جاں بحق تسلیم ہوا۔ اہل قبائل اور اعیان مملکت نے ہر چند شیون اور ماتم کیا، لیکن کیا حاصل۔ آخر بجز صبر کے چارہ نہ دیکھا۔ ایک دن سب کے تئیں اسی راہ چلنا ہے۔ جس کسی نے جس سے سکھ پایا ہوتا ہے وہ اپنے آرام کے واسطے اسے یاد کر روتا ہے۔ وگرنہ رونے سے کوئی جی نہیں اٹھتا، اگر ایسا ہوتا۔ بیت ؂

ہر اک سب عمر روتا آہ اور فریاد و غم کرتا
اگر رونے سے جی اٹھے تو کاہے کو کوئی مرتا

القصہ عنصر شاہ کی تجہیز و تکفین سے فراغت ہو کے سب ارکان دولت نے اُس کے بڑے بیٹے کو تخت پر بٹھایا۔ تھوڑے روزوں کے بعد ایک دن گیتی افروز کے بھائی نے کہا، "اے بہن! تکلف برطرف اگر تیرے تئیں یہاں رہنا منظور ہے تو اس آدمی زاد کی دوستی چھوڑ دے کہ ہماری صحبت میں آدمی زاد کا کیا کام؟"

گیتی افروز بولی۔ بیت

تیرے سب وعظ و نصائح سچ ہیں لیکن ناصحا!

دل جو رہ سکتا نہیں، بتلا میں اس کو کیا کروں

اے برادر! گستاخی معاف۔ اگرچہ تیرے روبرو، یہ بات کہنا بے جا ہے لیکن عاشق کو صبر و قرار کہاں؟ میرے دل کی یہ بیتیں حسب حال ہیں۔ بیتیں ؂

جسے عاشق کا تیر کاری لگے
اسے زندگی جگ میں بھاری لگے

صفحہ 165

نہ ہووے اسے جگ میں ہرگز قرار
جسے عشق کی بے قراری لگے
نہ چھوڑے محبت دم مرگ تک
جسے یار جانی سے یاری لگے

جب تک میری ناک میں دم ہے تب تلک یہ ممکن نہیں کہ اپنے یار وفادار کی محبت سے دل اٹھاؤں، بلکہ اس کے واسطے تم سب کو چھوڑا۔ بیت ؂

حق مجھے باطل آشنا نہ کرے
یار سے میں پھروں خدا نہ کرے
دوستی بد بلا ہے اس میں خدا
کسی دشمن کو مبتلا نہ کرے

یہ بات کہہ کے سواری کا تخت منگوایا۔ پری زادوں نے دیکھا کہ اب یہ جانے پر مستعد ہے۔ ہر ایک نے نصیحت کر کے کہا، "اے گیتی افروز اس بات میں برا کیوں مانتی ہے؟ انصاف کر کہ ہم لوگوں کو آدمی زاد سے دوستی کرنا لازم ہے! خصوصاً عنصر شاہ سے بادشاہ کی بیٹی ہو کے ایسا زبوں کام کرے۔ اپنے ننگ و ناموس پر نگاہ کر، ماں باپ کا نام مت خراب کر، وہ کام کر کہ کوئی ٹھٹھا نہ کرے اور خلق برا نہ کہے۔ تمام جہان میں رسوا ہو گی۔ اس خراب کام میں کیوں ضرب المثل ہوتی ہے۔"

وہ سب کی باتیں سن سن کے بولی۔ بیت ؂

ناصحو دل بس میں نہیں ہے کس کو سمجھاتے ہو تم
کیا دیوانے ہو گئے ہو، جان کیوں کھاتے ہو تم

یہ سمجھو ہرگاہ میں نے اپنے ماں باپ اور بڑے بھائی کہ وہ بھی بجائے پدر ہے، کہا نہ مانا تو تمہاری نصیحت میرے دل میں کب اثر کرتی ہے۔ اب میرے تئیں اپنے یار کے سوا ننگ و ناموس اور مادر و پدر کے نام سے کچھ کام نہیں۔ بیت ؂

ہے صبر یہی ہوش یہی جان یہی ہے
میرا تو یہی دین ہے، ایمان یہی ہے

صفحہ 166

پھر ملک محمد کا ہاتھ پکڑ لیا اور تخت پر سوار ہو کے اپنے سارے لشکر سمیت پرستان سے اسی کوہستان کی طرف روانہ ہوئی۔ ایک ساعت میں وہاں پہنچ کے خانۂ قدیم کے تئیں اپنے قدم سے رونق بخشی۔ ملک محمد وہاں پہنچ کے خدا کا شکر بجا لایا۔ گیتی افروز نے روح افزا کو اشارہ کیا۔ سو اس نے ایک شیشہ لا کے دونوں کے تئیں خوب شراب پلایا اور تمام روز ناچ ہوتا رہا۔ شام کے وقت گیتی افروز اپنے عاشق کو ساتھ لے کر خواب گاہ کی طرف متوجہ ہوئی۔ شراب کے نشے میں دو چار گھڑی تک بوس و کنار میں مشغول رہے جب گیتی افروز خواب میں غافل ہو گئی یعنی سو گئی تب ملک محمد نے اپنے دل میں کہا۔ بیت ؂

