نماز کا طریقہ صحیح احادیث کی روشنی میں

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
جزاک اللہ کل خیر ، بھتیجے ، اللہ تعالی مزید خیر کی توفیق عطاء فرماتا رہے ،
شکریے یا پسندیدگی والے بٹن دکھائی نہیں دیے اس لیے یہ پیغام لکھ دیا ، تسلسل میں مداخلت پر معذرت خواہ ہوں ، والسلام علیکم
 

آصف

محفلین
اگر میں رفیع یدین بھول جائوں تو کیا مجھے سجدہ سہو کرنا ہو گا یا نہیں؟؟؟
 
فجر کے فرائض کتنے ہیں اس کی صحیح حدیث درکار ہے۔
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَلَاةُ الصُّبْحِ رَكْعَتَانِ»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا " صبح کی نماز کی دو رکعتیں ہیں"
حوالہ جات:
1۔ سنن ابی داؤد باب تفریع ابواب التطوع و رکعات السنہ، من فاتتہ متی یقضیھا
2۔ السنن الکبری للبیھقی ، جماع ابواب صلاۃ التطوع و قیام شھر رمضان باب من اجاز قضاءھما بعد الفراغ من الفریضہ
الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ یہی بات ان کتب احادیث میں بھی بیان ہوئی ہے:
1۔ سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب ما جاء فیمن فاتتہ الرکعتان قبل الفجر
2۔ سنن الترمذی ابواب الصلاۃ، ما جاء فیمن تفوتہ الرکعتان قبل الفجر
3۔ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلوات، فی رکعتی الفجر اذا فاتتہ
4۔ مسند احمد، احادیث رجال من اصحاب النبی، حدیث قیس بن عمرو
5۔ المعجم الکبیر للطبرانی باب القاف، قیس بن فھد الانصاری
6۔ سنن الدار القطنی کتاب الصلاۃ باب قضاء الصلاۃ بعد وقتھا۔ ۔ ۔
 
قراءت کا بیان
دعائے استفتاح کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب فرماتے تھے۔ اسے تعوذ کہتے ہیں اور اس کی دعا یہ ہے:
[arabic] أعوذ بالله من الشيطان الرجيم؛ من هَمْزِه، ونَفْخِه، ونَفْثِه[/arabic]
(ارواء الغلیل جلد 2 ص 53۔ اصل صفۃ صلاۃ جلد 1 ص 273)
السلام علیکم، درج بالا مراسلہ نمبر 22 میں تعوذ کے کلمات میں غلطی رہی گئی تھی جسے درست کر دیا گیا ہے۔ درست کلمات یہ ہیں:
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم؛ من هَمْزِه، ونَفْخِه، ونَفْثِه
قارئین سے درخواست کی جاتی ہے کہ اگر ان مضامین کو کہیں نشر کیا ہے تو وہاں پر بھی اس کو درست کر دیں۔
اللہ تعالیٰ ہماری غلطیاں کوتاہیاں معاف فرمائے۔
ربنا لا تواخذنا ان نسینا او اخطانا
 
