نوربصیرت

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

قیصرانی نے کہا:
جزاک اللہ جاوید بھائی، سچی پوسٹ ہے

بالکل منصور(قیصرانی) بات توہے سوچنے ک۔۔۔۔۔۔۔۔ی۔۔۔۔۔۔۔


فریادمظلوماں۔
قرآن پاک کے چھٹے پارے کاآغازان الفاظ سے ہوتاہے(ترجمہ)"اللہ(تعالی)کوپسندنہیں کہ کوئی کسی کوبرملابراکہے،مگروہ جس پرظلم کیاگیاہو"(147:4)اللہ تعالی نے مظلوم کویہ حق دیاہے کہ وہ علی الاعلان شکایت کرسکتاہے،مگراس دورکے ظالم حکمران اپنی نااہلی کوچھپانے کے لئے مظلوم سے اس کایہ حق بھی چھین لیناچاہتے ہیں۔ملک میں ہرطرف قتل وغارت ہے۔بدامنی ہے۔کسی کی عزت و آبرواورجان و مال محفوظ نہیں ۔ایک تو یہ لوگ اپنی ذمہ داری سے غفلت برتتے ہیں اس پرمستتزادیہ کہ مظلوموں کوبولنے بھی نہیں دیتے۔کوئی کہے بھی نہ کہ حالات خراب ہیں۔انتظام بھی نہ کرنااورکسی کوکہنے بھی نہیں دیناکہ بدانتظامی ہے تواس کانتیجہ کیاہوگا۔لوگوں کے سینوں میں اندرہی اندر نفرت،غصہ اورانتقام کی آگ بھڑکتی رہے گی اورپھرایک دن یہ آتش فشاں پہاڑپھٹے گااوراس کالاواخس وخاشاک کوبہاکرلے جائے گا۔یہ لوگ سمجتھے کیوں نہیں۔قرآن پاک میں اس شخص کے لئے جوکسی مسلمان کوعمداقتل کرے جہنم کی سزاہے۔وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔کیابے گناہوں کے یہ سب قتل جوحکومت کی آنکھوں کے سامنے ہورہے قتل عمدکی تعریف میں نہیں آتے؟ اللہ تعالی کاارشادگرامی ہے جس نے کسی ایک شخص کوقتل کیا،اس نے گویاساری نوع انسان کوقتل کیاجوکچھ ہمارے ملک میں ہورہاہے کیایہ نوع انسانی کاقتل نہیں؟کیاوہ احکم الحاکمین جس کی حکومت ہمیشہ سے قا‏ئم ودائم ہے اورہمیشہ قائم ودائم رہے گي،ان عارضی حکمرانوں سے بازپرس نہیں فرمائے گا؟اس علیم وخبیرکے سامنے کوئی عذرلنگ نہیں چلے گي۔وہاں یہ کیاجواب دیں گے۔
ستم کی داستان کشتہ دلوں کاماجراکہئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جوزیرلب نہ کہتے تھے وہ سب کچھ برملاکہئے
لگی ہے حرف ناگفتہ پراب تعزیربسم اللہ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سرمقتل چلوبے زحمت تفصیربسم اللہ!
ہراک جانب مچاکہرام دارو گیربسم اللہ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گلی کوچوں میں بکھری شورش زنجیربسم اللہ!
جہاں اچھے حکمرانوں کے لئے اجرعظیم ہے وہاں نااہل حکرانوں کے لئے سخت سزابھی ہے۔حکومت کسی کیپ اس نہ ہمیشہ رہی ہے نہ اب رہے گی۔موت بھی ہرایک کوآنی ہے۔ہرایک سے اس کے اعمال کی بازپرس بھی ہوگی۔قبرہی جنت کاٹکڑایاجہنم کاگڑھابن جاتی ہے۔یہ سارے حالات ہم سب کوپیش آتے ہیں۔

بشکریہ نوائے وقت [/url=http://nawaiwaqt.com.pk/urdu/daily/nov-2006/16/noorebaseerat.php] نوربصیرت [/url]