نہ اس کو مہر نہ الفت نہ پیار ہے نہ تپاک
نہ مجھ کو صبر نہ طاقت نہ نیند ہے نہ قرار

ہرچہ بادا باد! آج اپنا مطلب حاصل کروں گا۔ سو بے اختیار ہو کے اٹھا اور گیتی افروز کے پاس جا کے چاہا کہ اپنے کام دل کو پہنچے۔ ہاتھ لگاتے ہی اس نے آنکھیں کھول دیں اور خفگی سے بھوئیں چڑھا کے کہا، "اے سگِ ملعون! جس کام کو میں منع کرتی ہوں تو اسی کےدرپے ہوتا ہے۔ میں نے چاہا تھا کہ اب تو کسی آفت میں گرفتار نہ ہوئے۔ پر تو جان بوجھ کے آپ بلا میں پڑتا ہے۔"

اے ملکہ وہ بے چارہ اُسی وقت لوٹ پوٹ کے کتے کی شکل ہو گیا۔ سو نوکر چاکروں نے مار کے حویلی سے باہر نکال دیا۔ لاچار وہ پشیمان ہو کر دل ہی دل میں یہ بیت پڑھتا ہوا شہر کی طرف روانہ ہوا۔ بیت ؂

اس قدر میں نے سہے جور و جفا یا قسمت
تو بھی مطلب مرا حاصل نہ ہوا یا قسمت

صفحہ 267

شہر میں پہنچ کے دیکھتا کیا ہے کہ دانشمند گھوڑے پر سوار ہو کر دریا کو جاتا ہے۔ یہ دوڑ کے گھوڑے کے نزدیک پہنچا اور اُچھل اُچھل کے اپنے چچا کے پاؤں چومنے لگا۔ دانشمند نے دانائی سے دریافت کیا کہ ملک محمد ہے۔ کہا "اے کمبخت! تو نے کئی بار قسمیں کھا کھا کے توبہ کی تھی، گیتی افروز کی دوستی سے باز نہ آیا۔ اور پریوں کی صحبت اختیار کی۔ دین سے بے دین ہو گیا۔ خدا کی سوگند اگر اب تو اسی حالت میں مر جائے تو بھی مجھے رحم نہ آوے۔" اس سے یہ بات کہہ کر نوکروں کو پروانگی دی کہ اس کے تئیں ڈوریوں کے حوالے کرو اور کتوں میں اسے بھی رکھا کریں۔"

ملک محمد اپنے دل میں کہتا تھا کہ گیتی افروز نے میرے ہیے اپنے سارے کنبے سے بیگانہ ہو کے ماں باپ کو چھوڑ دیا۔ اب میں کیوں کر دانشمند کے کہنے سے اس کی دوستی چھوڑ دوں۔ بیت ؂

ایک دین و دل ہے کیا، گو جان بھی برباد جائے
پر نہیں ممکن کہ میرے دل سے اس کی یاد جائے

قصہ کوتاہ کہ تین مہینے تک ڈوریوں نے اور کتوں کے شامل اسے رکھا۔

چوبیسویں حکایت

جانا فرخندہ شاہ کا گیتی افروز کی ملاقات کے واسطے اور بلی بنانا اس کے تئیں روح افزا نے گیتی افروز کے اشارے سے اور اچھا کرنا اس کو دانشمند نے کتے سے آدمی کر کے اپنے ساتھ لے جانا ملک محمد کو گیتی افروز نے

صفحہ 168

ناقل اس حکایت کو یوں نقل کرتا ہے کہ دانادل نے سمن رُخ سےکہا کہ۔ "سن اے بانوئے جہاں! ایک روز فرخندہ شاہ کے دل میں یہ خیال آیا کہ میں نے جو ملک محمد کو گیتی افروز کی خبر کے واسطے بھیجا تھا سو اب تک نہ پھرا۔ شاید اپنے معشوق کے پاس پہنچ کے عیش و نشاط میں مشغول ہوا۔ آج میں آپ جا کے گیتی افروز کی خبر لوں اور یہ بھی معلوم کروں کہ ملک محمد وہاں کس کام میں ہے؟ پھر اسی وقت گھوڑے پر سوار ہو کے جریدہ، دس بیس آدمیوں کو ساتھ لے کے کوہستان کی طرف روانہ ہوا۔ جب محل کے دروازے پر پہنچا تب گھوڑے سے اتر کے اکیلا اندر گیا۔ گیتی افروز نے دور سے فرخندہ شاہ کو آتے دیکھ کر استقبال کر کے لے گئی اور بڑی اعزاز سے تخت پر بیٹھایا۔ پھر روح افزا نے شاہ پری کے اشارے سے شراب دو آتشہ کا شیشہ لا کے ساقی گری میں مشغول ہوئی۔ شام کے وقت کھانے سے فراغت کر کے گیتی افروز نے روح افزا کو اپنے پاس بلا کر کہا کہ، "آج تو بادشاہ کو کسی ڈول سے جانور بنا دے تو اس کے تئیں ملک محمد کی قدر معلوم ہوئے۔ جیسا کہ حضرت شیخ سعدی نے گلستان میں فرمایا۔