پہلے تشہد کے مسائل
دوسری رکعت کے سجدوں کے بعد اس طرح بیٹھیں کہ بائیں پنڈلی اور بایاں پاؤں بچھا ہو اور دایاں پاؤں اس طرح کھڑا ہو کہ انگلیوں کا رخ قبلے کی طرف رہے۔اس طریقے سے بیٹھنے کو افتراش کہتے ہیں اور یہ دو مواقع پر کیا جاتا ہے:​
  • دو رکعت والی نماز (مثلًا نمازِ فجر ) کی دوسری رکعت کے سجدوں کے بعد۔ اس کی دلیل وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے :​
وَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ أَضْجَعَ الْيُسْرَى وَنَصَبَ الْيُمْنَى،
(سنن النسائی کتاب التطبیق باب موضع الیدین عند الجلوس حدیث 1159، اصل صفۃ صلاۃ النبی جلد 3 ص 829)
“(نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) دو رکعتوں کے بعد بیٹھتے تو بائیں پاؤں کو بچھاتے اور دائیں کو کھڑا کرتے تھے”
  • تین یا چار رکعت والی نماز کی دوسری رکعت کے سجدوں کے بعد۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں ایک صحابی کو نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:​
فَإِذَا جَلَسْتَ فِي وَسَطِ الصَّلَاةِ فَاطْمَئِنَّ، وَافْتَرِشْ فَخِذَكَ الْيُسْرَى ثُمَّ تَشَهَّدْ
“جب تم نماز کے درمیان میں (یعنی دو رکعت کے بعد) بیٹھو تواپنی بائیں ران کو بچھا کر اطمینان کے ساتھ بیٹھ جاؤ اس کے بعد تشھد کرو”
(سنن ابی داؤد ابواب تفریع استفتاح الصلاۃ باب من لا یقیم صلبہ فی الرکوع السجود حدیث 860۔ صحیح سنن ابی داؤد حدیث 806)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تشھد کے کلمات تبھی شروع کرنے چاہیئں جب تمام عضو اپنی جگہ پر آ کر قرار اور اطمینان پکڑ لیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ نمازی حضرات سجدے سے اٹھ کر ٹھیک سے بیٹھ بھی نہیں پاتے اور تشھد پڑھنا شروع کر دیتے ہیں یہ چیز سنت کے خلاف ہے۔
تشھد میں بیٹھنے کا ایک دوسرا طریقہ بھی ہے جسے تورک کہتے ہیں، تورک دو سے زیادہ رکعتوں والی نماز کے آخری تشھد میں کیا جاتا ہے اور اس کی تفصیل آگے آخری تشھد کے ذیل میں آئے گی ان شاء اللہ۔
۔

 
آخری تدوین:
ایک نظر اس کو بھی دیکھ لیں

http://sadria.org/downloads/books/khutbaat2/b1_taharat_wadho_1.pdf

b1_taharat_wadho_1.pdf 440 kB 6/18/15, 12:00:00 AM
b1_taharat_wadho_2.pdf 408 kB 6/18/15, 12:00:00 AM
b1_taharat_wadho_3.pdf 474 kB 6/18/15, 12:00:00 AM
b2_takbeer_sana_4.pdf 459 kB 6/18/15, 12:00:00 AM
b2_takbeer_sana_5.pdf 368 kB 6/18/15, 12:00:00 AM
b2_takbeer_sana_6.pdf 393 kB 6/18/15, 12:00:00 AM
b2_takbeer_sana_7.pdf 515 kB 6/18/15, 12:00:00 AM
b3_fateha_qeraat_10.pdf 422 kB 6/18/15, 12:00:00 AM
b3_fateha_qeraat_11.pdf 475 kB 6/18/15, 12:00:00 AM
b3_fateha_qeraat_12.pdf 426 kB 6/18/15, 12:00:00 AM
b3_fateha_qeraat_13.pdf 436 kB 6/18/15, 12:00:00 AM
b3_fateha_qeraat_14.pdf 406 kB 6/18/15, 12:00:00 AM
b3_fateha_qeraat_15.pdf 477 kB 6/18/15, 12:00:00 AM
b3_fateha_qeraat_8.pdf 454 kB 6/18/15, 12:00:00 AM
b3_fateha_qeraat_9.pdf 440 kB 6/18/15, 12:00:00 AM
b4_rakooh_sajood_16.pdf 424 kB 6/18/15, 12:00:00 AM
b4_rakooh_sajood_17.pdf 469 kB 6/18/15, 12:00:00 AM
b5_qadaa_salaam_18.pdf 397 kB 6/18/15, 12:00:00 AM
b5_qadaa_salaam_19.pdf 398 kB 6/18/15, 12:00:00 AM
b5_qadaa_salaam_20.pdf 414 kB 6/18/15, 12:00:00 AM
b5_qadaa_salaam_21.pdf 393 kB 6/18/15, 12:00:00 AM
fehrist.pdf 511 kB 6/18/15, 12:00:00 AM
tareeqah_nimaaz_22.pdf 253 kB 6/18/15, 12:00:00 AM
 
