سید شہزاد ناصر
محفلین
یہ بات دسمبر ۲۰۰۳ کی ہے جب ہم چار دوستوں نے فیصلہ کیا بلاول شاہ نورانی کے مزار کا سفر کیا جائے۔ مزار پر جانے کی بنیادی وجوہات اس علاقے کے رسم و رواج کا مطالعہ، زرعئی دور کا مشاہدہ اور پہاڑوں پر چند تفریحی لمحات گذارنا تھیں۔ وگرنہ ہم چاروں میں سے کسی کا بھی مزار پر منت مانگنے یا چڑھاوے چڑھانے کا ارادہ نہیں تھا۔
سفر کی ابتدا
ہم چارو ں دوستوں میں سلمان شاہد، سیماب قدیر ، شاہنواز اور میں یعنی محمد عقیل شامل تھے۔ سفر کے لئے ہم نے کچھ کپڑے اور سفری سامان رکھ لیا۔ چونکہ دسمبر کے دن تھے لہٰذا ایک چمڑے کی جیکٹ بھی ساتھ لے لی۔ پھر ۲۸ دسمبر کی صبح لی مارکیٹ پہنچ گئے جہاں نورانی جانے کے لئے ایک بس تیار تھی۔ اس بس کی ٹوٹی پھوٹی شکل بتا رہی تھی کہ واقعی وہ نورانی کا ایک وسیع تجربہ رکھتی ہے۔
درو دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا
بہرحال مفر کا کوئی راستہ نہ تھا چنانچہ ہم چاروں بس کی پچھلی سیٹوں پر براجمان ہوگئے۔ ان سیٹوں پر آٹے ، دال اور چینی کے بڑے بڑے بورے رکھے ہوئے تھے۔ ۔ بس کے ماحول جب جائزہ لیا تو تمام ہی مسافر غریب طبقے سے تعلق رکھتے نظر آئے۔ اندر ایک شور بپاتھا اور وقفے وقفے سے کوئی مست بابا نعرہ لگاتا” بولو بولو بولو جئے شاہ”۔ سب اس کا جواب دیتے ” جبل میں شاہ”۔ ۔ کبھی کوئی من چلا آواز لگاتا ” نورانی نور ہے ہر بلا دور ہے” اور لوگ اس دھن میں مست ہوکر جھومنے لگتے۔میں وہاں بیٹھا سب سن تو رہا تھا لیکن میرا ذہن نورانی کی تاریخ میں کھویا ہوا تھا
حضرت بلاول شاہ نورانی کی تاریخ
نورانی کا علاقہ کراچی سےقریب ۱۲۰ کلومیٹر دور بلوچستان کے ضلع خضدارمیں واقع ہے۔ یہ مقام چاروں اطراف پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔یہاں حضرت بلاول شاہ نورانی کا پانچ سو سالہ پرانامزار اس مقام کی وجہ شہرت ہے۔ حضرت بلاول شاہ نورانی کے بارے میں کچھ زیادہ تفصیلات مستند ذرائع سے نہیں ملتیں البتہ ان کے بارے میں ڈیلی ٹائمز اخبار [اشاعت ۱۷ اکتوبر، ۲۰۰۸]میں سلمان راشد صاحب نے ایک آرٹیکل لکھا ہے جس سے کچھ مستند معلومات تک رسائی ہوتی ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق سن ۱۹۰۷ ءکے لسبیلہ ڈسٹرکٹ کے گزٹ میں بلاول شاہ نوارانی کا ذکر ملتا ہے۔ وہ ۱۴۹۵ میں سندھ سے اس مقام پر تشریف لائے اور گوکل نامی ایک ہندوسیٹھ کے باغ میں قیام کیا۔
جبکہ حضرت نورانی کے بارے میں ایک اور قدیم ذریعہ تحفتہ الکرام ہے جو ٹھٹہ میں ۱۷۶۷ ء میں لکھی گئی۔ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ شاہ نورانی اپنے علاقے کے ایک مجذوب شخص تھے اور اسی جنوں کی بنا پر علاقے کے لوگوں نے انہیں ولی ماننا شروع کیا اور ان سے منتیں اور مرادیں ماننے لگے۔ روایات کے مطابق گوکل نامی ہندو سیٹھ نے انہیں پناہ دی اور ان کا خیال رکھا۔ گوکل کے مرنے کے بعد بلاول شاہ نورانی وہیں مقیم رہے اور ان کے انتقال کے بعد وہیں انکی تدفین ہوئی۔
ان مستند معلومات کے علاوہ باقی بے شمار کہانیاں حضرت نورانی بابا سے منسوب کی جاتی ہیں۔ ایک مشہورروایت یہ ہے کہ بلوچستان کے اس مقام پر ایک ظالم دیو گوکل کی حکومت تھی اور لوگ اس سے تنگ تھے۔ ان لوگوں نے اللہ سے دعا کی تو ایک نورانی صورت بزرگ تشریف لائے جنہوں نے اس دیو کو شکست دے کر لوگوں کو اس کے ظلم سے آزاد کروایا۔
چرس
میرے ذہن میں ابھی تاریخ چل ہی رہی تھی کہ بس سفر کا آغاز کرنے لگی۔ میں نے اور سیماب نے سفر کی دعا پڑھ لی ۔یہ سفر کی دعا کوئی منتر نہیں کہ اس کے دہرالینے سے سفر کے تمام مسائل حل ہوجائیں۔ اس کا مقصد سفر میں خدا کو شریک سفر کرنا اپنے عجز کا اظہار کرنا اور آخرت کے سفر میں خدا سے ملاقات کا اعادہ کرنا ہے۔
بس کراچی کی مضافاتی حدود میں داخل ہوگئی۔راستہ ہمدرد یونی ورسٹی کے روڈ سے گذرتا تھا جو اس وقت کچا اور دشوار تھا۔ہمدرد یونی ورسٹی سے پہلے بس نورانی ہوٹل پر لنچ کے لئے رکی۔ یہاں ہم نے نماز پڑھنے کا ارادہ کیا ۔ میں نے ایک شخص سے باتھ روم کی بابت دریافت کیا تو اس نے لوٹا تھما کر جنگل کی جانب اشارہ کردیا ۔ یہ غیر تمدنی زندگی کی ابتدا کی علامت تھی ۔ یوں مجھے باتھ روم کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔بلکہ کسی صاحب نے یہ بتایا کہ انسانی تمدن میں سب سے اہم پیش رفت سیوریج لائن کے ذریعے ہی ہوئی ہے۔ بہر حال نماز پڑھی اور کھانا کھایا۔ سفر کی دوبارہ ابتدا ہوئی تو ارد گرد کالے اور مٹیالے پہاڑوں کو سلسہ شروع ہوگیا۔اس قسم کے پہاڑ میرے لئے نئے تھے کیونکہ میں کشمیر، سوات اور کا غان وغیرہ کے سبزے سے ڈھکے پہاڑ دیکھنے کا عادی تھا۔ آس پاس کا علاقہ میدانی تھا البتہ کہیں کہیں جھاڑیا ں اور اجڑے ہوئے درخت نظر آرہے تھے۔ شام کا سورج اپنی آخری کرنیں بکھیرتا ہو ا رخصت ہورہا تھا ۔ کالے پہاڑ مزید سیاہ ہوتے جارہے تھے۔ میں خدا کی خلاقی کے ساتھ ہی اسکی بے نیازی کو بھی دیکھ رہا تھا ۔ اتنے عظیم پہاڑ، وسیع آسمان، عریض زمین اور خوبصورت مناظر اللہ تعالیٰ نے پیدا کردئے اس بات سے قطع نظر کہ کوئی دیکھے یا نہ دیکھے ، کوئی تعریف کرے یا نہ کرے۔مجھے خیال آیا کہ کہ اللہ تو اپنی ذات میں غنی ہیں انہیں دوسروں کی کوئی ضرورت نہیں حتیٰ کہ تعریف کے لئے بھی ۔ انہی خیالات میں گم تھا کہ اچانک بس کی چھت پر سے ایک شخص اترا ۔ ا س کے ہاتھ میں ایک تھیلی تھی ۔اس نے چورن بیچنے والوں کی طرح آواز لگائی” چرس لے لو، چرس لے لو”۔ میں بھونچکا رہ گیا ۔زندگی میں پہلی بار چرس کو دیکھا اور جس شان سے دیکھا اس کی توقع نہ تھی۔ چرس یا دیگر نشہ آور اشیاء انسان سکون کے لئے استعمال کرتا ہے لیکن بد قسمتی سے اس کا رہا سہا سکون بھی غارت ہو جاتا ہے۔
اندھیرا بڑھتا جارہا تھا اور مناظر نگاہوں سے اوجھل ہو رہے تھے۔ جب بس کے اندر نگاہ ڈالی تو وہاں بھی خموشی ہوچکی تھی۔ کوئی اونگھ رہا تھاتو کوئی خلائوں میں گھور کر وقت کاٹ رہا تھا۔ایک بوڑھا شخص جو سارے راستے جئے شاہ کے نعرے لگاتا رہا وہ بھی مضمحل قویٰ کے ساتھ چپ ہو کر بیٹھ گیا تھا۔ اسی طرح بس ہچکولے لیتی رہی ۔ یہاں تک کہ منزل آگئی۔ اس وقت رات کے سات بج رہے تھے چونکہ سردیوں کے دن تھے لہٰذا سورج غروب ہوئے دو گھنٹے سے زائد ہوچکے تھے۔ البتہ سردی بالکل نہ تھی ۔اردگرد کا ماحول تاریکی کی وجہ سے مشاہدے کا قابل نہیں تھا۔ البتہ کچھ جانوروں کے چلنے کی آوازیں آرہی تھیں اور زمین پر چلنے سے اندازہ ہورہا تھا کہ سطح ہموار نہیں ہے۔
محبت فقیر
نماز پڑھنے کے کے لئے ایک مسجد تلاش کی جو ویران پڑی ہوئی تھی۔ مسجد سے کچھ فاصلے پر محبت فقیر صاحب کا مزار تھا۔ یہ صاحب مشہورروایات کے مطابق نورانی بابا کے خاص مرید اور خادم تھے۔اور آپ بابا کے پاس آنے والے زائرین کی خاص خدمت کرتے تھے۔ چنانچہ آپ کا مزار زائرین کے لئے پہلی سلامی کا مقام سمجھا جاتا ہے۔
رات گذارنے کے لئے ایک ہوٹل کا قصد کیا ۔وہاں ہوٹل کی چھت چھپراور فرش چٹائیوں کا بنا ہو تھا اور ان ہوٹلوں کا کوئی کرایہ نہ تھا بس لحافوں اور گدوں کی معمولی سی قیمت تھی۔ بہر حال سامان رکھ کر ہم چاروں دوست باہر چہل قدمی کے لئے نکلے۔آسمان تاروں سے پر تھا اور چاند ابتدائی مراحل میں ہونے کے باوجود بہت پرکشش لگ رہا تھا۔ارد گرد گھاس چرتے ہوئے گدھے، گھنٹیاں بجاتے اونٹ اور مٹر گشت کرتے ہوئے گائے بیل اور جگالی کرتی بھیڑ بکریاں سب ہزاروں سال پرانے زرعئی معاشرے کی یاد دلا رہے تھے۔
گدھوں کی دوڑ
رات کو سونے سے قبل کچھ حضرات تاش کی بازی جمانے بیٹھ گئے۔ہم میں سے ایک صاحب سانپوں سے بہت ڈرتے تھے۔ انکی نگاہیں مسلسل ناہموار زمین اور دیوار کے ان سوراخوں کی جانب تھیں جہاں سے انہیں کیڑوں مکوڑوں کی متوقع یلغار کا اندیشہ تھا۔بہرحال ان سے رہا نہ گیا اور ایک مقامی بلوچ سے پوچھ ہی بیٹھے۔” جناب یہاں سانپ وغیرہ بھی ہوتے ہیں یا نہیں”۔
وہ حضرت مسکرائے اور جواب دیا۔”ہوتے تو ہیں لیکن یہ اسی کو کاٹتے ہیں جن کو کاٹنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہوتا ہے”۔
میں اس غیر تعلیم یافتہ بلوچ کی عارفانہ بات پر حیران رہ گیا۔ انسان کی فطرت میں اللہ کی وحدانیت خوب گھول کر ڈالی گئی ہے اور زمانے کی ستم ظریفیو ں کے باوجود اس توحید کی بازگشت سنائی دیتی رہتی ہے۔
جب رات کافی ہو گئی تو سب نے سونے کی ٹھانی لیکن نیند تھی کے آکے نہیں دے رہی تھی۔ ابھی پلک کچھ جھپکی ہی تھی کہ شور کی آواز آئی۔ سب ہڑ بڑا کر اٹھ گئے۔ دیکھا تو چند گدھے بگٹٹ دوڑتے ہوئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہے تھے۔ہم سب نے اس حیوانی ریس پر تبرّا بھیجا۔ لیکن دائیں جانب دیکھا تو چاند دو پہاڑیوں کے درمیان موجود تھا۔ اس مسحور کن منظر نے گدھو ں کی ناشائستہ میزبانی کی تلافی کردی۔