(ف) "قدر عافیت آں کسے داند کہ بمصیبتے گرفتار آید"
(یعنی قدر سکھ کی وہ جانے کہ بیچ کسی دکھ کے گرفتار ہوئے)

اس نے کہا، بہت خوب! میرے دل میں بھی یہی آرزو تھی۔" پھر روح افزا شاہ پری سے وداع ہو کے بادشاہ کو اپنی خواب گاہ میں لے گئی اور پیہم شراب کے پیالے دے کے ایسا بیخود کیا کہ فرخندہ شاہ کو اپنے تن بدن کی خبر نہ رہی اور بے اختیار یہ فرد پڑھ کے یار کے قدموں پر گر پڑا۔ فرد ؂

دیکھ پری رو، تجھ کو میں محو ہوا ہوں خبر نہیں
تن سے بدن سے جان بے ہوش سے اور حواس سے

صفحہ 169

پھر بوس و کنار کر کے جایا کہ بے حجابی سے لذد دنیوی حاصل کرے۔ روح افزا نے غصے سے جھنجھلا کر کہا، "اے گربہ بس زیادہ گستاخی مت کر۔" یہ بات کہتے ہی بادشاہ غلطک مار کے بلی کی صورت ہو گیا۔ سمن رُخ نے جب بادشاہ کے بلی ہونے کا حال سنا تب کروٹ پھیر کے پوچھا، "اے جوان دانادل! بڑے اچنبھے کی بات ہے کہ ان کے کہنے سے انسان بہ شکل جانور اور حیوان ہو جاتا ہے۔"

اس نے جواب دیا، "اے ملکۂ آفاق! کچھ تعجب نہیں پریوں کی زبان جادو میں اب بھی یہی اثر ہے۔" غرض کہ جب فرخندہ شاہ بلی کی شکل ہو گیاتب روح افزا نے خواب گاہ سے باہر نکال دیا۔ سو رات بھر باغ کے صحن میں رو رو کے دل ہی دل میں مرزا رفیع سودا کے مخمس کا یہ بند پڑھتا تھا۔ بند ؂

اس شوخ سے دل کے لگ جانے کو کیا کہیے
قابو میں ستمگر کے آ جانے کو کیا کہیے
یوں سر پہ بلا میرے لے آنے کو کیا کہیے
اب مُفت میں اس جی کے پھنس جانے کو کیا کہیے
کیا کام کیا دل نے دیوانے کو کیا کہیے

اور پچھتاتا تھا کہ اگر میں ایسا جانتا تو یہاں آن کے کیوں فضیحت ہوتا۔ اب شہر میں جا کے لوگوں کو کیا منہ دکھاؤں گا؟ صبح کے وقت پیش از طلوع آفتاب گیتی افروز کے محل سے برآمد ہو کے اپنے شہر کی راہ لی اور اپنی دولت سرا کے پاس پہنچ کے دانشمند وزیر کے انتظار ایک گوشے میں چھپ کے کھڑا ہو رہا۔ جب بادشاہ بلی کی صورت ہو کے پریوں کے محل سے باہر نکلا، تب شاہ پری نے دو جاسوس اس کے پیچھے تعین کیے اور کہہ دیا کہ "چھپے چھپے

صفحہ 170

وہاں کا احوال سب دیکھ کے میرے تئیں خبر دو۔" سو وہ موافق حکم کے بلی کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے اور کچھ ایک آدمی جو بادشاہ کے ساتھ گئے تھے انہوں نے پس از انتظار گیتی افروز کے دروازہ پر جو خبر لی تھی تو وہاں کچھ سراغ نہ پایا۔ لاچار اپنے شہر کو پھر آئے۔ "اے بانو! جب رات کو فرخندہ شاہ اپنے گھر نہ آیا تب سب نے جانا کہ خود بدولت گیتی افروز کے محل کی طرف رونق افروز ہوئے ہوں گے۔ دانشمند ساری رات اسی فکر میں جاگتا رہا کہ خدا جانے حضرت کو کیا درپیش آیا؟ اور کسی طرح گھر آویں۔ نصیب اعدا پریوں کی شعبدہ بازی سے تغیر ہئیت نہ ہو گئے ہوں یا سن کی سحر سازی، فتنہ پردازی سے کسی بلا میں نہ پڑ گئے ہوئیں۔ گجر کے وقت تنہا گھر سے نکل کے ولی نعمت کی خبر کے واسطے پیادہ پا بارگاہ سلطانی کی طرف روانہ ہوا۔ جب محل خسروی کے نزدیک پہنچا، تب فرخندہ شاہ کہ بلی کی شکل چشم براہ وزیر کے تھا دوڑ کے اس کے پاس آیا۔ اس نے عقل سے دریافت کیا کہ بادشاہ ہے۔ اور گیتی افروز کا یہ سلوک دیکھ کے نہایت حیرت سے منہ میں انگلی داب رکھی۔ پھر آواز کے ساتھ خسروانہ اُس نے پونچھ ہلائی۔ دانشمند نے فی الحال اس بلی کو گود میں اٹھا لیا اور دوشالے میں چھپا کر کہ کسی کو خبر نہ ہوئے تھوڑی سی وہی معجون کھلا دی، سو بادشاہ غلطک مار کے بصورت اصلی ہو گیا۔ وزیر نے لباس شاہانہ پہنایا اور گھوڑے پر سوار کر کے محل میں داخل کیا۔ بادشاہ اس مقدمہ سے ایسا شرمندہ ہوا کہ خُدا کسی کو نہ کرے۔ اور کھسیانا ہو کے دانشمند سے کہا، "ہم آدمیوں کا پری زادوں سے اور تو کچھ بس نہیں چلتا مگر یہ دل میں آتا ہے کہ ملک محمد گیتی افروز کا یار جانی ہے جی سے مار ڈالوں کہ اس کا غم قیامت تک اس

