نمازی کے آگے سے گزرنے والے کے بارے میں کیا حکم ہے

محمد فہد

محفلین
نمازی کے آگے سے گزرنے والا بڑے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے جس کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَي الْمُصَلِّیْ مَاذَا عَلَيْهِ لَکَانَ انْ يَقِفَ أَرْبَعِيْنَ خَيْرٌ لَه مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ.

ترمذی، السنن، کتاب الصلوة، باب ما جاء فی کراهية المرور بين يدي المصلي، 1 : 367، رقم : 336

’’اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو پتا ہو کہ اس کی سزا کیا ہے۔ تو وہ چالیس (سال یا مہینہ وہاں) کھڑا انتظار کرتا اور یہ اس کے لیے نمازی کے آگے سے گزرنے سے بہتر ہوتا۔‘‘

دوسری روایت میں ہے کہ اگر اسے گناہ کا اندازہ ہو جائے تو وہ زمین میں دھنس جانے کو اس گناہ کے مقابلے میں اپنے لیے زیادہ آسان سمجھے گا۔ نمازی کے آگے سترہ رکھا جانا ضروری ہے اگر سترہ قائم ہونے کے باوجود کوئی شخص سترہ اور نمازی کے درمیان سے گزر رہا ہے تو اسے سختی سے باز رکھنا چاہئے۔

نمازی کے آگے سے گزرنا گناہ ہے اور اس بارے میں جو وعید آئی ہے قابل توجہ اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ چونکہ اکثر مساجد میں جمع کثیر کی وجہ سے اکثر اوقات نمازی نماز سے فارغ ہو کر مزید انتظار نہیں کرتے اور مسجد سے نکلنے میں جلدی کرتے ہیں۔

اس بارے میں علماء کرام نے لکھا ہے کہ نمازی نماز میں نظر سجدہ کی جگہ پر رکھے اور سجدہ کی جگہ پر نظر رکھتے ہوئے آگے جتنی نظر پھیلتی ہے اس جگہ سے بچنا چاہیے۔ تقریباً ایک نمازی کی اپنی صف اور ایک اس سے آگے والی صف سے بچنا چاہیے اگر اس سے زیادہ ہو تو اور افضل ہے مگر اس سے کم نہ ہو۔ اگر انتہائی مجبوری ہو تو نمازی کے سامنے کوئی تختی وغیرہ رکھ کر گزر جائے تاکہ گناہ سے بچا جائے۔

(بہار شريعت بحوالہ رد المختار)

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: صاحبزادہ بدر عالم جان
 
Top