نواز شریف کے نام

اللہ نے نواز شریف کا ایک بار پھر وزیر اعظم پاکستان بنادیا ہے۔ اللہ نے یہ باری تیسری بار دی ہے۔ تین کا عدد بہت اہم ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ آخری بار ہو۔ اللہ نے یہ فتح بھی بہت اعلیٰ دی ہے کہ دشمن بھی زیر ہوچکا ہے۔ وقت کا فرعون مشرف جیل میں پڑا ہے ۔ دوست دشمن سب نے نواز کو ووٹ ڈال کر وزیر اعظم بنادیاہے۔ ایٹمی طاقت پاکستان کے سپہ سالار کہہ چکے ہیں کہ حکم کرو سر تسلیم خم ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں بھی حکومت ملی ہے۔ یہ موقع پھر کبھی نہیں ملے گا۔ اللہ نے نواز شریف کو موقع دیا ہے کہ پاکستان کا سر بلند کرے اور مسلم امہ کی نشاة ثانیہ کی راہ ہموار ہو۔

نواز شریف کو عین جالوت کی جنگ سے سبق لینا پڑے گا۔ اے کاش عین جالوت کی فتح میں قطز نے جو اسباب ہوئے وہی نواز شریف استعمال کرے۔
-------------
عین جالوت سے اقتباس اور سبق
قطز صرف جواب دے کر بھول نہیں گیا بلکہ اس کو اندازہ تھا کہ اس قسم کے واضح جواب کے بعد کس قسم کا ردعمل ہوسکتا ہے۔ لہذا اس نے تیاریاں شروع کردیں۔​
اسنے اپنے عوام کو ایمان، اتحاد جیسے ہتھیاروں سے مزیں کیا قبل اسکے کہ فولاد کے ہتھیاروں سے مسلح کیاجائے۔ اتحاد حاصل کرنے کے لیے اس نے منتشر مسلمان سرداروں کی طرف اپنے امیر مملکت جیسے کہ "بابیرس البندکاری" روانہ کیے۔ امیر مملکت "بابیرس- ممتاز" کے لقب سے جاناجاتا تھا۔ اس نے منتشر سرداروں سے کہا کہ اپنے چھوٹے چھوٹے اختلافات کو بھلا کر متحد ہوجائیں تاکہ اپنے مشترکہ دشمن کو شکست دے سکیں۔ دشمن وہ جو کہ تھادشمن اسلام۔​
قطز علماء اسلام کی اھمیت سے بھی بخوبی واقف تھا اور ان کے عوام میں اثرات سے بھی اگاہ تھا۔ اس نے علما سے مدد کی درخواست کی اور ان سے کہا کہ فتح کے لیے دعا کریں اور عوام سے کہا کہ اپنے دین کی سرفرازی کے لیے ثابت قدم رہیں۔ اسنے علما اسلام میں سے اپنے قریبی اور اہم وزیر منتخب کیے۔​
سب سے اہم عالم جنھوں نے سلطان کی مدد کی وہ " سلطان العلماء" العز بن ابدیس سلام تھے۔ سلطان قطز نے بن ابدیس سلام سے فتویٰ طلب کیا کہ وہ عوام پر مزید جنگی ٹیکس عائد کرسکے تاکہ مزید ہتھیار حاصل ہوسکے۔ دیانت دار عالم نے سلطان پر یہ واضح کردیا کہ حکومت کوئی نیا ٹیکس عوام پرنہیں عائد کرسکتی جب تک کہ گورنر و وزرا اپنی ذاتی دولت اور ان کے تمام رشتہ دار اپنی تمام دولت خرچ نہ کرڈالیں۔ العز نے ان غلام سرداروں کو بھی فروخت کرنے کو کہا کو کہ حکومت کے اہم عہدہ دار تھے مگر قانونی طور پر اپنے مالکان سے ازاد شدہ نہ تھے اور افواج میں طاقت حاصل کرچکے تھے۔