صفحہ 171

کے دل میں رہے گا۔"

اے بانو! اگرچہ ملک محمد نا سزاوار اور سراسر ناخلف تھا، لیکن چچا کی محبت نے اقتضا نہ کیا کہ جی سے مارا جائے۔ آخر کلمۃ الخیر اس کے حق میں بولا کہ، "یہ تو اسی جناب کا بندہ ہے، آگے جو مرضی مبارک میں آوے سو کیجیے۔" بادشاہ نے فرمایا، "ملک محمد کہاں ہے؟ حاضر کرو اور جلادوں کو بلاؤ کہ اس کا پیٹ چاک کریں۔"

دانشمند نے عرض کیا کہ، "وہ بیچارہ تو تین مہینے سے کتے کی صورت اور کتوں کے ساتھ ڈوریوں کے حوالے ہے۔" یہ بات سن کے بادشاہ نے اس کے لانے کے واسطے جلاد بھیجے۔ اے بانوے آفاق! گیتی افروز کے جاسوس نے یہ احوال دیکھ شاہ پری کو خبر پہنچائی کہ آپ کی دوستی کے طفیل ملک محمد بے چارہ یوں مارا جاتا ہے۔ یہ ماجرا سنتے ہیں وہ ہائے ہائے کر کے تخت پر سوار ہوئی اور تھوڑے پری زادوں کو ساتھ لے کے فی الفور شہر میں آئی۔ سو جلاد ملک محمد کو سو سو اذیت دیتے ہوئے قتل کرنے کو لیے جاتے تھے۔ وہ بے چارہ اپنے دل میں کہتا تھا کہ آج جو یہ لوگ مجھ سے ایسی بدسلوکی کرتے ہیں تو جائے از علت نہیں۔ کیا جانے مجھ سے کیا تقصیر ہوئی ہے جس کی یہ تعزیر دیتے ہیں اگر میرے تئیں مارنے کے واسطے لیے جاتے ہیں تو جان کا کچھ افسوس نہیں، لیکن یہ ارمان ہے کہ معشوق سے جدا ہو کے مارا جاتا ہوں۔ بیت ؂

دیکھ لوں گا میں اسے دیکھیے مرتے مرتے
یا نکل جاوے گا جی نالہ ہی کرتے کرتے

اسی گفتگو میں تھا کی گیتی افروز نے وہاں پہنچ کے بہ آواز بلند کہا۔

صفحہ 172

اے ملک محمد! وفادار آدمی ہو کر میرے پاس تخت پر کیوں سوار ہو کر نہیں بیٹھتا ہے؟" اسی دم وہ لوٹ پوٹ کے آدمی ہو گیا اور کتوں سے باہر نکل کر تخت پر گیتی افروز کے پاس جا بیٹھا۔ وہ اپنے یار جانی کو ساتھ لے کے اپنے محل میں داخل ہوئی اور فرخندہ شاہ نے یہ خبر سن کر بہت افسوس کیا۔ گیتی افروز نے گھر جا کے ملک محمد سے پوچھا، "اے یار! یہ کام میں نے کیا کیا کچھ تجھے خبر ہے؟" اس بے چارہ کو تو اس مقدمے سے ہرگز خبر نہ تھی۔ بولا، "مجھ کچھ نہیں معلوم۔" گیتی افروز نے اول سے آخر تک سب احوال اس کے روبرو بیان کیا۔ اس نے سُن کے نہایت خوشنودی سے یہ بیت پڑھی۔ بیت ؂

غم جاں تو ہی وگر راحت جاں ہے تو ہی
میں نے یہ دیکھ لیا جانِ جہاں ہے تو ہی

گیتی افروز نے اس کے تئیں اپنی چھاتی سے لگا لیا۔ پھر روح افزا نے دونوں کو پیالے شراب پلائی اور نازنین کے اشارے سے ناچ ہونا شروع ہوا۔ دونوں عاشق و معشوق فراغت سے خوشی میں بیٹھے ہوئے ناچ کا تماشا دیکھتے تھے۔ ملک محمد شراب کی مستی میں بیخود ہو کے اس کی چھاتی کو ہاتھ لگاتا تھا اور کبھی وہ نشے میں حجابانہ اس کا منہ چوم لیتی۔ اس طرح برسم عاشق و معشوق (یہ) بہ ہوائے عاشقانہ اور وہ بہ ادائے محبوبانہ فارغ از افکار باہم بہ اختلاط و انبساط محظوظ و مسرور تھے اور دونوں بے لحاظ ہو کر عشق نشاط میں مشغول تھے۔