صبح آنکھ کھلی تو دنیا بدل چکی تھی۔ارد د گرد عظیم الشان پہاڑ ، دیو ہیکل دراڑیں، ایستادہ پتھر اور غاریں خدا کی صناعی کا اظہار کررہی تھیں۔یہ سب مل کر اس ماحول میں بھی اپنے رب کی پاکی بیان کررہے تھے کہ اللہ پاک ہے اس بات سےکہ کوئی اس کا شریک ہو، ساجھی ہو، مددگار ہو۔
مقامی لوگوں کو بھی کو اجالے میں دیکھنے کا اتفاق ہوا جو پہلی نظر میں سادہ فطرت، محنتی لیکن غیر تعلیم یافتہ اور غریب نظر آئے۔ اسی غربت کی بنا پر ان کے بچے بھیک مانگ رہے تھے۔
حضرت نورانی شاہ کا مزار
محبت فقیر کے ڈیرے سے اگلی منزل نورانی شاہ باباکا مزار تھا۔ مزار تک پہنچنے کے کئی طریقے تھے ۔ایک اونٹ کی سواری، دوسرا کیکڑے کی سواری اور تیسرا پیدل مارچ۔ کیکڑےسے مراد ایک بڑی اور قدیم سی جیپ تھی۔ بہرحال ہم سب اپنی دانست میں جوان ہی تھے لہٰذا پیدل ہی کا قصد کیا۔
قریب ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ایک جگہ پہنچے جو “علی کا قدم ” کے نام سے مشہور ہے۔یہاں ایک بڑا سا قدم بنا ہے جسکے بارے میں مشہور ہے کہ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قدم ہے۔کچھ اور آگے بڑھے تو ایک درگاہ نما جگہ پر بڑا سا پتھر رکھا دیکھا جس میں شگاف تھا۔ دریافت کرنے پر لوگوں نے بتایا کہ نورانی بابا نے اس پتھر پر اپنی مسواک ماری تھی جس کی وجہ سے یہ ٹوٹ گیا۔
یہ سب سن کر شاہنواز نے کہا ” زمانہ قدیم سے لے کر آج تک بگڑے ہوئے مذہبی لوگوں نے عوام کو انہی مافوق الفطرت داستانوں سے بے وقوف بنایا اور ان کا استحصال کیا ہے”۔
ایک چشمہ بھی راستے میں آیا لیکن اس کا پانی کثرت استعمال کی بنا پر گدلا ہوچکا تھا۔ اس سے علم ہو ا کہ محض عقید ت سے کام نہیں چلتا، دنیا میں ترقی کے لئے مادی قوانین کو بروئے کار لانا لازم ہے۔ بالآخر مزار آہی گیا۔ مزار چاروں اطراف پہاڑوں سے گھرا ہو تھا۔اسکے دروازے کے باہر بڑی تعداد میں پھول اور چادر بیچنے والوں کی دوکانیں تھیں۔ اس مزار کا منظر کچھ یوں ہے کہ اردگرد صوفیانہ کلام گانے والے اور سازندے بیٹھے ہیں۔ ایک جگہ دھمال کے لئے مختص کردی گئی ہے۔ستار پر ایک لوک دھن سنائی جارہی ہے ۔ کچھ ہی دور ایک ملنگ اپنے ہاتھ میں رسی باندھ کر بیٹھا خلائوں میں گھور رہا ہے۔یہ رسی اس بات کی علامت ہے کہ وہ نورانی بابا کا غلام ہے۔البتہ مزار کے ارد گرد گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔
بہر حال میں اور سلمان مزار کے اندر داخل ہوئے۔ قبر ایک سبز رنگ کی چادر میں لپٹی ہوئی تھی اور اسکے سرہانے پر ایک تاج موجود تھا جبکہ کتبے پر ایک برائون رنگ کا عمامہ باندھ دیا گیا تھا۔ اندر کا منظر عام مزاروں جیسا ہی تھا۔ کچھ عورتیں جالیوں سے لپٹی رو رہی ےتھیں۔قبر کے ارد گرد چند مرد زائرین قبر کو بوسہ دے رہے تھے۔
مزاروں کی حیثیت
سلمان نے مجھ سےپوچھا کہ” لوگ مزاروں پر آکر کیوں اپنی مرادیں مانگتے اور دعا کرتے نظر آتے ہیں؟”۔
میں نے بتایا “لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صاحب قبر اللہ کے برگزیدہ بندےہیں اور یہ ہماری درخواست اللہ تک پہنچانے میں ہماری مدد کریں گے۔”
” کیا اس طرح کی کوئی ہدایت قرآن مجید ، سنت نبوی یا آثار صحابہ میں بیان ہوئی ہے کہ صاحب قبر سے اس طرح کی درخواست کی جاسکتی ہے؟” سلمان نے استفسار کیا۔
میں نے کہا ” نہیں ۔ بلکہ قرآن میں تو اللہ تعالیٰ سے براہ راست مانگنے کی تاکید کی گئی ہے۔ سنت نبوی کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کی قبر پر جاکر دعا کروانے کی تعلیم نہیں دی بلکہ آپ نے تو ہمیشہ لوگوں کو خوداپنی قبر کو مسجد بنانے سے روکا”۔
اتنی دیر میں سیماب اور شاہنواز بھی اکر ہماری گفتگو میں شامل ہوگئے۔
شاہنواز نے دریافت کیا “کیا مرے ہوئے لوگوں سے مدد طلب کرنے کا شرک سے کوئی تعلق ہے؟”۔
سیماب نے جواب دیا ” ہاں۔ “پھر اس نے بخاری کا یہ اثر سنا دیا۔
” قوم نوح میں ود ، سواع، یعوق اور نصر نامی جو بت تھے وہ سب قوم نوح کے نیک لوگوں کے نام تھے جب ان نیک لوگوں نے وفات پائی تو شیطان نے ان کی قوم کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ ان کے بیٹھنے کی جگہ پر ان کے بت نصب کردیں اور ان بتوں کا نام ان (بزرگوں) کے نام پر رکھ دیں چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا لیکن ان کی عبادت شروع نہ کی ۔یہاں تک کہ جب بتوں کو بنوانے والے لوگ بھی مر گئے اور اس کا علم جاتا رہا تو ان بتوں کی عبادت کی جانے لگی۔ [صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2034 ]”۔
” گویا ابتدا میں میں جن لوگوں نے بت نصب کئے ان کا مقصد نیک لوگوں کو خراج تحسین پیش کرنا تھا لیکن بعد میں ان بتوں کی عبادت شروع ہوگئی۔اسی طرح کچھ لوگوں نے مزارات ان نیک بندوں کو داد رتحسین دینے کے لئے بنوائے لیکن علم کی کمی کی بنا پر انہی مزاروں کی پرستش شروع ہوگئی”۔ سیماب نے اپنا طویل خطاب بالآخر ختم کیا۔
“آخر مزاروں سے روکا کیوں جاتا ہے ۔ ہم یہاں پر آکر فاتحہ کرتے اور اللہ سے مدد کی درخواست ہی تو کرتے ہیں؟ اور جب اللہ کے بندوں کو شفا ہوتی ہے جب ہی تو وہ ادھر کا رخ کرتے ہیں” سلمان نے پھر گفتگو کو آگے بڑھایا۔
” اللہ کے بندوں کو شفا تو بتوں سے مانگ کر بھی ہوتی ہے تو کیا بت پرستی جائز ہوجائے گی”۔ سیماب نے جواب دیا۔
“لیکن یہ بزرگان دین تو اللہ کے ولی ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ولی شہید کی طرح زندہ ہوتا ہے اور اسے کبھی موت نہیں آتی”۔ اس بار شاہنواز نے مداخلت کی۔
” یقینی طور پر شہید کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں زندہ کہا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اسکی زندگی کا تمہیں اس کا شعور نہیں” سیماب نے پھر اس کا جواب دیا۔
” تو کیا مرنے کے بعد کوئی انسان رابطے میں نہیں رہتا ؟” شاہنواز نے پھر پوچھا۔
اس کے جواب میں سیماب نے کہا “نہیں۔ بلکہ اگر کسی ولی کو زندہ سمجھ کر اس سے مدد کی درخواست کی جاسکتی یا اس سے رابطہ قائم کرکے زندگی کے مسئلوں پر راہنمائی لینا ممکن ہوتا تو اس کا سب سے اچھا موقع تو وہ تھا جب حضرت عائشہ اور حضرت علی رضی اللہ عنھمامیں ایک غلط فہمی کی بنا پر جنگ ہوگئی۔ آخر کیوں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر سے رجوع کرکے حقیقت معلوم نہیں کی۔ یا اس کی ضرورت حضرت امیرمعاویہ اور حضرت علی رضی اللہ عنھما کے اختلافات، حضرت حسن اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنھماکے درمیان رنجش اور آخر میں حضرت حسین و یزید کی لڑائی کے وقت بھی تھی جب شدید کنفیوژن کے باوجود کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر سے نہ تو رجوع کیا اور نہ حل معلوم کیا”۔ ۔ سیماب کی بات پرسب کچھ دیر کے لئے خاموش ہوگئے اور ایک لمحے کے لئے اپنے ذہن کی کنفیوژن کو دور کرنے کی کوشش کرنے لگے۔
میں نے اس گفتگو کا خلاصہ کیا “ہمارے ہاں مزاروں سے متعلق تین مکاتب فکر پائے جاتے ہیں ۔ ایک طبقہ ان مزارات کی زیارت کو درست سمجھتا اور صاحب قبر کو زندہ مان کر ان سےدعا کراتا ہے۔ دوسرا طبقہ مزارات کی تعمیرو زیارت اور دعا کرانے کو شرک سے تعبیر کرتا ہے اور ان کے مرتکب حضرات کو مشرک قرار دیتا ہے۔ ایک تیسر اگروہ ان دونوں انتہائوں کے درمیان موجود ہے۔ یہ طبقہ مزارات کی تعمیر اور زیارت کو غلط اقدام اور اور بدعت مانتا ہے۔ اسی طرح یہ گروہ صاحب قبر کی حیات کو برزخ کی زندگی سے تعبیر کرتا اور ان کے ذریعے دعا یا سفارش کو توحید کے منافی قرار دیتا ہے۔ لیکن یہ معتدل گروہ صاحب مزار کی توہین سے گریزکرتا، مزارات کے حامی افراد کو مشرک کہنے سے احتراز برتتا ، ان کی غلطی پر ہمدردی اور نرمی سے تنبیہ کرتا اور انکی بدعات کو غلط فہمی کا شاخسانہ قرار دیتا ہے۔ لیکن ان تینوں گروپوں میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک علمی طور پر شرک کو سب سے بڑی اور ناقابل معافی گمراہی قرار دیتا ہے”۔
اس بحث کے بعد میں نے مزار سے متصل مسجد میں نماز پڑھی اور اللہ کی وحدانیت کی گواہی دینے لگا کہ اللہ آپ اکیلے ہیں ، یکتا، یگانہ۔ آپ خالق باقی سب مخلوق، آپ حاکم، باقی محکوم، آپ جس کو چاہیں اولاد دیتے ہیں اور جسے چاہی محروم رکھتے ہین۔آپ بادشا ہ ہیں جو چاہیں کریں، کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی ہاتھ روکنے والا نہیں۔
پریوں کا تالاب
مزار سے اگلی منزل کے لئے روانہ ہوئے۔ ہمارا اگلا پڑائو “لاہوت لامکاں “تھا لیکن اس سے پہلےابھی کئی طلسماتی کہانیوں سے گذرنا تھا۔انہی میں سے ایک داستان پریوں کا تالاب تھا جہاں ہم ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد پہنچ چکے تھے۔چاروں اور پہاڑ وں میں گھری ایک چھوٹی سی وادی تھی جس کے بیچوں بیچ ایک چشمہ ابل رہا تھا۔پانی نسبتا شفاف تھا۔اردگرد تھوڑا بہت سبزہ بھی تھا جس سے تالاب کافی خوبصورت معلوم ہونے ہی والا تھا کہ اچانک پریوں کے تالاب پر ایک شریر جن کی کارستانی نظر آئی جو یہاں پر غلاظت ڈال کر فرار ہوگیا تھا۔
