نعت برائے اصلاح

جناب الف عین صاحب اور عظیم صاحب لفط اللہ ہمیشہ مفعول کے وزن پر ہی ہوگا یا فعلن پر بھی ہو سکتا ہے؟ یا کچھ اور قائدہ ہے اس لفظ کی تقطیع کے بارے میں، مہربانی فرما کر وضاحت کردیجیے۔
اللہ فعلن کے وزن پر بھی باندھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر میر کا شعر ہے
؎
میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی

اسی طرح غالب کا شعر ہے
؎
دمِ واپسیں بر سرِ راہ ہے
بس اب یارو اللہ ہی اللہ ہے

اس شعر میں اللہ کو دونوں فعلن اور مفعول کے وزن پر باندھا گیا ہے۔

لیکن تقاضائے ادب یہی ہے کہ خالقِ کائنات کے اسم اللہ کو مفعول کے وزن پر ہی باندھا جائے۔
 
آخری تدوین:
پیارے بھائی معذرت کی بات نہیں. یہ محفل سیکھنے سکھانے کی جگہ ہے. میں غلطی کروں تو آپ درست کر دیں. :)
بہت شکریہ بھائی، میرا مقصد بھی اس فورم پر آنے کا یہی ہے۔ یقین جانیے میرے لیے غلطی کی نشاندہی کرنے والا میرا محسن اور استاد ہے۔ اللہ تعالی آپ کو خوش رکھے۔

لیکن تقاضائے ادب یہی ہے کہ خالقِ کائنات کے اسم اللہ کو مفعول کے وزن پر ہی باندھا جائے۔
بہت بہتر ریحان بھائی، مزید وضاحت کا شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ تو تم نے ایک ننئی نعت کہہ دی۔ اب پھر سے ہر شعر کو دیکھنا ہو گا۔

قدم بوسی محمدؐ کی فرشتوں کو یہ چاہت ہے
ہمیں بخشی ہے بن مانگے خدا نے انؐ کی نسبت ہے
÷÷ شعر میں عجیب خیال بندی ہے۔ یہ ہم کو کیا معلوم کہ فرشتوں کو نبی اکرم کی قدم بوسی کرنے کی چاہت تھی اور ان کو نصیب نہیں ہوئی اور ہم کو بن مانگے مل گئی!!
دوسرے مصرع میں ’ہے‘ کا فعل دو بار آیا ہے، جس کی ضرورت نہیں تھی

سنی ہے ایک حاتم کی بڑی مشہور فیاضی
قیامت تک جو جاری ہے وہ آقاؐ کی سخاوت ہے
اس کا بیانیہ بھی بہتر کیا جا سکتا ہے۔ جیسے
سنا ہے کوئی حاتم بھی سخی مشہور تھا، ہو گا!!
ابد تک جو مگر جاری ہے، آقاؐ کی سخاوت ہے
اب یہی کہو گے کہ شکریہ میں نے یہ شعر قبول کیا!!!!

سبھی حاضر ہیں روضے پر یہ عاصی بھی وہ زاہد بھی
کہاں ایسی ہے دنیا میں وہاں جیسی عنایت ہے
÷÷اب سمجھ میں آیا کہ قطاروں کی بات روضے کی ہو رہی تھی۔ پہلا مصرع تو اب سمجھ میں آتا ہے لیکن دوسرا بالکل آؤٹ ہو گیا! کیا روضہ عالم بالا میں بھی ہے؟

کرم انؐ کا جو مجھ پر ہو حضوری کی اجازت ہو
کہاں انؐ کا مدینہ اور کہاں اپنی یہ حالت ہے
÷÷ چلے گا۔ اب ٹھیک ہے

زباں خاموش ہے میری بہتے ہیں اشک آنکھوں سے
میں آیا ہوں جو انؐ کے در پہ میری اچھی قسمت ہے
÷÷پہلا مصرع تو بحر سے خارج ہو گیا۔ مرا مشورہ یہ تھا کہ یوں کہو
زباں خاموش ہے اوربہہ رہے ہیں اشک آنکھوں سے
مگر دوسرا مصرع اب بھی مجھے پسند نہیں آیا۔