صفحہ 173

پچسویں حکایت

آنا اس کے وزیر کا جس بادشاہ سے گیتی افروز نامزد تھی شادی کا پیغام لے کر اور مراد کو پہنچنا ملک محمد کا، مایوس پھر جانا اس وزیر کا اور اچھا ہونا سمن رُخ بانو کا اور فرزند ہونا آذر شاہ کے، اور رخصت ہونا شیخ صنعان کا اور ختم ہونا کتاب کا

راویوں نے اس حکایت دلچسپ کو یوں بیان کیا ہے کہ دانادل نے سمن رخ سے کہا، "اے بانوئے جہاں! گیتی افروز اور ملک محمد بعالم عیش و طرب بوس و کنار میں مشغول تھے کہ یکایک ہوا کی طرف سے پری زادوں کی آواز ان کے کان میں آئی۔ گیتی افروز نے اونچا کر کے جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ جس بادشاہ سے میں نامزد تھی اس کا وزیر آیا ہے۔ اتنے میں اس نے آن کر کورنش کی۔ گیتی افروز نے اس کی طرف دیکھ کر کہا، "اے وزیر معلوم ہوتا ہے کہ تیرے بادشاہ نے تجھے میرے پاس بھیجا ہے۔ کہہ کیا پیغام ہے؟"

وزیر نے مانند ایلچیوں قاعدہ دان کے تسلیمات کر کے اپنے بادشاہ کی طرف سے یہ پیغام کہا کہ "عنصر شاہ کے مرنے کے بعد ہم نے شادی کے واسطے بھائی کے پاس آدمی بھیجا تھا سو اُس نے اور آپ کی والدۂ معظمہ نے یہ جواب دیا کہ "اس مقدمہ میں ہمارا کچھ اختیار نہیں۔ گیتی افروز آپ مختار ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ کچھ اور بھی کہا تھا، سو میرا مقدور نہیں

صفحہ 174

جو عرض کروں۔ اسی واسطے میرے تئیں آپ کی خدمت میں بھیجا ہے۔ بکمال شوق و تمنا و نہایت آرزو و التجا بہ امیدِ تمام کہا ہے کہ ایک مدت سے میں رات دن تمہاری یاد میں رہتا ہوں۔ بیت ؂

کافر ہو سوا تیرے کرے چاہ کسی کی
صورت نہ دکھا دے مجھے اللہ کسی کی

اور تمہاری طرف سے ہرگز التفات نہیں۔ اب آپ کی مہربانی سے یہ توقع ہے کہ اس آرزو مند کے اشتیاق پر نگاہ کر کے میرے آنکھوں کو اپنے جمال سے روشن کیجیے کہ یہ عمر عزیز مانند آب رواں کے رات دن چلی جاتی ہے اور پھر آنے کی توقع نہیں۔ بموجب قول سوداؔ۔ نظم ؂

جو بندۂ ہر چیز ہے یا بندہ جہاں میں
جُز عمر گزشتہ کہ جو ڈھونڈو تو کہاں ہے؟

اور اگر حقیر جان کے میری صُحبت سے تمہیں عار ہے تو صاف جواب دیجیے کہ "الانتظار نصف الموت" (یعنی انتظاری کرنا آدھی موت ہے) میں کاہے کو منتظر ہوں۔" گیتی افروز وزیر سے یہ پیام سن کے بولی، "تھوڑی دیر تحمل کر۔ اپنے سوال کا جواب لے کے جائیو۔" سمن رخ نے پوچھا، "اے جوان! پہلے یہ بتلا دے کہ ملک محمد بے چارہ اتنے دُکھ اٹھا کے اب بھی مراد کو پہنچے گا کہ نہیں یا پھر کسی بلا میں پھنسے گا۔ اس کے حال پر مجھے بہت رحم آتا ہے۔"

دانا دل ہنس کر بولا، "الحق یہ رحم ہی کرنے کا مقام ہے۔ اب تھوڑا سا قصہ اور باقی رہا ہے۔ آگے سننے احوال معلوم ہو گا۔ "اے ملکہ! گیتی افروز نے وزیر سے یہ بات کہی اور ملک محمد کا پوہنچا پکڑے کے خلوت

صفحہ 175

میں لے گئی۔ وہاں دونوں عاشق و معشوق گلاس بازی میں مشغول ہوئے۔ ملک محمد نے شراب کے نشے میں مست ہو کر اس امید پر کہ شاید اب بھی میرے حال پر اس بے رحم کے دل میں رحم آوے۔ یہ دوہرہ پڑھا۔ دوہرہ ؂

آہ وئی کیسی بھئی ان چاہت کے سنگ
دیپک کے بھائیں نہیں جر جر مرت پتنگ

گیتی افروز نے سن کر یہ جواب دیا۔ دوہرہ؂

پیتم تم مت جانیو پیت ہوت اک انگ
پہلے تو دیپک جرے پاچھے جرے پتنگ

جتنا سوز و گداز معشوق کے دل میں ہے عاشق کو اس سے دسواں حصہ نہیں کیوں کہ وہ تو رو رو کے اپنے دل کا غم نکال ڈالتا ہے اور یہ دل ہی دل میں بُھن بُھن کے کباب ہوتا ہے۔ بموجب قول شخصے۔ بیت ؂