سامنے پہاڑ پر قریب پندرہ فٹ کی بلندی پر ایک غار دکھائی دیا۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ لطیف جی کھوئی کے نام سے مشہور ہے اور روایات کے مطابق شاہ عبدلطیف بھٹائی نے یہاں بیٹھ کر چلہ کشی کی تھی۔ سلمان ، سیماب اور شاہنواز نے اس غار میں داخل ہونے کی ٹھانی۔ پہلے شاہنواز اوپر چڑھا اور اندر کچھ پتھر پھینکے تاکہ کوئی جانور اندر ہو تو وہ باہر آجائے ۔جب کوئی خطرہ محسوس نہ ہوا تو وہ اندر داخل ہوگیا۔ اسی کی تقلید میں دیگر ساتھی بھی پہنچ گئے۔ غار کوئی چھ فٹ لمبا اور چار فٹ اونچا تھا۔وہاں لکڑیاں جلی ہوئی پڑی تھیں جو اس بات کی علامت تھی کہ کسی نے یہاں کھانا پکانے کی کوشش کی ہے۔کچھ دیر بعد وہاں سے واپس آئے تو ایک عجیب و غریب شخص نظر آیا۔ اس نےاحرام باندھا ہوا تھا اور ساتھ ہی وہ برہنہ پا بھی تھا۔لوگوں نے بتایا کہ کچھ لوگ جنہیں “ذکری “کہا جاتا ہے وہ اس مقام پر حج کرنے آتے ہیں۔ اسے دیکھ کر بہت افسوس ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک سیدھا راستہ اور واضح شریعت عطا کی لیکن انسان ہے کہ خدا کے بنائے ہوئے دین کے مزید ایڈیشن نکالنے میں مصروف ہے۔اس کی بنیادی وجہ خواہشات کی پیروی اور شارٹ کٹ کی تلاش ہے۔بہر حال یہ بدعت حج کو مکہ سے اٹھا کر بلوچستان لے آئی تھی۔
دھوپ خاصی تیز تھی اور آنتیں بھوک سے تڑپ رہی تھیں، لیکن سفر لمبا اور دشوار تھا چنانچہ چند بسکٹ اور پانی پر ہی گذاراکیا۔لاہوت لامکاں جانے کے لئے ہمیں مائی جو گوٹھ سے گذرنا تھا۔وہاں پہنچنے کے دو رستے تھے ایک تو پیچھے پلٹ کر مزید ایک گھنٹے کی مسافت طے کرکے منزل تک پہنچنا تھا ۔ دوسرا راستہ شارٹ کٹ مگر پرخطر تھا کیونکہ اس کو طے کرنے کے لئے ایک بلند اور پر خطر پہاڑ پر چڑ ھ کر دوسری سمت اترنا تھا۔ ہمارے گروپ لیڈر سلمان نے بد قسمتی سےشارٹ کٹ راستہ اختیار کرلیا۔مقامی لوگوں نے بتا دیا تھا کہ صحیح راہ پر قائم رہنے کے لئے چونے کے نشان زدہ پتھروں والی پگڈنڈی پر چلنا ضروری ہے۔اللہ کا نام لے کر چلنا شروع کیا ۔ پہاڑ توقع سے زیادہ عمودی اور مشکل ثابت ہوا۔ چنانچہ ہم لوگ ہر دو قدم بعد رکتے، سانس بحال کر تے اور پھر سفر شروع کرتے۔
جوں جوں ہم اوپر پہنچے تو حبس بڑھتا گیا اور سانس لینا دشوار ہوگیا۔جب اوپر چوٹی پر نظر ڈالتے تو معلوم ہوتا کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔اور جب نیچے نگاہ کرتے تو واپسی کی راہیں مسدود نظر آتیں۔ مجھے خیال آیا کہ ایک بندہ مومن کی زندگی بھی پہاڑ کی چڑھائی کے مانند ہے جس میں شیطانی اور نفسانی محرکات کو شکست دیتے ہوئے رب کی رضا کی طرف بڑھنا اور دشواری کی صورت میں گناہوں کی زندگی میں لوٹنے سے گریز کرنا ناگزیر ہے۔
بہرحال یونہی رک رک کر چلتے ہوئے چوٹی تک پہنچ ہی گئے۔ وہاں ایک تازہ ہوا کے جھونکے نے ہمارا استقبال کیا۔اب ہم نے جوش کے عالم میں اترنا شروع کیا لیکن جب دامن تک پہنچے تو دیکھا کہ ایک اور پہاڑ منہ کھولے ہمارا استقبال کررہا ہے۔ چاروناچار اس کو بھی پار کیا تو ایک کھائی منتظر تھی۔مرتا کیا نہ کرتا کی مصداق اسےبھی کراس کیا اور بالآخر تین گھنٹے سے زائد یہ مسافت ایک پہاڑ کی چوٹی پر اختتام پذیر ہوئی جس کے دوسری جانب مائی جو گوٹھ نظر آرہا تھا۔مجھے یہ محسوس ہوا کہ شاید یہ زندگی بھی کچھ ایسا ہی پرخطر اور پیچیدہ راستوں سے بھرا سفر ہے اور اس کی کامیابی کا راز ہمت ہار بیٹھنا نہیں بلکہ چلتے رہنا ہے۔
مائی جو گوٹھ
مائی جو گوٹھ ایک مختصر سی آبادی پر مشتمل ایک گائوں ہے۔ اس کے نام کی وجہ ایک مائی ہے جو منتیں مانگنے والوں کو دھاگوں پر پھونک کر انہیں گنڈے دیا کرتی تھی تاکہ انکی مرادیں پوری ہوجائیں۔حالانکہ یہ سادہ لوح سیاح یہ نہیں سوچتے کہ اس مائی نے اپنی کسمپرسی دور کرنے کے لئے کوئی گنڈا کیوں نہیں بنالیا۔
یہاں اسی طرح چھپر سے بنے ہوٹل میں پڑائو ڈالا۔ بدن تھکن سے چور تھا چنانچہ عصر کی نماز پڑھ کر کھانا کھایا اور لیٹ گئے۔ یہاں ایک عجیب سے سکوت تھا۔ ہوٹل میں ہمارے علاوہ صرف دو آدمی اور تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ عام طور پر اس جگہ کی ہولناکی وجہ سے لوگ یہاں قیام نہیں کرتے ہیں۔میں نے جب ماحول کا جائزہ لیاتو علم ہوا کہ وہ ہوٹل کوئی باقاعدہ ہوٹل نہ تھا بلکہ ایک دالان نما کھلی جگہ تھی۔کچھ دور ہی پہاڑ موجود تھا اور مقامی آبادی کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ آہستہ آہستہ رات کی تاریکی میں اضافہ ہورہا تھا۔ بلاآخر اندھیرے نے ہر چیز کو نگل لیا ۔چند فٹ دور پہاڑ نے دیو ہیکل عفریت کا روپ دھارلیا ۔پہاڑ کے عقب میں ایک شگاف دار چٹان سینگ والے جن کی شکل نمودار ہوگئی ۔
اس بھیانک منظر میں یہ ہولناکی اس وقت اور بڑھ جاتی جب تصور میں ہیولے آتے دکھائی دیتے۔ کبھی ہوا کی تیزی سے کوئی کاغذ یا تھیلی اڑتی ہوئی فرش سے ٹکراتی تو یوں لگتا کہ کوئی چل رہا ہو۔دور لالٹین کی روشنی ماحول کی تاریکی کو اور نمایاں کئے دے رہی تھی۔ ماحول کا سکوت، تنہائی کا احساس، تاریکی میں اضافہ اور اندر کا خوف سب مل کر نفسیاتی کچوکے لگارہے تھے اور سب لوگ سہمے بیٹھے تھے کہ اب کیا ہوگا۔ پتا نہیں کل کا سورج بھی دیکھنا نصیب ہو یا نہ ہو۔لیکن اسی خوف میں ایک ایڈوینچرڑ کا احساس بھی تھا ۔ اور سب سے بڑھ کر رب کی قربت کا اطمینا ن تھا کہ وہ تو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ۔ اس کے ہوتے ہوئے کیا خوف اور کیسی دہشت۔
میں نے لیٹے لیٹے سوچا کہ شاید اسی خوف کی بنا پرماضی اور حال کے لوگ شرک کی جانب مائل ہوئے۔ انہوں نے بزرگوں، روحوں، قبروں اور دیگر پر اسرار چیزوں کو طاقت کا منبع سمجھا اور ان کو خوش کرنے کی کوشش کی تاکہ یہ اندیکھی ارواح انہیں ان جانے خطرات سے محفوظ ک کرسکیں۔ چونکہ اللہ کا وجود نظروں سے اوجھل تھا لہٰذا لوگ اس مفروضے پر مبنی دیومالا میں الجھ کر رہ گئے ۔ حالانکہ اللہ ان کی رگ جاں سے بھی زیادہ قریب تھا اور وہ اگر اس کو پکارتے تو اپنی مرادیں پالیتے۔ بہرحال میں نے تو تنہا رب ہی کو پکارا کہ مجھے اس مشکل سے نجات دے اور اس نے مجھے بچالیا۔ اور وہ وقت بھی کٹ گیا یہاں تک کہ صبح ہوئی اور جان میں جان آئی۔
لاہوت لامکاں
“لاہوت لامکاں “ہماری اگلی منزل تھی۔لاہوت لامکاں تصوف کی ایک مشہور اصطلاح ہے جس کا مطلب اس مادی دنیا سے ماورا ایک ایسی روحانی دنیا ہے جہاں وقت اور مکان نہیں ہوتا ۔لیکن بہرحال نورانی میں یہ ایک بڑےسے غار کا نام ہے جہاں مقامی لوگوں کی کئی زیارتیں ہیں جو انکی روایات کے مطابق نورانی بابا اور دیگر بزرگوں سے منسوب ہیں۔ غار تک پہنچنے کے لئے ایک ڈھلان پر چلنا پڑتا ہے جو قریب آدھے گھنٹے کی مسافت ہے۔لوہے کی سیڑھیاں غار کے دہانے تک لے جاتی ہیں۔ ہم بھی غار کے منہ تک پہنچ گئے اور چپلیں اتار دیں کیونکہ اس کے بغیر اند جانا منع تھا۔غار کا دہانہ سطح زمین سے قریب آٹھ فٹ اوپر تھا اور اس تک پہنچنے کے لئے رسی پر چڑھنا لازمی تھا۔میں بھی باقی لوگوں کی طرح رسی پکڑ کر اوپر پہنچ گیا اور جب دہانے کے اندر جھانکا تو یوں لگا جیسے اندھا ہوگیا ہوں۔دوسری جانب بہت تاریکی تھی ۔ ادھر شاہنواز نے چیخ کر کہا ” میرا ہاتھ پکڑو”۔ میں اس کا ہاتھ پکڑ کر غار اندر کود گیا۔ننگے پائوں ہونے کی بنا پر زمین کی سیلن جلد ہی محسوس ہوگئی ۔کچھ دیر بعد جب نگاہیں اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہوئیں تو پتا چلا کہ یہ تو بڑا وسیع و عریض غار ہے اور اس میں بیک وقت سو سے زائد افراد سما سکتے ہیں۔ بعض مقامات پر یہ غار بیس فٹ تک بلند تھا۔ غار میں پہلے قدرتی پانی کا چشمہ ہو کرتا تھا جو اب خشک ہوگیا تھا۔غار کے ایک کونے پر لوگ جمع تھے ۔جب دیکھا تو وہاں ڈھلان میں ایک طویل اور تنگ سی سرنگ تھی جو غار سے باہر جانے کا متبادل راستہ تھا۔سرنگ کی تنگی کی بنا پر اس میں سے ایک آدمی بھی بمشکل نکل پاتا۔اس کے بارے میں بھی یہ روایت مشہور تھی کہ جو کوئی اس میں داخل ہو اور نکل جائے تو وہ اپنے ماں باپ کی جائز اولاد ہے اور اگر پھنس جائے تونہیں۔سب سے دلچسپ چیز ایک چھوٹا سا پتھر کا ٹیلا تھا ۔ اس کودیکھ کر یوں لگتا گویا کہ کوئی اونٹ بیٹھا ہو۔ اس کا اگلا حصہ اونٹ کے منہ سے مشابہ تھا جس پر اصلی اونٹ کی کی طرح کپڑا لپیٹا ہوا تھا۔اس کا پچھلا حصہ ایک بیٹھے ہوئے اونٹ کے دھڑ سے ملتا جلتا تھا ۔ لوگو ں کی روایت کے مطابق یہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی تھی جو پتھر کی بن گئی تھی۔ لیکن کسی نے یہ نہ سوچا کہ کہ حضرت صالح علیہ السلام تو عرب کے علاقے میں تھے وہ اور انکی اونٹنی یہاں کس طرح آگئی۔شاید وہاں موجود لوگوں کو اس قسم کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ بلکہ ان میں سے کوئی تو چراغ کے آگے ہاتھ باندھے کھڑا تھا اور کوئی اونٹنی کے سامنے عجز کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔ یہ سب کچھ روایات پر مبنی تھا۔ لیکن کسی کو جاننے کی فرصت نہ تھی کہ حقیقت تک پہنچ جائے اور دیکھے کہ وہ درست کررہا ہے یا غلط۔ ۔اس غلطی میں شاید ان ان پڑھ لوگوں کا اتنا قصور نہ تھا جتنا مذہبی طبقے اور مصلحین کا تھا۔ ان راہنمائوں کی مجرمانہ خاموشی اور اصلاح میں غفلت کی بنا پر معاملات اس نہج تک پہنچ گئے تھے۔
