نواز شریف کی کہانی

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف کی کہانی
صابر شاکر

دائیں بازو کی جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد کی حکومت مخالف تحریک کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی حکومت ختم ہو چکی تھی۔اقتدار افواج پاکستان نے سنبھال لیا تھا اور یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی دائیں اور بائیں بازو کی سیاست عروج پر تھی۔تعلیمی اداروں میں طلبا یونینز ‘ٹریڈ یونینز اورتمام شعبہ ہائے زندگی دائیں اور بائیں بازو میں تقسیم تھے۔دیواروں پر ''ایشیا سبز ہے‘‘ اور'' ایشیا سرخ ہے‘‘ کے نعرے درج ہوتے تھے۔صحافت‘ادب اور شاعری میں بھی یہی نظریات نمایاں تھے۔فیض احمد فیض‘ احمد فراز اور حبیب جالب بائیں بازو کے نامور شعرا تھے۔عالمی سطح پر بھی دنیا سوشل ازم‘کمیونزم اور کیپٹل ازم میں تقسیم تھی۔اسلامی بلاک ظاہر ہے آج کی طرح نہ تین میں تھا‘ نہ تیرہ میں۔ پاکستان پیپلز پارٹی بائیں بازو کی تگڑی جماعت تھی اور ذوالفقار علی بھٹو نے دائیں بازو کے تمام سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو آگے لگایا ہوا تھا۔اسی لیے انہیں شکست دینے کیلئے کم و بیش تمام مذہبی جماعتوں اور دائیں بازو کی دیگر جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد میدان میں اتارا گیا ۔بھٹو کی انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کی خواہش نے ان کو کہیں کا نہ چھوڑا اور وہ اقتدار سے محروم ہوگئے۔انہیں مستقل رہا کرنے کے بارے میں سوچا بھی گیا ‘مگر ان کی عوامی مقبولیت ان کے لیے موت کا پروانہ ثابت ہوئی۔بالآخر بھٹو قتل کے ایک انتہائی کمزور مقدمے میں پھانسی چڑھا دیئے گئے۔ایک سیاسی راہنما کی اس سزائے موت سے پیدا ہونے والی تلخی آج تک برقرار ہے اور شاید اسی لیے بھٹو کے بعد کسی سیاسی رہنما کو دوبارہ سزا نہیں دی گئی؛البتہ سیاستدان اس سزائے موت کا بدلہ پرویز مشرف کو سزا دلوا کر لینا چاہتے ہیں۔
بھٹو مرحوم سے فراغت کے بعد جنرل ضیاالحق کو پیپلز پارٹی کا مقابلہ سیاسی میدان میں کرنا تھا‘ لیکن انتخابات کیلئے حالات ساز گار نہیں تھے۔صوبوں میں مارشل لاایڈمنسٹریٹر گورنر تعینات کئے گئے‘ پنجاب میں غلام جیلانی خان کو گورنر اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا۔ غلام جیلانی سقوط ڈھاکہ کے بعد بھٹو کے دورِ حکومت میں سولہ دسمبر 1971ء کے بعد سے لے کر 1976ء تک آئی ایس آئی کے سربراہ رہے۔یہ وہ دور تھاجب ذوالفقار علی بھٹو شریف خاندان کے کارخانے نیشنلائز کررہے تھے اور کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ میاں شریف کے غلام جیلانی خان سے تعلقات ان کے گورنر بننے سے پہلے کے تھے اور نواز شریف کا غلام جیلانی سے ملنا ملانا تھااور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ شریف خاندان میں بھٹو خاندان کے بارے میں کتنا غصہ پایا جاتا ہے‘لہٰذا وہیں سے ہُما نواز شریف کے کندھوں پر بیٹھا۔