شمع کے جلنے کی طاقت کہاں پاتا ہے پروانہ
لرزنا سر کٹانا چپ ہو، رونا صاف جل جانا

جانِ من! جیسی آفتیں اور بلائیں میرے عشق میں تو نے اپنے اوپر انگیزیاں ہیں سو میرے دل میں نقش کا سجحر ہیں۔ پر میری بھی وفاداری تو نے دیکھی کہ تیری خاطر۔ فرد ؂

گھر بار چھوڑ شہر و وطن سے جدا ہوئے
بیگانہ ہو کے سب سے ترے آشنا ہوئے

یہ بات کہی اور شرمناک ہو کے حجاب آلودہ ایک عجب ناز و ادا سے پلنگ پر لیٹ گئی اور خاموش ہو کر منہ پر نقاب کھینچ لیا۔ ملک محمد نے امید وصال کیا کیا جور و ستم اٹھائے تھے اور آرزوئے ملاقات

صفحہ 176

کیسی کیسی آفتیں اور مصیبتیں دیکھیں۔ "الخاموش نیم رضا" جان کے اس کی ادا سے ایسا خوش ہوا گویا مردے کے بدن میں جی آ گیا یا کسی مفلس کے ہاتھ قارون کا گنج، رنج براحت، و غم وبشاشت مبدل ہوا یعنی اپنی حاجت پر کہ تشریح خارج التحریر ہے کامیاب ہوا اور جو کہ ایک عمر سے تمنا تھی سو خاطر خواہ حاصل ہوئی اور غنچۂ خاطر گیتی افروز کا ہوائے مراد سے شگفتہ ہوا اور نخل آرزو ملک محمد کا شگوفۂ امید سے کِھلا یعنی مواصلت جسمانی کہ ثمرۂ زندگانی ہے حسبِ خواہش دونوں مشتاقوں کے حاصل ہوئی۔ مثنوی ؂

ملے آپس میں دونوں ماہ پیکر
عسس کا خوف نے اغیار کا ڈر
ملے آپس میں دونوں یار جانی
ملا دونوں کو لطف زندگانی
محبت کا زبس سینوں میں تھا جوش
ہوئے دونوں بہم کس کرہم آغوش
یہی دونوں کے دل میں تھی تمنا
الٰہی غنچۂ امید بکشا
ہوئی معشوق کی جب بے حجابی
مٹی عاشق کے دل می اضطرابی
گئے دکھ درد کے سارے عوارض
بدن پر تھا بدن، عارض پر عارض
بہم حاصل ہوئے دونوں کے مطلب
دہن سے تو دہن لب سے ملے لب
رنخ پر رکھ زنخ دھر ساق پر سق
ہوئے سینہ بسینہ دونوں مشتاق
تھا ان کے گوہر مقصور کف میں
پڑا جب قطرۂ نیساں صدف میں
بیاں کیا ہو سکے تشریح عشرت
وہ جانے جس کو حاصل ہو یہ دولت
گیا غم بس ہوئی اے مہرؔ شادی
خوشی نے ملک محمد دل میں دی منادی

ملک محمد نے نازنین کی مواصلت سے اس وقت جو لذت پائی سو کہنے میں درست نہیں آ سکتی۔ اس کا دل ہی جانتا ہو گا، کہ اس عیش کے آگے ہفت

صفحہ 177

اقلیم کی سلطنت کو کچھ چیز نہیں گنتا تھا اور نہایت شادمانی سے یہ بیت پڑھتا تھا۔ بیت ؂

سریر سلطنت سے آستانِ یار بہتر ہے
ہمیں ظلِ ہما سے سایۂ دیوار بہتر ہے

غرض کہ ملک محمد اپنی حاجت پر کامراں ہو کے یکبارگی اتنی مدت کا غم و الم دل سے دور کیا۔ القصہ جب گیتی افروز یار کی ملاقات سے زندگانی کا ثمرہ حاصل کر چکی تب ایک لونڈی کے ہاتھ پلنگ کی چادر وزیر کے پاس کہ جواب کا منتظر بیٹھا تھا، بھیج دی کہ یہ جواب صاف اپنے خاوند کو پہنچا دیجیو۔ وزیر یہ ماجرا حیرت افزا دیکھ کے بہت دنگ ہوا۔ اور ناامید ہو کے پریشان خاطر اپنے ملک کو روانہ ہوا۔ وہاں پہنچ کر گیتی افروز کا جو احوال دیکھا تھا سو اپنے بادشاہ کی خدمت میں عرض کیا۔ وہ یہ بات سنتے ہیں غصے سے آگ ہو گیا اور فرمایا کہ ، "اس نابکار کے تاخت و تاراج کرنے کو پیش خیمہ باہر کھڑا کرو۔"

