نقد و نظر ۔ 3 ۔ سید فصیح احمد کا افسانہ "کابوس" ۔

سید فصیح احمد

لائبریرین
اسی بات کو ایک اور پہلو سے بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں:

’پھاٹک سے تھوڑا ہی پہلے ۔۔۔۔ لاپروائی تھی‘‘۔ اسی منظر کو پوری جزئیات کے ساتھ بیان کیا جاتا اور اسے ثاقب کی اور اس کے محلے کے لوگوں کی زبوں حالی کے ساتھ جوڑا جاتا تو بات بنتی۔

اب مکمل بات سمجھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔ استاد محترم بہت نکما شاگرد ہوں تو بہت سی باتیں بہت غور کے بعد سمجھ آتی ہیں۔ راہنمائی کے لیئے شکریہ نہیں کہوں گا کہ یہ ایک لفظ احساسات کا حق ادا نہیں کرتا :)
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
(صبح سویرے کوئی دروازہ پیٹے جا رہا تھا، ثاقب نے لیٹے لیٹے جو گھڑی پر نگاہ دوڑائی تو اسے یقین نہ آیا، سات بج رہے تھے۔
" یا اللہ! ۔۔ نماز بھی قضا ہو گئی "
ثاقب اٹھا ، دروازہ کھولا تو سامنے ڈاکیہ کھڑا تھا۔
" ثاقب صاحب یہ رہی آپ کے نام کی ڈاک ۔۔۔ یہاں دستخط کر دیجیے۔ ")

برا مت مانئے گا بھائی سید فصیح احمد ! ہماری عمر کی چھ دہائیاں گزر گئیں ہم نے صبح سات بجے کسی ڈاکیے کو چٹھیاں تقسیم کرتے نہ دیکھا نہ سنا۔ ڈاک خانہ نو بجے کھلتا ہے اور پوسٹ مین کوئی دس بجے ڈاک خانے سے نکلتے ہیں۔ کوریر والے لوگ تو اور بھی دیر سے نکلتے ہیں۔ پاکستان میں تو یہی ہوتا ہے، باہر کا ہمیں کچھ پتہ نہیں۔
استاد محترم ایسی اچھی بات کا، یعنی اپنی اغلاط کو سنوارنے کا موقع فراہم کیئے جانے پر برا کیوں مانوں گا میں؟ :) :)
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
(ثاقب نے دستخط کر کے ڈاک وصول کر لی۔ ڈاک ایک ہلکے وزن کا لفافہ تھا۔ ثاقب نے دری کے پاس پڑے طلائی چولہے پر کیتلی میں چائے بننے کو رکھی اور لفافہ اٹھا کر اس کا ایک سرا چاک کیا ، دوہرا تہ کیا ہوا ایک ورق جھول میں آ گرا۔ اسی اثنا میں چائے کو جوش آ چکا تھا، ثاقب نے ایک پیالی میں چائے انڈیلی اور ساتھ ساتھ ورق سیدھا کر کے پڑھنے لگا۔ ثاقب جوں جوں تحریر کو پڑھتا جاتا اس کی آنکھیں حیرت سے کھلتی جاتیں۔ اس نے پیالی کو جھٹ سے نیچے دھرا اور غور سے عبارت پڑھنے لگا۔ جب تک خط کا تمام متن اس نے پڑھا اس کا چہرہ خوشی سے سرخ ہو چکا تھا۔ فوراً بے جی کو اٹھا کر ساری کہانی سنا ڈالی کہ چند ماہ قبل اس نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں مینیجر کے عہدے کے لیئے کوائف جمع کرائے تھے۔ انٹرویو بھی ہوا تھا مگر کوئی قابل ذکر جواب نہ ملا۔ آج جب کہ ثاقب اس بات کو بھول چکا تھا اچانک اس کمپنی کی طرف سے اپائنٹ منٹ لیٹر موصول ہوا۔ دس روز بعد دفتر میں حاضر ہونے کا لکھا تھا۔ بے جی غور سے اس کا چہرہ دیکھتی رہیں، پھر بولیں)