ماضی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت قریش کا یہی استدلال تھا کہ ہم ان صدیوں سے رائج رسوم و رواج اور شرک کی علامات کو کیسے چھوڑ دیں جبکہ ہم نے ان پر اپنے آبا و اجداد کو ان پر چلتے ہوئے پایا ہے۔ان سے پوچھا جاتا کہ اگر آبا و اجداد اور بڑے بزرگان غلط تھے تب بھی کیا باطل کی پیروی کی جائے گی؟۔ تو اس بات کا جواب ان کے پاس کچھ نہ ہوتا سوائے ہٹ دھرمی کے۔ آج ہمارے مذہبی حلقوں میں بھی یہ آبا پرستی پوری طرح سرایت کرگئی ہے۔ آج رسم و رواج کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے دین کو بدعات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور اس کی دلیل یہی دی جاتی ہے کہ اگر یہ کام غلط تھا تو فلاں بزرگ نے کیوں کیا؟۔
غار میں ایک مقام پر صفیں بچھی ہوئی تھیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ نماز پڑھنے کی جگہ ہے لیکن کسی کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور لوگ اس کونے میں رش لگا کر کھڑے تھے جہاں نورانی بابا نے چلہ کاٹا تھا۔ یعنی خدا سے زیادہ خدا کے بندے کی اہمیت ہوگئی تھی۔ قریش کے لوگ بھی جب اپنی کھیتی یا گوشت نذر کرتے تھے تو کچھ حصہ اپنے شرکا اور کچھ حصہ اللہ کے لئے نکالتے تھے۔ اگر تولتے وقت اس میں سے کچھ نیچے گر جاتا تو وہ کسی کا بھی ہو، اسے شریکوں کے حصے میں شامل کردیا جاتا تھا ۔ یعنی خدا پس پشت اور اس کے فرضی شرکا ء زیادہ اہم ہوگئے تھے۔
واپسی کا سفر
زائرین کی تعداد میں اضافے کی بنا پر گھٹن بڑھ رہی تھی۔ چنانچہ ہم باہر آگئے اور واپسی کا سفر شروع کیا اور ہوٹل میں آگئے۔اس مرتبہ پھر ایک شخص سے ملاقات ہوئی جس نے احرام باندھا ہوا تھا۔چونکہ ہمارے پاس وقت تھا لہٰذا سلمان ان صاحب کے پاس گیا اور ان سے کچھ بات کرنے کی کوشش کی۔ میں نے دور سے دیکھا کہ وہ صاحب چرس کے سوٹے لگا رہے تھے اور اپنے برابر بیٹھے بچے کو گندی گندی گالیوں سے کسی بات پر ڈانٹ رہے تھے۔مجھے دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہ صاحب بگڑا ہوا ہی صحیح لیکن ایک مذہبی پس منظر رکھتے ہیں اور اخلاقی طور پر اتنی پستی کا شکا ر ہیں۔ظاہری شریعت کو برا بھلا کہنے والے لوگ جب اس سے پیچھا چھڑاتے ہیں تو سب کچھ ہی چھوڑ بیٹھتے ہیں اور شاید یہی ان کا مقصود ہوتا ہے۔
سلمان ان صاحب کے طرز عمل سے بڑا مایوس ہوا۔ اس نے سوال کیا کہ آخر یہ تصوف ہے کیا؟ کیا یہ اسی قسم کی حرکتوں اور رسومات کا نام ہے؟”۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، سیماب نے جواب دیا۔
“تصوف کی ابتدا یوں تو نیک نیتی کے ساتھ ہوئی تھی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد طویل عرصہ گذر گیا تو لوگ ظاہر پرستی کا شکار ہوگئے۔چنانچہ کچھ مصلحین اٹھے اور لوگوں کو ظاہر کے ساتھ باطن سدھارنے کی تلقین کی ۔ کہ نماز اس طرح پڑھو جیسے اللہ کو دیکھ رہے ہو۔ اس باطن میں جھانکنے کے لئے انہوں نے کچھ چلے، وظائف،مشقیں اور مراقبے وغیرہ تجویز کئے جن کا مقصد خدا کا تصور مضبوط کرنا اور گناہ سے بچنا تھا ۔ لیکن بعد کے صوفیوں نے ان مشقوں کو ذریعہ سمجھنے کی بجائے مقصد سمجھ لیا۔ یوں باطنیت پر مبنی ایک علم کلام وجود میں آگیا اور ظاہری شریعت پس پشت جاتی چلی گئ۔گوکہ تصوف کے سنجیدہ حلقے ان بدعات کو ناپسند کرتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ عوام پر اپنا اثر ڈالنے سے قاصر ہیں بلکہ ان کی خاموشی عوام کی ان حرکتوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔آج اس بات کی ضرورت ہے کہ تصوفانہ رسومات اور ہر رسم کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے تاکہ لوگ صراط مستقیم پر چل سکیں”۔ سیماب کی بات پر شاہنواز مسکرانے لگا اور کہا ” بھائی لگتا ہے کہ تم تو صوفیوں کے دشمن ہو”۔ اسکی بات پر سب ہنسنے لگے۔
واپسی کے لئے ہمیں دوبارہ محبت فقیر کے ڈیرے تک جانا تھا کیونکہ بس وہیں سے ملتی ہے۔اس کے لئے پیدل مارچ کرنا اور کئی چوٹیوں کو سر کرنا لازم تھا۔
ہوٹل کے مالک نے ہمیں راستہ سمجھایا ۔” وہ جو سامنے دو بڑی چوٹیاں نظر آرہی ہیں ان کے درمیان سے گذرنا ہے اور ان کے بعد ایک بڑا سا پہاڑ آئے گا اس کو پار کرکے نیچے اتریں گے تو ڈیرے تک پہنچ جائیں گے”۔
ہم نے سامان ساتھ لیا اور متعین راستے پر چل پڑے۔موسم ابر آلود تھا ۔ آگے چلنے پر کچھ بوندیں بھی چہرے سے ٹکرائیں جس سے ہمارے اوسان خطا ہوگئے کیونکہ بارش کا مطلب راستے کی بندش تھا اور ہم یہاں کئی دنوں کے لئے پھنس سکتے تھے۔ہم نے اللہ سے مدد کی درخواست کی اور تیز ی سےمتعین پگڈنڈی پر چلنا شروع کیا۔ پہاڑی اور کچے علاقوں میں گلیاں وغیرہ نہیں ہوتیں البتہ لوگوں کے مسلسل چلنے کی وجہ سے زمین پر مخصوص نشان بن جاتے ہیں چنانچہ لوگ انہی نقش قدم پر چل کر منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔ زندگی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اگر آپ پیغمبروں کے نقش قدم پر چلیں گے تو منزل تک پہنچ جائیں گے جبکہ ابلیس کی شاہراہیں جہنم کے دہانے پر پہنچادیتی ہیں۔
جب آگے بڑھے تو پگڈنڈی ختم ہوگئی۔ ایک اور پگدنڈی بڑی مشکل سے ملی جو بہت دور تک چلی لیکن ہم سمجھ گئے تھے کہ راستہ بھول گئے ہیں۔بہرحال پنچایت نے فیصلہ دیا کہ دو آدمی نیچے رکیں اور دو اوپر جاکر سمت کا تعین کریں ۔میں اور شاہ نواز اوپر چڑھنے لگے۔ پہاڑ خاصا عمودی تھا ۔ بدقت تمام چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ اوپر پہنچ کردیکھا کہ بکریوں کی تازہ منگنیاں ہیں۔ مجھے وہ وقت یاد آگیا جب ابو سفیان نے بدر کی جنگ سے قبل اونٹوں کی مینگنیاں توڑ کر اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ یہ اونٹ مدینے کے ہیں کیونکہ ان میں کھجور کی آمیزش ہے۔ بہرحال ان مینگنیوں کو دیکھ کر شاہنواز نے فتویٰ دیا کہ مقامی آبادی قریب ہی ہے۔ وہاں ایک پگڈنڈی بھی نظر آہی گئی۔ ہم نے باقی ساتھیوں کو اوپر بلایا اور اس پر چلنا شروع کردیا۔ کچھ دیر بعد وہ راستہ بھی دغا دے چلا کیونکہ اس کا اختتام ایک چوٹی پر ہوا جس کے نیچے انتہائی عمودی ڈھلان تھی۔ عمودی پہاڑوں پر اترنا چڑھنے سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے اور اس پہاڑ پر تو چھوٹے چھوٹے پتھر بھی تھے جو پھسلنے کا سبب بن سکتے تھے۔
آس پاس کوئی شخص نہ تھا ، ہو کا عالم، حبس سے پسینے چھوٹ رہے تھے۔دشواری کے باوجوداترنے کے سوا کوئی چارا نہ تھا کیونکہ واپسی کا راستہ بھی ہم بھول چکے تھے۔ زندگی میں اکثر ایسے مواقع آتے ہیں جب دو برائیوں میں سے کم تر برائی منتخب کرنا ہی عقلمندی ہوتی ہے۔ چنانچہ ہم نے اسی عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اترنا شروع کیا۔ سیماب ایک مرتبہ سلپ ہوکر لڑھکنے لگا تو ہم سب نے مل کر تھام لیا۔ میں اور سلمان بھی ذراسے پھسلے لیکن بہرحا ل معاملہ معمولی خراشوں تک ہی محدود رہا۔تقریبا ایک گھنٹے مسلسل اترائی پر چلتے رہنے کے بعد ہم ایک بڑی راہداری پر پہنچ گئے اور جان میں جان آئی اور یوں بسوں کے اڈے تک پہنچ گئے۔
رب کا شکر
بس نے شام پانچ بجے روانہ ہونا تھا اور اس وقت ڈھائی بج رہے تھے۔ہم نے نماز پڑھی۔ واپسی کا سفر کچھ اچھا نہ تھا کیونکہ تکان بہت زیادہ تھی۔ اسی لئے وہ مناظر جو آتے ہوئے دل کو بھا رہے تھے جاتے وقت اچھے نہیں لگے۔ وقت وقت کی بات ہے کبھی آدمی کسی چیز پر فدا ہوتا ہے لیکن بعد کے حالات اس کی دلچسپی کو ختم کردیتے ہیں۔
ہم نے اس رب کا شکر ادا کیا جس نے ہمیں خیریت ساتھ یہ سفر اور ایڈوینچر طے کروایا۔ خدا کا شکر کوئی رسمی شکریہ نہیں بلکہ یہ اپنی کمزوری، کم علمی اور بے بسی کا درست ادراک ہے اس ہستی کے سامنے جو طاقت کی مالک ہے، جو علم کا منبع ہے ، جو سب کچھ کرنے پر قادر ہے۔ وہ نہ ہو تا تو ہماری ٹانگیں چلنے سے انکار کردیتیں، بدن کا خون رگوں میں نہ دوڑتا، دل دھڑکن بھول جاتا۔ اسکی مدد نہ ہوتی تو ہم وہیں پہاڑیوں میں بھٹکتے ہوئے فنا ہوجاتے، بارش میں بہہ جاتےیا پھسل کر ہڈیاں تڑوا لیتے۔ وہ ہی ہے جو تمام تعریفوں کے لائق ہے کیونکہ ہر بھلائی اور اچھائی اسی کی جانب سے ہے۔