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
قانون اقوام:-
سورہ ھودکے آخری رکوع میں اپنے چندقوانین ارشادفرمائے۔ایک یہ کہ اس جہان میں قانون مہلت کام رہاہے۔اس لئے بدکردارافرادیاقوم کی گرفت فورانہیں ہوتی بلکہ انہیں مہلت دی جاتی ہے۔اگروہ چاہیں تواس مہلت کے دوران اپنارویہ درست کرلیں لیکن اگروہ اپناطرزعمل نہ بدلیں توپھران پرعذاب آجاتاہے،کئی بارایسابھی ہواہے کہ ان کے لئے ایک آخری حدمقررکردی جاتی ہے کہ اگروہ اسے بھی پارکرجائیں گےتوان پرفوراعذاب واردہوجائے گا۔جیسے صالح کی قوم کے لئے اونٹنی تھی کہ اگروہ اسے گزندپہنچائیں گےتوعذاب کی گرفت میں آجائیں گے۔یالوط کی قوم کےلئے فرشتے تھے جونوجوانوں کی صورت میں ان کے پاس آئے تھے اگراس شہرکے لوگ ان پربری نیت سے ہاتھ ڈالنے کی کوشش کریں گے توعذاب آجائے گا۔دوسراقانون یہ ارشادفرمایاکہ جب کسی قوم پربستی پرعذاب آجائے توصرف لوگ بچالئے جاتے ہیں جسکوآخری وقت تک برائی سے روکنے کافریضہ سرانجام دیتے رہتے ہیں۔"114-توکیوں نہ ہوئے ان قوموں میں جوتم سے پہلے ہوچکی ہیں ایسے لوگ جن میں نیکی باقی تھی کہ وہ(دوسروں کو)فسادپھیلانے سے روکتے،سوائے ان چندکے جنہیں ہم نے ان میں سے (عذاب سے)بچالیا،اور(ان میں سے بیشتر)وہ لوگ(تھےجو)ظلم وزیادتی کرنے والے تھےوہ جس عیش(وعشرت)میں ڈالے گئے تھے اسی ڈگرپرچلتے رہے اوروہ مجرم تھے۔(اس لئے انہیں سزاملی)"117-اورآپ کارب ہرگزایسانہیں کہ بستیوں پرزیادتی کرکے انہیں ہلاک کرے۔"اوروہاں کے بسنے والے نیک ہوں۔"سورہ نساء میں فرمایا(ترجمہ)اللہ تمہیں عذاب دے کرکیاکرے گا،اگرتم(اس کا)شکرکرواور(اس پر)ایمان لاؤاوراللہ قدرشناس(ہے)اور(سب کچھ)جانتاہے۔"(آیہ147)سورہ ھودمیں وضاحت ہے کہ جب کسی قوم پرعذاب آیاپیغمبراوراس کے ساتھ ایمان لانے والوں کوعذاب سے بچالیاجاتارہا۔حضرت نوع اوران کے ساتھی غرق ہونے سے بچالئے گئے۔مگران کابیٹاچونکہ کافروں کاطرفدارتھاایمان نہیں لایاتھااس لئے وہ غرق کردیاگیا،حضرت لوط اوران کاکنبہ بچالیاگیامگران کی بیوی نہ بچ سکی۔کیونکہ وہ بستی کے لوگوں کوجوبرے کام کرتے تھے دل سےبرانہیں سمجھتی تھی،سورہ الاعراف میں یہودکی ایک بستی کاواقعہ بیان ہواجہاں کے لوگ تین گروہوں میں بٹ چکے تھے،ایک وہ جواحکام الہی کی خلاف ورزی کرتے تھے دوسرے وہ جوخوودتوخلاف ورزی نہیں کرتے تھے مگرخلاف ورزی کرنے والوں کوروکتے بھی نہیں تھے الٹاان لوگوں کوروکتے تھے جوانہیں ایساکرنے سے منع کرتے تھےتیسرے وہ جوخودخلاف ورزی نہیں کرتے تھے اورساتھ خلاف ورزی کرنے والوں کوروکتے بھی تھے۔جب اس بستی پرعذاب آیا،توصرف تیسرے گروہ کے بچالئے جانے کاذکرہے۔جوخودبچتے تھے مگردوسروں کومنع نہین کرتے تھے ان کے بچائے جانے کاذکرنہیں۔
بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
چنداورباتیں:۔
تعمیرشخیصت کے لئے تین چیزیں بنیادی ہیں۔ایک اللہ تعالی سے،جوہرخیرکامنبع وخزن ہیں،گہراتعلق اوریہ تعلق ایمان وعشق کاہے۔دوسرے بلندترین شخصیت کاعملی نمونہ جسے انسان اپنے سامنے رکھے۔یہ نمونہ جناب رسالت مآب(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)ہیں اورتیسرے ضبط نفس تاکہ اسکی مددسے اپنے آپکوصحیح سمت چلایاجاسکے۔نمازوروزہ تعلق بااللہ بھی پیداکرتے ہیں اورضبط نفس بھی۔پانچ وقت نمازکی باجماعت ڈسپلن کاعادی بناتی ہے اورروزہ اندرونی ضبط پیداکرتاہے۔انکے علاوہ ایک اورضروری چیزفضول کاموں اورباتوں سے بچناہے۔قرآن پاک میں باربارارشادہے کہ صاحب ایمان لوگ لغوسے بچتے ہیں نیزفرمایاوہ جاہلوں سے الجھتے نہیں اوراگرکوئی جاہل الجھے تواسے سلام کہہ کرالگ ہوجاتے ہیں۔اہل جنت کے بارے میں ارشادہےکہ وہ جنت میں گناہ کی باتیں لغوباتیں نہیں سنیں گے۔دوسری جگہ فرمایاکہ وہ لغواورجھوٹ نہیں سنیں گے۔حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایا۔خرابی ہے اس بندے کے لئے جولوگوں کوہنسانے کے لئے جھوٹ بولتاہے۔اگرہم اپنے دن بھرکے کاموں کاجائزہ لیں تومعلوم ہوگاکہ ہمارازیادہ وقت لغوہی میں کھوجاتاہے۔ذہن کوآزادچھوڑدینابھی لغوہی میں آتاہے۔کبھی ادھربھاگ رہے ہیں۔کبھی ادھر۔ایک دوست نے یہ واقعہ سنایااس نے حضرت شاہ عنایت(رحمۃ اللہ علیہ)کےمزارکے ساتھ مسجدمیں غالباظہرکی نمازاداکی وہاں ایک اورشخص بھی نمازپڑھ رہاتھا۔