ہدایت انؐ کی سنت میں ہے باقی سب ہی گمراہی
خدا نے بھی ہے فرمایا ضروری انؐ کی طاعت ہے
÷÷ میں یوں کہتا
بس اک سیدھا ہے انؐ کا راستہ، باقی ہے گمراہی
خدا یہ حکم دیا ہے، ضروری انؐ کی طاعت ہے

ہماری فکر میں وہؐ روئے ہیں راتوں کو اٹھ اٹھ کر
بڑا انعام ہے مولا انھیںؐ ہم سے محبت ہے
۔۔ درست ہے

منور ہے وہ چہرہ اور ہیں خلق اعلی بھی انؐ کے
ہے آقاؐ کی یہ صورت اور وہ آقاؐ کی سیرت ہے
÷÷ روانی کی خاطر میرا مشورہ
منور ہے وہ چہرہ بھی، تو ہیں اخلاق بھی اعلیٰ
ہے آقاؐ کی یہ صورت اور وہ آقاؐ کی سیرت ہے

یہ نذرانہ عقیدت ہے نہیں میں مدح کے قابل
کہاں انؐ کی یہ عظمت اور کہاں میری جسارت ہے
÷÷نزرانہ عقیدت کوئی لفظ نہیں، نذرانہء عقیدت ہوتا ہے۔
یوں کہو
یہ بس نذر عقیدت ہے، نہیں میں مدح کے قابل

الحمد للہ تقریباً پون گھنٹہ میں اس نعت کی اصلاح ممکن ہوئی۔
 
یہ تو تم نے ایک ننئی نعت کہہ دی۔ اب پھر سے ہر شعر کو دیکھنا ہو گا۔
معافی چاہتا ہوں جناب، کوشش کی تھی کے مضمون وہی رہے کچھ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ۔ آپ نے بڑی شفقت فرمائی اس کے لیے تہہ دل سے شکریہ۔

قدم بوسی محمدؐ کی فرشتوں کو یہ چاہت ہے
ہمیں بخشی ہے بن مانگے خدا نے انؐ کی نسبت ہے
÷÷ شعر میں عجیب خیال بندی ہے۔ یہ ہم کو کیا معلوم کہ فرشتوں کو نبی اکرم کی قدم بوسی کرنے کی چاہت تھی اور ان کو نصیب نہیں ہوئی اور ہم کو بن مانگے مل گئی!!
دوسرے مصرع میں ’ہے‘ کا فعل دو بار آیا ہے، جس کی ضرورت نہیں تھی
انتہائی ادب سے گذارش ہے کہ پہلے مصرع میں اشارہ فرشتوں کی روضہ رسولؐ پر حاضری کی طرف ہے۔ اور دوسرے مصرعے میں یہ کہنے کی کوشش کی تھی کہ جن کے در پر حاضری فرشتوں کی چاہت ہو ان کی نسبت (یعنی) ان کی امت میں سے ہونا ہمیں بن مانگے مل گیا۔ لیکن جیسے آپ نے فرمایا شاید بات واضح نہیں ہے۔ لہذا یہ شعر دوبارہ یوں کہا ہے
حضوری جنؐ کے روضے پر فرشتوں کی بھی چاہت ہے
ملی مولا کی رحمت سے انھیںؐ کے در کی نسبت ہے

سنی ہے ایک حاتم کی بڑی مشہور فیاضی
قیامت تک جو جاری ہے وہ آقاؐ کی سخاوت ہے
اس کا بیانیہ بھی بہتر کیا جا سکتا ہے۔ جیسے
سنا ہے کوئی حاتم بھی سخی مشہور تھا، ہو گا!!
ابد تک جو مگر جاری ہے، آقاؐ کی سخاوت ہے
اب یہی کہو گے کہ شکریہ میں نے یہ شعر قبول کیا!!!!
جناب نظر انداز کرنے کی ہمت نہیں ہے اور ویسے بھی آپ اتنی محنت اور شفقت سے راہنمائی فرما رہے ہیں تو انکار کی گنجائش ہی نہیں، خیر اس کو آپ کی عنایت سمجھ کر برکت کے لیے رکھ لیتا ہوں اور اپنی طرف سے کچھ یہ ترتیب بنائی