میاں شریف نے اپنے بیٹے نواز شریف کو غلام جیلانی کی تابع داری میں دے دیا ‘یہ وہ زمانہ تھا جب نواز شریف نے 1976ء میں تحریک استقلال کو خیر باد کہا اور مسلم لیگ کو جوائن کیا‘ شاید ان کو یہ ایڈوائس غلام جیلانی نے دی ہو گی ۔ نواز شریف نے گورنر غلام جیلانی کی کابینہ میں بطور وزیر خزانہ پاور کاریڈور میں قدم رکھااور جنرل ضیاالحق کی زیر قیادت پنجاب ایڈوائزری بورڈ کے رکن کے طور پر نواز شریف کا 1981ء میں تقرر کیا گیا۔جنرل ضیا ‘چونکہ مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور مستقبل میں بائیں بازو کو شکست دینے کیلئے دائیں بازو کا ایک مضبوط دھڑا کھڑا کرنا چاہتے تھے‘ یہ خصوصیت بھی شریف فیملی میں موجود تھی ‘ پھر بھٹوخاندان سے دشمنی کی قدرِ مشترک نے بھی جنرل ضیا اور شریف خاندان کو قریب لانے میں سونے پر سہاگے کا کام کیا۔نواز شریف کو 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں وزیراعلیٰ بنایا گیااور دائیں بازو کے سرخیل کے طور پر اسٹیبلشمنٹ نے تراش خراش کی۔بے نظیر بھٹو کی 1986ء میں واپسی اور ان کے تاریخی استقبال نے جنرل ضیا کو ہلا کر رکھ دیا‘پھر قرعہ نواز شریف کے نام نکلا اور جنرل ضیا کی طاقت سے جماعت اسلامی اور مولانا سمیع الحق کی مدد سے نواز شریف نے دائیں بازو کی جماعتوں کو اکٹھا کرنا شروع کیا اوربائیں بازو کے دانشوروں‘ صحافیوں اور سیاستدانوں کو للکارنا شروع کردیا۔
1988ء میں جنرل ضیا نے جونیجو حکومت برطرف کی تو نواز شریف جنرل ضیا کے ساتھ کھڑے رہے اور قائم مقام وزیراعلیٰ بھی رہے۔دوبارہ وزیراعلیٰ بنے اور بے نظیر بھٹو کی مرکزی حکومت کو خوب للکارااور دائیں بازو کے دانشوروں اور پاور پلیئرز سے خوب داد وصول کی۔میاں شریف مرحوم ہر پاور پلیئر سے ملاقات کرتے اور نواز شریف کو ان کی تابع داری میں دیتے رہے ۔ جنرل ضیا الحق کی شہادت کے بعد میاں شریف نے نواز شریف کی خدمات جنرل حمید گل کے حوالے کیں اور انہیں ہر طرح کی ضمانت فراہم کی گئی‘پھر صدر غلام اسحاق خان کو کہا گیا کہ نواز شریف کو اپنا بیٹا ہی تصور کریں‘ یہ آپ کے سامنے کبھی نہیں بولے گا۔1989ء میں بے نظیر حکومت برطرف کروائی گئی‘ اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا اور اتحاد جیت گیا۔ وزیراعظم غلام مصطفی جتوئی کو بننا تھا‘ لیکن میاں شریف کے تجربے اور جوڑ توڑ نے سب سیاسی پنڈتوں کو پچھاڑ دیا اور وزیراعظم بن گئے‘پھر پاور پلیئر غلام اسحاق خان کو چیلنج کیا اور انہیں بھی چلتا کیا۔محترمہ کے دستِ راست صدر فاروق لغاری سے مل کر بے نظیر بھٹو کی حکومت کو پھر گرایا اور دوبارہ وزیراعظم بنے۔