وہیں ایک مجذوب بولا۔یہ کیسی نمازتھی؟کبھی توادھردوڑاجاتاتھاکبھی ادھر،کیااس طرح نمازپڑھتے ہیں؟بیشترلوگوں کایہی حال ہےاوراکثرلوگ شکایت بھی کرتے ہیں کہ نمازمیں انکی توجہ قائم نہیں رہتی۔اس کاعلاج اللہ کاذکرکثیرہے۔اللہ تعالی کے کسی اسم مبارک کاورد،پہلے زبان سے اتنی اونچی آوازمیں کہ خودسن سکے اس سے توجہ قائم رہنے میں آسانی ہوتی ہے،پھرآہستہ آہستہ قبل ذکرکاعادی ہوجاتاہے۔قرآن پاک میں جگہ جگہ ذکرکثیرکاارشادہے۔عین میدان جنگ میں بھی۔تجارت کے دوران بھی اوراٹھتے بیٹھتے اورلیٹے بھی(یعنی ہروقت)لغوسے بچنے کابہترین طریقہ ذکرکثیرہے۔لغومین سب سے زیادہ نقصان دہ غیبت یادوسروں کی عدم موجودگی میں انکی برائی بیان کرناہے۔قرآن پاک میں اسے مردہ بھائی کاگوشت کھانے سے تعبیرکیاگیاہے۔ایک شخص میں وہ عیب موجودہوں۔پھران کابیان کرناغیبت ہے۔آپ نےفرمایایہی توغیبت ہےاگراس میں وہ عیب نہ ہوں اورانہیں بیان کیاجائے تووہ بہتان ہے۔حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایامبارک ہے وہ بندہ جسے اسکے اپنے عیب دوسروں کے عیب بیان کرنے سے بازرکھیں یعنی وہ اپنے عیب یادکرکے دوسروں کی غیبت سے بازرہے۔
غیبت ہی طرح کاایک اورسنگین جرم(قوم میں)مایوسی پھیلاناہے۔
بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
عظمتوں کے نشان:۔
مولانامحمداکرم لکھتے ہیں۔"یہی وہ میدان(بدر)ہے جہاں لڑنے کے لئے آسمان سے فرشتے نازل ہوئے تھے۔اوریہاں وہ شہداء آرام فرمارہے ہیں،جنہوں نے حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کے مبارک قدموں میں اپنی جانیں نچھاورکردیں۔کٹے ہوئے سینے،پھٹے ہوئے جسم اورخون آلودلباس میں سونے والے یہ لوگ کیاہیں۔یہ عظمتوں کے نشان ہیں اسلام کی بنیادہیں،یہی وہ قیمتی پتھرہیں جن پردین کی عمارت کھڑی ہے۔"ظاہرتوقبروں کے نشان مٹادئے گئے ہیں،مگردل کی آنکھ کودیکھنے سے کون روک سکتاہے؟یہ روشنی روکناحکومتوں کے اختیارمیں نہیں اس پربادشاہوں کابس نہیں چلتایہ خدادادنعمت ہے اللہ کریم دیدیں اس سے کوئی چھین نہیں سکتاسوہم بھی چاردیواری کے پاس کھڑی دیکھتےہیں"جہاں جہاں کوئی شہیددفن ہے ،وہاں یوں نظرآتاہے جیسے نورکافوارہ ابل رہاہویانورکادرخت ہومگرعجیب بات ہے کہ سب درخت ایک برابرنہیں۔چھوٹے بڑے ہیں۔"وہ گڑھابھی پاس ہی ہے جہاں کفارکی لاشیں پھینکی گئی یہی وہ گڑھاہے جس کے کنارے پرکھڑے ہوکرحضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایاتھا،ہم نے اپنے اللہ تعالی کاوعدہ سچاپایا۔کیاتم نے بھی اسے سچ پایایانہیں؟سیدناعمر(رضی اللہ عنہ)نے عرض کیا۔یارسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کاوعدہ سچاپایا۔کیاتم نے بھی اسے سچ پالیایانہیں؟
حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایاتم سے زیادہ مگرجواب نہیں دے سکتے۔"یہ گڑھاآج بھی دوزخ کی آگ سے بھڑک رہاہے۔یہاں شعلوں کی زبانیں دوردورتک لپکتی ہیں۔جیسے بھوکے اژدھے پھنکاررہے ہوں۔میدان وہی ہے مقام مقام وہی ہے پہاڑاورریگزاربھی وہی ہے۔شہداء اورکفارکی قبروں میں چندگزوں کافاصلہ توہے مگراحوال میں بہت لمبافاصلہ ہے ۔ایک طرف جنت نچھاورہورہی ہے نعمتیں ہیں۔نورہے،رحمتیں اوربخششیں بٹ رہی ہیں۔یہاں آنے والے بھی جھولیاں بھربھرکرلے جارہے ہیں۔ادھرچندگزدورگرمی ہے۔تپش ہے۔جنہم کے اژدھےہیں۔عذاب ہیں ایذائیں ہیں۔چیخ وپکارہے مگرکوئی فریادرس نہیں۔"یہ فاصلہ کیوں ہے؟"
"صرف اس لئے کہ اس فاصلہ کاتعین نہ زمین سے ہے نہ زبان سے،اس کاواسطہ ان تعلقات سے ہے جوان لوگوں کوحضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)سے نصیب تھے۔جن کے تعلقات آپ پراپنی جانیں نچھاورکیں مگرآپ سے اپنے عقیدت مندانہ تعلقات پرآنچ نہ آنے دی۔ان پراللہ تعالی کی جنتیں نچھاورہورہی ہیں مگرجنہوں نے اپنے باپ داداکی رسوم وروایات کوعزیزرکھا،ان پرجان دی،اب ان کی فریادسننے والاکوئی نہیں۔"جن کی فریاداللہ تعالی نہ سنے،ان کی بات کوکون سن سکتاہے؟یہ فاصلے تعلقات کے ہیں۔معاملات کےہیں واسطوں کے ہیں توکیاضروری نہیں ہم(حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم))سے اپنے تعلقات پرنظرثانی کریں۔
بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