سنا ہے کوئی حاتم تھا سخی نامی زمانے میں
ہمیشہ سے جو جاری ہے وہ آقاؐ کی سخاوت ہے

سبھی حاضر ہیں روضے پر یہ عاصی بھی وہ زاہد بھی
کہاں ایسی ہے دنیا میں وہاں جیسی عنایت ہے
÷÷اب سمجھ میں آیا کہ قطاروں کی بات روضے کی ہو رہی تھی۔ پہلا مصرع تو اب سمجھ میں آتا ہے لیکن دوسرا بالکل آؤٹ ہو گیا! کیا روضہ عالم بالا میں بھی ہے؟
دوسرے مصرع میں کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ اس روضے جیسی عنایت دنیا میں اور کہاں؟۔ اس کو یوں تبدیل کیا ہے

سبھی حاضر ہیں روضے پر یہ عاصی بھی وہ زاہد بھی
کہاں اور ہے زمانے میں وہاں جیسی عنایت ہے

زباں خاموش ہے میری بہتے ہیں اشک آنکھوں سے
میں آیا ہوں جو انؐ کے در پہ میری اچھی قسمت ہے
÷÷پہلا مصرع تو بحر سے خارج ہو گیا۔ مرا مشورہ یہ تھا کہ یوں کہو
زباں خاموش ہے اوربہہ رہے ہیں اشک آنکھوں سے
مگر دوسرا مصرع اب بھی مجھے پسند نہیں آیا۔
زباں خاموش ہے میری رواں ہے اشک آنکھوں سے
بلایا ہے مجھے در پہ زہے میری یہ قسمت ہے

ہدایت انؐ کی سنت میں ہے باقی سب ہی گمراہی
خدا نے بھی ہے فرمایا ضروری انؐ کی طاعت ہے
÷÷ میں یوں کہتا
بس اک سیدھا ہے انؐ کا راستہ، باقی ہے گمراہی
خدا یہ حکم دیا ہے، ضروری انؐ کی طاعت ہے
نوازش ہے آپکی :) اور میری طرف سے تبدیلی کے ساتھ

سندِ رشد و ہدایت ہے مرے آقاؐ کی ہر سنت
خدا نے بھی ہے فرمایا ضروری انؐ کی طاعت ہے

منور ہے وہ چہرہ اور ہیں خلق اعلی بھی انؐ کے
ہے آقاؐ کی یہ صورت اور وہ آقاؐ کی سیرت ہے
÷÷ روانی کی خاطر میرا مشورہ
منور ہے وہ چہرہ بھی، تو ہیں اخلاق بھی اعلیٰ
ہے آقاؐ کی یہ صورت اور وہ آقاؐ کی سیرت ہے
بہت بہتر ترتیب ہے۔ میں نے بھی یوں تبدیلی کی کوشش کی ہے

ہے چہرہ والضحی انؐ کا تو ہیں اخلاق بھی اعلیٰ
ہے آقاؐ کی یہ صورت اور وہ آقاؐ کی سیرت ہے

یہ نذرانہ عقیدت ہے نہیں میں مدح کے قابل
کہاں انؐ کی یہ عظمت اور کہاں میری جسارت ہے
÷÷نزرانہ عقیدت کوئی لفظ نہیں، نذرانہء عقیدت ہوتا ہے۔
یوں کہو
یہ بس نذر عقیدت ہے، نہیں میں مدح کے قابل
اپنی کم علمی کا اعتراف ہے مجھے، آئندہ احتیاط کروں گا۔

عقیدت کا یہ نذرانہ نہیں شایانِ شان ان کے
کہاں انؐ کی یہ عظمت اور کہاں میری جسارت ہے

الحمد للہ تقریباً پون گھنٹہ میں اس نعت کی اصلاح ممکن ہوئی۔
آپ کی شفقت قرض ہے مجھ ناچیز پر۔ جزکم اللہ خیر
 

الف عین

لائبریرین
انتہائی ادب سے گذارش ہے کہ پہلے مصرع میں اشارہ فرشتوں کی روضہ رسولؐ پر حاضری کی طرف ہے۔ اور دوسرے مصرعے میں یہ کہنے کی کوشش کی تھی کہ جن کے در پر حاضری فرشتوں کی چاہت ہو ان کی نسبت (یعنی) ان کی امت میں سے ہونا ہمیں بن مانگے مل گیا۔ لیکن جیسے آپ نے فرمایا شاید بات واضح نہیں ہے۔ لہذا یہ شعر دوبارہ یوں کہا ہے
حضوری جنؐ کے روضے پر فرشتوں کی بھی چاہت ہے
ملی مولا کی رحمت سے انھیںؐ کے در کی نسبت ہے
یہ اب بھی وضح نہیں۔ میرا شورہ، اس شعر کو نکال ہی دو۔