اب تک ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ بہت ساری غیر مربوط یعنی ڈسکنکٹڈ روایات سے یہ بتایا جارہا ہے کہ مختلف اوقات میں رسول اکرم نے کیا فرمایا ۔ ان تمام روایات سے اب تک نماز پڑھنے کا طریقہ سامنے نہیں آیا ہے۔

یہ الگ الگ احکامات ہیں‌جن میں‌سے نماز پڑھنے سے متعلق کچھ احکامات کا ماخذ آپ اللہ کے فرمان قرآن حکیم دیکھ سکتے ہیں۔ اب تک یہاں‌ایک بھی روایت ایسی نہیں‌پیش کی گئی جو ترتیب سے قیام، رکوع و سجدہ کی تعلیم دیتے ہو اور شروع سے آخر تک کیا پڑھنا ہے اس کی ترتیب وار تعلیم دیتی ہو۔ اب تک ایسی روایات پیش کی گئی ہیں جن کے بارے میں‌ یہ بھی نہیں ‌پتہ کہ ان روایات کی وقت میں‌ترتیب کیا ہے ۔

نماز کی سنت جاریہ اور اللہ تعالی کے قرآن حکیم میں‌فرمان کے بغیر صرف ان روایات سے نماز پڑھنے کا طریقہ واضح تو کیا اس کے بنیادی ڈھانچہ کا سراغ بھی نہیں ملتا۔ کہ کس عمل کے بعد کونسا عمل کرنا ہے اور کس عمل میں اللہ تعالی کا کونسا حکم بجا لانا ہے۔

والسلام
فاروق سرور خان صاحب السلام علیکم ۔۔۔
نیچے سی گئی صحیھ بخاری حدیث#6251 کا مطالعہ کر لیجیئے آپ کے اشکالات دور ہو جائیں گے انشاءاللہ
۔
6251» حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَجُلاً دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ فَصَلَّى، ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((وَعَلَيْكَ السَّلاَمُ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ)). فَرَجَعَ فَصَلَّى، ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ. فَقَالَ: ((وَعَلَيْكَ السَّلاَمُ فَارْجِعْ فَصَلِّ، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ)). فَقَالَ فِي الثَّانِيَةِ أَوْ فِي الَّتِي بَعْدَهَا عَلِّمْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ. فَقَالَ: ((إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلاَةِ فَأَسْبِغِ الْوُضُوءَ، ثُمَّ اسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ فَكَبِّرْ، ثُمَّ اقْرَأْ بِمَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ، ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَسْتَوِيَ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلاَتِكَ كُلِّهَا)).
مع السلام
 

ابوعمر

محفلین
محترم جناب عبداللہ حیدر بھائی. اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے. آمین
محترم اڈمن سے گزارش ہے کہ اس مضمون کو ترتیب سے دوبارہ لگایا جائے بیچ بیچ میں جو تبصرے آئے ہیں انکو آخیر میں لایا جائے تاکہ طالب علم یکسوئی سے علم سے مستفید ہو. بیچ بیچ میں تبصروں نے موضوع کے تسلسل کو تباہ کردیا ہے. یہ ایک جامع مضمون ہے. اسکو حیدر بھائی کی خواہش کے مطابق. تسلسل سے پوسٹ کیا جائے. جزاک اللہ
 
لیکن اگر سواری کو قبلہ رخ کرنا ممکن ہو تو نماز شروع کرنے سے پہلے کعبے کی طرف منہ کر لینا افضل ہے۔( اس لیے کہ) کبھی کبھار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز کے آٖغاز میں “اللہ اکبر” کہتے وقت اونٹنی سمیت قبلہ رخ ہو جاتے، اس کے بعداپنی نماز جاری رکھتے خواہ سواری کا رخ کسی بھی طرف پھر جاتا4
قبلہ رخ ہونے کی استطاعت کے باوجود اگر قبلہ رخ نہ ہؤا تو اس کی نماز صحیح نہ ہوگی۔
 