شیطنت کادرخت:۔
وطن عزیزمیں شیطنت کادرخت بہت پھیل رہاہے۔اب تواس کی خاردارشاخیں گھروں کے اندرگھس رہی ہیں اگرروکانہ گياتوکسی کی عزت و آبرو یاجان و مال محفوظ نہیں رہے گابلکہ کس کاایمان بھی سلامت نہیں رہے گا۔جولوگ عمرکے آخری حصہ میں ہیں۔وہ توشایدایمان کی سلامتی کے ساتھ یہاں سے رخصت ہوجائیں۔ان کی اولاد اگربچ گئي توان کی اولادکی اولادنہیں بچ سکے گی۔اس کی لئے ضروری ہے کہ وہ لوگ جوصاحب ایمان اورمضبوط کردارکے ہیں حالات کوسمجھیں اوران کامقابلہ کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔اس وقت ہماری سیاست پوری طرح اس شجر خبیثہ کے سائے میں آچکی ہے۔وکالت،تجارت اورصحافت پربھی اس شجرخبیثہ کاسایہ پڑرہاہے۔تعلیمی اداروں پریہ منحوس سایہ درازہوتاجارہاہے علماء اورصوفیاء تواس کے سائے تلے آچکے ہیں۔یاان میں سے محدودے چندجوبچے ہیں وہ گوشہ نشین ہوکے بیٹھ گئے ہیں۔اگرحالات اسی دھارے پربہتے رہے توایک وقت ایسابھی آسکتاہے کہ ہیروئن کے سمگلراورکلاشنکوف کلچرکے نمائندے اسمبلیوں کے ممبرمنتخب ہوکرآجائیں اوروزیربن کرملک کی حکومت سنبھال لیں اورپھرشیطنت کے کڑوے کیسلے پھل زبردست ہمارے گلے سے نیچے اتاریں۔اگرچہ شیطنت کادرخت پھیلاہواہے مگرقرآن پاکے کے مطابق اس شجرخبیثہ کی جڑیں زمین کے اوپرہی اوپرہوتی ہیں۔گہری نہیں ہوتیں یعنی اس میں مضبوطی نہیں ہوتی۔اسےجلدی سے اکھاڑپھینکاجاسکتاہے۔لیکن اگرہم اسے اکھاڑپھینکنے کی کوشش ہی نہ کریں توپھراس کی جڑیں اورشاخیں پھیلتی ہی جائيں گی۔قوت ساری اللہ تعالی کے پاس ہے ۔شیطان کے پاس کوئی قوت نہیں صرف مکرکاجال ہے جوبہت کمزوراوربوداہےاس لئے اگراللہ والے اٹھ کھڑے ہوں توبہت جلدشیطان کے مکرکوتوڑسکتے ہیں۔کیادس کروڑکی آبادی میں دس ہزاربھی ایسے لوگ نہیں جن کی زندگی کامقصدصرف اللہ تعالی کی خوشنودی ہواورجواللہ کریم کے رحمت اورنصرت سے برائي سے بچے ہوئے ہیں ان لوگوں پریہ فرض عائدہوتاکہ آپس میں رابطہ قائم کریں اورشیطنت کے طوفان کی گھن گرج سے مرعوب ہوئے بغیرسیسہ پلائی دیوارکی ماننداس کے سامنے کھڑے ہوجائیں صرف تین باتوں کی ضرورت ہے۔
1- نیت صرف اللہ کریم کی خوشنودی ہو۔
2- اپنے اندر اعلی اخلاق یعنی سچائی، دیانتداری، انصاف پسندی وغیرہ ہوں۔اللہ کریم کے مقابلہ میں کسی اورکی خوشنودی کاخیال تک نہ آئے۔اپنی یااپنے کسی عزیزکی بےجارعایت نہ ہو۔
3- ضبط اورڈسپلن ضبط ہی سے افراد وقوم کومضبوطی حاصل ہوتی ہے۔ضبط کے بغیرفرد راکھ کاڈھیراورقوم تنکیوں کامجموعہ ہے۔ضبط ہے فرد مضبوط اورقوم ناقابل تسخیربنتی ہے صحابہ کرام رضوان اللہ میں یہ تینوں چیزیں تھیں اللہ سے مضبوط تعلق بھی تھا۔اعلی اخلاق بھی تھااورضبط بھی تھایہی وجہ ہے کہ انہوں نے نہایت قلیل مدت میں بڑی بڑی شیطانی قوتوں کے قلعے مسمارکردئیے۔