وزیروں صاحب تدبیر اور امیروں عقیل و مُشیر نے عرض کی کہ "نیم خوردۂ سگ، شیر نخورد۔" (یعنی جھوٹا کُتے کا شیر نہیں کھاتا) اب وہ ناپاک اس جناب کے لائق نہیں رہی۔ عبث مہم کرنا کیا حاصل؟" ابھی تو یہ بات کسی پر ظاہر نہیں ہوئی پھر تمام دنیا میں مشہور ہو جائے گی کہ گیتی افروز فلانے بادشاہ کے ساتھ منسوب ہوئی تھی سو آدمی زاد کے ساتھ بدفعلی کر کے خراب ہوئی۔"

بادشاہ یہ بات دل میں غور کر کے چپ کر رہا اور اس کی تنبیہ دینے سے درگزرا اور وے دونوں عاشق و معشوق اسی کوہستان

صفحہ 178

میں تمام عمر عیش و نشاط کرتے رہے۔ سمن رُخ ملک محمد کی مراد حاصل ہونے کا احوال سُن کے نہایت خوشی سے بولی۔ مثنوی؂

ہزار شکر کہ وہ اپنی داد کو پہنچا

ہزار شکر وہ دل کی مراد کو پہنچا
ہزار شکر پس از نالہ ہائے شام و پگاہ
ہے اس کے حال پہ محبوب کے کرم کی نگاہ
ہزار شکرپس از انتظار و بعد ملال
اسے نصیب ہوئے اپنی نازنیں کے وصال
ہزار شکرکہ اب بعد رنج و بعد الم
وہ اپنے یار کی صحبت سے ہو گیا خرم
ہزار شکرکہ اب یوں پس از غم بیحد
کھلا نصیب ہوئی آسماں سے اسکی مدد
ہزار شکراسے وصل سے ملا آرام
ہزار شکرکہ اب اس کے آسماں ہے بکام
ہزار شکرکہ وہ کٹ گیا زمان تعب
ہزار شکرہے اب یار اس کے لب بر لب
ہزار شکرجلک کا رہا نہ اب کینہ
ہزار شکرہوا یار سینہ بر سینہ
ہزار شکرکہ اب بعد بیقراری دل
وصال یار سے اپنے ہوئی خوشی حاصل
سب اس کا دور ٹم و درد اضطراب ہوا
ہزار شکروہ مطلب پہ کامیاب ہوا
خوشا زمانہ ملے اپنے یار سے مہجور
خوشا زمانہ ہو مغموم کو حصول سرور
خوشا زمانہ چمن سرو جوش پر ہو بہار
خوشا زمانہ کہ ہو یار رشک گل بکنا
خوشا زمانہ کہ ہو باغ اور گل و بلبل
خوشا زمانہ کہ ہو یار و مطرب و مے و مل
خوشا زمانہ ملے خوش ہو مہرؔ یار سے یار
خوشا زمانہ ہو باہم تپاک و الفت و پیار
خوشا زمانہ ہو خلوت کسی کا ہو نہ خطر
مواصلت میں ہوں دونوں خوشی بہم دیگر
خوشا زمانہ نہ خوف عسس نہ بیم رقیب
خوشا زمانہ ہو ایسے میں وصل یار نصیب
خوشا زمانہ نہ ہو کچھ جہاں کا رنج و الم
خوشا زمانہ یہی جا ہو یار ہو باہم
خوش آں زمانِ سعادت بود خوش آں ہنگام
رسد بہ کامِ دلِ خویشِ عاشقاں بہ کام

صفحہ 179

الحمد للہ کہ وہ عاشق بیچارہ اتنے دکھ دیکھ کے آخر اپنی مراد کو پہنچا۔ بیت؂

خوش آن روزے کہ بعد از انتظارے
بہ امیدے رسد، امید وارے

سمن رُخ نے یہ بیتیں پڑھیں پھر پلنگ پر سے اٹھ کے شیخ صنعان کی قدمبوسی کی اور انکے دونوں مریدوں کی بہت شکر گزار ہوئ۔ شیخ صنعان نے پوچھا، "اے ملکہ! اب طبیعت کا کیا حال ہے؟ اور مزاج کیسا ہے؟"

اس نے ہاتھ باندھ کے بہ کمال عجز و فروتنی کے با ادب عرض کیا کہ۔ "آپ کی توجہ دلی سے آرام کلی ہے، اصلا بے ہوشی کا اثر باقی نہیں۔" آذر شاہ نے سمن رُخ کے تئیں حمام میں پہنچ کے صحت کا غسل کروایا۔ اور شیخ بزرگوار کا احسان مند ہو کے بعجز تمام کہتا تھا کہ، "آپ کے تفضلات سے یہ ہوش میں آئی ہے ۔ ورنہ کیا امکان تھا کہ آدمی سحرزدہ قصے اور کہانیوں کے سننے سے ہوش میں آئے اور اچھا ہئے۔" پھر اس زلالہ مکارہ کے تئیں کہ اس کا پہلا قبیلہ تھا ہزار رسوائی اور خرابی سے قتل کر کے شادیانے بجوائے۔ بانوئے جہاں نہایت شادمانی سے محل میں داخل کر کے عیش دنیاوی کہ لذت زندگانی ہے مشغول ہوا۔