سنا ہے کوئی حاتم تھا سخی نامی زمانے میں
ہمیشہ سے جو جاری ہے وہ آقاؐ کی سخاوت ہے
÷÷درست

زباں خاموش ہے میری رواں ہے اشک آنکھوں سے
بلایا ہے مجھے در پہ زہے میری یہ قسمت ہے
÷÷ایک اشک نہیں، کئی اشک ہوں گے۔ ’رواں ہیں‘
دوسرا مصرع محاورے کے خلاف ہو گیا۔ محض ’زہے قسمت‘ تو کافی تھا، اس فارسی ترکیب کے درمیان میں ’میری یہ‘ کا دخول رعوا نہیں۔

سندِ رشد و ہدایت ہے مرے آقاؐ کی ہر سنت
خدا نے بھی ہے فرمایا ضروری انؐ کی طاعت ہے
÷÷پہلا مصرع پھر بحر سے خارج ہو گیا۔
دوسرے میں میرے مشورے میں ٹائپو تھا، میں نے لکھنا چاہا تھا ’خدا یہ حکم دیتا ہے‘

ہے چہرہ والضحی انؐ کا تو ہیں اخلاق بھی اعلیٰ
ہے آقاؐ کی یہ صورت اور وہ آقاؐ کی سیرت ہے
÷÷اب درست ہو گیا

عقیدت کا یہ نذرانہ نہیں شایانِ شان ان کے
کہاں انؐ کی یہ عظمت اور کہاں میری جسارت ہے
درست
 
یہ اب بھی وضح نہیں۔ میرا شورہ، اس شعر کو نکال ہی دو۔
بہت بہتر، جیسا آپ مناسب سمجھیں۔ مطلع بدل دیا ہے

خدا نے جو عطا کی ہے بڑی انؐ کو فضیلت ہے
ابد تک ہی رہے گی جو وہی انؐ کی شریعت ہے

÷÷ایک اشک نہیں، کئی اشک ہوں گے۔ ’رواں ہیں‘
دوسرا مصرع محاورے کے خلاف ہو گیا۔ محض ’زہے قسمت‘ تو کافی تھا، اس فارسی ترکیب کے درمیان میں ’میری یہ‘ کا دخول رعوا نہیں۔
اس کو بھی بدل دیا ہے لیکن ایک اشکال ہے۔ دربار کے ر کے نیچے زیر لگا کر اس کو مفعولن کے وزن پر تقطیع کرسکتے ہیں؟ ویسے عروض میں یہ مفعولن پر تقطیع ہو رہا ہے۔ اگر نہیں تو پھر کچھ اور سوچتا ہوں۔

زباں خاموش ہے میری رواں ہیں اشک آنکھوں سے
اے دل مضطر سنبھل جا اب یہ دربارِ نبوت ہے

÷÷پہلا مصرع پھر بحر سے خارج ہو گیا۔
دوسرے میں میرے مشورے میں ٹائپو تھا، میں نے لکھنا چاہا تھا ’خدا یہ حکم دیتا ہے‘
پہلا مصرع بدل دیا ہے۔ دوسرے مصرع پر انتہائی ادب سے گذارش ہے کہ ’خدا یہ حکم دیتا ہے‘ سے مناسبت نہیں ہو رہی۔ تھوڑی سے تبدیلی کے ساتھ یوں کہا ہے۔

عمل جو بھی ہو سنت پر فخر بھی ہو ہمیں اس پر
خدا نے خود ہے فرمایا ضروری انؐ کی طاعت ہے
 
آخری تدوین:
عمل جو بھی ہو سنت پر فخر بھی ہو ہمیں اس پر
خدا نے خود ہے فرمایا ضروری انؐ کی طاعت ہے
آخری شعر سے مجھے مناسبت نہیں ہورہی تھی اس لیے اس کو اس طرح تبدیل کیا ہے
خدا کے حکم کا آنا ہے انؐ کا جو بھی فرمانا
ہے قانونِ شریعت وہ محمدؐ کی جو سنت ہے
 
آخری تدوین:
Top