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

پاکستانی بھائی، اورمنصور(قیصرانی) بھائی،حوصلہ ا‌فزائی کابہت بہت شکریہ ۔



والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

جہاد وشہادت:۔
قرآن پاک میں ارشادہے(ترجمہ)"اورجواللہ(تعالی)کی راہ میں قتل ہوجائیں انہیں مردہ نہ کہوبلکہ وہ زندہ ہیں مگرتمہیں سمجھ نہیں"(154:2)"اورجواللہ(تعالی) کی راہ میں قتل ہوجائيں ان کے بارے میں یہ گمان نہ کروکہ وہ مرگئے (نہیں) بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس اور رزق پاتے ہیں اوراللہ(تعالی) نے انہیں اپنے فضل سے جوعطافرمایاہے اس پر(شاداں و) فرحاں ہیں۔"(170،169:3)
حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایا"اللہ تعالی کی راہ میں لڑنے والاایساہے جیساکہ روزہ رکھنے والاعبادت گزار،جوروزہ رکھنے اورنمازپڑھنے سے کبھی نہیں تھکتا۔جب تک وہ جہادسے واپس نہ آجائے"(بخاری ومسلم)
"جوشخص اللہ تعالی کی راہ میں یعنی جہاد میں زخمی ہوا، وہ قیامت کے دن اس حال میں آئيگاکہ اسکے زخم سے خون جاری ہوگا۔اس کارنگ خون کاساہوگامگراس کی خوشبوکستوری کی ہوگی"(بخاری و مسلم)" اللہ تعالی کی راہ میں ماراجاناہرگناہ کومٹادیتاہے،مگرقرض کونہیں"(مسلم)"حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے ارشادکے مطابق میں سب سے پہلے داخل ہونے والوں میں شہداء سرفہرست ہیں۔پھروہ جوحرام سے بچتے ہیں۔پھروہ غلام (یاخادم)جس نے اللہ تعالی کی عبادت بھی خوبی سے کی اوراپنے مالک کاخیرخواہ بھی رہا۔(ترمذی)جناب رسالت مآب(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایاجولوگ جہادمیں قتل ہوتے ہیں ان کی تین قسمیں ہیں۔
1- ایک تووہ مومن کامل ہے جواپنی جان اوراپنے مال سے اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرے اورشہیدہوجائے یہ شخص اللہ تعالی کے عرش کے نیچے اللہ تعالی کے خیمہ میں ہوگااورانبیاء صرف درجہ نبوت میں اس سے بڑھ کرہوں گے۔
2- دوسرا وہ مومن جس کے اعمال ملے جلے ہوں (کچھ اچھے کچھ برے) وہ دشمن سے مقابلہ میں شہیدہوجائے، اسکی شہادت اسکے گناہوں اورخطاؤں کومٹادیتی ہے وہ جس دروازے سے چاہے گاجنت میں چلاجائيگا۔
3- تیسرا وہ منافق جودشمن سے مقابلہ میں خوب لڑااورماراگیا۔یہ شخص دوزخ میں جائے گاکیونکہ تلوارنفاق کونہیں مٹاتی(دارمی)انصارکے قبیلے بنی عبدالاشھل کے فردعمروبن ثابت"اصیرم"مشہورتھے۔غزوہ احدسے پہلے تک اسلام نہیں لائے تھے۔احدکے دن باہرسے آئے تواپنے قبیلہ کے گھرخالی پائے۔پوچھاتومعلوم ہواکہ سب غزوہ کے لئے احدکی جانب جاچکے ہیں۔یہ بھی فوراانکے پیچھے میدان جنگ میں پہنچ گئے۔لڑائی جاری تھی۔اسلام قبول کیااورجنگ میں کودپڑے۔بے جگری سے لڑے اورشہیدہوگئے۔ حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایا"یقناوہ اہل جنت سے ہے"انکے قبیلہ کے لوگ ہمیشہ ان پرفخرکرتے تھے کہ انہوں نے سوائے جہادکے اورکوئی نیک عمل نہیں کیا(کوئی نماز نہیں پڑھی) اورجنت میں داخل ہوگئے۔

