حسن رضا نعت شریف ، دل میں ہو یاد تیری گوشہ تنہائی ہو

دل میں ہو یاد تیری گوشہ تنہائی ہو
پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو

آج جو عیب کسی پر نہیں کھلنے دیتے
کب وہ چاہیں گے میری حشر میں رسوائی ہو

آستانہ پہ ترے سر ہو اجل آئی ہو
اور اے جان جہاں تو بھی تماشائی ہو

اک جھلک دیکھنے کی تاب نہیں عالم کو
وہ اگر جلوہ کریں کون تماشائی ہو

کبھی ایسا نہ ہوا اُن کے کرم کے صدقے
ہاتھ کے پھیلنے سے پہلے نہ بھیک آئی ہو

یہی منظور تھا قدرت کو کہ سایہ نا بنے
ایسے یکتا کے لئے ایسی ہی یکتائی ہو

اس کی قسمت پہ فدا تخت شہی کی راحت
خاک طیبہ پہ جسے چین کی نیند آئی ہو

بند جب خواب اجل سے ہوں حسن کی آنکھیں
اس کی نظروں میں تیرا جلوہ زیبائی ہو
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کلام: مولانا حسن رضا خاں بریلوی​
 

فلسفی

محفلین
کیا خوبصورت کلام ہے۔ ہر شعر لاجواب اور محبت اور عقیدت میں ڈوب کر لکھا گیا ہے، پڑھنے کے لیے بھی وہی محبت اور عقیدت درکار ہے۔ ایک لہر سی دوڑ جاتی ہے جسم میں۔ اللہ، اللہ۔

کاش ہم عاجزوں، عاصیوں کو بھی عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کچھ حصہ ہی نصیب ہو جائے۔
 
آخری تدوین:
کیا خوبصورت کلام ہے۔ ہر شعر لاجواب اور محبت اور عقیدت میں ڈوب پر لکھا گیا ہے، پڑھنے کے لیے بھی وہی محبت اور عقیدت درکار ہے۔ ایک لہر سی دوڑ جاتی ہے جسم میں۔ اللہ، اللہ۔

کاش ہم عاجزوں، عاصیوں کو بھی عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کچھ حصہ ہی نصیب ہو جائے۔
آمین ثم آمین
 
کیا خوبصورت کلام ہے۔
فلسفی جی ،
میرے پیر و مرشد حضرت خواجہ صوفی رانا محمد اکبر شاہ نقیبی رحمتہ اللہ علیہ اس کلام کو بہت ذوق و شوق عقیدت سے سماعت فرماتے تھے ۔اکثر دوران کلام باباجی رحمتہ اللہ علیہ پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی ۔
 

فلسفی

محفلین
وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی ۔
بھائی سچی بات ہے ہم جیسے گناہ گار ایک عام سے ماحول میں بیٹھ کر اس کر پڑھتے ہیں تو ایک لمحے کے لیے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور جسم میں ایک عجیب سے لہر دوڑ جاتی ہے۔ اللہ والوں کا کیا حال ہوتا ہو گا۔ کیفیات بتائی نہیں جاتیں جس پر طاری ہوتی ہیں وہی اس کے لطف کو جانتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سوکھی چٹائی پر بیٹھ کر چٹنی سے سوکھی روٹی کھانے والوں کی کیا زندگی ہے، بلا مبالغہ اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر دنیا داروں کا پتہ چل جائے اور ان کو ایک لمحہ کے لیے وہ سکون قلب اور لطف مل جائے (جس پر دنیا کے تمام لذتیں قربان) جس کو وہ اللہ والا اپنے قلب میں محسوس کرتا ہے، تو اس کو حاصل کرنے کے لیے دنیا دار اپنا سب کچھ لٹانے کے لیے تیار ہو جائیں۔

مجھے اللہ پاک نے ہر نعمت سے نوازا ہے، مہنگے سے مہنگے اور اچھے سے اچھے پکوان کا ذائقہ چکھا ہے۔ مہنگے ہوٹلوں میں قیام کا موقع ملا ہے۔ (تحدیث نعمت کے طور پر عرض کر رہا ہوں، الحمدللہ) لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر پوری ایمانداری سے کہتا ہوں کہ جو لطف اپنے شیخ کی خانقاہ میں زمین پر بیٹھ کر خشک روٹی پانی جیسے شوربے کے ساتھ کھانے کا آیا وہ لذت دنیا کے کسی پکوان میں نہیں اورخانقاہ کی سوکھی چٹائی پر ایک کونے میں بیٹھ کر اللہ کو یاد کرنے میں جو سکون پایا وہ دنیا کے کسی آرام دہ بستر میں نہیں پایا۔

حکیم اختر صاحب رحمہ اللہ کا کلام ہے (میری پسندیدہ بحر ہزج میں:)) کہ

سنا ہے خانقاہوں میں محبت کے ہیں مییخانے
دیا کرتا ہے ساقی عاشقوں کو جام پیمانے
-
جو عارف ہیں وہ کس عالم میں رہتے ہیں خدا جانے
بھلا جو غیر عارف ہیں وہ ان کا رتبہ کیا جانیں
-
جو زاہد عِشق سے نا آشنا ہے پھر بھی وہ ناداں
نہیں سمجھا ہے خود لیکن چلا ہے مجھ کو سمجھانے
 

فلسفی

محفلین
ہائے آپ نے کس کا نام لے لیا -اب امتحان کی تیاری دوبھر ہوگئی -
حضرت کو دیکھا نہیں لیکن سنا بہت ہے۔ عشق و مستی سے بھرپور بیان ہے حضرت کا۔ درس مثنوی تو کتابی شکل میں بھی عشق کی آگ لگا دیتی ہے۔

درس مثنوی اور حضرت کے بیان سے شوق تو بہت ہے مثنوی باقاعدہ پڑھنے کا، دیکھیے اس زندگی میں پورا ہوتا ہے یا نہیں۔ ایک شعر یاد آ گیا، آپ بھی لطف لیجیے۔

قال را بگزار مرد حال شو
پیش مردے کا ملے پامال شو
 
Top