زبان سے نیت کے الفاظ کہنا بدعت ہے:
زبان سے نیت کے الفاظ کہنا سنت مطہرہ سے ثابت نہیں ہے۔ لوگوں میں زبانی نیت کے جو کلمات مشہور ہیں مثلًا “نیت کی میں نے اس نماز کی، خاص واسطے اللہ تعالیٰ کے، منہ طرف کعبہ شریف” وغیرہ ان کے بدعت ہونے پر علماء کا اتفاق ہے۔ البتہ انہوں نےاس کے اچھا یا برا ہونے میں اختلا ف کیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ عبادات میں کیا گیاہر اضافہ گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دین میں نئی چیزیں نکالنے سےمنع کرتے ہوئے ہر بدعت سے بچنے کا حکم دیا ہے:
وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ (سنن النسائی الصغریٰ کتاب صلاۃ العیدین باب کیف الخطبہ، صحیح سنن نسائی حدیث نمبر 1578)
"اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ( یعنی جہنم) میں ہے"
جس چیز کے بدعت ہونے پر اتفاق ہے تو پھر اچھا یا برا ہونے پر اختلاف کیوں؟
دوسرے یہ کہ دل کی بات زباں پر لانا بدعت کس اصول سے ہے؟
 
تکبیر تحریمہ اورقیام کے مسائل
نماز شروع کرنے کے لیے نمازی اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک یا کانوں کی لو تک بلند کر کے “اللہ اکبر” کہے۔ اسے تکبیر تحریمہ کہتے ہیں۔ یہ نماز کے ارکان میں سے ہے یعنی اسے کہے بغیر نماز درست نہیں ہوتی۔
رفع الیدین کی کیفیت میں شک کیوں ہے؟
 
نماز کی نیت تکبیر تحریمہ کہتے وقت کی جانی چاہیے یعنی نمازی اس وقت اپنے ذہن میں خیال کرے کہ وہ کون سی نماز ادا کرنے جا رہا ہے ، مثلا یہ کہ نماز کی رکعات کتنی ہیں اور وہ ظہر کی نماز ہے یانفل نماز ہے وغیرہ
ان سب باتوں کی چونکہ نیت ضروری ٹھہری تو نیت میں گڑبڑ سے بچنے اور نیت کو حضوریٔ قلب کے ساتھ ادا کرنے کے لئے اگر زبان سے یہ بات ادا کرلی جائے تو یہ نیت کو کامل کرنا ہے نہ کہ بدعت۔
 
تکبیر تحریمہ کہتے وقت ہاتھ کیسے اٹھائے جائیں:
تکبیر تحریمہ کہتے وقت دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک5 اور بعض دفعہ کانوں (کی لو) تک بلندکرنا سنت ہے6۔
تکبیر تحریمہ میں ہاتھوں کو اٹھانے (رفع الیدین کرنے) کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ ہاتھ کے انگوٹھے کان کی لو کے برابر ہو جائیں۔ ایسا کرنے سے ’’حذوا منکبیہ‘‘ والی حدیث پر بھی عمل ہو جاتا ہے کہ عربی میں ’’ید‘‘ ہاتھ کی بڑی انگلی کی نوک سے لے کر کندھے تک کو کہتے ہیں۔ پورے ید کو حذوا منکبیہ نہیں کیا جاتا بلکہ ید کا بعض ہی حذوا منکبیہ کیا جاتا ہے جو کہ انگوٹھوں کو کان کی لو کے برابر کرنے سےحاصل ہو جاتا ہے۔
 