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

عاصم ملک

محفلین
پاکستانی بھائی آپ نے بالکل ٹھیک کہا جاوید بھائی واقعی آپ جو کام کر رہے ہیں ماشاءاللہ بہت اجر والا کام ہے، اللہ تعالی آپکی اس کام میں مدد فرمائے اور ہمیں ان تمام تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

اپنامحاسبہ:۔
حضرت پیران پیرسیدعبدالقادرجیلانی(رحمۃ اللہ)نے فرمایا۔"لوگو!اپنےمحاسبہ میں دیرنہ کرو۔آخرت سے پہلے اسی دنیامیں خودہی اپنامحاسبہ کرلو۔"جناب رسول پاک(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کاارشادگرامی ہےکہ اللہ تعالی اپنے پرہیزگاربندوں کے حساب سے شرماتے ہیں"یعنی وہ بندے جنہوں نے دنیامیں پرہیزگاری اختیارکی۔"پس دنیاکے تصرف میں پرہیزگاری اختیارکر،ورنہ آخرت میں ذلیل ہوگا۔دنیارآگ کاگھراوردرہم فکرکاگھرہے،خصوصاجب انہیں حرام طریقوں سے حاصل کیاجائے اورحرام طورپرخرچ کیاجائے۔"جوکچھ میں کہتاہوں'اس کی حقیقت تجھ پرقیامت کے روزواضح ہوجائيگی۔آج تو(دنیاکی محبت میں)اندھااوربہراہے۔
"حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کاارشادگرامی ہے۔کسی شے کی محبت تجھے اندھااوربہرابنادیتیہے۔"دنیاکی محبت دل سے نکال دے۔نفلی روزوں سے اپنے نفس کوضبط کاخوگربنا۔اپناظاہراورباطن اللہ تعالی کے سپردکردے۔وہی ہو،تونہ رہے۔(یعنی اپنی مرضی اللہ تعالی کی مرضی میں گم کردے)۔"دنیاعمل کاگھرہےآخرت اجرت اورعطاوبخشش کاگھرہے۔"بعض خاص الخاص بندوں کواسی دنیامیں عطاوبخشش سے نوازدیاجاتاہے۔(اپنی طرف اشارہ فرمارہے تھے)"بیٹا!زہداختیارکر۔دنیامیں آرام پائیگااورجوتیرانصیب ہے وہ بھی تجھے ضرورملتارہےگا،بلکہ باعزت باعظمت اورباکرامت ملے گا۔"نفسیاتی لذات اورحرص سے خوراک نہ کھا۔ایساکھانابندے اوراللہ تعالی کے درمیان حجاب بن جاتاہے۔مومن صرف اس لئے کھاتاہے تاکہ اسے اللہ تعالی کی اطاعت پرقوت حاصل ہو۔وہ شرع کی پابندی کے ساتھ کھاتاہے،نفسیاتی خواہش کے ساتھ نہیں کھاتا۔"تمہاری تخلیق ایک بہت بڑے امر کے لئے ہے مگرتمہیں اس کی خبرنہیں۔قرآن پاک کے الفاظ میں تمہیں عبث پیدانہیں کیاگیا"مخلوق تیرے نفس کاحجاب ہے نفس تیرے قلب کاحجاب ہے اورقلب تیرے باطن کاحجاب ہے۔جب تک تومخلوق کیساتھ ہے(ان کی پسندوناپسندپہ مرتاہے)نفس کونہ دیکھے گا۔اگرتومخلوق کی پسندوناپسندسے کنارہ کش ہوجائےتومجھے پتہ چلے کہ تیرانفس تیرااورتیرے رب کامخالف ہے۔ہمیشہ اپنےنفس کی مخالفت کرتاکہ اللہ تعالی سے موافقت پیداہو۔اب تیرے قلب اورباطن کے حجابات دورہونگے،انہیں وہ نظرآئيگا۔جوانہوں نے پہلے نہیں دیکھاتھا۔"عارف صرف اللہ تعالی سے واقف ہے ۔ وہ غیراللہ کوپہچانتاتک نہیں۔وہ اپنے رب کے ساتھ علم اورقدرکے میدان میں رہتاہے۔یہ لوگ ہمیشہ قرب کے خیموں میں فروکش ہیں۔جب حکم کی نوبت آئے توحکم کے صحن میں آجاتے ہیں اگرانہیں باہرنکل کرمخلوق خداکی راہبری کرنے کاکام سونپاجائے تودروازے پرآجاتے ہیں اورمخلوق کی باتیں سنتے اوران کی مددکرتےہیں۔