سبحان اللہ و الحمد للہ ولاالہ الااللہ واللہ اکبر
پروفیسر محمد عقیل
ربط
https://aqilkhans.wordpress.com/2011/06/03/نورانی-کا-سفر-نامہ/#more-700
سفر کی ابتدا
ہم چارو ں دوستوں میں سلمان شاہد، سیماب قدیر ، شاہنواز اور میں یعنی محمد عقیل شامل تھے۔ سفر کے لئے ہم نے کچھ کپڑے اور سفری سامان رکھ لیا۔ چونکہ دسمبر کے دن تھے لہٰذا ایک چمڑے کی جیکٹ بھی ساتھ لے لی۔ پھر ۲۸ دسمبر کی صبح لی مارکیٹ پہنچ گئے جہاں نورانی جانے کے لئے ایک بس تیار تھی۔ اس بس کی ٹوٹی پھوٹی شکل بتا رہی تھی کہ واقعی وہ نورانی کا ایک وسیع تجربہ رکھتی ہے۔
درو دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا
بہرحال مفر کا کوئی راستہ نہ تھا چنانچہ ہم چاروں بس کی پچھلی سیٹوں پر براجمان ہوگئے۔ ان سیٹوں پر آٹے ، دال اور چینی کے بڑے بڑے بورے رکھے ہوئے تھے۔ ۔ بس کے ماحول جب جائزہ لیا تو تمام ہی مسافر غریب طبقے سے تعلق رکھتے نظر آئے۔ اندر ایک شور بپاتھا اور وقفے وقفے سے کوئی مست بابا نعرہ لگاتا” بولو بولو بولو جئے شاہ”۔ سب اس کا جواب دیتے ” جبل میں شاہ”۔ ۔ کبھی کوئی من چلا آواز لگاتا ” نورانی نور ہے ہر بلا دور ہے” اور لوگ اس دھن میں مست ہوکر جھومنے لگتے۔میں وہاں بیٹھا سب سن تو رہا تھا لیکن میرا ذہن نورانی کی تاریخ میں کھویا ہوا تھا
حضرت بلاول شاہ نورانی کی تاریخ
نورانی کا علاقہ کراچی سےقریب ۱۲۰ کلومیٹر دور بلوچستان کے ضلع خضدارمیں واقع ہے۔ یہ مقام چاروں اطراف پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔یہاں حضرت بلاول شاہ نورانی کا پانچ سو سالہ پرانامزار اس مقام کی وجہ شہرت ہے۔ حضرت بلاول شاہ نورانی کے بارے میں کچھ زیادہ تفصیلات مستند ذرائع سے نہیں ملتیں البتہ ان کے بارے میں ڈیلی ٹائمز اخبار [اشاعت ۱۷ اکتوبر، ۲۰۰۸]میں سلمان راشد صاحب نے ایک آرٹیکل لکھا ہے جس سے کچھ مستند معلومات تک رسائی ہوتی ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق سن ۱۹۰۷ ءکے لسبیلہ ڈسٹرکٹ کے گزٹ میں بلاول شاہ نوارانی کا ذکر ملتا ہے۔ وہ ۱۴۹۵ میں سندھ سے اس مقام پر تشریف لائے اور گوکل نامی ایک ہندوسیٹھ کے باغ میں قیام کیا۔
جبکہ حضرت نورانی کے بارے میں ایک اور قدیم ذریعہ تحفتہ الکرام ہے جو ٹھٹہ میں ۱۷۶۷ ء میں لکھی گئی۔ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ شاہ نورانی اپنے علاقے کے ایک مجذوب شخص تھے اور اسی جنوں کی بنا پر علاقے کے لوگوں نے انہیں ولی ماننا شروع کیا اور ان سے منتیں اور مرادیں ماننے لگے۔ روایات کے مطابق گوکل نامی ہندو سیٹھ نے انہیں پناہ دی اور ان کا خیال رکھا۔ گوکل کے مرنے کے بعد بلاول شاہ نورانی وہیں مقیم رہے اور ان کے انتقال کے بعد وہیں انکی تدفین ہوئی۔
ان مستند معلومات کے علاوہ باقی بے شمار کہانیاں حضرت نورانی بابا سے منسوب کی جاتی ہیں۔ ایک مشہورروایت یہ ہے کہ بلوچستان کے اس مقام پر ایک ظالم دیو گوکل کی حکومت تھی اور لوگ اس سے تنگ تھے۔ ان لوگوں نے اللہ سے دعا کی تو ایک نورانی صورت بزرگ تشریف لائے جنہوں نے اس دیو کو شکست دے کر لوگوں کو اس کے ظلم سے آزاد کروایا۔
چرس
میرے ذہن میں ابھی تاریخ چل ہی رہی تھی کہ بس سفر کا آغاز کرنے لگی۔ میں نے اور سیماب نے سفر کی دعا پڑھ لی ۔یہ سفر کی دعا کوئی منتر نہیں کہ اس کے دہرالینے سے سفر کے تمام مسائل حل ہوجائیں۔ اس کا مقصد سفر میں خدا کو شریک سفر کرنا اپنے عجز کا اظہار کرنا اور آخرت کے سفر میں خدا سے ملاقات کا اعادہ کرنا ہے۔
بس کراچی کی مضافاتی حدود میں داخل ہوگئی۔راستہ ہمدرد یونی ورسٹی کے روڈ سے گذرتا تھا جو اس وقت کچا اور دشوار تھا۔ہمدرد یونی ورسٹی سے پہلے بس نورانی ہوٹل پر لنچ کے لئے رکی۔ یہاں ہم نے نماز پڑھنے کا ارادہ کیا ۔ میں نے ایک شخص سے باتھ روم کی بابت دریافت کیا تو اس نے لوٹا تھما کر جنگل کی جانب اشارہ کردیا ۔ یہ غیر تمدنی زندگی کی ابتدا کی علامت تھی ۔ یوں مجھے باتھ روم کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔بلکہ کسی صاحب نے یہ بتایا کہ انسانی تمدن میں سب سے اہم پیش رفت سیوریج لائن کے ذریعے ہی ہوئی ہے۔ بہر حال نماز پڑھی اور کھانا کھایا۔ سفر کی دوبارہ ابتدا ہوئی تو ارد گرد کالے اور مٹیالے پہاڑوں کو سلسہ شروع ہوگیا۔اس قسم کے پہاڑ میرے لئے نئے تھے کیونکہ میں کشمیر، سوات اور کا غان وغیرہ کے سبزے سے ڈھکے پہاڑ دیکھنے کا عادی تھا۔ آس پاس کا علاقہ میدانی تھا البتہ کہیں کہیں جھاڑیا ں اور اجڑے ہوئے درخت نظر آرہے تھے۔ شام کا سورج اپنی آخری کرنیں بکھیرتا ہو ا رخصت ہورہا تھا ۔ کالے پہاڑ مزید سیاہ ہوتے جارہے تھے۔ میں خدا کی خلاقی کے ساتھ ہی اسکی بے نیازی کو بھی دیکھ رہا تھا ۔ اتنے عظیم پہاڑ، وسیع آسمان، عریض زمین اور خوبصورت مناظر اللہ تعالیٰ نے پیدا کردئے اس بات سے قطع نظر کہ کوئی دیکھے یا نہ دیکھے ، کوئی تعریف کرے یا نہ کرے۔مجھے خیال آیا کہ کہ اللہ تو اپنی ذات میں غنی ہیں انہیں دوسروں کی کوئی ضرورت نہیں حتیٰ کہ تعریف کے لئے بھی ۔ انہی خیالات میں گم تھا کہ اچانک بس کی چھت پر سے ایک شخص اترا ۔ ا س کے ہاتھ میں ایک تھیلی تھی ۔اس نے چورن بیچنے والوں کی طرح آواز لگائی” چرس لے لو، چرس لے لو”۔ میں بھونچکا رہ گیا ۔زندگی میں پہلی بار چرس کو دیکھا اور جس شان سے دیکھا اس کی توقع نہ تھی۔ چرس یا دیگر نشہ آور اشیاء انسان سکون کے لئے استعمال کرتا ہے لیکن بد قسمتی سے اس کا رہا سہا سکون بھی غارت ہو جاتا ہے۔
اندھیرا بڑھتا جارہا تھا اور مناظر نگاہوں سے اوجھل ہو رہے تھے۔ جب بس کے اندر نگاہ ڈالی تو وہاں بھی خموشی ہوچکی تھی۔ کوئی اونگھ رہا تھاتو کوئی خلائوں میں گھور کر وقت کاٹ رہا تھا۔ایک بوڑھا شخص جو سارے راستے جئے شاہ کے نعرے لگاتا رہا وہ بھی مضمحل قویٰ کے ساتھ چپ ہو کر بیٹھ گیا تھا۔ اسی طرح بس ہچکولے لیتی رہی ۔ یہاں تک کہ منزل آگئی۔ اس وقت رات کے سات بج رہے تھے چونکہ سردیوں کے دن تھے لہٰذا سورج غروب ہوئے دو گھنٹے سے زائد ہوچکے تھے۔ البتہ سردی بالکل نہ تھی ۔اردگرد کا ماحول تاریکی کی وجہ سے مشاہدے کا قابل نہیں تھا۔ البتہ کچھ جانوروں کے چلنے کی آوازیں آرہی تھیں اور زمین پر چلنے سے اندازہ ہورہا تھا کہ سطح ہموار نہیں ہے۔
محبت فقیر
نماز پڑھنے کے کے لئے ایک مسجد تلاش کی جو ویران پڑی ہوئی تھی۔ مسجد سے کچھ فاصلے پر محبت فقیر صاحب کا مزار تھا۔ یہ صاحب مشہورروایات کے مطابق نورانی بابا کے خاص مرید اور خادم تھے۔اور آپ بابا کے پاس آنے والے زائرین کی خاص خدمت کرتے تھے۔ چنانچہ آپ کا مزار زائرین کے لئے پہلی سلامی کا مقام سمجھا جاتا ہے۔
رات گذارنے کے لئے ایک ہوٹل کا قصد کیا ۔وہاں ہوٹل کی چھت چھپراور فرش چٹائیوں کا بنا ہو تھا اور ان ہوٹلوں کا کوئی کرایہ نہ تھا بس لحافوں اور گدوں کی معمولی سی قیمت تھی۔ بہر حال سامان رکھ کر ہم چاروں دوست باہر چہل قدمی کے لئے نکلے۔آسمان تاروں سے پر تھا اور چاند ابتدائی مراحل میں ہونے کے باوجود بہت پرکشش لگ رہا تھا۔ارد گرد گھاس چرتے ہوئے گدھے، گھنٹیاں بجاتے اونٹ اور مٹر گشت کرتے ہوئے گائے بیل اور جگالی کرتی بھیڑ بکریاں سب ہزاروں سال پرانے زرعئی معاشرے کی یاد دلا رہے تھے۔
گدھوں کی دوڑ
رات کو سونے سے قبل کچھ حضرات تاش کی بازی جمانے بیٹھ گئے۔ہم میں سے ایک صاحب سانپوں سے بہت ڈرتے تھے۔ انکی نگاہیں مسلسل ناہموار زمین اور دیوار کے ان سوراخوں کی جانب تھیں جہاں سے انہیں کیڑوں مکوڑوں کی متوقع یلغار کا اندیشہ تھا۔بہرحال ان سے رہا نہ گیا اور ایک مقامی بلوچ سے پوچھ ہی بیٹھے۔” جناب یہاں سانپ وغیرہ بھی ہوتے ہیں یا نہیں”۔
وہ حضرت مسکرائے اور جواب دیا۔”ہوتے تو ہیں لیکن یہ اسی کو کاٹتے ہیں جن کو کاٹنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہوتا ہے”۔
میں اس غیر تعلیم یافتہ بلوچ کی عارفانہ بات پر حیران رہ گیا۔ انسان کی فطرت میں اللہ کی وحدانیت خوب گھول کر ڈالی گئی ہے اور زمانے کی ستم ظریفیو ں کے باوجود اس توحید کی بازگشت سنائی دیتی رہتی ہے۔
جب رات کافی ہو گئی تو سب نے سونے کی ٹھانی لیکن نیند تھی کے آکے نہیں دے رہی تھی۔ ابھی پلک کچھ جھپکی ہی تھی کہ شور کی آواز آئی۔ سب ہڑ بڑا کر اٹھ گئے۔ دیکھا تو چند گدھے بگٹٹ دوڑتے ہوئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہے تھے۔ہم سب نے اس حیوانی ریس پر تبرّا بھیجا۔ لیکن دائیں جانب دیکھا تو چاند دو پہاڑیوں کے درمیان موجود تھا۔ اس مسحور کن منظر نے گدھو ں کی ناشائستہ میزبانی کی تلافی کردی۔
صبح آنکھ کھلی تو دنیا بدل چکی تھی۔ارد د گرد عظیم الشان پہاڑ ، دیو ہیکل دراڑیں، ایستادہ پتھر اور غاریں خدا کی صناعی کا اظہار کررہی تھیں۔یہ سب مل کر اس ماحول میں بھی اپنے رب کی پاکی بیان کررہے تھے کہ اللہ پاک ہے اس بات سےکہ کوئی اس کا شریک ہو، ساجھی ہو، مددگار ہو۔