ہاتھ کیسے باندھے جائیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہمیشہ سینے پر ہاتھ باندھا کرتے تھے12 اور اس کی کیفیت یہ ہوتی کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پراس طرح رکھتے کہ وہ ہتھیلی کی پشت، جوڑ اور کلائی پر آ جائے13 اسی کا حکم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی دیا14۔ کبھی کبھار دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کوتھام لیا کرتے تھے15۔ یہ دونوں اپنی جگہ الگ الگ سنت ہیں۔ افضل یہ ہے کہ کبھی بائیں ہتھیلی کی پشت، جوڑ اور کلائی پر دایاں ہاتھ رکھا جائے اور کبھی دائیں ہاتھ سے بائیں کو تھاما جائے تا کہ دونوں سنتوں پر عمل ہوتا رہے۔
ہاتھ باندھنے کا صحیح طریقہ جو تمام احادیث کے مطابق ہے وہ یہ ہے؛
سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی الٹے ہاتھ کی ہتھیلی پر گٹ کے پاس رکھیں۔ سیدھے ہاتھ کی کچھ انگلیوں سے الٹے ہاتھ کو گٹ کے پاس سے پکڑ لیں۔ سیدھے ہاتھ کی کچھ انگیوں کو الٹے ہاتھ پر بچھا دیں۔
ہاتھ باندھنے کا یہ طریقہ تمام احادیث کے مطابق ہے کسی حدیث کے مخالف نہیں۔ بقیہ جتنے طریقہ جات ہیں ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی حدیث کا مخالف ہے۔ اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی یوں ہاتھ باندھتے تھے کبھی یوں یہ کسی دلیل سے ثابت نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ متلون مزاج ثابت کرنے کی کوشش ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی کوششوں سے اپنی امان میں رکھے آمین۔
 
دعائے استفتاح کا بیاں
تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد جب نمازی ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جائے تو دعائے استفتاح پڑھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اس موقع پر مختلف دعائیں پڑھتے اور اللہ سبحانہ و تعالٰی کی حمد، پاکیزگی اور تعریف بیان فرماتے۔ دعائے استفتاح پڑھناضروری ہے کیونکہ نماز ٹھیک طرح سے ادا نہ کرنے والے ایک صحابی کو نماز کا درست طریقہ سکھاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس کا حکم دیا تھا اور فرمایا تھا:
لَا تَتِمُّ صَلَاةٌ لِأَحَدٍ مِنْ النَّاسِ حَتَّى يَتَوَضَّأَ فَيَضَعَ الْوُضُوءَ يَعْنِي مَوَاضِعَهُ ثُمَّ يُكَبِّرُ وَيَحْمَدُ اللَّهَ جَلَّ وَعَزَّ وَيُثْنِي عَلَيْهِ وَيَقْرَأُ بِمَا تَيَسَّرَ مِنْ الْقُرْآنِ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع و السجود، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 857)
"لوگوں میں سے کسی کی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک وہ اچھی طرح وضو کر کے تکبیر تحریمہ نہ کہے اور جب تک اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اوربڑائی بیان نہ کرے اور جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتا ہے وہ نہ پڑھ لے"
نماز میں تکبیر تحریمہ کے بعد ثناء پڑھی جائے گی نہ کہ دعاء جیسا کہ اسی مذکور حدیث میں ہے اور فرمانِ باری تعالیٰ’’وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ ۔۔۔ الآیۃ (سورۃ الطور)‘‘ سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے۔
 
علماء نے اس آیت کی روشنی میں فرض نماز میں قیام کے لازمی ہونے پر امت کا اجماع نقل کیا ہے۔ فرض نماز پڑھنے والا امام ہو یا مقتدی یا منفرد (یعنی اکیلے نماز پڑھنے والا) کسی کے لیے بھی عذر کےبغیر فرض نماز بیٹھ کر ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ اگر امام کسی وجہ سے کھڑے ہو کر نماز پڑھانے پر قادر نہ ہو تو مقتدی بھی اس کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھیں گے۔ فرمان رسول ہے :
وَإِذَا صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ (صحیح البخاری کتاب الاذان باب انما جعل الامام لیوتم بہ)
"جب (امام) کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ (کسی عذر کی بنا پر) بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بھی (اس کےپیچھے) بیٹھ کر نماز ادا کرو”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر امامت کرائی اور صحابہ کرام نے کھڑے ہو کر۔ ملاحظہ فرمائیں؛
سنن ابن ماجه كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا بَاب مَا جَاءَ فِي صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَلَسَ عَنْ يَمِينِهِ وَقَامَ أَبُو بَكْرٍ فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَأْتَمُّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ يَأْتَمُّونَ بِأَبِي بَكْرٍ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الحدیث
تحقيق الألباني: حسن
 
آخری تدوین:
Top