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

عاصم بھائی،واقعی بات ہے ان باتوں پرعمل کرنے کی علم کی اہمیت اس کے عمل پرکرنے پرہی ہے۔اللہ تعالی ہمیں نیک باتوں پرعمل کی ہمت عطافرمائے (آمین ثم آمین)



والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

تقوی:۔
عزت کامعیارتقوی ہے اورتقوی کی پہلی پہچان حق تعالی کی خشیت اورمحبت ہے،جس دل میں اللہ تعالی کی خشیت و محبت نہیں، وہ تقوی اورایمان سے خالی ہے۔تقوی کی دوسری پہچان حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کاادب و احترام ہے۔سورۃ الحجرات میں ارشادہے(ترجمہ)اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ لوگ جورسول اللہ کے سامنے ادب و احترام سے اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جنکے قلوب کواللہ تعالی نے تقوی کے جانچ لیاہے۔ان کے لیئے مغفرت اوراجرعظیم ہے۔(آيہ3)جنتاحضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کاادب اتناہی دل میں تقوی اورجتناتقوی اتنی اللہ تعالی کے ہاں تکریم، اس کے برعکس جودل حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کے ادب سے خالی ہے ہو تقوی سے بھی خالی ہے۔اورایسے شخص کی اللہ تعالی کے ہاں کوئی عزت نہیں۔ پراپیگنڈے پر نہیں جاناچاہیے، شخصیتوں کوخود مندرجہ صدرمعیاروں پرپرکھ لیناچاہیے۔اللہ تعالی نے فرمایاکہ شرک معاف نہیں ہوگا باقی جس کوجوگناہ اللہ تعالی چاہیں معاف فرمادیں گے،اس لئے شرک کے ظاہر اورباطن سے بچناچاہیے اورشرک یہ ہے کہ اللہ تعالی کی ذات اور صفات میں کسی اورکوان کے برابر سمجھاجائے۔بعض لوگ بغیرسوچے سمجھے ہربات کوشرک بنا لیتے ہیں۔ شرک ظلم عظیم ہے۔ بغیرسوچے سمجھے یونہی کسی پرشرک کاالزام لگانابھی ظلم ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی شان میں گستاخی سے سارے اعمال ضا‏ئع ہونے کاخدشہ ہے۔(49-2)اس سے آنجناب(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کاپورا ادب و احترام ملحوظ رکھناچاہیے۔"بدازخدابزرگ توئي قصہ مختصر!"اب ہم ان اعمال کاذکرکرتے ہیں جن سے تقوی پیداہوتاہے۔یادرہے کہ ایمان تقوی کی شرط اول ہے ظاہرہے کہ اللہ تعالی اورجناب رسول پاک(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پرایمان نہ ہوتوان سے محبت و ادب کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔سورۃ البقرہ میں فرمایااے لوگو!اپنے رب کی عبادت کروجس نے تمہیں اورتم سے پہلے لوگوں کوتخلیق فرمایا تاکہ تمہارے اندر تقوی پیداہو(آیہ21)اگرکوئي شخص چاہتاہے کہ اس کے اندرتقوی پیداہوتواسے چاہیے کہ وہ عبادت کے ذریعہ اللہ تعالی سے اپناتعلق مضبوط کرے اوراللہ تعالی کارنگ اپنائے تاکہ اس کے اندر اعلی ذوق پیدا ہو۔ اچھے کام اس کی طبیعت کاجزو بن جائیں برے خیالات بری باتوں اوربرے کاموں سے اسے طبعانفرت ہوجائے اسی ورہ میں آگے چل کر فرمایا(ترجمہ)اے وہ لوگوجوایمان لائے ہو تم پرروزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پرفرض کئے گئے تھے تاکہ تمہارے اندر تقوی پیداہو(آيہ183)روزوں کے اس رکوع کے آخرمیں پھرفرمایااس طرح اللہ تعالی(روزوں کے بارہ میں) اپنی آیات وضاحت سے بیان فرماتے ہیں تاکہ تمہارے اندر تقوی پیدا ہو انسان کے اندر ایک تواللہ تعالی کی روح میں سے پھونکی ہوئی روح ہے جوایک نورانی چراغ ہے،دوسری طرف اس کے اندر نفس ہے جو حیوانی جبلتوں کامخزن ہے۔