مقامی لوگوں کو بھی کو اجالے میں دیکھنے کا اتفاق ہوا جو پہلی نظر میں سادہ فطرت، محنتی لیکن غیر تعلیم یافتہ اور غریب نظر آئے۔ اسی غربت کی بنا پر ان کے بچے بھیک مانگ رہے تھے۔
حضرت نورانی شاہ کا مزار
محبت فقیر کے ڈیرے سے اگلی منزل نورانی شاہ باباکا مزار تھا۔ مزار تک پہنچنے کے کئی طریقے تھے ۔ایک اونٹ کی سواری، دوسرا کیکڑے کی سواری اور تیسرا پیدل مارچ۔ کیکڑےسے مراد ایک بڑی اور قدیم سی جیپ تھی۔ بہرحال ہم سب اپنی دانست میں جوان ہی تھے لہٰذا پیدل ہی کا قصد کیا۔
قریب ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ایک جگہ پہنچے جو “علی کا قدم ” کے نام سے مشہور ہے۔یہاں ایک بڑا سا قدم بنا ہے جسکے بارے میں مشہور ہے کہ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قدم ہے۔کچھ اور آگے بڑھے تو ایک درگاہ نما جگہ پر بڑا سا پتھر رکھا دیکھا جس میں شگاف تھا۔ دریافت کرنے پر لوگوں نے بتایا کہ نورانی بابا نے اس پتھر پر اپنی مسواک ماری تھی جس کی وجہ سے یہ ٹوٹ گیا۔
یہ سب سن کر شاہنواز نے کہا ” زمانہ قدیم سے لے کر آج تک بگڑے ہوئے مذہبی لوگوں نے عوام کو انہی مافوق الفطرت داستانوں سے بے وقوف بنایا اور ان کا استحصال کیا ہے”۔
ایک چشمہ بھی راستے میں آیا لیکن اس کا پانی کثرت استعمال کی بنا پر گدلا ہوچکا تھا۔ اس سے علم ہو ا کہ محض عقید ت سے کام نہیں چلتا، دنیا میں ترقی کے لئے مادی قوانین کو بروئے کار لانا لازم ہے۔ بالآخر مزار آہی گیا۔ مزار چاروں اطراف پہاڑوں سے گھرا ہو تھا۔اسکے دروازے کے باہر بڑی تعداد میں پھول اور چادر بیچنے والوں کی دوکانیں تھیں۔ اس مزار کا منظر کچھ یوں ہے کہ اردگرد صوفیانہ کلام گانے والے اور سازندے بیٹھے ہیں۔ ایک جگہ دھمال کے لئے مختص کردی گئی ہے۔ستار پر ایک لوک دھن سنائی جارہی ہے ۔ کچھ ہی دور ایک ملنگ اپنے ہاتھ میں رسی باندھ کر بیٹھا خلائوں میں گھور رہا ہے۔یہ رسی اس بات کی علامت ہے کہ وہ نورانی بابا کا غلام ہے۔البتہ مزار کے ارد گرد گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔
بہر حال میں اور سلمان مزار کے اندر داخل ہوئے۔ قبر ایک سبز رنگ کی چادر میں لپٹی ہوئی تھی اور اسکے سرہانے پر ایک تاج موجود تھا جبکہ کتبے پر ایک برائون رنگ کا عمامہ باندھ دیا گیا تھا۔ اندر کا منظر عام مزاروں جیسا ہی تھا۔ کچھ عورتیں جالیوں سے لپٹی رو رہی ےتھیں۔قبر کے ارد گرد چند مرد زائرین قبر کو بوسہ دے رہے تھے۔
مزاروں کی حیثیت
سلمان نے مجھ سےپوچھا کہ” لوگ مزاروں پر آکر کیوں اپنی مرادیں مانگتے اور دعا کرتے نظر آتے ہیں؟”۔
میں نے بتایا “لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صاحب قبر اللہ کے برگزیدہ بندےہیں اور یہ ہماری درخواست اللہ تک پہنچانے میں ہماری مدد کریں گے۔”
” کیا اس طرح کی کوئی ہدایت قرآن مجید ، سنت نبوی یا آثار صحابہ میں بیان ہوئی ہے کہ صاحب قبر سے اس طرح کی درخواست کی جاسکتی ہے؟” سلمان نے استفسار کیا۔
میں نے کہا ” نہیں ۔ بلکہ قرآن میں تو اللہ تعالیٰ سے براہ راست مانگنے کی تاکید کی گئی ہے۔ سنت نبوی کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کی قبر پر جاکر دعا کروانے کی تعلیم نہیں دی بلکہ آپ نے تو ہمیشہ لوگوں کو خوداپنی قبر کو مسجد بنانے سے روکا”۔
اتنی دیر میں سیماب اور شاہنواز بھی اکر ہماری گفتگو میں شامل ہوگئے۔
شاہنواز نے دریافت کیا “کیا مرے ہوئے لوگوں سے مدد طلب کرنے کا شرک سے کوئی تعلق ہے؟”۔
سیماب نے جواب دیا ” ہاں۔ “پھر اس نے بخاری کا یہ اثر سنا دیا۔
” قوم نوح میں ود ، سواع، یعوق اور نصر نامی جو بت تھے وہ سب قوم نوح کے نیک لوگوں کے نام تھے جب ان نیک لوگوں نے وفات پائی تو شیطان نے ان کی قوم کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ ان کے بیٹھنے کی جگہ پر ان کے بت نصب کردیں اور ان بتوں کا نام ان (بزرگوں) کے نام پر رکھ دیں چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا لیکن ان کی عبادت شروع نہ کی ۔یہاں تک کہ جب بتوں کو بنوانے والے لوگ بھی مر گئے اور اس کا علم جاتا رہا تو ان بتوں کی عبادت کی جانے لگی۔ [صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2034 ]”۔
” گویا ابتدا میں میں جن لوگوں نے بت نصب کئے ان کا مقصد نیک لوگوں کو خراج تحسین پیش کرنا تھا لیکن بعد میں ان بتوں کی عبادت شروع ہوگئی۔اسی طرح کچھ لوگوں نے مزارات ان نیک بندوں کو داد رتحسین دینے کے لئے بنوائے لیکن علم کی کمی کی بنا پر انہی مزاروں کی پرستش شروع ہوگئی”۔ سیماب نے اپنا طویل خطاب بالآخر ختم کیا۔
“آخر مزاروں سے روکا کیوں جاتا ہے ۔ ہم یہاں پر آکر فاتحہ کرتے اور اللہ سے مدد کی درخواست ہی تو کرتے ہیں؟ اور جب اللہ کے بندوں کو شفا ہوتی ہے جب ہی تو وہ ادھر کا رخ کرتے ہیں” سلمان نے پھر گفتگو کو آگے بڑھایا۔
” اللہ کے بندوں کو شفا تو بتوں سے مانگ کر بھی ہوتی ہے تو کیا بت پرستی جائز ہوجائے گی”۔ سیماب نے جواب دیا۔
“لیکن یہ بزرگان دین تو اللہ کے ولی ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ولی شہید کی طرح زندہ ہوتا ہے اور اسے کبھی موت نہیں آتی”۔ اس بار شاہنواز نے مداخلت کی۔
” یقینی طور پر شہید کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں زندہ کہا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اسکی زندگی کا تمہیں اس کا شعور نہیں” سیماب نے پھر اس کا جواب دیا۔
” تو کیا مرنے کے بعد کوئی انسان رابطے میں نہیں رہتا ؟” شاہنواز نے پھر پوچھا۔
اس کے جواب میں سیماب نے کہا “نہیں۔ بلکہ اگر کسی ولی کو زندہ سمجھ کر اس سے مدد کی درخواست کی جاسکتی یا اس سے رابطہ قائم کرکے زندگی کے مسئلوں پر راہنمائی لینا ممکن ہوتا تو اس کا سب سے اچھا موقع تو وہ تھا جب حضرت عائشہ اور حضرت علی رضی اللہ عنھمامیں ایک غلط فہمی کی بنا پر جنگ ہوگئی۔ آخر کیوں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر سے رجوع کرکے حقیقت معلوم نہیں کی۔ یا اس کی ضرورت حضرت امیرمعاویہ اور حضرت علی رضی اللہ عنھما کے اختلافات، حضرت حسن اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنھماکے درمیان رنجش اور آخر میں حضرت حسین و یزید کی لڑائی کے وقت بھی تھی جب شدید کنفیوژن کے باوجود کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر سے نہ تو رجوع کیا اور نہ حل معلوم کیا”۔ ۔ سیماب کی بات پرسب کچھ دیر کے لئے خاموش ہوگئے اور ایک لمحے کے لئے اپنے ذہن کی کنفیوژن کو دور کرنے کی کوشش کرنے لگے۔
میں نے اس گفتگو کا خلاصہ کیا “ہمارے ہاں مزاروں سے متعلق تین مکاتب فکر پائے جاتے ہیں ۔ ایک طبقہ ان مزارات کی زیارت کو درست سمجھتا اور صاحب قبر کو زندہ مان کر ان سےدعا کراتا ہے۔ دوسرا طبقہ مزارات کی تعمیرو زیارت اور دعا کرانے کو شرک سے تعبیر کرتا ہے اور ان کے مرتکب حضرات کو مشرک قرار دیتا ہے۔ ایک تیسر اگروہ ان دونوں انتہائوں کے درمیان موجود ہے۔ یہ طبقہ مزارات کی تعمیر اور زیارت کو غلط اقدام اور اور بدعت مانتا ہے۔ اسی طرح یہ گروہ صاحب قبر کی حیات کو برزخ کی زندگی سے تعبیر کرتا اور ان کے ذریعے دعا یا سفارش کو توحید کے منافی قرار دیتا ہے۔ لیکن یہ معتدل گروہ صاحب مزار کی توہین سے گریزکرتا، مزارات کے حامی افراد کو مشرک کہنے سے احتراز برتتا ، ان کی غلطی پر ہمدردی اور نرمی سے تنبیہ کرتا اور انکی بدعات کو غلط فہمی کا شاخسانہ قرار دیتا ہے۔ لیکن ان تینوں گروپوں میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک علمی طور پر شرک کو سب سے بڑی اور ناقابل معافی گمراہی قرار دیتا ہے”۔
اس بحث کے بعد میں نے مزار سے متصل مسجد میں نماز پڑھی اور اللہ کی وحدانیت کی گواہی دینے لگا کہ اللہ آپ اکیلے ہیں ، یکتا، یگانہ۔ آپ خالق باقی سب مخلوق، آپ حاکم، باقی محکوم، آپ جس کو چاہیں اولاد دیتے ہیں اور جسے چاہی محروم رکھتے ہین۔آپ بادشا ہ ہیں جو چاہیں کریں، کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی ہاتھ روکنے والا نہیں۔
پریوں کا تالاب
مزار سے اگلی منزل کے لئے روانہ ہوئے۔ ہمارا اگلا پڑائو “لاہوت لامکاں “تھا لیکن اس سے پہلےابھی کئی طلسماتی کہانیوں سے گذرنا تھا۔انہی میں سے ایک داستان پریوں کا تالاب تھا جہاں ہم ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد پہنچ چکے تھے۔چاروں اور پہاڑ وں میں گھری ایک چھوٹی سی وادی تھی جس کے بیچوں بیچ ایک چشمہ ابل رہا تھا۔پانی نسبتا شفاف تھا۔اردگرد تھوڑا بہت سبزہ بھی تھا جس سے تالاب کافی خوبصورت معلوم ہونے ہی والا تھا کہ اچانک پریوں کے تالاب پر ایک شریر جن کی کارستانی نظر آئی جو یہاں پر غلاظت ڈال کر فرار ہوگیا تھا۔