محترمہ بے نظیر بھٹو صدر غلام اسحاق خان‘ صدر فاروق لغاری‘ چیف جسٹس سجاد علی شاہ‘ جنرل آصف نواز جنجوعہ اور زرداری سے مڈھ بھیڑ میں طاقتور پاور پلیئرز نے ہمیشہ نواز شریف کا ساتھ دیا۔ اس دوران نواز شریف نے بائیں بازو کے دانشوروں‘ صحافیوں نجم سیٹھی اور دیگر کے خلاف بغاوت اور ملک دشمنی کے مقدمات درج کروائے اور پاور پلیئرز کے ساتھ ساتھ دائیں بازو کے دانشوروں کی آنکھوں کے تارا بنے رہے۔پھر ایک دن نواز شریف نے اپنے ہی تراشنے والے پاور پلیئرز کو چیلنج کیا اور جنرل جہانگیر کرامت کو گھر بھیج دیا اور جنرل پرویز مشرف کو برطرف کیا ۔پھر جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
جنرل مشرف کو چیلنج کرنے کے بعد نواز شریف نے دائیں بازو کا لبادہ اتار دیا اور اس سے پہلے جماعت اسلامی اور مولانا سمیع الحق سے پیچھا چھڑایا۔جیل ہوئی پھر ایک سمجھوتہ کیا اوردس سال کے لیے جدہ چلے گئے۔ سرور پیلس سے لندن پہنچے پھر جنرل پرویز مشرف کو چیلنج کیا‘ وطن واپس آئے سعودی اور لبنانی گارنٹر آئے اور انہیں واپس لے گئے‘ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ نواز شریف دوبارہ اقتدار میں آئیں گے‘ مگر یہ معجزہ بھی جنرل مشرف کے دورِ اقتدار میں ہی ہوا اور وہ تیسری بار وزیراعظم بننے والے پہلے پاکستانی بن گئے۔اس بار وہ دائیں بازو کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کے بھی رہنما بن کر میدان میں اترے اور لبرل اور بائیں بازو کے دانشوروں کے ہیرو بن گئے۔ ماضی کے دشمن نجم سیٹھی ‘عاصمہ جہانگیر وغیرہ کو رام کیا اور ان کے اتحادی ٹھہرے۔ پی پی پی سے وہ پہلے ہی میثاق جمہوریت کر کے بظاہر جنگ بندی کرچکے تھے‘ لیکن افتخار چوہدری نے میمو گیٹ میں زرداری کو بھی معاف نہیں کیا اور خاموشی سے جعلی بینک اکاؤنٹ کیس کی بنیاد بھی رکھ دی۔ نظریاتی طور پر آگ اور پانی عاصمہ جہانگیر‘ نجم سیٹھی اور ہمارے انتہائی بزرگ قابلِ احترام مجیب الرحمان شامی صاحب کو ایک ہی گھاٹ سے پانی پلایا۔ جنرل مشرف کو قانون شکنی کے مقدمے میں ایسا پھنسوایا کہ وہ آج تک واپس نہیں آسکے۔ اس وقت نواز شریف جیل میں ہیں اور جیل میں بیٹھ کر مولانا سے مل کر ایسی منصوبہ بندی کی کہ دھرنا سر پر آن پہنچا ہے اور حکومت کے ساتھ ساتھ پاور پلیئرز کو بھی حیران و پریشان کردیا ہے۔ایسے محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف پاور پلیئرز کے ساتھ مل کر کھیل کھیل کر ان کے سارے داؤ پیچ سمجھ چکے ہیں‘ اسی لیے بار بار ان کے ہاتھ سے پھسل جاتے ہیں‘ لیکن پاور پلیئرز کے ساتھ ان کا بچپن کا پیار ہے ‘جیسا کہ ٹام اینڈ جیری کا۔ایک زرداری سب پر بھاری کا نعرہ نواز شریف پر زیادہ صادق آتا ہے۔نواز شریف کی جیب میں ہر طرح کے نظریاتی و غیر نظریاتی صالحین ہیں۔اپنا بیانیہ سو فیصد تبدیل کرنے کے باوجود وہ بیک وقت دائیں بازو کے ہیرو بھی اور بائیں بازو کی آنکھوں کاتارابھی ۔
 
Top