دوسرے روز شیخ صنعان نے فرمایا کہ، "اے آذر شاہ! ہم فقیروں گوشہ نشین کے تئیں بادشاہوں کی مجلس میں زیادہ رہنا مناسب نہیں اور تمہارا کام بھی ہو چکا ہے کہ حق تعالٰے نے بفضل و کرم سمن رُخ کے تئیں صحت بخشی ہمیں رخصت کرو کہ اپنے مکان کو جائیں۔"

صفحہ 180

آذر شاہ نے یہ بات سن کے دست بستہ عرض کیا کہ "اگرچہ آپ کو کشی چیز کی خواہش اور کچھ پروا نہیں کہ میں تواضع کروں۔ لیکن اپنی خیر و برکت کے واسطے یہ چاہتا ہوں کہ دو چار پرگنے حضور کے خادموں اور صادر وارد کے خرچ کے واسطے قبول فرمائیے۔"

شیخ نے متبسم ہو کے کہا، "اے بادشاہ فقیروں گوشہ گزیں کے تئیں ملک و جاگیر سے کیا کام ہے؟ کچھ عیال و اطفال نہیں کہ جس کے واسطے زر جمع کریں اور اس زندگی کا کیا بھروسا؟ دم آیا، آیا نہ آیا نہ آیا، غزل ؂

سمجھ رکھا ہے یہ ہم نے یہ کبھی کا
بھروسا کچھ نہیں اس زندگی کا
جہاں میں ہم نہیں رکھتے بھروسا
بجز ذاتِ خدا ہرگز کسی کا
نہیں ہرگز تمنا مال و زر کا
مزہ پایا ہے ہم نے مفلسی کا
اسی کے رنگ میں ہن رنگ رہے ہیں
ہے جس کے رنگ میں ہررنگ پھیکا
خدا روزی رساں سب کا ہے اپنے
ہمیں کیا فکر ہے دست تہی کا
کریں کس کی توقع مدتوں سے
یہ مقطع ہو رہا ہے وردجی کا
جہاں میں شاہ سلطان سب ہیں لیکن
گدا ہے مہرؔ تیری ہی گلی کا

صفحہ 181

پھر کیا ضرور ہے کہ اس تھوڑے سے جینے پر بہت سا بکھیڑا کریں۔ رزاقِ مطلق بے منت روزی دیے جاتا ہے۔ اگر تم اپنی خیر و برکت کے واسطے یہ بات چاہتے ہو تو فقیروں اور محتاجوں کے تئیں کھانے سے سیر کرو اور رعیت پر کہ آفریدگار کی امانت ہے رحم اور احسان و رعایت رکھو، پھر دیکھو کیسی برکت ہوتی ہے۔"

بادشاہ نے دیکھا کہ حضرت شیخ قبول نہیں کرتے۔ لاچار چپ کر رہا۔ پھر بیس توڑے اشرفیوں کے بطریق تواضع دانادل اور روشن ضمیر کے آگے رکھے۔ انہوں نے بھی انکار کیا۔ آذر شاہ نے ہرچند مبالغہ اور تکرار کی پر وہ انکار ہی کرتے رہے کہ ہم درویش جہاں گرد صحرا نورد گھر بار اور کوئی جورو و لڑکا نہیں رکھتے کہ جس کے واسطے دولت چاہیے۔ حق تعالٰی بے منتِ مخلوق روزی پہنائے جاتا ہے۔"

غرض کہ انہوں نے بھی ہرگز کچھ ہ لیا اور رخصت ہوئے۔ بادشاہ آپ اور خجستہ رائے وزیر ایک منزل تک ان کے پہنچانے کو ساتھ گئے۔ دوسرے روز انہیں آگے کو رخصت کر کے پھر اپنے شہر میں داخل ہوئے۔ آذر شاہ سمن رُخ کی ملاقات کو سرمایہ حیات کا جان کے عیش و عشرت کرنے لگا اور جس واسطے دوسرا بیاہ کیا تھا سو اسی برس میں مراد حاصل ہوئی یعنی فرزند ارجمند پیدا ہوا۔ آخری وقت پیران سالی میں یہ دولت عظمیٰ کہ جس سے جہان میں ہمیشہ نام باوی رہے میسر آئی اور تمام (عمر) عیش و نشاط سے زندگانی بسر کی۔

نظم

شکرِ حق، صد شکر حق اے دوستاں!
اپنی حاجت پر ہوا شہ کامراں

صفحہ 182

مدتوں کے بعد از فضل اِلہٰ
آرزو اپنی کو پہنچا بادشاہ
پہلے ٖغم تھا پھر تو وہ شادی ہوئی
جس سے سارے گھر کی آبادی ہوئی
اے عزیزو! مہرؔ کی ہے یہ دعا
اس طرح حاصل ہو سب کا مدعا
آج میں نے روز شنبہ وقت شام
مہرؔ "نو آئین ہندی" کی تمام
جب تلک ہے آسماں پر ماہ و مہرؔ
جب تلک عالم میں ہے دورسیر
جب تلک باغ جہاں کی ہے بہار
من نمانم ایں بماند یادگار

*************************************
 
Top