سامنے پہاڑ پر قریب پندرہ فٹ کی بلندی پر ایک غار دکھائی دیا۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ لطیف جی کھوئی کے نام سے مشہور ہے اور روایات کے مطابق شاہ عبدلطیف بھٹائی نے یہاں بیٹھ کر چلہ کشی کی تھی۔ سلمان ، سیماب اور شاہنواز نے اس غار میں داخل ہونے کی ٹھانی۔ پہلے شاہنواز اوپر چڑھا اور اندر کچھ پتھر پھینکے تاکہ کوئی جانور اندر ہو تو وہ باہر آجائے ۔جب کوئی خطرہ محسوس نہ ہوا تو وہ اندر داخل ہوگیا۔ اسی کی تقلید میں دیگر ساتھی بھی پہنچ گئے۔ غار کوئی چھ فٹ لمبا اور چار فٹ اونچا تھا۔وہاں لکڑیاں جلی ہوئی پڑی تھیں جو اس بات کی علامت تھی کہ کسی نے یہاں کھانا پکانے کی کوشش کی ہے۔کچھ دیر بعد وہاں سے واپس آئے تو ایک عجیب و غریب شخص نظر آیا۔ اس نےاحرام باندھا ہوا تھا اور ساتھ ہی وہ برہنہ پا بھی تھا۔لوگوں نے بتایا کہ کچھ لوگ جنہیں “ذکری “کہا جاتا ہے وہ اس مقام پر حج کرنے آتے ہیں۔ اسے دیکھ کر بہت افسوس ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک سیدھا راستہ اور واضح شریعت عطا کی لیکن انسان ہے کہ خدا کے بنائے ہوئے دین کے مزید ایڈیشن نکالنے میں مصروف ہے۔اس کی بنیادی وجہ خواہشات کی پیروی اور شارٹ کٹ کی تلاش ہے۔بہر حال یہ بدعت حج کو مکہ سے اٹھا کر بلوچستان لے آئی تھی۔
دھوپ خاصی تیز تھی اور آنتیں بھوک سے تڑپ رہی تھیں، لیکن سفر لمبا اور دشوار تھا چنانچہ چند بسکٹ اور پانی پر ہی گذاراکیا۔لاہوت لامکاں جانے کے لئے ہمیں مائی جو گوٹھ سے گذرنا تھا۔وہاں پہنچنے کے دو رستے تھے ایک تو پیچھے پلٹ کر مزید ایک گھنٹے کی مسافت طے کرکے منزل تک پہنچنا تھا ۔ دوسرا راستہ شارٹ کٹ مگر پرخطر تھا کیونکہ اس کو طے کرنے کے لئے ایک بلند اور پر خطر پہاڑ پر چڑ ھ کر دوسری سمت اترنا تھا۔ ہمارے گروپ لیڈر سلمان نے بد قسمتی سےشارٹ کٹ راستہ اختیار کرلیا۔مقامی لوگوں نے بتا دیا تھا کہ صحیح راہ پر قائم رہنے کے لئے چونے کے نشان زدہ پتھروں والی پگڈنڈی پر چلنا ضروری ہے۔اللہ کا نام لے کر چلنا شروع کیا ۔ پہاڑ توقع سے زیادہ عمودی اور مشکل ثابت ہوا۔ چنانچہ ہم لوگ ہر دو قدم بعد رکتے، سانس بحال کر تے اور پھر سفر شروع کرتے۔
جوں جوں ہم اوپر پہنچے تو حبس بڑھتا گیا اور سانس لینا دشوار ہوگیا۔جب اوپر چوٹی پر نظر ڈالتے تو معلوم ہوتا کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔اور جب نیچے نگاہ کرتے تو واپسی کی راہیں مسدود نظر آتیں۔ مجھے خیال آیا کہ ایک بندہ مومن کی زندگی بھی پہاڑ کی چڑھائی کے مانند ہے جس میں شیطانی اور نفسانی محرکات کو شکست دیتے ہوئے رب کی رضا کی طرف بڑھنا اور دشواری کی صورت میں گناہوں کی زندگی میں لوٹنے سے گریز کرنا ناگزیر ہے۔
بہرحال یونہی رک رک کر چلتے ہوئے چوٹی تک پہنچ ہی گئے۔ وہاں ایک تازہ ہوا کے جھونکے نے ہمارا استقبال کیا۔اب ہم نے جوش کے عالم میں اترنا شروع کیا لیکن جب دامن تک پہنچے تو دیکھا کہ ایک اور پہاڑ منہ کھولے ہمارا استقبال کررہا ہے۔ چاروناچار اس کو بھی پار کیا تو ایک کھائی منتظر تھی۔مرتا کیا نہ کرتا کی مصداق اسےبھی کراس کیا اور بالآخر تین گھنٹے سے زائد یہ مسافت ایک پہاڑ کی چوٹی پر اختتام پذیر ہوئی جس کے دوسری جانب مائی جو گوٹھ نظر آرہا تھا۔مجھے یہ محسوس ہوا کہ شاید یہ زندگی بھی کچھ ایسا ہی پرخطر اور پیچیدہ راستوں سے بھرا سفر ہے اور اس کی کامیابی کا راز ہمت ہار بیٹھنا نہیں بلکہ چلتے رہنا ہے۔
مائی جو گوٹھ
مائی جو گوٹھ ایک مختصر سی آبادی پر مشتمل ایک گائوں ہے۔ اس کے نام کی وجہ ایک مائی ہے جو منتیں مانگنے والوں کو دھاگوں پر پھونک کر انہیں گنڈے دیا کرتی تھی تاکہ انکی مرادیں پوری ہوجائیں۔حالانکہ یہ سادہ لوح سیاح یہ نہیں سوچتے کہ اس مائی نے اپنی کسمپرسی دور کرنے کے لئے کوئی گنڈا کیوں نہیں بنالیا۔
یہاں اسی طرح چھپر سے بنے ہوٹل میں پڑائو ڈالا۔ بدن تھکن سے چور تھا چنانچہ عصر کی نماز پڑھ کر کھانا کھایا اور لیٹ گئے۔ یہاں ایک عجیب سے سکوت تھا۔ ہوٹل میں ہمارے علاوہ صرف دو آدمی اور تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ عام طور پر اس جگہ کی ہولناکی وجہ سے لوگ یہاں قیام نہیں کرتے ہیں۔میں نے جب ماحول کا جائزہ لیاتو علم ہوا کہ وہ ہوٹل کوئی باقاعدہ ہوٹل نہ تھا بلکہ ایک دالان نما کھلی جگہ تھی۔کچھ دور ہی پہاڑ موجود تھا اور مقامی آبادی کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ آہستہ آہستہ رات کی تاریکی میں اضافہ ہورہا تھا۔ بلاآخر اندھیرے نے ہر چیز کو نگل لیا ۔چند فٹ دور پہاڑ نے دیو ہیکل عفریت کا روپ دھارلیا ۔پہاڑ کے عقب میں ایک شگاف دار چٹان سینگ والے جن کی شکل نمودار ہوگئی ۔
اس بھیانک منظر میں یہ ہولناکی اس وقت اور بڑھ جاتی جب تصور میں ہیولے آتے دکھائی دیتے۔ کبھی ہوا کی تیزی سے کوئی کاغذ یا تھیلی اڑتی ہوئی فرش سے ٹکراتی تو یوں لگتا کہ کوئی چل رہا ہو۔دور لالٹین کی روشنی ماحول کی تاریکی کو اور نمایاں کئے دے رہی تھی۔ ماحول کا سکوت، تنہائی کا احساس، تاریکی میں اضافہ اور اندر کا خوف سب مل کر نفسیاتی کچوکے لگارہے تھے اور سب لوگ سہمے بیٹھے تھے کہ اب کیا ہوگا۔ پتا نہیں کل کا سورج بھی دیکھنا نصیب ہو یا نہ ہو۔لیکن اسی خوف میں ایک ایڈوینچرڑ کا احساس بھی تھا ۔ اور سب سے بڑھ کر رب کی قربت کا اطمینا ن تھا کہ وہ تو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ۔ اس کے ہوتے ہوئے کیا خوف اور کیسی دہشت۔
میں نے لیٹے لیٹے سوچا کہ شاید اسی خوف کی بنا پرماضی اور حال کے لوگ شرک کی جانب مائل ہوئے۔ انہوں نے بزرگوں، روحوں، قبروں اور دیگر پر اسرار چیزوں کو طاقت کا منبع سمجھا اور ان کو خوش کرنے کی کوشش کی تاکہ یہ اندیکھی ارواح انہیں ان جانے خطرات سے محفوظ ک کرسکیں۔ چونکہ اللہ کا وجود نظروں سے اوجھل تھا لہٰذا لوگ اس مفروضے پر مبنی دیومالا میں الجھ کر رہ گئے ۔ حالانکہ اللہ ان کی رگ جاں سے بھی زیادہ قریب تھا اور وہ اگر اس کو پکارتے تو اپنی مرادیں پالیتے۔ بہرحال میں نے تو تنہا رب ہی کو پکارا کہ مجھے اس مشکل سے نجات دے اور اس نے مجھے بچالیا۔ اور وہ وقت بھی کٹ گیا یہاں تک کہ صبح ہوئی اور جان میں جان آئی۔
لاہوت لامکاں
“لاہوت لامکاں “ہماری اگلی منزل تھی۔لاہوت لامکاں تصوف کی ایک مشہور اصطلاح ہے جس کا مطلب اس مادی دنیا سے ماورا ایک ایسی روحانی دنیا ہے جہاں وقت اور مکان نہیں ہوتا ۔لیکن بہرحال نورانی میں یہ ایک بڑےسے غار کا نام ہے جہاں مقامی لوگوں کی کئی زیارتیں ہیں جو انکی روایات کے مطابق نورانی بابا اور دیگر بزرگوں سے منسوب ہیں۔ غار تک پہنچنے کے لئے ایک ڈھلان پر چلنا پڑتا ہے جو قریب آدھے گھنٹے کی مسافت ہے۔لوہے کی سیڑھیاں غار کے دہانے تک لے جاتی ہیں۔ ہم بھی غار کے منہ تک پہنچ گئے اور چپلیں اتار دیں کیونکہ اس کے بغیر اند جانا منع تھا۔غار کا دہانہ سطح زمین سے قریب آٹھ فٹ اوپر تھا اور اس تک پہنچنے کے لئے رسی پر چڑھنا لازمی تھا۔میں بھی باقی لوگوں کی طرح رسی پکڑ کر اوپر پہنچ گیا اور جب دہانے کے اندر جھانکا تو یوں لگا جیسے اندھا ہوگیا ہوں۔دوسری جانب بہت تاریکی تھی ۔ ادھر شاہنواز نے چیخ کر کہا ” میرا ہاتھ پکڑو”۔ میں اس کا ہاتھ پکڑ کر غار اندر کود گیا۔ننگے پائوں ہونے کی بنا پر زمین کی سیلن جلد ہی محسوس ہوگئی ۔کچھ دیر بعد جب نگاہیں اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہوئیں تو پتا چلا کہ یہ تو بڑا وسیع و عریض غار ہے اور اس میں بیک وقت سو سے زائد افراد سما سکتے ہیں۔ بعض مقامات پر یہ غار بیس فٹ تک بلند تھا۔ غار میں پہلے قدرتی پانی کا چشمہ ہو کرتا تھا جو اب خشک ہوگیا تھا۔غار کے ایک کونے پر لوگ جمع تھے ۔جب دیکھا تو وہاں ڈھلان میں ایک طویل اور تنگ سی سرنگ تھی جو غار سے باہر جانے کا متبادل راستہ تھا۔سرنگ کی تنگی کی بنا پر اس میں سے ایک آدمی بھی بمشکل نکل پاتا۔اس کے بارے میں بھی یہ روایت مشہور تھی کہ جو کوئی اس میں داخل ہو اور نکل جائے تو وہ اپنے ماں باپ کی جائز اولاد ہے اور اگر پھنس جائے تونہیں۔سب سے دلچسپ چیز ایک چھوٹا سا پتھر کا ٹیلا تھا ۔ اس کودیکھ کر یوں لگتا گویا کہ کوئی اونٹ بیٹھا ہو۔ اس کا اگلا حصہ اونٹ کے منہ سے مشابہ تھا جس پر اصلی اونٹ کی کی طرح کپڑا لپیٹا ہوا تھا۔اس کا پچھلا حصہ ایک بیٹھے ہوئے اونٹ کے دھڑ سے ملتا جلتا تھا ۔ لوگو ں کی روایت کے مطابق یہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی تھی جو پتھر کی بن گئی تھی۔ لیکن کسی نے یہ نہ سوچا کہ کہ حضرت صالح علیہ السلام تو عرب کے علاقے میں تھے وہ اور انکی اونٹنی یہاں کس طرح آگئی۔شاید وہاں موجود لوگوں کو اس قسم کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ بلکہ ان میں سے کوئی تو چراغ کے آگے ہاتھ باندھے کھڑا تھا اور کوئی اونٹنی کے سامنے عجز کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔ یہ سب کچھ روایات پر مبنی تھا۔ لیکن کسی کو جاننے کی فرصت نہ تھی کہ حقیقت تک پہنچ جائے اور دیکھے کہ وہ درست کررہا ہے یا غلط۔ ۔اس غلطی میں شاید ان ان پڑھ لوگوں کا اتنا قصور نہ تھا جتنا مذہبی طبقے اور مصلحین کا تھا۔ ان راہنمائوں کی مجرمانہ خاموشی اور اصلاح میں غفلت کی بنا پر معاملات اس نہج تک پہنچ گئے تھے۔
