نفرتوں کے سائے میں پیار کے بول بولتے رہے

محترم ممبرز اردو ویب!
السلام علیکم
ذیل میں کچھ میری غزلیں پیشِ خدمت ہیں۔ امید کہ آپ کو پسند آئیں گیں۔

نفرتوں کے سائے میں پیار کے بول بولتے رہے
زباں تو کٹی ہوئی تھی مگر لب بولتے رہے

تیز دھوپ تھی اور پانی بھی نہ تھا کہیں
پھر بھی حق کے لئے ہم لب کشائی کرتے رہے

ہر کوئی شاید ہم ہی سے خائف تھا
پھر بھی حق کے بول ہم دنیا کو بتاتے رہے

میرے شعر تو سب کو کفر لگتے ہیں شاید
اور یہ دنیا والے مجھ پہ دعوائے کفر لگاتے رہے

ملتی رہی ہمیں زندگی بھر سچ کی سزا
اور ہم بھی ان کو خندئہ پیشانی سے سہتے رہے

آفتاب یہ عجب قانون اور عدالت کا ڈھونگ ہے
اک بار آیا اور پھر الزام مجھ صدیوں لگتے رہے


Ghazal 2

شاید کہیں کوئی ہمیں بھی یاد کرتا ہو
کوئی ہمیں اپنے خوابوں میں بساتا ہو

ہیں دربدر پھرتے ہیں اور کہلاتے ہیں آوارہ
شاید کوئی میری آوارگی پہ بھی رشک کرتا ہو

دنیا کی نظر میں تو عام سے انسان ہیں
ہو سکتا ہے کوئی میری تعریف میں بولتا ہو

یارو! مجھ کو شہر بدر نہ کرنا
شاید شہر میں کوئی مجھ سے پیار کرتا ہو

اے چاند! مجھ کو یہ تو ذرا بتانا
کوئی ایسا ہے جہاں میں جو میرے لئے تڑپتا ہو

لگتا ہے میری تقدیر میں یہ لکھا ہوا ہے
کبھی کوئی نہیں کہیں مجھ سے وفا کرتا ہو

آفتاب پوچھ لے جا کر پھر بھی تو لوگوں سے
ہو سکتا ہے کوئی تیرے لئے شعر لکھتا ہو

Ghazal 3


کیسے لکھوں چمن اور بہاروں کی باتیں
کیسے سنائوں تم کو نالئہ گل و بلبل کی باتیں

چمن ہیں ہمارے خون سے رنگین
اور بہاروں کی رُتیں ہیں لاشوں سے مزین

ہماری نگری میں ہیں خزاں کے اداس سائے
بہار لائی بیٹوں کے خاموش لاشے

ہمارے نصیب کی ہے یہ بدنصیبی
سب دشمن ہمارے رہبر بن کر آئے

قسمت ہماری آج بھی ہے دار پہ لٹکی
بتا مجھ کو! تاریخ نے اب تک کروٹ کیوں نہیں بدلی

میں سیاست نہیں جانتا‘ پر یہ جانتا ہوں
کس نے ہے میرے چمن میں بربادی پھیلائی

اب تو ہم ماضی کو یاد کر کے خوش ہوتے ہیں
اور حال کے لئے بس سرد آہیں بھرتے ہیں

آفتاب تو نے نئے انداز میں پرانے گیت گائے
انقلاب کے جذبے ہیں ہر کسی میں جگائے
 
Top