مطلوبہ رقم عوام پر کسی قسم کے نئے ٹیکس عائد کیے بغیر پوری ہوگئی۔ عوام جو کہ اس سارے سلسلے کو اپنی انکھوں سے دیکھ رہے تھے اپنے حکمرانوں کے نافذکردہ اسلامی قوانین کے وفادار ہوگئے جیسا کہ انھیں مخلص اسلامی علما کرام نے بتایا۔ مخلص علما نے عوام کو عفلت کی نیند سے جگایا اور انھین قانونی حکمران سے وفاداری اور جہاد کی اھیمت کا احساس دلایا۔ اور اللہ کی راہ میں قربانیوں کی ترغیب دی اور دشمن سے لڑنے کی راہ دکھائی تاکہ خلق خداکو ظلم سے نجات ملے اور اللہ کے ماننے والوں کی نصرت ہو۔​
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تنبیہہ کی مدنظر رکھتے ہوئے کہ "جو لوگ اپنی زمین کے وسط میں حملہ اور کا مقابلہ کریں گے وہ بے عزت ہوں گے" قطز نے اپنی افواج کو حکم دیا کہ اگے بڑھ کی حملہ اور کا مقابلہ کریں۔ اس نے اپنا ایک ہراول دستہ بھی بیبرس کی قیادت میں غزہ، فلسطین کی طرف روانہ کیا جس نے تاتاریوں کی کچھ افواج کو وہاں مصروف کردیا اور ان کو شکست سے دوچار کیا۔ قطز کی مرکزی افواج قطزہی کی قیادت میں فلسطین کے ساحل کی طرف بڑھیں جہاں صلیبوں کا مضبوط گڑھ واقع تھا۔ یہاں قطز نے صلیبوں کو خبردار کیا کہ تاتاریوں سے دو دو ہاتھ کرنے سے پہلے وہ صلیبوں کو پیس کر رکھ سکتا ہے اگر وہ غیرجانبدار نہ رہے۔ صلیبی قطز کی دھمکی کو حق جانتے ہوئے اور مسلمانوں کی طاقت دیکھتے ہوئے غیر جانبدار رہنے پر مجبور ہوگئے۔ اس وقت وہ تعداد میں اور طاقت میں بھی بہت کمزور تھے ۔
جب مرکزی مسلم افواج دشمن کی افواج کے نزدیک پہچیں تو قطز (اللہ اس پر اپنی رحمت کی بارش کرے) میدان جنگ خود منتخب کیا جو کہ ایک وادی میں تھا جس کو پہاڑوں نے گھیرا ہوا تھا۔ اس نے اپنے کچھ سپاہی پہاڑوں پر تعینات کیے تا کہ اگر صلیبی دھوکہ سے، یا تاتاری و غدار پیچھے کی طرف سے حملہ کریں تو دفاع کیا جاسکے۔
تاتاری ٹڈی دَل اخیر کار میدان جنگ میں پہنچ گیا جو کہ تینوں طرف سے گھرا ہوا تھا۔ معرکہ ارائی شروع ہوئی اور توازن تاتاری افواج کی طرف جھکتا نظر ایا۔ تاتاری افواج کا دایاں بازو مسلم افواج کے بائیں بازو پر غالب انا شروع ہوگیا۔ مسلمان افواج نے پسپا ہونا شروع کردیا۔ قطز ایک چٹان پر چڑھ گیا اور اپنے سر سے حفاظتی خود پھینک دیا اور پکار کر کہا " وا اسلامہ وا اسلامہ"، اپنی افواج کو لڑتے رہنے کی تاکید کی اور تلقین کی کہ اللہ کے دشمنوں سے جنگ میں پیچھے نہیں ہٹتے۔ مایوس ہوتے ہوئے مسلم افواج کے سرداروں نے اپنے رہنما کی طرف دیکھا تو بغیر خود کے قطز دیوانہ وار تلوار چلارہا تھا اور دشمن کی صفوں کے درمیان گھس کر کشتوں کے پشتے لگارہاتھا۔ قطز کی جرات نے مسلم افواج کے سرداروں کو دم بخود کردیا جہنوں نے فوراً قطز کی پیروی کی اور مسلم افواج کا حوصلہ بحال ہوگیا۔
کچھ ہی لمحوں میں پانسہ مسلم افواج کے حق میں پلٹ گیا۔ تاتاری افواج منتشر ہوگئیں اور ان کی ایک قابل ذکر تعداد ہلاک ہوگئی یا گرفتار ہوگئی ۔ تاتاری افواج کا سردار مارا گیا اور اس کا بیٹا بھی گرفتار ہوگیا۔ تاتاری افواج کا کوئی بھی فرد قتل یا گرفتار ہونے سے نہ بچ سکا کیونکہ جو تاتاری اس میدان جنگ سے بھاگ گئے وہ شام میں مارے گئے۔
جب شاندار فتح کی خبر دمشق اور گرد ونواح پہنچی تو مسلمان خوشی سے سرشار ہوگئے اور انھوں نے اپنی شان و شوکت کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے تاتاریوں پر حملے شروع کردیے ساتھ ساتھ ان لوگوں پر بھی جو یوں کے حامی تھی اور ان کی مدد کررہے تھے
جب تاتاریوں کو اندازہ ہوا کہ ان کی حکومت مشرقی اسلامی سرزمیں پر کمزور ہورہی ہےا ور مسلمانوں نے اپنی قوت بحال کرلی ہے تو وہ اپنے وطن کی طرف بھاگے جس کی وجہ سے قطز اسانی سے شام کو کچھ ہی ہفتوں میں ازاد کرانے میں کامیاب رہا۔ الحمدللہ۔
قطز نے ان مسلمان سرداروں جنھوں نے تاتاریوں کے خلاف قطز کی مدد کی تھی نوازنا شروع کیا۔ اس نے کچھ ایوبی سرداروں کو ان کی سرزمیں واپس کی اور اپنی حکومت میں انھیں قابل عزت وزرا کے طور پر شامل کیا۔

 
شاندار فتح کی وجوہات
اگر ہم بغور دیکھیں کہ کیا وجہ رہی کہ مسلم افواج اس شاندار فتح کی حقدار ٹھیریں تو معلوم پڑتا ہے کہ یہ وجوہا ت وہ تھی جو کبھی بھی تبدیل نہ ہوئیں نہ ہوں گیں جب سے پہلی وحی نازل ہوئی تا قیامت تک۔
پہلی شرط درست ایمان کے اوردیانت دار علما، جن کا ذکر پیچھیے کیا گیا جو اسلام کی حفاظت کرتے ہوئے خوف اللہ رکھتے ہوں نہ کہ خوف حکمران ، کی پیروی ہے۔ اسطرح کے علما کی نمائندگی "سلطان العلما" العز بن ابدیس سلام (اللہ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے) کرتے ہیں۔
دوسری اہم شرط مخلص قیادت ہے جو اللہ کے پیغام کی سربلندیکی کوششیں کرے اور اس کے دین کی حفاظت کرےصرف اللہ کے واسطے۔ اس کی نمائندگی "فاتح سلطان" قطز (اللہ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے) کرتے ہیں۔
تیسری اہم شرط اور سب سےبڑی شرط مسلم امہ کا اتحاد ہے جو کہ توحید کے بینر تلے ہو، ایک ہی مشترکہ فکر ہو اور احساس ذمہ داری ہو قطع نظر موجود چھوٹےچھوٹے فرق کے۔
 
Top