ماضی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت قریش کا یہی استدلال تھا کہ ہم ان صدیوں سے رائج رسوم و رواج اور شرک کی علامات کو کیسے چھوڑ دیں جبکہ ہم نے ان پر اپنے آبا و اجداد کو ان پر چلتے ہوئے پایا ہے۔ان سے پوچھا جاتا کہ اگر آبا و اجداد اور بڑے بزرگان غلط تھے تب بھی کیا باطل کی پیروی کی جائے گی؟۔ تو اس بات کا جواب ان کے پاس کچھ نہ ہوتا سوائے ہٹ دھرمی کے۔ آج ہمارے مذہبی حلقوں میں بھی یہ آبا پرستی پوری طرح سرایت کرگئی ہے۔ آج رسم و رواج کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے دین کو بدعات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور اس کی دلیل یہی دی جاتی ہے کہ اگر یہ کام غلط تھا تو فلاں بزرگ نے کیوں کیا؟۔
غار میں ایک مقام پر صفیں بچھی ہوئی تھیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ نماز پڑھنے کی جگہ ہے لیکن کسی کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور لوگ اس کونے میں رش لگا کر کھڑے تھے جہاں نورانی بابا نے چلہ کاٹا تھا۔ یعنی خدا سے زیادہ خدا کے بندے کی اہمیت ہوگئی تھی۔ قریش کے لوگ بھی جب اپنی کھیتی یا گوشت نذر کرتے تھے تو کچھ حصہ اپنے شرکا اور کچھ حصہ اللہ کے لئے نکالتے تھے۔ اگر تولتے وقت اس میں سے کچھ نیچے گر جاتا تو وہ کسی کا بھی ہو، اسے شریکوں کے حصے میں شامل کردیا جاتا تھا ۔ یعنی خدا پس پشت اور اس کے فرضی شرکا ء زیادہ اہم ہوگئے تھے۔
واپسی کا سفر
زائرین کی تعداد میں اضافے کی بنا پر گھٹن بڑھ رہی تھی۔ چنانچہ ہم باہر آگئے اور واپسی کا سفر شروع کیا اور ہوٹل میں آگئے۔اس مرتبہ پھر ایک شخص سے ملاقات ہوئی جس نے احرام باندھا ہوا تھا۔چونکہ ہمارے پاس وقت تھا لہٰذا سلمان ان صاحب کے پاس گیا اور ان سے کچھ بات کرنے کی کوشش کی۔ میں نے دور سے دیکھا کہ وہ صاحب چرس کے سوٹے لگا رہے تھے اور اپنے برابر بیٹھے بچے کو گندی گندی گالیوں سے کسی بات پر ڈانٹ رہے تھے۔مجھے دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہ صاحب بگڑا ہوا ہی صحیح لیکن ایک مذہبی پس منظر رکھتے ہیں اور اخلاقی طور پر اتنی پستی کا شکا ر ہیں۔ظاہری شریعت کو برا بھلا کہنے والے لوگ جب اس سے پیچھا چھڑاتے ہیں تو سب کچھ ہی چھوڑ بیٹھتے ہیں اور شاید یہی ان کا مقصود ہوتا ہے۔
سلمان ان صاحب کے طرز عمل سے بڑا مایوس ہوا۔ اس نے سوال کیا کہ آخر یہ تصوف ہے کیا؟ کیا یہ اسی قسم کی حرکتوں اور رسومات کا نام ہے؟”۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، سیماب نے جواب دیا۔
“تصوف کی ابتدا یوں تو نیک نیتی کے ساتھ ہوئی تھی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد طویل عرصہ گذر گیا تو لوگ ظاہر پرستی کا شکار ہوگئے۔چنانچہ کچھ مصلحین اٹھے اور لوگوں کو ظاہر کے ساتھ باطن سدھارنے کی تلقین کی ۔ کہ نماز اس طرح پڑھو جیسے اللہ کو دیکھ رہے ہو۔ اس باطن میں جھانکنے کے لئے انہوں نے کچھ چلے، وظائف،مشقیں اور مراقبے وغیرہ تجویز کئے جن کا مقصد خدا کا تصور مضبوط کرنا اور گناہ سے بچنا تھا ۔ لیکن بعد کے صوفیوں نے ان مشقوں کو ذریعہ سمجھنے کی بجائے مقصد سمجھ لیا۔ یوں باطنیت پر مبنی ایک علم کلام وجود میں آگیا اور ظاہری شریعت پس پشت جاتی چلی گئ۔گوکہ تصوف کے سنجیدہ حلقے ان بدعات کو ناپسند کرتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ عوام پر اپنا اثر ڈالنے سے قاصر ہیں بلکہ ان کی خاموشی عوام کی ان حرکتوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔آج اس بات کی ضرورت ہے کہ تصوفانہ رسومات اور ہر رسم کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے تاکہ لوگ صراط مستقیم پر چل سکیں”۔ سیماب کی بات پر شاہنواز مسکرانے لگا اور کہا ” بھائی لگتا ہے کہ تم تو صوفیوں کے دشمن ہو”۔ اسکی بات پر سب ہنسنے لگے۔
واپسی کے لئے ہمیں دوبارہ محبت فقیر کے ڈیرے تک جانا تھا کیونکہ بس وہیں سے ملتی ہے۔اس کے لئے پیدل مارچ کرنا اور کئی چوٹیوں کو سر کرنا لازم تھا۔
ہوٹل کے مالک نے ہمیں راستہ سمجھایا ۔” وہ جو سامنے دو بڑی چوٹیاں نظر آرہی ہیں ان کے درمیان سے گذرنا ہے اور ان کے بعد ایک بڑا سا پہاڑ آئے گا اس کو پار کرکے نیچے اتریں گے تو ڈیرے تک پہنچ جائیں گے”۔
ہم نے سامان ساتھ لیا اور متعین راستے پر چل پڑے۔موسم ابر آلود تھا ۔ آگے چلنے پر کچھ بوندیں بھی چہرے سے ٹکرائیں جس سے ہمارے اوسان خطا ہوگئے کیونکہ بارش کا مطلب راستے کی بندش تھا اور ہم یہاں کئی دنوں کے لئے پھنس سکتے تھے۔ہم نے اللہ سے مدد کی درخواست کی اور تیز ی سےمتعین پگڈنڈی پر چلنا شروع کیا۔ پہاڑی اور کچے علاقوں میں گلیاں وغیرہ نہیں ہوتیں البتہ لوگوں کے مسلسل چلنے کی وجہ سے زمین پر مخصوص نشان بن جاتے ہیں چنانچہ لوگ انہی نقش قدم پر چل کر منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔ زندگی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اگر آپ پیغمبروں کے نقش قدم پر چلیں گے تو منزل تک پہنچ جائیں گے جبکہ ابلیس کی شاہراہیں جہنم کے دہانے پر پہنچادیتی ہیں۔
جب آگے بڑھے تو پگڈنڈی ختم ہوگئی۔ ایک اور پگدنڈی بڑی مشکل سے ملی جو بہت دور تک چلی لیکن ہم سمجھ گئے تھے کہ راستہ بھول گئے ہیں۔بہرحال پنچایت نے فیصلہ دیا کہ دو آدمی نیچے رکیں اور دو اوپر جاکر سمت کا تعین کریں ۔میں اور شاہ نواز اوپر چڑھنے لگے۔ پہاڑ خاصا عمودی تھا ۔ بدقت تمام چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ اوپر پہنچ کردیکھا کہ بکریوں کی تازہ منگنیاں ہیں۔ مجھے وہ وقت یاد آگیا جب ابو سفیان نے بدر کی جنگ سے قبل اونٹوں کی مینگنیاں توڑ کر اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ یہ اونٹ مدینے کے ہیں کیونکہ ان میں کھجور کی آمیزش ہے۔ بہرحال ان مینگنیوں کو دیکھ کر شاہنواز نے فتویٰ دیا کہ مقامی آبادی قریب ہی ہے۔ وہاں ایک پگڈنڈی بھی نظر آہی گئی۔ ہم نے باقی ساتھیوں کو اوپر بلایا اور اس پر چلنا شروع کردیا۔ کچھ دیر بعد وہ راستہ بھی دغا دے چلا کیونکہ اس کا اختتام ایک چوٹی پر ہوا جس کے نیچے انتہائی عمودی ڈھلان تھی۔ عمودی پہاڑوں پر اترنا چڑھنے سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے اور اس پہاڑ پر تو چھوٹے چھوٹے پتھر بھی تھے جو پھسلنے کا سبب بن سکتے تھے۔
آس پاس کوئی شخص نہ تھا ، ہو کا عالم، حبس سے پسینے چھوٹ رہے تھے۔دشواری کے باوجوداترنے کے سوا کوئی چارا نہ تھا کیونکہ واپسی کا راستہ بھی ہم بھول چکے تھے۔ زندگی میں اکثر ایسے مواقع آتے ہیں جب دو برائیوں میں سے کم تر برائی منتخب کرنا ہی عقلمندی ہوتی ہے۔ چنانچہ ہم نے اسی عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اترنا شروع کیا۔ سیماب ایک مرتبہ سلپ ہوکر لڑھکنے لگا تو ہم سب نے مل کر تھام لیا۔ میں اور سلمان بھی ذراسے پھسلے لیکن بہرحا ل معاملہ معمولی خراشوں تک ہی محدود رہا۔تقریبا ایک گھنٹے مسلسل اترائی پر چلتے رہنے کے بعد ہم ایک بڑی راہداری پر پہنچ گئے اور جان میں جان آئی اور یوں بسوں کے اڈے تک پہنچ گئے۔
رب کا شکر
بس نے شام پانچ بجے روانہ ہونا تھا اور اس وقت ڈھائی بج رہے تھے۔ہم نے نماز پڑھی۔ واپسی کا سفر کچھ اچھا نہ تھا کیونکہ تکان بہت زیادہ تھی۔ اسی لئے وہ مناظر جو آتے ہوئے دل کو بھا رہے تھے جاتے وقت اچھے نہیں لگے۔ وقت وقت کی بات ہے کبھی آدمی کسی چیز پر فدا ہوتا ہے لیکن بعد کے حالات اس کی دلچسپی کو ختم کردیتے ہیں۔
ہم نے اس رب کا شکر ادا کیا جس نے ہمیں خیریت ساتھ یہ سفر اور ایڈوینچر طے کروایا۔ خدا کا شکر کوئی رسمی شکریہ نہیں بلکہ یہ اپنی کمزوری، کم علمی اور بے بسی کا درست ادراک ہے اس ہستی کے سامنے جو طاقت کی مالک ہے، جو علم کا منبع ہے ، جو سب کچھ کرنے پر قادر ہے۔ وہ نہ ہو تا تو ہماری ٹانگیں چلنے سے انکار کردیتیں، بدن کا خون رگوں میں نہ دوڑتا، دل دھڑکن بھول جاتا۔ اسکی مدد نہ ہوتی تو ہم وہیں پہاڑیوں میں بھٹکتے ہوئے فنا ہوجاتے، بارش میں بہہ جاتےیا پھسل کر ہڈیاں تڑوا لیتے۔ وہ ہی ہے جو تمام تعریفوں کے لائق ہے کیونکہ ہر بھلائی اور اچھائی اسی کی جانب سے ہے۔
سبحان اللہ و الحمد للہ ولاالہ الااللہ واللہ اکبر
پروفیسر محمد عقیل
ربط
https://aqilkhans.wordpress.com/2011/06/03/نورانی-کا-سفر-نامہ/#more-700