میرے حساب سے یہ غیر ضروری تفصیلات ہیں۔ ایک بات جو مجھے کھٹکی ہے وہ طلائی چولھا ہے۔ لفظی معانی میں تو یہ سونے کا بنا ہوا ٹھہرتا ہے۔ جس گھر کے چولھے سونے کے بنے ہوں وہاں تو خادموں اور خادماؤں کی فوج ہونی چاہئے اور ایسے لوگوں کو نوکری سے کیا لینا دینا! ؟؟

"بے جی غور سے اس کا چہرہ دیکھتی رہیں، پھر بولیں۔۔" یہاں سے نیا پیراگراف شروع کیجئے۔

استاد محترم یہ سب قصور میری سستی اور "خود سے فرض کرنے" کی کوتاہی سے ہوا ۔۔۔۔ مجھے لگا طلائی، پیتل یا تانبے جیسی دھات ہو گی ۔۔۔۔ ورنہ اتنا بڑا معنوی فرق پیدا نہ ہوتا :( ۔۔۔۔۔ معذرت خواہ ہوں!
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
ایک پتے کی بات یاد دلا دوں! سید فصیح احمد
۔۔۔
افسانے میں اولین اہمیت تاثر کی ترسیل کو حاصل ہوتی ہے۔ سو، افسانے کا واقعاتی پھیلاؤ جتنا مختصر ہو، بہتر ہے۔
۔۔۔

استاد محترم خوب سمجھ گیا۔ مگر ایک سوال ابھی ذہن میں آیا۔ طویل افسانے کی طوالت واقعاتی پھیلاؤ کے علاوہ کس پر مبنی ہو سکتی ہے؟ یعنی اور عناصر کیا استعمال کیئے جا سکتے ہیں؟
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
سر محمد یعقوب آسی صاحب نے جس محبت اور محنت سے ایک ایک لفظ کو پرکھا ہے اس کا کوئی مول نہیں۔ خواب کا ہر لحاظ سے مکمل تجزیہ کیا جا چکا ہے۔ میں اس میں کچھ اضافہ کرنے کے قابل تو نہیں۔ بس یہی کہوں گا کہ مینجر کے مرتبے تک پہنچنے کے لئے کئی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ یہ کوئی سرکاری ملازمت تو نہیں کہ کوئی سفارشی کو کسی وزارت سے نواز دیا جائے۔ مزید جب ملٹی نیشنل کمپنی کا تڑکا بھی لگ گیا تو کوئی بھی کمپنی سیدھا مینجر کے عہدے پر فائز نہیں کرتی۔ اس کو دیکھ لیجیے گا۔

:) :) :) :)
 
استاد محترم خوب سمجھ گیا۔ مگر ایک سوال ابھی ذہن میں آیا۔ طویل افسانے کی طوالت واقعاتی پھیلاؤ کے علاوہ کس پر مبنی ہو سکتی ہے؟ یعنی اور عناصر کیا استعمال کیئے جا سکتے ہیں؟
افسانے کے عناصر ۔۔
۔1۔ کہانی اگر کوئی ہو تو اس کا واقعاتی دورانیہ یا جستہ جستہ واقعات کی ترتیب اور دورانیہ
۔2۔ منظر کشی، منظر آفرینی اور اس کی جزئیات
۔3۔ درونِ تحریر بیانات، تبصرے اور توضیحات جہاں بہت ضروری ہو
۔4۔ کرداروں کا تعارف جہاں بہت ضروری ہو
۔5۔ پس منظر جہاں اس سے گریز ممکن نہ ہو۔

مطمعِ نظر (بلحاظِ ضخامت) اختصار ہے، جس حد تک ممکن ہو!
 
آخری تدوین:
Top