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
غنا:۔
حضرت پیرپیران فرماتے ہیں۔"غناوہی ہے جو اللہ تعالی کے ساتھ غنا ہو اورمحتاجی اللہ تعالی سے دوری ہے ۔ غنا یہ ہے کہ اللہ تعالی کے قرب میں ظفریاب ہو، اورمحتاجی یہ ہے کہ اللہ تعالی کو چھوڑکربندوں کے پیچھے بھاگے اگرتویہ غناچاہتاہے تو اللہ تعالی کے سوائے ہر شے کو اپنے دل سے نکال دے۔دینوی مال متاح کے پھندے میں نہ پڑے،یہ تو اللہ تعالی کی طرف سفر کرنے کے لئے زاد راہ ہے ۔سب نعمتوں کو اسی طرف نسبت کرو۔سمجھوکہ ہرنعمت اسی نے عطا فرمائی ہے اور پھرانکے ذریعہ اس کے قرب کاراستہ تلاش کروعلم اسلئے ہے تاکہ اس پر عمل کرو۔اوراسکے نور سے ہدایت پاؤ۔ اگرنجات چاہتے ہو تو اپنے نفس کے خلاف کرو اوراپنے اللہ تعالی سے موافقت کرو۔خلقت کی پہچان بن حجاب ہے اورخلقت اللہ تعالی کی معرفت میں حجاب ہے،جب تک دنیا کے ساتھ ہے آخرت کونہیں پہنچانے گا، خالق و مخلوق ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے۔"نفس بدی کا امر کرینوالاہے۔یہی اسکی عادت ہے ۔ اپنے نفس کو مجاہدہ سے گلادے۔ یہاں تک وہ قلب کے ساتھ مطمئن ہوجائے۔اپنے نفس کوحضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کایہ ارشاد گرامی سنا کہ صبح ہوتواپنے نفس سے شام کی بات نہ اورشام ہو تواپنے نفس سے صبح کی بات نہ کر،کیونکہ توجانتاہےکل تیرانام کیاہوگا۔(سعیدیاشقی؟)"مجاہدہ اورعمل ضروری ہے ۔تیرااپناعمل ہی تیرے لیئے مفیدثابت ہوگا یاتیرے لئے وبال بنے گا۔ کوئی اپنے عمل سے تجھے کچھ نہیں دے گا۔ تیرا دوست وہی ہے جو تجھے برائی سے روکے اور تیرا دشمن وہی ہے جو تجھے راہ راست سے بہکائے۔"منافق!ریاکار!اپنے عمل پر نازکرینوالے!تجھ پر افسوس علم کی طلب میں اپنی عمرضائع کرتاہے مگر اس پر عمل نہیں کرتا۔اس سے اللہ تعالی کے دشمنوں کی خدمت کرتاہے،گویاانہیں اللہ تعالی کاشریک بناتاہے،اللہ تعالی تجھ سے اورتیرے شریکوں سے غنی ہے۔ دنیا ساری حکمت اورعمل ہے آخرت ساری قدرت ہے۔دنیاکی بنا پرحکمت ہے۔حکمت کے گھرمیں عمل نہ چھوڑ،تقدیرکاغدرکاہلوں کی حجت ہے تجھ پر افسوس!تیرے بدن کے اعضاء گناہوں اورنجاستوں سے آلودہ ہیں تو ظاہری نجاستوں سے پاک نہیں اورقلب کی طہارت کامدعی ہے۔ نادان! کتابوں کادفتر چھوڑکرمیرے پاس آجا۔علم مردان خدا کی زبان سے حاصل ہوتاہے۔ کتابوں کے دفترسے حاصل نہیں ہوتا۔حال سے ملتاہےقال سے نہیں ملتا،علم ان لوگوں سے ملتاہے جومخلوق سے فانی اوراللہ تعالی کے ساتھ باقی ہیں۔"صدق اوراخلاص اور خوف خداایسے خزانے ہیں جو کبھی فنانہیں ہونگے۔ صرف اللہ تعالی سے امیدرکھو اورسب احوال میں صرف اسی طرف رجوع کرو،ایمان کو قائم رکھ۔وہ تجھے اللہ تعالی سے واصل کردیگااپنے آپ کو اعمال اور احوال (روحانی کیفیات) پرناز کرنے سے بچا!

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 
Top